سب سے پہلی بات ہم تمہیداً ذکر کرتے ہیں کہ جب عورتیں مسجد کی طرف آنے میں رغبت رکھتی ہوں تو انہیں مسجد سے نہ روکا جائے کیونکہ احادیث و آثار سے عورتوں کا مسجد میں آنا باعث ثواب ہے ۔

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَلَا يَمْنَعْهَا «(صحيح البخاري : 5238)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد میں (نماز پڑھنے کے لئے) جانے کی اجازت مانگے تو اسے نہ روکو بلکہ اجازت دے دو۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِالليْلِ إِلَى الْمَسْجِدِ فَائْذَنُوا لَهُنَّ.(صحيح البخاري : 865)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ اللهِ.(صحيح مسلم: 442)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو ۔‘‘

ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ عورتیں بالعموم جب مسجد میں پردے کا اہتمام ہو تو آ سکتی ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بالخصوص رمضان کے موقع میں بغرض تراویح یا دیگر عبادات کے لیے عورتوں کا مسجد میں آنا زیادہ ہوتا ہے ۔ ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ ہماری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں سے دوران نماز یا نماز سے باہر جو غلطیاں ہوجاتی ہیں ان پر تنبیہہ کرنی چاہیے ۔

1: بَن سنور کر مسجد کی طرف آنا :

عورتوں کی ایک کثیر تعداد نماز کے لیے مسجد کی طرف آتی ہے تو نیا لباس پہن کر اور بن سنور کر آتی ہے ۔ وہ (مائیں، بہنیں ، بیٹیاں) اپنے گمان کے مطابق اس کو جائز سمجھتی ہیں ۔بعض عورتیں اس کو نماز کے لیے مستحب اور بعض اس زیب و زینت اختیار کرنے کونماز کی تکمیل سمجھتی ہیں ۔

اس زیب و زینت اختیار کرنے سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا :

عن زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةَ رضي الله عنها كَانَتْ تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْعِشَاءَ، فَلَا تَطَيَّبْ تِلْكَ الليْلَةَ «.(صحيح مسلم : 443)

سیدہ زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم عورتوں میں سے کوئی عشاء کی نماز میں شامل ہو تو وہ اس رات خوشبو نہ لگائے ۔

عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللهِ قَالَتْ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ، فَلَا تَمَسَّ طِيبًا «.(صحيح مسلم : 443)

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو وہ خوشبو نہ لگائے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : « لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ اللهِ، وَلَكِنْ لِيَخْرُجْنَ وَهُنَّ تَفِلَاتٌ «.(سنن ابي داود : 565)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے مت روکو،لیکن انہیں چاہیے کہ زیب و زینت کے بغیر نکلیں۔‘‘ (یعنی سادہ کیفیت میں آئیں)۔

2 : جسم اور کپڑوں کی صفائی :

یہاں پر ہم ان عورتوں کو تنبیہ کرنا چاہتے ہیں جو اپنے جسم و کپڑوں کی صفائی میں سستی کرتی ہیں ۔مسجد پہنچ جاتی ہیں لیکن اپنے جسم و کپڑوں سے پسینے کی بو اور کھانابنانے والے ہاتھوں اور کپڑوں کو لگے ہوئے اثرات زائل نہیں کرتی ہیں ۔کبھی پیاز و لہسن کی بو باقی رہ جاتی ہے ۔ان کی وجہ سے دیگر عورتوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔

عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ، فَأَكَلْنَا مِنْهَا، فَقَالَ : « مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ الْمُنْتِنَةِ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ الْإِنْسُ «.(صحيح مسلم: 564)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پیاز،لہسن وغیرہ کھانے سے منع فرمایا ‘‘ چنانچہ ایک دفعہ ہم نے کھا کر مسجد تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے اس درخت (پیاز ، لہسن وغیرہ) کوکھایا تو وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتے ( بھی ) ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے انسان اذیت محسوس کرتے ہیں ۔‘‘

عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ مَنَازِلِهِمْ وَالْعَوَالِي، فَيَأْتُونَ فِي الْغُبَارِ يُصِيبُهُمُ الْغُبَارُ وَالْعَرَقُ، فَيَخْرُجُ مِنْهُمُ الْعَرَقُ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْسَانٌ مِنْهُمْ وَهُوَ عِنْدِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَنَّكُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِيَوْمِكُمْ هَذَا. (صحيح البخاري : 902)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے گھروں سے اور اطراف مدینہ دیہات سے (مسجد نبوی میں) آیا کرتے تھے۔لوگ گردوغبار میں چلے آتے،گرد میں اٹے ہوئے اور پسینہ میں شرابور۔اس قدر پسینہ ہوتا کہ تھمتا نہیں تھا۔اسی حالت میں ایک آدمی رسول کریم ﷺ کے پاس آیا۔آپ ﷺنے فر مایا کہ تم لوگ اس دن (جمعہ میں) غسل کر لیا کرو تو بہتر ہوتا۔

3:پرکشش باریک اور تنگ برقعے اور چادریں :

عورتیں جب مسجد آتی ہیں تو انتہائی پرکشش تنگ اور باریک برقعوں کا اہتمام کرتی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ یہ شرعی حجاب کی شروط میں سے ہے ۔حالانکہ ایسے پرکشش برقعے پہن کر مسجد میں آنا صحیح نہیں ہے ۔

عن عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ، كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ. قَالَ : فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ : أَنِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُنِعْنَ الْمَسْجِدَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ. (صحيح مسلم : 445)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے ( بناؤ سنگھار کے ) جو نئے انداز اپنا لیے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے ، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا ۔ میں نے عمرہ (راوی )سے پوچھا : کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا ؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔

4: سر کے بال ظاہر کرنا :

کچھ عورتیں اپنے سر پر دوپٹہ اوڑھتی ہیں لیکن سر کے بالوں کو مکمل نہیں ڈھانپتی ہیں ۔ اور نہ ہی گردن کو ڈھانپتی ہیں ۔

 بعض اوقات بال کُھلے ہوتے ہیں اس حالت میں بھی وہ نماز پڑھ رہی ہوتی ہیں ۔بعض اوقات جسم بھی ظاہر ہوتا ہے یہ انتہائی عظیم غلطی ہے۔اس سے نماز بھی باطل ہوسکتی ہے ۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْحَائِضِ إِلَّا بِخِمَارٍ.(سنن الترمذي : 377)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کی جاتی۔‘‘

قال الترمذي: وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَدْرَكَتْ فَصَلَّتْ وَشَيْءٌ مِنْ شَعْرِهَا مَكْشُوفٌ لَا تَجُوزُ صَلَاتُهَا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ: قَالَ: لَا تَجُوزُ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ وَشَيْءٌ مِنْ جَسَدِهَا مَكْشُوفٌ.

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب عورت بالغ ہو جائے اور نماز پڑھے اور اس کے بالوں کا کچھ حصہ کھلا ہوا ہو تو اس کی نماز جائز نہیں،یہی شافعی کا بھی قول ہے،وہ کہتے ہیں کہ عورت اس حال میں نماز پڑھے کہ اس کے جسم کا کچھ حصہ کھلا ہوا ہو جائز نہیں۔

5: کثرت سے باتیں کرنا :

کثرت کے ساتھ عورتوں کا مسجد میں نماز سے پہلے ،بعد میں ، دوران نماز باتیں کرنا ، آوازوں کو بلند کرنا ،خاموشی اور سکینت کو مسجد میں لازم نہ پکڑنا ۔

یہ امور جن کی وجہ سے مسجد میں لوگوں کی عبادات میں خلل آتا ہے ۔

یہ تو ہر بندے کے مشاہدے میں بات ہے کہ جب عورتیں مسجد میں داخل ہوتی ہیں تو دیگر عورتوں کے ساتھ گفتگو کرنا شروع کردیتی ہیں۔ وہ دنیاوی امور کے حوالے سے باتیں کرتی ہیں ۔ بعض اوقات وہ باتیں غیبت پرمبنی ہوتی ہیں ۔

بعض اوقات بلند آواز سے نماز ،تلاوت قرآن ، اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کی وجہ دیگر عورتیں کو پریشان کرتی ہیں ۔

نبی کریم ﷺ نے بعض صحابہ کو تنبیہ فرمائی ہے جب نبی کریم ﷺ تلاوت قرآن بلند آواز سے سنی تھی ۔جس کی وجہ سے پریشانی ہوتی تھی۔اللہ کے نبی کریم ﷺ نے اس کو اذیت کہا ہے ۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : اعْتَكَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ لَهُ، فَكَشَفَ السُّتُورَ وَكَشَفَ، وَقَالَ : « أَلَا كُلُّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ، فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَلَا يَرْفَعَنَّ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ ، أَوْ قَالَ: فِي الصَّلَاةِ .(مسند احمد : 11896)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺاعتکاف میں تھے، آپ ﷺنے لوگوں کو سنا کہ وہ بلند آوازسے قراءت کر رہے تھے، جبکہ وہ ایک خیمے میں تھے، آپ نے پردے ہٹائے اور فرمایا: خبر دار! یقینا تم میں سے ہر شخص اپنے رب سے سر گوشی کرنے والا ہے، اس لیے کوئی کسی کو تکلیف نہ دے اور کوئی بھی دوسرے کے پاس نماز میں بلند آواز سے قراءت نہ کرے۔

6: مسجد میں جگہ مخصوص کرنا :

وہ امور جو جائز نہیں ہیں ۔ان میں سے ایک یہ کہ عورتیں اپنے لیے ، اپنی بہن یا اپنی ماں وغیرہ کے لیے جگہ مخصوص کرتی ہیں ۔اس جگہ کسی کو بیٹھنے نہیں دیتی ہیں ۔اس (ماں ، بہن یا بیٹی ) کے آنے تک وہ جگہ مسلسل خالی رہتی ہے۔

یہ معاملہ اس حد تک ہوتا ہے کہ پوری مسجد کی جگہیں تقسیم ہوتی ہیں ۔ یہ معاملات اس سے بھی بڑھ کر یہاں تک کہ پہنچ جاتا ہے کہ ہر کوئی اپنی جائے نماز لے آتی ہے ۔

حالانکہ اس کے برعکس نبی کریم ﷺ نے کسی کے لیے جگہیں مخصوص نہیں کی ہیں بلکہ نبی کریم ﷺ نے مطلق طور پر مسجد کی طرف جلدی آنے کی ترغیب دلائی ہے ۔پہلی صف میں شامل ہونے پر اُبھارا ہے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : « لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ، وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لَاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الْعَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا «.(صحيح البخاري : 615)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے اور نماز پہلی صف میں پڑھنے سے کتنا ثواب ملتا ہے۔پھر ان کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہ باقی رہتا،تو البتہ اس پر قرعہ اندازی ہی کرتے اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا ثواب ملتا ہے تو اس کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے۔اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ عشاء اور صبح کی نماز کا ثواب کتنا ملتا ہے،تو ضرور چوتڑوں (سرین)کے بل گھسیٹتے ہوئے ان کے لیے آتے۔

 اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ جگہ مخصوص کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر جگہ مخصوص کرنا جائز ہوتا تو ہر کوئی جگہ مخصوص کرلیتا قرعہ اندازی کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔بلکہ جو پہلے آئے وہ ہی پہلی صف اور امام کے قریب ہونے کا زیادہ حقدار ہے ۔

7: صف بندی کا درست اہتمام نہ کرنا :

عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَوُّوا صُفُوفَكُمْ ؛ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ.(صحيح البخاري : 723)

 عورتوں میں اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ صف بندی کا صحیح اہتمام نہیں کرتی بلکہ بغیر صف درست کیے ہوئے کھڑی ہوجاتی ہیں ۔ صف بندی کا اہتمام لازمی کرناچاہیے کیونکہ یہ نماز کی تکمیل میں سے ہے ۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صفیں برابر رکھو کیوں کہ صفوں کا برابر رکھنا نماز کے قائم کرنے میں داخل ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَلَّ وَعَزَّ؟ قُلْنَا: وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهِمْ؟ قَالَ : يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْمُقَدَّمَةَ، وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ.(سنن ابي داود : 661)

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تم صفیں ویسے کیوں نہیں بناتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے ہاں بناتے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا: فرشتے اپنے رب کے ہاں کیسے صفیں بناتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’وہ پہلے ابتدائی صفیں مکمل کرتے ہیں اور آپس میں جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘ (ان کے مابین کوئی خلا نہیں رہتا)۔

8: نماز تروایح میں قرآن کا نسخہ اٹھانا :

بعض عورتوں کا امام کے پیچھے قرآن پاک اٹھانا تاکہ قراءت سن سکیں۔علماء کرام نے صرف سامع کیلئے اجازت دی ہے کہ وہ ضرورت کے وقت امام کو لقمہ دینے کے لیے قرآن اٹھا سکتا ہے۔لیکن ہر ایک نمازی دوران نماز قرآن نہ اٹھائے کیونکہ اس سے نماز کی کئی سنتیں رہ جاتی ہیں مثلاً:

1:نمازی کی سجدے کی جگہ سے نظر ہٹ جاتی ہے ۔

2:دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر نہیں رہتا ۔

3:خشوع و خضوع میں بھی کمی آجاتی ہے ۔

اس لئے بہتر یہی ہے کہ دوران نماز قرآن نہ اٹھایا جائے۔

یہ چند تنبیہات لکھیں ہیں ، اخیراً اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مسجدوں کا ادب واحترام ملحوظ رکھتے ہوئے نماز ادا کرنے کی توفیق فرمائے۔ وبیدہ التوفیق

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے