شبہات سے بچنے کا بیان(1)

(1) عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم، عَنِ الْمِعْرَاضِ فَقَالَ إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَإِذَاأَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلاَ تَأْكُلْ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أُرْسِلُ كَلْبِي وَأُسَمِّي فَأَجِدُ مَعَهُ عَلَى الصَّيْدِ كَلْبًا آخَرَ لَمْ أُسَمِّ عَلَيْهِ، وَلاَ أَدْرِي أَيُّهُمَا أَخَذَ قَالَ: لَاْ تَأْكُلْ إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى الآخَرِ (البخارى، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، الجامع الصحيح، دار الشعب القاهرة، الأولى، 1407–1987، ح: 2054)

’’سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرمﷺ سے معراض (چوڑے تیر) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب وہ تیر دھار والی طرف سے لگے تو تم شکار کو کھا لیا کرو اور اگر چوڑی جانب سے لگے تو نہ کھاؤ اس لئے کہ وہ موقوذہ (کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کیے مرگیا۔ زمانہ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھالیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کردیا۔ بندوق کا شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر کوئی بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائے اور شکار ذبح سے پہلے ہی مرگیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔ (تفسیر احسن البیان، حافظ صلاح الدین یوسف) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ (کبھی) میں اپنا کتا شکار کیلئے بسم اللہ پڑھ کر بھیجتا ہوں تو اس کے ساتھ ایک دوسرا کتا بھی مل جاتا ہے جس پر میں نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہوتی اور میں نہیں جانتا کہ ان دو کتوں میں سے کس نے شکار کو پکڑا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم ایسے شکار کو مت کھاؤ اس لئے کہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی ہوتی ہے اور دوسرے پر نہیں پڑھی ہوتی‘‘۔

اس حدیث میں بھی اس شبہ کی وجہ سے کہ شاید شکار کو اس کتے نے مارا ہو جس پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی، آپﷺ نے اس شکار کو کھانے سے منع فرمایا۔ یہاں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ:

 چونکہ یہاں شبہ جانور کی حلت و حرمت کے حوالے سے تھا، جن میں اصل حرمت ہے، اس لئے اس شبہ سے بچنا واجب تھا۔

شبہات سے بچنے کا بیان(2)

(2) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّﷺ بِتَمْرَةٍ مَسْقُوطَةٍ فَقَالَ: لَوْلاَ أَنْ تَكُونَ مِنْ صَدَقَةٍ لَأَكَلْتُهَا (البخارى، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، أبو عبد الله، الجامع الصحيح، دار الشعب القاهرة، الأولى، 1407–1987، كتاب بدء الوحي، باب مَا يُتَنَزَّهُ مِنَ الشُّبُهَاتِ، ح: 2055)

’’سید نا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ ایک گری ہوئی کھجور کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ صدقے کی نہ ہوتی میں اس کو کھا لیتا‘‘۔

اس حدیث میں بھی شبہ کا بنیادی اصول بیان کیا گیا ہے ۔آپﷺ نے کھجور کو صرف اس لیے کھانے سے اجتناب فرمایا کہ کہیں وہ صدقہ کی نہ ہوکہ آپﷺصدقہ نہیں کھایا کرتے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ:

 کھجور جیسی چیز جس میں شریعت کا اصل حکم اباحت کا ہے ، اس میں بھی کسی وجہ سے شبہ پیدا ہوسکتا ہے۔

قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: تَمَامُ التَّقْوَى أَنْ يَتَّقِيَ اللهَ الْعَبْدُ حَتَّى يَتَّقِيَهُ فِي مِثْقَالِ ذَرَّةٍ، حَتَّى يَتْرُكَ بَعْضَ مَا يَرَى أَنَّهُ حَلَالٌ، خَشْيَةَ أَنْ يَكُونَ حَرَامًا، يَكُونُ حِجَابًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْحَرَامِ (ابن المبارك، أبو عبد الرحمن عبد الله بن المبارك بن واضح الحنظلي، التركي المرْوزي، الزهد والرقائق، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، بَابٌ فِي التَّقْوَى، ج: 2، ص: 19)

’’سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ: کامل تقویٰ یہ ہے کہ آدمی ایک ذرہ کے برابر چیز کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرے اور حرام میں پڑنے کے ڈر سے بعض ان چیزوں کو بھی چھوڑ دے جن کو وہ حلال سمجھے، تاکہ اس کے درمیان اور حرام کے درمیان پردہ رہے‘‘۔

قال الحسنُ: ما زالتِ التقوى بالمتقينَ حتى تركُوا كثيرًا من الحلالِ مخافةِ الحرامِ (ابن رجب، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، البغدادي، الدمشقي، الحنبلي، روائع التفسير، دار العاصمة المملكة العربية السعودية، الطبعة: الأولى 1422-2001م، ج: 1/144)

’’سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: متقی لوگوں کا تقویٰ اس وقت تک محفوظ نہیں رہتا جب تک وہ حرام (میں پڑنے) کے ڈر سے بہت سی حلال چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دیں‘‘۔

وقال الثوريُّ: إنَّما سُموا المتقين لأنَّهم اتَّقوا ما لا يُتَّقى (ابن رجب، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، البغدادي، الدمشقي، الحنبلي، روائع التفسير، دار العاصمة المملكة العربية السعودية، الطبعة: الأولى 1422-2001م، ج: 1، ص: 144)

’’امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ : متقی لوگوں کو متقی (یعنی بچنے والے) اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اُس چیز سے بھی بچتے ہیں جس سے عام طور پر بچا نہیں جاتا ‘‘۔

عن ابنِ عمرَ رضی الله عنهما قالَ: إنِّى لأحبُّ أن أدع بيني وبين الحرامِ سترةمن الحلالِ لاأخرقُها (ابن رجب، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، البغدادي، الدمشقي، الحنبلي، روائع التفسير، دار العاصمة المملكة العربية السعودية، الطبعة: الأولى 1422-2001م، ج: 1، ص: 144)

’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکا ارشاد ہے کہ: میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرے اور حرام کے درمیان حلال چیزوں کا ایک ایسا پردہ ہو جسے میں چاک نہ کروں ‘‘۔

وقال سفيانُ بن عيينةَ: لا يصيبُ عبد حقيقةَ الإيمانِ حتى يجعلَ بينه وبين الحرامِ حاجزًا من الحلالِ، وحتى يدعَ الإثمَ وما تشابَهَ منه (ابن رجب، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، البغدادي، الدمشقي، الحنبلي، روائع التفسير، دار العاصمة المملكة العربية السعودية، الطبعة: الأولى 1422-2001م، ج: 1، ص: 144-145)

’’امام سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: انسان اُس وقت تک ایمان کی حقیقت نہیں پا سکتا جب تک کہ اپنے اور حرام چیزوں کے درمیان بعض حلال چیزوں کی رکاوٹ نہ کھڑی کردے اور جب تک کہ وہ گناہ کے ساتھ اُس چیز کو بھی نہ چھوڑ دے جو گناہ کے مشابہ ہو‘‘۔

ان اقوال کی روشنی میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ سب اقوال اُن حلال چیزوں کے بارے میں ہیں جن سے کسی درجہ میں انسان کے حرام تک پہنچنے کا محض اندیشہ ہو۔ رہے وہ مشتبہ امور جن کے بارہ میں شریعت کا اصل حکم حرام ہونے کا ہے ، تو ایسے مشتبہات سے بچنا تو نہ صرف تقویٰ بلکہ اُس کے تقاضے سے بھی ضروری ہے، بشرطیکہ شبہ قوی درجے کا ہو ۔

شبہات سے بچنے کا بیان (3)

(3) قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: لاَ يَبْلُغُ العَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُتَّقِينَ حَتَّى يَدَعَ مَا لاَ بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ البَأْسُ (الترمذي، محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي، الجامع الصحيح سنن الترمذي، دار إحياء التراث العربي بيروت، ج: 4، ص: 634، ح: 2451. (ضعيف)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: بندہ اُس وقت تک متقی لوگوں میں سے نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ حرج والی چیزوں سے بچنے کیلئے اُس چیز کو بھی چھوڑ نہ دے جس میں کوئی حرج نہ ہو‘‘۔

اس حدیث میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں:

1۔ مشتبہات سے اجتناب کے بغیر تقویٰ کا حصول ممکن نہیں

2۔ تقویٰ کے حصول کیلئے بسا اوقات بعض حلال چیزوں کو بھی چھوڑنے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔

شبہات سے بچنے کا بیان (4)

(4) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: قَاتَلَ اللهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَ عَلَيْهِمُ الشَّحْمُ، فَبَاعُوهُ وَأَكَلُوا ثَمَنَهُ (مسلم، مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري، الجامع الصحيح المسمى صحيح مسلم، دار الجيل بيروت + دار الأفاق الجديدة بيروت، باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالأَصْنَامِ، ج: 5، ص: 41، ح: 4137)

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے کہ ان پر چربی کو حرام کیا گیا تو انہوں نے (یہ حیلہ کیا کہ) چربی کو (پگھلا کر) بیچا اور اس کی قیمت کھائی (کہ یہ تو حلال ہے)‘‘۔

اس حدیث میں یہود پر اس وجہ سے لعنت پڑنے کا ذکر ہے کہ انہوں نے چربی کو جو اُن پر حرام کر دی گئی تھی، حلال کرنے کیلئے یہ باطل حیلہ کیا تھا کہ اس کو پگھلا کر تیل بنا لیا تھا اور تیل کو فروخت کرکے اس کی قیمت کو اپنے لئے اس دلیل سے حلال قرار دیا تھا کہ یہ تو چربی کی قیمت نہیں ، تیل کی قیمت ہے اور تیل ہم پر حرام نہیں۔

شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ :

حیلہ کے باطل ہونے کا پس منظر یہ تھا کہ یہ حرام کو حاصل کرنے کیلئے کیا گیا، حرام سے بچنے کیلئے نہیں۔

 نیز یہ حیلہ اس لئے بھی باطل ہے کہ چربی پگھلانے سے اس میں محض ایک ظاہری نوعیت کی تبدیلی آتی ہے اور ایسی ظاہری تبدیلی سے اگر کسی چیز کا نام بھی تبدیل ہوجائے تو شرعاً ایسی تبدیلی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، اس کی وجہ سے حرام چیز حلال نہیں ہوتی۔

یہ حدیث اس حوالے سے بہت فکر انگیز ہے کہ ایک حدیث کے مطابق آخر زمانے میں لوگ حرام چیزوں مثلا شراب، خنزیر وغیرہ کا نام بدل کر اس کو استعمال کریں گے۔ اس حوالے سے اگر ہم آج کی صورتحال کا جائزہ لیں تو بہت سی ایسی مصنوعات وجود میں آچکی ہیں جن میں خنزیر یا شراب وغیرہ حرام چیزیں استعمال ہوتی ہیں لیکن وہ دیگر مختلف مصنوعات کے ناموں سے مسلمانوں کے بازاروں میں فروخت ہورہی ہیں اور مسلمان محض نام کے دھوکے میں آکر بے فکری سے ان کو استعمال کر رہے ہیں۔

احادیث نبویہ سے ماخوذ اہم تعلیمات کا خلاصہ

ان احادیث سے درج ذیل چند اصولی ہدایات معلوم ہوتی ہیں:

1.جس چیز کی حلت یا حرمت کے بارے میں قرآن و سُنت خاموش ہوں وہ مباح ہے۔

2.جس چیز میں حلال و حرام دونوں طرح کا احتمال ہووہ مشتبہ سمجھی جائے گی۔ ایسی مشتبہ چیزوں کو حرام کہنا یا سمجھنا درست نہیں ، مگر دین و آبرو کی حفاظت کے لئے عملی طور پر ان سے بھی بچنے کا حکم ہے۔

3.گوشت کے معاملے میں اگر شبہ ہو تو اس کے ساتھ حرام چیز والا معاملہ کیا جائے گا ، جیسا کہ سید نا عدی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

4.کسی حرام چیز کو حلال کرنے کیلئے حیلے بہانے کرنا جائز نہیں۔

5. وہ شبہ معتبر ہے جو کسی دلیل کی بنیاد پر ہو کیونکہ بغیر دلیل کے شبہ وسوسہ کہلاتا ہے اور شرعی احکام میں وسوسہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں بھی کسی چیز کے بارے میں شبہ ہوگا تو اس چیز کے شرعی حکم کے سلسلے میں دلیل کو دیکھا جائے گا کہ اس شبہ میں کوئی دلیل موجود ہے یا نہیں؟ چنانچہ بادلیل شبہ معتبر ہوگا اور بے دلیل شبہ غیر معتبر ہوگا۔

6. شبہات سے بچنے کا علی الاطلاق فقہی حکم بیان کرنا ممکن نہیں ہے لہذا اصل تو یہ ہے کہ اگر شبہ کسی دلیل کی بنیاد پر ہے تو پھر شبہ کی نوعیت کی طرف دیکھا جائے گا کہ اگر وہ قوی درجے کی ہے تو اس سے بچنا فرض ہوگا اور اگر وہ کمزور درجے کی ہو تو اس سے بچنا مستحب اور تقویٰ کا تقاضا ہوگا ۔ واضح رہے کہ حکم فقہی بنیاد پر ہے تقوی کی بنیاد پر نہیں کیونکہ تقوی کی بنیاد تو ہمیں حدیث نے دے دی ہے کہ جس نے اپنے آپ کو شبہات سے بچا لیا گویا اس نے اپنا دین بچا لیا۔

7.مذکورہ احادیث میں مسکوت عنہ چیزوں کے حوالے سے تحقیق سے منع کیا گیا ہےمگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام صارف کیلئے کیا حکم ہے کیا وہ ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کے بازاروں میں بکنے والی ہر چیز کا استعمال کر سکتا ہے یا نہیں۔

8.یہ سوال اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ دورِ جدید میں غذا، دوا اور انسانی استعمال کی دیگر اشیاء کی تیاری میں حرام اور مشتبہ کیمیائی اجزاء جس کثرت سے استعمال ہونے لگے ہیں، اس کا پہلے کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہر مسلمان کو یہ مشکل درپیش ہے کہ وہ ایسی اشیاءاستعمال کر رہا ہے، جن کے بارے میں اس کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس نے بنائی ہیں؟ اور اس کے بنانے میں کس طرح کے اجزاء استعمال کئے گئے ہیں؟ لہذا اس بارے میں تین بنیادی باتیں سمجھنا لازم ہیں :

اول: وساوس کی تحقیق ممنوع ہے مشتبہات کی تحقیق ممنوع نہیں ہے۔

دوم : جن چیزوں میں حرمت اصل ہے، ان کی تحقیق ضروری ہے۔

سوم: عرف و حالات کی رعایت بھی ضروری ہے۔

9. اشیاء میں اباحت کی اصالت اور اسلام کے مزاج یسر و سہولت کے ساتھ ساتھ، ہمارے زمانے کے مخصوص حالات کے تناظر میں مشتبہات سے اجتناب اور سد ذریعہ کے اصولوں کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور جب ہم ان تمام اصولوں کو ایک ساتھ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو ایسی چھان بین اور تحقیق میں پڑنا درست ہے کہ انسان اوہام و وساوس ہی کے پیچھے پڑ جائے اور نہ ایسی بے خبری صحیح ہے کہ انسان میں حلال و حرام میں تمیز کرنے کی فکر ہی نہ رہے۔ الغرض اعتدال پر مبنی درست طرزعمل یہ ہوگا کہ حرام میں پڑنے سے بچنے کیلئے ’’تحقیق کرنے‘‘ اور ’’بےخبری سے فائدہ اُٹھانے‘‘ کے درمیان کی راہ اختیار کی جائے۔ یہی ’’غفلت‘‘ اور ’’غلو‘‘سے پاک وہ ’’شاہراہ اعتدال‘‘ ہے جس میں ’’حزم و احتیاط‘‘ بھی ہے اور ’’آسانی‘‘ بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے