پہلا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سب کچھ جاننے والا اور بے انتہاء قدرت والا ہے۔

لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ١ۚ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ(الشوریٰ : 11)

’’اس جیسی کوئی چیز نہیں،وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘

اس نے ہر چیز کو بہترین اندازے سے بنایا ہے، اس کے پاس ہر چیز کا علم ہے، اور ہر چیز کی تعداد بھی معلوم ہے۔

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١ٞ وَهُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَهُوَاللطِيْفُ الْخَبِيْرُ (الأنعام :۱۰۳)

اس (اللہ)کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی اور وہ (اللہ )سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو اکوئی معبود ِبرحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں، اُس کے پسندیدہ اور دوست ہیں،اُس کے نزدیک سب سے محبوب ترین ہیں، جنہوں نے اللہ کا پیغام پہنچایا، امانت کاحق ادا کیا، امت کو نصیحت کی اور ہمیں ایسے روشن راستے پر چھوڑا جس کی رات بھی دن کی طرح (روشن) ہے، اس سے وہی شخص دور رہے گا جو ہلاک ہونے والا ہو۔

آپﷺ پر اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں ، اور ان کے پاکیزہ اہلِ بیت پر بھی، اور ان کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین پر بھی، اور تمام صحابہ و تابعین پر بھی، اور قیامت تک ان تمام لوگوں پر بھی جو اچھے انداز سے ان کی پیروی کریں گے۔

حمدو ثنا کے بعد!

ایمان کے بدلے نور کی ضمانت

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ يَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (الحدید :28)

’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا، اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

حقیقتِ حال

اللہ کے بندو! لوگوں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے، کبھی خوف ہے تو کبھی امید، لین دین کے معاملات ہیں، کبھی طاقت اور کبھی کمزوری، ان تمام چیزوں کے باوجود یا تو وہ کسی خیر اور نعمت کی امیدیں رکھتے ہیں، یا کسی شر اور مصیبت سے ڈرتے ہیں۔ اور ان کی امید اور خوف کا تعلق ان کے دین، ان کی ذات، عقل، مال اور عزت سے ہے۔اور جہاں ایک طرف وہ ہدایت کی امیدرکھتے ہیں وہاں گمراہی کے خدشات بھی ہیں ، زندگی کی امیدوں کے ساتھ ساتھ نا حق موت کے خطرات بھی ہیں، اگر حقیقی و معنوی عقل کی سلامتی کی امیدیں ہیں تو اس کے خراب ہونے کا ڈر بھی ہے۔ اور عزت اور مال کا بھی یہی حال ہے۔ اور وہ اللہ تعالی کے حکم سے ہونے والی مخلوق کے سلسلے میں بھی زرخیزی و رحمت والی بارش کی امید تو رکھتے ہیں مگر تباہ و برباد کردینے والی بارش کے خدشات بھی دلوں میں ہوتے ہیں۔خوشخبری دینے والی ہواؤں کی تمنا تو ہے مگرعذاب والی ہواؤں کا ڈر بھی ۔

عقلمند لوگوں کے لئے نصیحتیں

خبردار! وہ زلزلے ہی ہیںاورخالق کی اس تقدیری مخلوق کی تدبیر اور ان مختلف نشانیوں میں جو حکمتیں ہیں وہ صرف عقلمند لوگ ہی جان سکتے ہیں جو احساس ، اللہ پر ایمان اور اللہ کے (قرآن کریم میں بیان کردہ سابقہ اقوام سے متعلقہ) دنوں کی یاددہانی جیسی دولت سے مالا مال ہوں۔

اور اس سے پہلےبھی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کے ذریعہ اللہ کی نازل کردہ نشانیوں اور اس کے حکم سے ہونے والی چیزوں کی عبرت سےلوگوں کی آنکھیں دنگ رہ جائیں، اور انہیں سچے نبی ﷺکی خبروں کی تصدیق کے لمحات دوبارہ ذہن نشین ہوجائیں۔اور قرآن و سنت میں وارد شدہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی زلزلے ہی ہیں۔

قرآنِ مجید میں زلزلےکا بیان

اور اللہ نے قرآنِ مجید میں قسماً فرمایا:

وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَ الْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (الطارق :11۔13)

’’بارش والے آسمان کی قسم ۔اور پھٹنے والی زمین کی قسم ۔بیشک یہ (قرآن) البتہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا کلام ہے۔‘‘

زلزلہ عذاب کی ایک صورت ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هُوَالْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا (الأنعام :65)

’’آپ کہیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے یا تو تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو (آپس میں )بھڑا دے ۔‘‘

اور مفسرین کی تفسیر کے مطابق جو عذاب پیروں کے نیچے سے آتا ہے وہ (زمین میں ) دھنس جانے یا زلزلہ آنے کا ہی عذاب ہے۔

صحیح بخاری میں ہے: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ العِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلاَزِلُ، وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ….» (صحيح البخاري:7121)

’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک علم کو نہ اٹھالیا جائے،اور کثرت سے زلزلے نہ ہوں، اور زمانہ قریب نہ ہو۔‘‘

زلزلوں کے بارے میں صحابہ کا ایمان بِالغیب

اللہ کے بندو!زلزلہ نبی مکرّم ﷺ کے زمانے میں کبھی نہیں آیا، بلکہ صحابہ نے تو فقط اللہ کی کتاب اور نبیﷺ کی حدیث میں سنا اور اس پر ایمان لے آئے اور انہوں نےیہ تصدیق بھی کی کہ یہ زلزلے وغیرہ اللہ کی طرف سے ایک نشانی ہیں جو وہ جن لوگوں پر چاہے بھیج دے ۔ اور ہمارے زمانے میں کثرت سے ان نشانیوں کا واقع ہونا نبیﷺکی حدیث کا ایک غیبی اور علمی معجزہ ہےکیونکہ انہوں نے حدیث میں یہ بتایا ہے کہ یہ چیزیں آخری زمانوں میں بکثرت ہوں گی۔

اور اللہ تعالی نے پھٹنے والی زمین کی قسم کھائی ہے، یہ’’پھٹنے والی زمین‘‘کی بات چودہ صدیوں تک معلوم نہ ہو سکی یہاں تک کہ جیولوجی نے پچھلی صدی میں اس بات کا انکشاف کیا، اور اصحابِ علم نےزیرِ زمین ایک میدان(ہموار اور ذرخیز)ایسا تلاش کیا جہاں یہ پھٹنے والی کیفیت رونما ہوتی ہے اور وہی دنیا میں اکثر زلزلوں کا مرکز ہے۔

اوردنیا میں اکثر زلزلے اسی صدع (پھٹنے والی جگہ) واقع ہوتے ہیں۔تو اس سے معلوم یہ ہوا کہ یہ اللہ نے پھٹنے والی زمین کی قسم کھاکر جو بات بیان فرمائی وہ (دینِ اسلام ، قرآن کریم اور پیغمبرِ اسلامﷺکی حقانیت کے ثبوت کے لئے)ایک معجزہ ہے،تاکہ ملحد (منحرف و بے دین قسم کے )لوگ اپنے طریقوں سے اس کا انکشاف کریں حالانکہ اللہ اور رسول ﷺ نے تو چودہ سو سال پہلےہی قرآن کریم میں اس کاذکر فرمادیا، اسی لئےیہ بھی سمجھ لینا چاہئےکہ نبی ﷺکی بات بھی اللہ ہی کی وحی ہے،غیب کی جو باتیں نبی علیہ السلام نے بیان کیں وہ وحی الہی کے ذریعہ بیان فرمائیں ہیں نہ کہ اپنی طرف سے۔

 فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ (الأعراف :158)

’’سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی اُمی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ ۔‘‘

اسلام میں سب سے پہلا زلزلہ خلیفہ ثانی امیر المؤمنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں دیکھا گیا؛اور سیدہ صفیہ بنت ابی عبید بیان کرتی ہیں کہ:

زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ حَتَّى اصْطَفَقَتْ السُّرَرُ، فَخَطَبَ عُمَرُ لِلنَّاسِ، فَقَالَ: لَقَدْ عَجِلْتُمْ، لَئِنْ عَادَتْ لَأَخْرُجَنَّ مِنْ بَيْنِ ظَهْرَانِيكُمْ»
وفي روايةٍ قال: “ما كانت هذه الزلزلةُ إلا عند شيءٍ أحدَثتُموه، والذي نفسِي بيدِه؛ إن عادَت لا أُساكِنُكم فيها أبدًا” . (رواه ابن أبی شیبة)

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اتنا شدید زلزلہ آیا کہ پلنگ آپس میں ٹکرا گئے ،توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئےارشاد فرمایا: تم نے نئے نئےکام ایجاد کیے، یقیناً تم نے بہت جلدی کی۔اور اگر وہ چیزیں دوبارہ آگئیں تو میں تمہارے درمیان سے نکل جاؤں گا۔اور ایک روایت میں ہے: یہ زلزلہ تو جبھی آتا ہے جب تم لوگ (دین میں) کوئی نئی چیز ایجاد کرتے ہو،اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر دوبارہ ایسا ہوا تو میں کبھی تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا۔(مصنف ابنِ ابی شیبہ)(یعنی بد عقیدگی ، بدعت و بد اعمالی زلزلوں کا بنیادی سبب ہیں)

اللہ کے بندو!یقینا زلزلے اللہ کی طرف سے نازل شدہ نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں، جنہیں وہ ایک عظیم حکمت کے تحت زمین میں برپا کرتا ہے، اور شروع سے آخر تک ہمیشہ اسی کا حکم چلتا ہے،اور جو (چیز)چاہتا اور پسند کرتا ہے وہی کرتا ہے۔اور وہ اللہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے، اس کی رحمت اس کے غصے پر غالب ہے، بلکہ ہر چیز سے زیادہ وسیع ہے۔لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس کے ثواب پر ہی اعتماد کیا جائے اور سزا سے غافل ہوجائیں، اور نہ ہی اس کی رحمت پر (سب کچھ) چھوڑ دیا جائے اور اس کے غصے سے لا علمی اختیار کی جائے، اور نہ ہی اس کی معافی کی امید رکھتے ہوئے ناپسندیدہ کام کئے جائیں۔

اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ يَّاْتِيَهُمْ بَاْسُنَا بَيَاتًا وَّهُمْ نَآىِٕمُوْنَ اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ يَّاْتِيَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّهُمْ يَلْعَبُوْنَ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ١ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ (الأعراف :97۔99)

’’کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے اور وہ نیند کی حالت میں ہوں۔ کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ پڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔کیا ان بستیوں کے رہنے والےاللہ کی تدبیر سے بےفکر ہوگئے ہیں ، پس اللہ کی تدبیر سے ایسی قوم ہی بے فکر رہتی ہےجو نقصان اٹھانے والی ہو۔‘‘

سیدنا حسن بصری تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“المؤمنُ يعملُ بالطاعات وهو مُشفقٌ وجِلٌ، والفاجِرُ يعمل بالمعاصِي وهو آمِن”. وهذا هو الذي يأمَنُ مكرَ الله – عباد الله -.

’’مومن فرماں برداری والے اعمال کرتا ہےاور وہ (اعمال کے ضائع وبرباد ہونے سے) ڈر بھی رہا ہوتا ہے، جبکہ فاجرکو گناہ کرکے بھی کوئی ڈر نہیں ہوتا۔اور یہی وہ (فاجر) ہےکہ جو اللہ کی تدبیر سے بے خوف رہتا ہے۔‘‘

ائمہ کرام نے ذکر کیا ہے کہ زلزلہ اللہ تبارک وتعالی کی اُن نشانیوں میں سے ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو (اپنی پکڑ، عذاب اور سزا و غضب سے ) ڈراتا ہے، جیساکہ کسوف (سورج وچاندگرہن)وغیرہ، تاکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ حیوانات، نباتات، مال و متاع اور مسکن کے لئے زمین کا ٹھہراؤ اورسکونت بہت بڑی نعمت ہے۔

اور دھنسنے، زلزلے اور خلل میں یہ حکمت ہے کہ یہ آزمائش، امتحان، سزا یا ڈرانے کے طور پر ہے جیسا کہ قوم ِثمود پر زلزلہ طاری ہوا اور قارون کو (زمین میں) دھنسا دیا گیا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:

لَمَّا كَانَ هُبُوبُ الرِّيحِ الشَّدِيدَةِ يُوجِبُ التَّخَوُّفَ الْمُفْضِيَ إِلَى الْخُشُوعِ وَالْإِنَابَةِ كَانَتِ الزَّلْزَلَةُ وَنَحْوُهَا مِنَ الْآيَاتِ أَوْلَى بِذَلِكَ لَا سِيَّمَا وَقَدْ نَصَّ فِي الْخَبَرِ عَلَى أَنَّ أَكْثَرَ الزَّلَازِلِ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ

’’جب تیز ہوائیں اللہ کا خوف دلانے کے لئے چلائی جاتی ہیں جس سے خشوع اور اللہ کی طرف رجوع کی صورت پیدا ہوتی ہے تو زلزلے جیسی خوفناک نشانیوں کا مقصد یہ نکلتا ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ خوف دلانے کے لئے ہے، خاص طور پر جبکہ نصوص ِ شرعیہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زلزلوں کی کثرت قیامت کی نشانی ہے۔‘‘

زلزلے کے بارے میں اہم اقوال

جلیل القدر صحابی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوفہ کی سرزمین میں زلزلہ آیا تو انہوں نے یہ اعلان کیا:

“أيها الناس! إن ربَّكم يستعتِبُكم فأعتِبُوه”؛ أي: فاقبَلُوا عتبَه، “وتوبوا إليه قبل ألا يُبالِيَ في أي وادٍ هلكتُم”.

اے لوگو! یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوچکا ہے اور اپنی رضا مندی چاہتا ہے تو تم اسے راضی کرو اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کرو، وگرنہ اسے یہ پرواہ نہ ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو۔

اور شام میں زلزلے کے موقع پر سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے انہیں یہ لکھ کر بھیجا کہ :

“اخرُجوا، ومن استطاعَ منكم أن يُخرِجَ صدقةً فليفعَل؛ فإن الله تعالى يقول: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى

’’ نکل جاؤ، اور جو شخص صدقہ کرسکتا ہے وہ ضرور کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: بیشک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا ۔ اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پرھتا رہا۔‘‘

اللہ کے بندو!اسی لئے اسلام کا یہ طریقہ ہے کہ زلزلوں سے عبرت حاصل کی جائے اور مسلمان انسان کو اس بات کا حکم ہے کہ وہ بھلائی کے ایسے ظاہری اسباب اختیار کرےجن کی بدولت اللہ تعالی خیر عطا فرمائے، اور ان ظاہری برے اعمال کو چھوڑدے جن کے چھوڑنے کی وجہ سے اللہ تعالی شر کو بھی دور کردے۔

مصیبت کو دور کرنے کے اسباب

مصیبت کو دور کرنے کے چند اسباب یہ ہیں:

توبہ و استغفار، صدقہ اور بعض اہلِ علم کے نزدیک (ایسے موقع پر )جماعت کے علاوہ (اکیلے، انفرادی) نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے۔بیہقی میں صحیح سند سے یہ ثابت ہے:

“صلَّى ابنُ عباسٍ –رضي الله عنهما– للزلزلةِ بالبصرة” (رواه البيهقي بسندٍ صحيحٍ)

’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں زلزلہ (نہ ہونے یا رُکنے) کی نماز پڑھی۔‘‘

زلزلوں کے بارے میں نبی ﷺ کی پیشین گوئی

اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:

«أُمَّتِي هَذِهِ أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، لَيْسَ عَلَيْهَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَةِ، عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا الْفِتَنُ، وَالزَّلَازِلُ، وَالْقَتْلُ» (رواه أحمد وأبو داود بسندٍ حسن)

میری اس امت پر(اللہ کی طرف سے)رحم کیا گیا ہے،کہ اُس پر آخرت کی بجائے دنیا میں ہی عذاب نازل کیا گیاجوفتنوں، زلزلوں اور قتل کی صورت میں ہے۔

مذکورہ حدیث کا(یہ مطلب نہیں کہ آخرت میں اُمت کے مجرموں کو سزا و عذاب ہوگا ہی نہیں بلکہ ) مقصد یہ ہے کہ: آخرت میں اجتماعی شکل میں پوری امت پر ایک ساتھ عذاب نہیں ہوگا،بلکہ افراد کو عذاب ہوگا۔

اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے چند نصیحتیں

اللہ کے بندو! خبردار!اللہ سے ڈرو، اس کی رحمت ومعافی تلاش کرو، اور اس کے غصے سے بچو؛ کیونکہ وہ ڈھیل تو دیتا ہے مگر چھوڑتا نہیں ہے، اور ظالم کو مہلت دینے کے بعد جب وہ پکڑتا ہے توپھر بھاگنے کا موقعہ نہیں دیتا۔

وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ (هود :117)

’’آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکوکار ہوں۔‘‘

نفس اور معاشرے کی اصلاح اور بھلائی کو تھام لو، کیونکہ اللہ تعالی نے اس بستی کو ہلاکت سے بچانے کا اعلان کیا جہاں سچی اور اللہ کے ڈر والی اصلاح ہو، اور نصیحت کو رد کردینا اور اصلاح کو چھوڑدینا ہلاکت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ قارون کو دھنسانے سے پہلے یہ کہا گیا تھا:

لَا تَفْرَحْ (القصص :76)

’’اِتر ا مت ۔‘‘

مگر اس نے تکبر کیا(اور نصیحت کو نہ مانا)، اور قوم ثمود پر زلزلہ اس لئے آیا کہ انہوں نے نصیحت سے کراہت ( ناپسندیدگی) کا اظہار کیا۔

اور اللہ تعالی نے تو امتوں کو اپنی اس بات سے ڈرایا:

وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِيَ ظَالِمَةٌ١ؕ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ١ؕ ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ١ۙ لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ (هود :102۔103)

’’تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بیشک اس کی پکڑ دکھ دردناک اور نہایت سخت ہے۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشان عبرت ہے جو قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ وہ دن جس میں سب لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ، وہ دن ہے جس میں سب حاضر کئے جائیں گے ۔‘‘

اللہ مجھےاور آپ سب کو کتاب و سنت کی برکتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور قرآنی آیات، نصیحتوں اور حکمتوں کے ذریعہ نفع پہنچائے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور اللہ سے اپنے لئے ، آپ سب کے لئے اور تمام مسلمان مرد و خواتین کے لئےہر گناہ اور خطا کی مغفرت مانگتا ہوں، آپ لوگ بھی اسی سے مغفرت مانگیں اور اسی کی طرف رجوع کریں، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میرا رب بہت بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

اللہ کی بھلائیوں پر اسی کی تعریفیں ہیں، اور اس کی توفیق اور احسانات پر اسی کا شکر ہے۔

حمد وثنا کے بعد:

اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ ہےکہ امتوں میں سے کچھ کو جنگ و قتال کے ذریعہ ڈرایا جائے۔کچھ کوقلتِ امن کے ذریعہ۔کچھ کو مال، جان اور پھل کی کمی کے ذریعہ۔

اور کچھ کومختلف فتنوں اور زلزلوں وغیرہ کے ذریعہ۔ (تاکہ وہ اپنے اعمال درست کرلیں ، اللہ کی طرف لوٹ آئیں اور نافرمانی ، بد کاری، فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی کے اندھیروں سے نکل کر اطاعت ،نیکی، عدل و انصاف کی روشنی کا راستہ اختیار کریں۔)

اللہ کے خوف کا نتیجہ

اللہ کے بندو! اس کا نتیجہ یہ ہے:

وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ١۫ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ (البقرة :155۔157)

’’اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالٰی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

اور یہاں اللہ نے یہ بات ذکر فرمائی ہے کہ جسے ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے اسے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ ہوش میں آتا ہے اور توبہ کرتا ہے، اور اس طرح ہدایت کے راستے کو اپنا لیتا ہے۔ اور اس خوف دلانے سے کوئی زمانہ یا جگہ خالی نہیں، یہاں تک کہ نبی علیہ السلام کا زمانہ سب سے بہترین ہے اس کے باوجود بھی سورج کو کسوف ہوا، اور نبی علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ اس کے ذریعہ اللہ – سبحانه وتعالى – اپنے بندوں کو ڈراتا رہا ہے۔

خبردار!یقینا سوچ میں خلل، علم اور اللہ پر ایمان کی کمی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ زلزلوں کا سبب یہ بتایا جائے کہ اس میں محض ایک جیولوجی اور قدرت کا عمل دخل ہے، اور اس کی کوئی حکمت اور نتیجہ نہیں،یا اس کا ایمانیات اور اللہ کے خوف سے کوئی تعلق نہیں۔

اس انسان کو چھوڑ دیجئے جو ہر اس شخص کا مذاق اڑاتا ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے حکم سے ہونے والے معاملات کی یاد دہانی کراتا ہے۔

اور کونسی فہم (سمجھ ) اللہ کی ہدایت کے زیادہ قریب ہے ، اسے جاننے کے لئےصحیح بخاری کی یہ حدیث ہے:

عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ الليْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟» قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: « أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ، فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالكَوْكَبِ. (صحيح البخاري:1038)

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نےحدیبیہ میں رات کو بارش ہونے کے بعد فجر کی نماز پڑھائی،پھرآپﷺ نےفرمایا: کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا؟فرمایا: کہ صبح کے وقت میرے بندوں میں سے کچھ لوگ مومن ہوگئے اور کچھ کافر، تو جس نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستارے کا انکار کیا، اور جس نے یہ کہا کہ یہ بارش فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی تو اس نے میرا انکار (کفر) کیا اور ستارے پر ایمان لایا۔

اور جب اس بارش کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے جوکہ اللہ کی حکمیہ سنت ہے جس کی وجہ سے نمازِ استسقاءکو رکھا گیا حالانکہ اس کا ظاہری سبب بھی معلوم ہے، اس کے باوجود کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جومحض مادی تفسیر کے دائرے میں اسے محصور (بند) کردیتے ہیں، اور ان کی عقل میں یہ بات نہیں بیٹھتی کہ اس میں عبرت، ثواب، سزا اور آزمائش کا بھی پہلو ہے۔

اللہ کے بندو!تعجب کی کوئی بات نہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَ لَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ (یونس :96۔97)

’’یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے۔گو ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں ۔‘‘

دوسرے مقام پر اللہ کا فرمان ہے:

وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا(الإسراء:59)

’’ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں۔‘‘

درود و سلام اللہ آپ سب پر رحم فرمائے!

سب سے افضل مخلوق اور پاکیزہ انسان، صاحبِ حوض و شفاعت (ہمارے نبی )سیدنا محمد بن عبد اللہﷺ پر درود بھیجیں؛ اللہ نےاس کا حکم قرآن مجید میں دیا ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (الأحزاب :56)

’’اے ایمان والو! ان پر درود و سلام بھیجتے رہو۔‘‘

یا اللہ! اپنے نبی، بندے اور رسول محمدﷺ پر زیادہ سے زیادہ رحمتیں اورسلامتیاں نازل فرما۔

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے