1۔اخلاق حسنہ کے اثرات

طبقات ابن سعد میں یہ واقعہ آتا ہے کہ زیدبن حارثہ قبیلہ بنو کلب کے ایک شخص حارثہ بن شرحبیل کے بیٹے تھے۔ ابھی ان کی عمر آٹھ سال کی تھی،وہ اپنی والدہ کے ساتھ سفر پر جارہے تھے کہ راستے میں قبیلہ بنی قین کے لوگوں نے حملہ کرکے لوٹ مار کی اور کچھ لوگوں کو پکڑ کر لے گئے، جن میں زیدبن حارثہ بھی شامل تھے۔ زیدبن حارثہ کو عکاظ کے میلے میں حکیم بن حزام کے ہاتھ بیچ دیا گیا جو کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے۔

انہوں نے یہ غلام مکہ میں لاکر اپنی پھوپھی صاحبہ کے حوالے کردیا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی جب نبی کریم ﷺ سے شادی ہوئی تو انہوں نے یہ غلام آپ ﷺ کو تحفے میں دے دیا ۔ زید بن حارثہ کے گھر والے ان کے فراق میں غم سے نڈھال ہورہے تھے۔قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ بنو کلب کے چند افراد حج کے ارادے سے مکہ آئے تو انہوں نے زید بن حارثہ کو پہچان لیا ۔اس طرح زید بن حارثہ کے گھر والوں کو ان کی خبر لگ گئی۔چنانچہ زید کے والد حارثہ،چچا کعب بھاگے ہوئے مکہ پہنچے۔نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپﷺ زید کو معاوضہ لے کر ہمارے حوالے کردیجئے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں بچے کو بلاتا ہوں اور اسی کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ میرے پاس رہنا پسند کرتا ہے یا آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہے۔

اگر وہ آپ لوگوں کے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی فدیہ لیے بغیر اسے آپ کے حوالے کردوں گا۔آپﷺ کی یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔چنانچہ زید بن حارثہ کو بلایا گیا اور ان کے باپ اور چچا کے سامنے ان کے ساتھ بات کی گئی اور دونوں صورتیں ان کے سامنے پیش کی گئیں۔ زید بن حارثہ نے جواب دیا کہ میں نبی کریم ﷺ پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا ۔حارثہ یہ سن کر بہت بے چین ہوئے اور کہنے لگے زید! کس قدر افسوس ہے کہ تم غلامی کو آزادی پر ترجیح دے رہے ہو اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے ساتھ رہنا چاہتے ہو۔

والد کی بات سن کر زید نے جواب دیا کہ اس ہستی کے ساتھ رہ کر میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کے بعد دنیا و مافیہا کو اس کے سامنے ہیچ سمجھتا ہوں ۔زید بن حارثہ کا یہ جواب سن کر باپ اور چچابخوشی راضی ہوگئے۔نبی کریم ﷺ نے اسی وقت زید بن حارثہ کو آزاد کردیا اور حرم میں جاکر قریش کے مجمع عام میں اعلان کرادیا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں، آج سے زیدمیرا بیٹا ہے۔یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے ۔ حارثہ نے یہ سنا تو اور بھی خوش ہوا۔باپ اورچچا دونوں مطمئن ہوکر واپس چلے گئے۔ چونکہ زیدبن حارثہ کو نبی کریم ﷺ نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا ، اس لئے لوگ اب آپ کو زید بن محمد پکارنے لگے تھے۔ بعد میں جب قرآن کریم میں منہ بولا بیٹا بنانے سے منع کیا گیا تو انہیں پھر سے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔(طبقات ابن سعد:ج3،ص38)

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ کی کیا ادا پسند آئی کہ انہوں نے اپنے والدین کے پاس واپس جانے کے مقابلے میں نبی کریم ﷺ کے پاس رکنا بہتر سمجھا۔ یاد رکھیں کہ اس وقت نبی کریم ﷺ بطور رسول مبعوث نہیں ہوئے تھے۔

اس وقت نہ تو نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہورہی تھی اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی کوئی عبادت فرض کئی گئی تھی۔پھر وہ کیا چیز تھی جسے دیکھ کر سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے ساتھ اتنی محبت ہوئی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی غلامی میں زندگی گزارنے کے لئے تیار ہوگیا تھا ۔وہ اپنے ماں باپ کو توچھوڑنے کے لئے تیار تھامگر نبی کریم ﷺ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا۔سوچیں ذرا وہ کیا چیز تھی جس نے اس بچے کو اتنا بڑا فیصلہ لینے پر مجبور کیا تھا؟ یقین جانیں وہ نبی کریم ﷺ کے اعلیٰ اخلاق تھے، ان کی شفقت اوران کی محبت تھی۔

آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نبوت سے پہلے ہی صادق اور امین کے نام سے معروف تھے۔صداقت و امانت انسان کے بہترین کردار کی عکاسی اور اس کے حسن اخلاق کی نشانی ہوتی ہے۔ اس لئے نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے آپ ﷺنے فرمایا: بلاشبہ تم میں سے زیادہ عزیز مجھے وہ شخص ہے جس کی عادات واخلاق تمام لوگوں سے عمدہ ہوں ۔(بخاری:3759)،ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔(بخاری:3559)

یہاں پر تھوڑا سا رک کر سوچیں کہ ہمارے اخلاق کیسے ہیں ؟کیا آج ہم میں کوئی ایسا مسلمان ہے جس کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر کوئی بچہ یا کوئی شخص اپنے والدین ، اپنے گھر والوں اور اپنی تمام چیزوں کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوجائے ؟

یا کم از کم اتنا کہ جب ہم میں سے کوئی اپنا محلہ چھوڑ رہا ہو تو لوگ اس کو روکنے پر اصرار کریں۔جیسا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہجرت حبشہ کے وقت روکا گیا تھا۔چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے والدین کو دین حق کی پیروی کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ صبح و شام دونوں وقت رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس نہ آتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو سخت اذیت دی جانے لگی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کی نیت سے (مکہ سے) نکلے۔ جب آپ برک الغماد کے مقام پر پہنچے تو انہیں ابن دغنہ ملا جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا: اے ابوبکر! کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زمین کی سیروسیاحت کروں اور اپنے رب کی یکسوئی سے عبادت کروں۔ ابن دغنہ کہنے لگے: تمہارے جیسا شخص نہ تو نکلنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور نہ اسے کوئی نکال ہی سکتا ہے کیونکہ ضرورت مند محتاج لوگوں کے پاس جو چیز نہیں ہوتی تم انہیں مہیا کرتے ہو، رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہو، ناداروں کی کفالت اور مہمانوں کی ضیافت کرتے ہو اور راہ حق میں اگر کسی کو مصیبت آئے تو تم اس کی مدد کرتے ہو، لہذا میں تمہیں پناہ دیتا ہوں تم (مکہ) لوٹ چلو اور اپنے شہر میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو، چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ابن دغنہ کے ساتھ مکہ واپس آ گئے۔(بخاری:3905)

یا ہمارے پڑوسی ہمارے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنے پر تیار نہ ہوں۔ پھر اگر انہیں گھر فروخت کرنا بھی پڑے تو وہ اچھے پڑوس کی وجہ سے دگنا دام طلب کرسکے۔جیسا کہ عبداللہ بن مبارک کے یہودی پڑوسی نے اپنا گھر فروخت کرتے وقت دگنی قیمت لگائی تھی اور اس کی وجہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا بہترین پڑوسی ہونا بتایا تھا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا ایک آدمی نے پوچھا کتنے میں فروخت کروگے کہنے لگا کہ میں دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا اس خریدار نے کہا کہ اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے، یہودی کہنے لگا کہ ہاں ٹھیک ہے ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے۔(کتاب عبداللہ بن مبارک الامام القدوۃ:ص248)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کی انہی اوصاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ

اور بیشک آپ اخلاق کے بڑے مرتبے پر فائز ہیں ۔

اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ایک فرمان ہے:

اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ

«مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذاء)سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں»۔(بخاری:10)

اس حدیث میں ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ اگر دنیا میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب ہے تو ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ یہ تمام لوگ ہماری زبان اور ہاتھ کی تکلیف سے محفوظ رہیں۔ چہ جائیکہ کوئی شخص میرے ہی محلے میں رہتا ہو، وہ میرا رشتہ دار ہو ،میرا دوست ہو یا پھر وہ میرے گھر والے ہوں ، ان سب کے ساتھ میرے اچھے اخلاق کی کتنی اہمیت ہوگی۔

پوری دنیا کےمسلمان اگر ہماری زبان اور ہاتھ سے محفوظ ہیں تو ہم مسلمان ہیں تو سوچیں کہ جو لوگ ہمارے گھروں ، محلوں میں رہتے ہیں یا جو ہمارے رشتہ دار ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے ساتھ ہمارے اچھے اخلاق کی کتنی اہمیت ہوگی۔

اس لئے اگر ہم بہت نمازیں پڑھنے والے، بہت سارےنفلی روزے رکھنے والے، بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والےبن جائیں۔ہمارا لباس اور ہماری وضع و قطع شریعت کے عین مطابق ہوجائے پھر بھی ہم مکمل مومن نہیں ہوسکتے جب تک ہمارا اخلاق اچھا نہ ہو۔

کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

اَكْمَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ اِيْمَانًا اَحْسَنُهُمْ خُلُقًا

«مومنین میں سے کمال ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہیں»۔(ابو داؤد:4682)

اخلاق حسنہ سے کیا مراد ہے؟ اخلاق حسنہ سے مراد یہ ہے کہ ایک مسلمان نرمی ، محبت اور مسکراہٹ کے ساتھ سے بات کرے۔کسی کی غیبت نہ کرے،کسی پر تہمت نہ لگائے،کسی کی چغلی نہ کھائے۔اسی طرح وہ لوگوں کے پیچھے ان کی عزت کا دفاع کرے، لوگوں کے ساتھ درگزر کا معاملہ کرے، گالم گلوچ سے بچے، بدتمیزی سے بچے اورغصہ نہ کرے۔ یہ ساری باتیں اچھے اخلاق کے اندر آتی ہیں۔

یہ سارے وہ اچھے اخلاق ہیں جنہیں عموماً ہم بہت معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَا شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ

قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاقِ حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی ۔(ترمذی:2002)

ایک مومن کا دوسرے مومن پر پہلا تاثر اس کا اچھا اخلاق ہی ہوتا ہے۔ چونکہ ہم نماز اپنے لئے پڑھتے ہیں، روزہ اپنے لئے رکھتے ہیں ، قرآن کی تلاوت اپنے لئے کرتے ہیں، حج و عمرہ اپنے لئے کرتے ہیں کیونکہ ان سب کا تعلق حقوق اللہ کےساتھ ہوتا ہے البتہ اچھے اخلاق کا تعلق حقوق العباد کےساتھ ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ،آپ ﷺ نے ان سے پوچھا:کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟صحابہ نے کہا؛ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی سازوسامان۔ آپ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہو گی، اس پر بہتان لگایا ہو گا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم:2581)

اس لئے اگر ہم قیامت کے دن کی مفلسی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تمام باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ اپنے معاملات کو بہتر بنانا ہوگا۔ لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ سے پیش آنا ہوگااور لوگوں کی پیٹھ پیچھے بات کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اچھے اخلاق اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے