اللّٰہ تعالیٰ نے رسول کریم خاتم المرسلین محمد عربیﷺکی خصوصیات و امتیازات کو کہیں قرآن میں

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ١ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ

وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بےشک وہ اس سے پہلے ضرور کُھلی گمراہی میں تھے۔(سورة الجمعہ 2)

فرما کر آپ کے جذبہ خدمت کو واضح کیا اور کہیں

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ

اور بیشک آپ اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہیں ۔(سورة القلم 4)

فرما کر آپ کو عظیم اخلاق و کردار کا حامل ٹھہرایا اور کہیں

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًاؕ

بیشک رسول اللہ میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے ‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو۔(سورة الاحزاب 21)

فرما کر آپ کے اسوہ کو ہماری زندگیوں کی صلاح و فلاح کا ضامن ٹھہرایا۔ جس نے اس وطیرہ و طریقہ سے انحراف کیا یا تغافل برتا وہ صحیح راستہ سے دور ہوا اور اس کی زندگی جادہ مستقیم سے ہٹ گئی۔ رسول اللّٰہ ﷺ کی شخصیت ایسی ہمہ گیر شخصیت ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے منسلک ہو آپ کو نمونہ بنا کر اپنی زندگی شاداں فرحاں گزار سکتا ہے۔ رسول کریم ﷺ راست باز یتیم بھی تھے ، صدق و صفا کے حامل بھی ، جوانی میں صادق و امین تھے تو دل میں تقویٰ کو سموئے ہوئے بھی ،امانت دار تاجر تھے تو فقید المثال خاوند بھی گویا کہ زندگی کی تمام جہات میں رسول اللّٰہ ﷺ کا اسوہ ہماری زندگی کے رنگ و ڈھنگ کو بدل کر آئینہ حدیث بنا سکتا ہے، چق چق بق بق جھک جھک اور لغویات سے ہٹا کر

وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللغْوِ مُعْرِضُوْنَ

کا مصداق بناسکتا ہے ، آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے ہی زندگی کے امید و بیم کے شکنجے بھرے جاسکتے ہیں ، آپ ہی کا اسوہ حسنہ آخرت میں کامیابی کے لیے غنچہ امید ثابت ہو سکتا ہے، آپ ہی کا اسوہ حسنہ ایسی نسیم بہار ہے جو غنچہ امید کو وا کرتا ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ کا اسوہ قرآن کے ابدی اصولوں کی تفسیر ہے ،جسے عمل کی زبان میں مرتب کیا گیا اور اس مقدس پیغام کی تکمیل ہیں جس کی مشعل آدم،ابراہیم،موسی،عیسی اورالانبياء ( علیھم السلام) اپنے دور میں روشن کرتے رہیں ۔

اسی لیے شاعر کیا خوب کہتا ہے

حضور ﷺ آئے تو سرِ آفرینش پا گئی دنیا

اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آ گئی دنیا

سُتے چہروں سے زنگ اترا، بجھے چہروں پہ نور آیا

حضور ﷺ آئے تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا

( شاعر: رانا علی)

آپ کی تعلیمات ، اسوہ اور حسن کے دلدادہ حسان بن ثابت کہنے پر مجبور ہو گئے:

وَ أَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ
وَ أَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ كُلِّ عَيْبٍ
كَأَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءُ

آپ ﷺ سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ ﷺ سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپ ﷺ کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دِکھائی دیتا ہے) جیسے آپ ﷺ کے ربّ نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ ﷺ کی صورت بنائی ہے۔(حسان بن ثابت، ديوان : 21)

قارئین!اسوہ رسولِ کریم ﷺ ہم سے ایسی زندگی کا مطالبہ کرتا ہے جو رسول اللّٰہ ﷺ کے قول ، فعل ، عمل ، وصف اور ترک پر مشتمل ہو ۔ آپ ہی کی تعلیمات نے عرب کے لوگوں کو صحابہ کے لقب سے ملقب کیا۔ آپ کے اسلامی نظریات نے لوگوں کو صدق و امانت ، عفوودرگزر ، خوش طبعی و خندہ روئی ، سخاوت و فیاضی ، حلیمی و بردباری اور استقامت و اثبات جیسے اوصاف حمیدہ اور عادات جمیلہ کا وارث بنایا ۔ آپ کے اسوہ نے لوگوں کو بدعقیدگی ، جھوٹ ، غلط بیانی ،دھوکا دہی، لوٹ مار، قتل و غارت، حسد و کینہ ، مبالغہ آرائی ، افراط و تفریط ،سود خوری اور زنا جیسی اخلاق رذیلہ اور عادات سیئہ سے دور رکھا اور صفہ ہستی کے عظیم لوگ کہلائے۔

مکرمی! رسولِ کریم ﷺ کے اقوال و افعال سے احادیث کی کتب بھری پڑی ہیں جو زندگی کے لیے مشعلِ راہ ہیں‏۔ انہیں میں کچھ احادیث آپ کے گوش گزار کروں گا:

عَنْ زِيَادٍ، قَالَ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ يَقُولُ إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَقُومُ لِيُصَلِّيَ حَتَّى تَرِمَ قَدَمَاهُ أَوْ سَاقَاهُ، فَيُقَالُ لَهُ فَيَقُولُ: أَفَلاَ أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا

سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ اتنی دیر تک کھڑے ہوکر نماز پڑھتے کہ آپﷺ کے پاؤں یا پنڈلیوں پر ورم ہوجاتا۔ جب آپﷺ سے اس بارے میں کہا جاتا تو آپﷺ فرماتے کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۔(صحیح البخاری ،كتاب التهجد : حدیث:1130‏)

آپ کے اخلاق کے متعلق سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ قرآن آپ کے اخلاق کا مظہر ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:

عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَخْبِرِينِي بِخُلُقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: «كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ»

 سعد بن ہشام سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ ‌ﷺ کے اخلاق سے آگاہ فرمائیں۔ انہوں نے کہا: قرآن ہی رسول اللہ ‌ﷺ کا اخلاق تھا۔(مسند احمد: 25107)

آپ کے انفاق فی سبیل اللّٰہ کے بارے حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم ﷺ آندھی سے بھی زیادہ تیز خرچ کرتے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ»

سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ: ’’رسول اللہﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ اور رمضان میں جب جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺسے ملتے تو دوسرے اوقات کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپؐ سے ملاقات کرتے اور آپﷺکے ساتھ قرآن کا دَور کرتے۔ غرض! نبی کریم ﷺ لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا‘ سے بھی زیادہ جودوکرم فرمایا کرتے تھے۔(صحیح البخاری، حدیث: 6)

آپ ﷺ گھر کے کاموں میں تعاون کرتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث اس پر دال ہے ۔

اسود کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ ﷺ اپنے گھر میں کیا کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ گھر والوں کے کام میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت آجاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے ۔(صحیح البخاری :حدیث نمبر 984)

آپ ﷺ رحیمیت سے بھر پور تھے جیسا کے احادیث میں آتا ہے:

عن جرير بن عبد الله رضي الله عنه مرفوعاً: «مَنْ لا يَرْحَم النَّاسَ لا يَرْحَمْهُ اللهُ»

سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اس پر اللہ بھی رحم نہیں کرتا“(صحیح البخاری 7637)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْصِنِي، قَالَ: «لاَ تَغْضَبْ» فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ: «لاَ تَغْضَبْ»

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” غصہ نہ کیا کرو“۔ اس نے یہ سوال بار بار دہرایا اور آپ ﷺ نے یہی فرماتے رہے کہ غصہ نہ کیا کرو۔ (صحیح البخاري:6116)

رسولِ کریم ﷺ نے معاشرہ کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لیے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَىَ بَيعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا. المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَكْذِبُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ، التّقْوَىَ هَهُنَا -وَيُشِيرُ إِلَىَ صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرّاتٍ-، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ المُسْلِمَ، كُلُّ المُسْلِمِ عَلَىَ المُسْلِمِ حَرَامٌ؛ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ».

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مت حسد کرو، مت دھوکے بازی کرو، مت بغض رکھو، مت دشمنی کرو، کوئی تم میں سے دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور ہو جاؤ اللہ کے بندو بھائی بھائی۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کو ذلیل کرے، نہ اس کو حقیر جانے، تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے۔“ اور اشارہ کیا آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف تین بار (یعنی ظاہر میں عمدہ اعمال کر نے سے آدمی متقی نہیں ہوتا جب تک سینہ اس کا صاف نہ ہو) ”کافی ہے آدمی کو یہ برائی کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، مال، عزت اور آبرو۔ ( صحیح مسلم ،حدیث نمبر: 6541)

رسولِ کریم ﷺ نے مومنین کو آپس میں شفقت کرنے پر بحثیت مشفق فرمایا:

فعن النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ-رضي الله عنهما- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى»

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بایں طور کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم 6586)

اپ ﷺ نے آداب و اخلاق کے متعلق فرما کر سمندر کو کوزے میں بند کردیا:

عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ»

ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام اور اس کی خاطرداری کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(صحیح البخاری:6019)

یہ ہے رسول اللّٰہ ﷺ کا اسوہ جو ہماری زندگیوں کے لیے زر خالص ہے۔

لیکن حیف صد حیف! جب انسان نے آپ ﷺ کی تعلیمات سے روگردانی کی تو انسان جادہ مستقیم سے ہٹ گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل مشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی اس نے ہماری ملی اور مذہبی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا ،اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کیا کہ ہم یہ بھی تمیز نا کرسکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زر خالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا ہے ۔ اس تیز و تند سیلاب کے مقابلے میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالہ کر دیا، نتیجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہو گیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ اس طرح منتشر ہوا کہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحا کر رہا ہے ۔

یہی تہذیب انیسویں صدی کے آخر میں نومالتھوسی تحریک کا لٹریچر مانع حمل کو لیے برزور پیکار ہماری یونیورسٹیوں میں حملہ آور ہوا اور ابارشن جیسی بہیمانہ صفت کو صنف نازک کا مقدر بنایا۔ اس چیز نے بدکای کے راستے سے وہ آخری رکاوٹ بھی دور کردی جو آزاد صنفی تعلقات رکھنے میں مانع ہو سکتی تھی۔

 تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت

 ہے حضرت انسان کے لیے اس کا ثمر موت

 جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

 کہتے ہیں اس علم کو اربابِ نظر موت

(علامہ اقبال)

یہی بحرانی کیفیت کا زمانہ تھا جس میں مغربی لباس ، مغربی معاشرت، مغربی آداب و اطوار حتی کہ چال ڈھال اور بول چال تک میں مغربی طریقوں کی نقل اتارئی گئی ۔ مسلم سوسائٹی کو مغربی سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ۔ الحاد، دہریت اور مادہ پرستی کو فیشن کے طور پر بغیر سمجھے بوجھے قبول کیا گیا ۔ ہر وہ پختہ یا خام تخیل جو مغرب سے آیا اس پر ایمان بالغیب لانا اور اپنی مجلسوں میں اس کو معرض بحث بنانا روشن خیالی کا لازمہ سمجھا گیا۔ شراب ،جوا، لاٹری ، تھیٹر ، رقص و سرور اور مغربی تہذیب کے دوسرے ثمرات کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ شائستگی ، اخلاق ، معاشرت ، معیشت ، سیاست ، قانون حتی کہ مذہبی عقائد اور عبادات کے متعلق بھی نظریات اور تجلیات کو کسی تنقید اور کسی فہم و تدبر کے بغیر اس طرح تسلیم کیا گیا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی وحی ہے ، جس پر سمعنا و اطعنا کہنے کے سواہ کوئی چارہ نہیں ہے۔(پردہ از ابو الاعلیٰ مودودی ص37)

اس سے آگے بڑھتے ہوئے یورپ نے اپنے لٹریچر میں «حرم» اور «نقاب» کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا ۔ اپنے لٹریچر میں اس کی نہایت گھناؤنی اور مضحکہ انگیز تصویریں کھینچیں۔

اسی لیے علامہ اقبال نے یورپ سے سوال کیا۔

کوئی پوچھے حکیم یورپ سے

ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بیکار و زن تہی آغوش

 دیکھیں اسوہ حسنہ کو جب پس پشت ڈالا گیا تو معاشرہ تلپٹ ہو کر رہ گیا،خودکشی کا زور بھڑ گیا ، طلاق کی کثرت سے نسلیں گھٹنی لگیں ، امراض خبیثہ نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دیں، مختلف طبقوں کے درمیان روٹی کے لیے سخت کشمکش برپا ہوئی، حسد و بغض نے کس طرح ایک جنس کے لوگوں کو آپس میں بھڑکایا ، عیش پسندی نے لوگوں کے لیے زندگی کو کس قدر تلخ بنا دیا۔

مکرمی!اس کائنات کے رنگ و بو میں زندگی گزارنے کا سلیقہ و طریقہ اگر کسی کو نہیں آتا تو وہ زندگی میں ہر موڑ پر ناکامیوں ، نامرادیوں ، مایوسیوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتا ہے جس سے اس کے مطلوبہ مقاصد اسی کے سامنے شکست و ریخت کا سامان بنتے ہیں ۔ اس کی آنکھوں میں عقاب کی تیز نگاہی اور دل میں جذبات کی طغیانی مانند پر جاتی ہے ۔ اس کی عملی زندگی برباد ہو کر رہ جاتی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مشاہدہ میں کوتاہی ، فہم میں کمی اور نظم و نسق میں شدید نا اہلی اس کی ذات کا مقدر بن جاتی ہے ۔ رگ رگ میں احساس کمتری ، ندامت اور سبکی کے متعفن پڑنالے پھوٹنے لگتے ہیں ، اندر خفت و خجالت کی پیپ سی بہنے لگتی ہے اور گھن اور بدبو کے بھبھکے میں سارا وجود نالی میں پڑی ہوئی اس اوجھڑی کی طرح سڑنے لگتا ہے جو دھوپ میں پھول پھول کر پھٹ گئی ہو ۔ انسان اس قدر تھک جاتا ہے کہ اس کی گردن نیم نیم سوختہ شاخوں کی طرح بل کھا کر شانوں پر گرنے لگے۔ ناشکیب آرزوؤں کے کوڑے بڑی سفاکی سے کمر پر برسنے لگتے ہیں اور ناسفتہ خواہشات کا گرم گرم دھواں اٹی ہوئی چمنی کی طرح گلہ میں پھنس جاتا ہے۔

آپ کے اسوہ سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے ،مراد ہوف مین: مسیحیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا، یوسف اسلام (کیٹ اسٹیونز): مشہور برطانوی مسیحی گلوکار و موسیقار اسلام کی روحانیت اور آپ ﷺ کے اسوہ سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوئے۔ ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ مراکش کے دورے میں اذان کی آواز جب سماعتوں سے ٹکرائی تو ششدرہ گئے اور ایلس فیض: شاعرہ، فیض احمد فیض کی اہلیہ اپنے آبائی مذہب کو ترک کر کے اسلام میں داخل ہوئیں ۔آپ کے اسوہ پر عمل کر کے لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں ، ذہن بدل گئے ، خیالات کی رو بدل گئی ، نگاہ کا زاویہ بدل گیا، عادات و اطوار بدل گئے ، رسوم و رواج بدل گئے ، حقوق و فرائض کی تقسیمیں بدل گئیں ، خیر و شر کے معیارات اور حلال و حرام کے پیمانے بدل گئے، اخلاقی قدریں بدل گئیں، دستور اور قانون بدل گئے، معیشت اور ازدواج کے اطوار بدل گئے۔ ہر طرف بناؤ ہی بناؤ،تعمیر ہی تعمیر اور ارتقا ہی ارتقا دکھنے لگا۔

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے