بین القبائل شادی كا رواج عربوں میں همیشه سے چلا آرها هے اور ان میں اكثر وبیشتر كفائت یعنی سماجی برابری كا خیال بھی ركھا جاتاتھا۔ انساب عرب كی كتابوں میں خاص كراور سیر وتواریخ میں عام طور پر عربوں كے مابین قبائلی ازدواجی تعلقات كا ذكر بڑی كثرت سے ملتاهے اگر ان بین قبائلی ازدواجی روابط كا تحقیقی تجزیه كیا جائے تو عرب معاشرت كا ایك سنهری پهلو سامنے آجائے گا۔ اسی سلسله كی اهم كڑی همارا موجوده مطالعه هے۔ جس میں قریش مكه دو عظیم ترین خاندانوں بنوهاشم اور بنو امیه كے درمیان ازدواجی تعلقات كا مفصل تحقیقی تجزیه پیش كیا جارهاهے۔ یه مطالعه اس وجه سے بڑی اهمیت كا حامل هوگیا هے كه ان دونوں خاندانوں كے درمیان خاندانی یا قبائلی رقابت كی كهانی شهرت عام هے۔ جس كے تاریخی پس منظر كے بارے میں پهلے لكھا جا چكاهے۔ اس مفروضه خاندانی دشمنی كی دھند میں یه حقیقت چھپ گئی هے كه یه دونوں ایك دوسرے كے عم زاد خاندان تھے۔ لهذا ان دونوں میں ازدواجی روابط كا قائم هونا غیر منطقی یا باعث حیرت نهیں هونا چاهیے كیونكه عرب سماج میں’’بنت عم‘‘ كو جو رومانی درجه حاصل هے وه كسی اور كو نهیں ملا۔

بهر حال! همارے موجوده مزعومات اور دل پسند رجحانات كے خلاف ان دونوں قریشی خاندانوں میں ازدواجی تعلقات تاریخ اسلام كے هر دور میں قائم هوئے آئنده صفحات میں ان كی كم وبیش تین سو ساله تاریخ كا ایك تنقیدی جائزه ملے گا۔ بنو هاشم اور بنو امیه كے درمیان ازدواجی روابط كا آغاز عهد جاهلیت میں تقریباً چھٹی صدی عیسوی كے وسط سے هوا اور عهد عباسی كے عهد زریں تك یعنی نویں صدی عیسوی كے وسط تك برابر اس كی مثالیں ملتی رهیں۔ موجوده مطالعه میں اس طرح اسلامی معاشرتی تاریخ كے پانچ ادوار عهد جاهلیت ، عهد نبوی ، خلافت راشده، بنی امیه اور دولت بنی عباس میں ان دونوں خاندانوں كے درمیان قائم هونے والے ازدواجی روابط كی تاریخی تحقیق هے جو بهت اهم دلچسپ اور فكر انگیز هے۔

عهد جاهلیت :

هاشم بن عبد مناف (تقریبا ۱۰۲۔۱۴۷قبل هجری مطابق ۸۴۰۔۵۲۴ عیسوی) اور بنوامیه كے جد امجد عبد شمس (تقریباً ۱۰۵۔۱۵۵ھ مطابق ۴۷۶۔ ۵۶۷ عیسوی ) كے فرزندوں اور دختروں میں كوئی ازدواجی تعلق نهیں هوا تھا (زبیری كتاب نسب قریش، مرتبه لیفی بروفنال ، مصر ۱۹۵۳ءص۱۵،۱۷،۹۷) البته بعد كی پیڑھی میں اس كا پهلا ثبوت ملتاهے۔

عبد المطلب كی بڑی صاحبزادی ام حكیم بیضاء كا عقد اموی خاندان كے ایك ممتاز فرد كرزبن ربیعه سے هوا تھا (زبیری ، ص۱۸) عبد المطلب كی دوسری بیٹی سیده صفیه كا پهلا عقد حرب بن امیه كے بیٹے حارث سے هوا تھا۔(ابن سعد الطبقات الكبری بیروت ۱۹۵۸ء هشتم ص ۴۵) عبد المطلب كی تیسری بیٹی امیمه كا عقد اموی خاندان كے ایك حلیف جحش بن رئاب اسدی سے هوا تھا۔ (زبیری ص ۹۱) یهاں یه امر ملحوظ هے كه عرب كے قبائلی سماج میں حلیف اسی خاندان كا ركن شمار هوتا تھا۔ عبد المطلب كے ایك صاحبزادے ابو لهب كا عقد حرب بن امیه كی بیٹی ام جمیل سے هوا تھا۔( زبیری ص ۸۹) نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام سے قبل اپنی صاحبزادی سیده زینب كا عقد ابو العاص اموی سے كیا۔ (ابن سعد هشتم ۲۶۔۳۰)

عهد نبوی :

نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم كی دوسری بیٹی سیده رقیه كا دوسرا عقد سیدنا عثمان بن عفان اموی كے ساتھ هوا ( زبیری ص ۲۲) سیده رقیه كے انتقال كے بعد رسول اللهصلی اللہ علیہ و سلم كی ایك اور بیٹی سیده ام كلثوم بھی سیدنا عثمان بن عفان كے حباله نكاح میں آئیں۔(ابن سعد ص۳۸) خود رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم كی ایك شادی ابو سفیان بن حرب اموی كی صاحبزادی سیده ام حبیبه سے هوئی۔ (طبری دوم ۱۵۳۔۱۵۴) بنو هاشم كے ایك اور فرد حارث بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب نے ابو سفیان كی دوسری دختر هند سے عقد كیا تھا۔( احمد بن یحیی بلا ذری،انساب الاشراف ، مرتبه محمد حمید الله قاهره ۱۹۵۹ء اول ۴۴۰) سیدنا علی رضی الله عنه كے بڑے بھائی عقیل بن ابی طالب هاشمی كا عقد ولید بن عتبه بن ربیعه كی بیٹی فاطمه سے هوا تھا۔ ( واقدی، كتاب المغازی ، مارسدن جونس ، آكسفورڈ ۱۹۶۶ء ص ۹۱۸)۔

سیدنا زید بن حارثه مولی رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم كا نكاح خاندان بنو امیه كی ایك معزز خاتون ام كلثوم بنت عتبه بن ابی معیط اموی سے هوا۔ ( ابن سعد هشتم ص ۲۳۰) عهد نبوی میں هاشمی اور اموی خاندانوں كے درمیان ازدواجی روابط كا مزید ذكر هماری متداول ودستیاب كتب تاریخ وسیر وانساب میں اب تك نهیں مل سكا۔ لیكن اس سے یه مطلب نكالنا قطعی غلط هوگا كه مذكوره بالا رشتے هی تھے جو ان دونوں قریشی خاندانوں كے درمیان قائم هوئے تھے اس لیے كه نه جانے ایسے كتنے هی رشتے هوں گے جو دونوں میں استوار هوئے هوں گے لیكن ان كا هم كو علم نهیں هوسكا۔

عهد خلافت راشده :

اس عهد میں ان دونوں خاندانوں كے درمیان ازدواجی تعلقات سب سے كم قائم هوتے نظر آئے هیں۔ پورے تیس ساله عرصه میں اگرچه دو چار ازدواجی رشتوں كا پته چلتاهے لیكن عددی اعتبار سے كم هونے كے باوجود یه سماجی اور تاریخی اعتبار سے بڑی اهمیت كے حامل هیں یه عجیب وغریب دلچسپ حقیقت هے كه یه تمام رشتے سیدنا علی رضی الله عنه كے خاندان كے افراد سے هوئے تھے۔

سیدنا عقیل بن ابی طالب كا ایك عقد ان كی پهلی بیوی فاطمه بنت ولید بن عتبه بن ربیعه كی هم نام پھوپھی فاطمه بنت عتبه سے هوا تھا۔( ابن سعد چهارم ص ۲۳)۔

سیدنا علی رضی الله عنه نے ابو العاص بن ربیع اموی كی ایك صاحبزادی امامه (جو سیده زینت بنت رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم كے بطن سے تھیں) سے شادی كرلی تھی۔ (زبیری ص۲۲)۔ سیدنا حسین رضی الله عنه كی ایك شادی سیدنا ابو سفیان اموی كی بیٹی میمونه كی صاحبزادی آمنه یا لیلیٰ بنت ابی مرة ثقفی سے هوئی تھی۔ (زبیر ی ۱۵۷ اور ۱۲۶)

عهد اموی :

بڑی دلچسپ اور فكر انگیز تاریخی حقیقت هے كه اس عهد میں (جو كه ان دونوں خاندانوں كے بعض اهم افراد كے درمیان سخت سیاسی آویزش كا زمانه تھا) اتنی كثرت اور تیزی سے ان دونوں خاندانوں كے درمیان ازدواجی رشتے استوار هوئے كه نه اس سے پهلے كبھی هوئے اور نه اس كے بعد۔ یه بات اسی جگه واضح هوجاتی هے كه سیاسی سطح پر بنو هاشم اور بنو امیه كے كچھ افراد میں سیاسی كشمكش ضرور تھی مگر یه كوئی خاندانی رقابت وكشمكش كا معامله نه تھا۔

اس عهد میں كیونكه یه دونوں خاندان كا فی پھیل گئے تھے اور بجائے خود قبیلے بن گئے تھے اس لیے مناسب معلوم هوتاهے كه بنو هاشم كے الگ الگ خاندانوں سے بنو امیه كے ازدواجی روابط كا ذكر كیاجائے۔

حارثی خانواده :

مغیرہ بن نو فل بن حارث نے سیدنا علی كے انتقال كے بعد ان كی ایك اهلیه امامه بنت ابی العاص اموی سے نكاح كیا۔ ( بلا ذری اول ص۴۰۰)

عبد الرحمان بن عباس بن ربیعه بن حارث نے زیاد بن ابی سفیان اموی كی بیٹی جویریه سے شادی كی۔ (بلاذری چهارم ب ص۷۵) اسی حارثی خانواده كی ایك دختر ام كلثوم بنت محمد بن ربیعه بن حارث بنو امیه كے یحیی بن حكم بن ابی العاس سے منسوب هوئی تھیں۔

(زبیری ص۱۷۱)

سیدنا علی كا خانواده (سیدنا علی كی اولاد):

سیدنا علی كی ایك صاحبزادی رمله بنت علی كی دوسری شادی معاویه بن مروان بن حكم بن عاص اموی سے هوئی۔ (زبیری ص ۴۵) سیدنا علی كی دوسری صاحبزادی خدیجه كی دوسری شادی بنو امیه كے خاندان بنو حبیب بن عبد شمس كے ایك اهم فرد ابو السنابل عبد الرحمان بن عبد الله سے هوئی تھی۔ (ابن حزم ، جمهرة انساب العرب مرتبه لیفی بروفنال قاهره ۱۹۴۸ء ص ۶۸)

غالبا بنات علی میں سب سے اهم رشته سیدنا علی كی ایك گمنام صاحبزادی كا هوا تھا جو مشهور اموی خلیفه عبد الملك بن مروان سے منسوب هوئی تھیں۔ (طبری ششم ص ۴۲)

حسنی خانواده :

سیدنا حسن بن علی كی پوتی ام القاسم بنت حسن بن علی كا نكاح سیدنا عثمان كے پوتے مروان بن ابان سے هوا تھا۔ (زبیری ص ۵۳) سیدنا حسن كی ایك اور پوتی زینب بنت حسن بن حسن كا نكاح مشهور اموی خلیفه ولید بن عبد الملك سے هوا تھا۔( ابن سعد پنجم ص ۳۱۹) انهی زینب بنت حسن هاشمی نے بعد میں ولید كے چچا معاویه بن مروان سے شادی كرلی تھی۔ ( جمهره ۱۰۰۔۸۰) سیدنا حسن كے ایك پوتے ابراهیم بن عبد الله بن حسن كا عقد سیدنا عثمان كی سگی پوتی رقیه صغریٰ بنت محمد دیباج الاصغر بن عبد الله بن عمر بن عثمان بن عفان سے هوا تھا۔ (بلاذری پنجم ص۱۱۱) سیدنا حسن كی ایك اور پوتی نفیسه بنت زید بن حسن كی شادی ان كے والد محترم زید هاشمی نے مشهور اموی خلیفه ولید بن عبد الملك بن مروان سے اس كے عهد خلافت كے دوران كی تھی۔ (زبیری ص ۳۲)

سیدنا حسن كی ایك پڑ پوتی فاطمه بنت محمد بن حسن بن حسن كی شادی عبد الملك بن مروان كےایك غیر معروف بیٹے ابوبكر سے هوئی تھی۔ (زبیری، ص۵۳) سیدنا حسن كی پوتی خدیجه بنت حسین بن حسن كا عقد اسماعیل بن عبد الملك بن حارث بن حكم بن ابی العاص سے هوا تھا۔ (جمهره ص ۱۰۰) سیدنا حسن كی ایك اور پوتی حمادة بنت حسن بن حسن كا عقد انهی اسماعیل سے هوا تھا۔ (جمهره ص ۱۰۰) سیدنا حسن كی ایك اور پڑ پوتی ام كلثوم بنت حسین بن حسن بن علی كا عقد بعد میں انهی اسماعیل سے هوا تھا۔ (زبیری ص ۱۷۱)

اس طرح تاریخ كے آئینے میں هم دیكھتے هیں كه خاندان حسنی نے بنو امیه كے مختلف خانوادوں سے ازدواجی روابط قائم كئے تھے اور یه روابط یك طرفه نهیں بلکہ دو طرفه تھے۔ یعنی حسنی دختران گرامی اموی فرزندوں سے منسوب تھیں اور اموی صاحبزادیاں حسنی سادات كے ازدواج میں تھیں اگرچه دونوں كے فیصد، تناسب اور توازن میں فرق تھا۔

حسینی خانواده :

سیدنا حسین رضی الله عنه كے صاحبزادوں میں سے كسی كی كوئی بھی شادی بنو امیه میں نهیں هوئی البته دختران حسین میں سے كوئی نه كوئی شادی اموی خاندان میں ضرور هوئی۔ اسے اتفاق كهیے ایك دلچسپ تاریخی حقیقت كه حسینی خانواده كی پهلی پیڑھی كے بعض افراد نے امویوں سے رشته ازدواج قائم كرلیا تھا۔ جبكه حسنی خانواده كے بنو امیه سے تعلقات ازدواجی دوسری پیڑھی سے قائم هونا شروع هوئے تھے۔ اسلامی تاریخ كے سیاسی پس منظر میں خود سیدنا حسین رضی الله عنه كی دختروں كا اس طرح اپنے والد محترم كے سیاسی حریفوں كے خاندان كے افراد سے ایسے نازك سماجی رشتے قائم كرنا بجائے خود اس بات كی دلیل هے كه سیدنا عثمان شهید رضی الله عنه كے بعد كی آویزش اور كربلا كا المیه عظیم دونوں خاندانوں كی قبائلی رقابت یا جماعتی عصبیت كا المناك نتیجه نهیں تھا بلكه یه افراد كا سیاسی اختلاف تھا جو ان كے اپنے زمانے كے بعض ناخوشگوارتاریخی واقعات كا زائیده تھا۔

سیدنا حسین رضی الله عنه كی بڑی صاحبزادی سكینه نے یكے بعد دیگر چھ مردوں سے شادی كی تھی ان چھ میں سے ایك اصبغ بن عبد العزیز بن مروان اموی تھے( زبیری ص ۵۹) اصبغ اموی كے انتقال كے كچھ دنوں بعد سكینه كی شادی سیدنا عثمان كے پوتے زید بن عمرو سے هوئی تھی۔ (زبیری ص ۵۹) سیدنا حسین كی دوسری صاحبزادی فاطمه بنت حسین كی شادی سیدنا عثمان كے پوتے عبد الله بن عمرو سے هوئی تھی۔( ۵۱،۵۲،۵۹)

سیدنا حسین رضی الله عنه كے ایك پڑ پوتے حسن بن حسین بن علی زین العابدین نے سعید بن عاص اموی كی پڑپوتی خلیده بنت مروان بن عتبه سے شادی كی تھی۔ (زبیری ص ۷۴) ایك اور پڑپوتے اسحاق بن عبد الله بن علی زین العابدین نے سیدنا عثمان رضی الله عنه كی پڑپوتی عائشه بنت عمر بن عاصم سے عقد كیا تھا۔ (زبیری ص۶۰)

علوي خانوادے:

سیدنا علی رضی الله عنه كا خاندان سیدنا حسین كے علاوه ان كے تین اور فرزندان گرامی سے بھی چلا تھا جو ماں كی طرف سے خاندان هاشمی سے تعلق نه ركھتے تھے۔ اس لیے وه سب علوی كهلائے۔اگرچه سیدنا علی رضی الله عنه كے ان صاحبزادوں كو سیدنا حسین كی طرح وه مقام حاصل نهیں هے جو خاندان رسول كو حاصل هے۔ تاهم ان كا اصلاً حسباً نسباً هاشمی هونے كی بدولت ایك مقام هے۔

مؤرخین اور ماهرین انساب نے حسنی اور حسینی خانوادوں كے مقابلے میں علوی خاندانوں پر كم توجه دی هے اس لیے ان كے بارے میں كم معلومات مل سكیں تاهم جو كچھ مل سكا پیش كیا جارهاهے۔

سیدنا علی كے صاحبزادے محمد بن حنفیه كی پوتی لبابه بن عبد الله نے بنو امیه كے مشهور سعیدی خاندان كے ایك فرد سعید بن عبد الله بن عمر ابن سعید بن عاص بن امیه سے شادی كی تھی۔ (زبیری ص ۷۶) سیدنا علی رضی الله عنه كے ایك اور صاحبزادے عباس بن الكلابیه كی ایك پوتی نفیسه بنت عبید الله بن عباس نے اموی خلیفه یزید بن معاویه رضی الله عنه كے ایك پوتے عبد الله بن خالد سے شادی كی تھی۔ (زبیری ص ۷۹)

یه رشته حادثه كربلا كے پس منظر میں تاریخی لحاظ سے بهت اهمیت ركھتاهے۔ كیونكه یه وهی عباس بن علی تھے۔ جو اپنے علاتی بھائی سیدناحسین بن علی هاشمی رضی اللہ عنہما كے ساتھ کارزار كربلا میں شریك غمگساری تھے۔ ان كے ساتھ ان كے تین سگے بھائی عثمان ،جعفر اور عبد الله (سیدنا علی كے كلابی بیوی سے فرزند) بھی شریك معركه جانثاری تھے۔

اس پس منظر میں كیا یه حیرت انگیز اور اپنی جگه اهم بات نهیں كه انهی عباس علوی كے فرزند عبید الله علوی نے جو اپنے باپ كے وارث اپنے دو چچا محمد بن الحنفیه اور عمر بن التغلبیه كی حیات میں بن گئے تھے۔ (زبیر ص ۴۳) اپنی دختر كی شادي اس اموي خليفه كے پوتے سے كردی تھی جس كے عهد میں ان كے باپ اور تین چچا قتل كردیئے گئے تھے۔ مؤرخین اور ماهرین انساب نے سیدنا علی رضی الله عنه كے پانچویں فرزند عمر بن التغلبیه كے كئی فرزندوں اور صاحبزادیوں كا ذكر ضرور كیا هے۔ (زبیری ص ۸۰ جمهره ص ۶۰)تاهم ان میں سے كسی كی بھی بنی امیه میں شادی كا حواله نهیں دیا هے۔

اس مجموعی تجزیے سے معلوم هوتاهے كه ان پانچ فرزندوں میں سے چار كے گھرانے میں بنو امیه كے مختلف خاندانوں نے ازدواجی روابط قائم كیے هیں۔ جن میں عثمانی ، سفیانی اور مروانی خانوادے بھی شامل تھے۔ جس كے حسنی، حسینی اور علوی خانوادوں سے ازدواجی روابط بوجودخاص بهت اهمیت هیں۔

جعفری خانواده :

سیدنا جعفر طیار رضی الله عنه كی ایك پوتی ام محمد بنت عبد الله نے سب سے بدنام خلیفه یزید بن معاویه سے شادی كی تھی۔ (زبیری ص ۸۲) سیدنا جعفر كی ایك اور پوتی ام كلثوم بنت عبد الله نے عبد الملك اموی اور ولید بن عبد الملك كے مشهور وبدنام والی حجاج بن یوسف سے نكاح كیا تھا۔ ( بلا ذری پنجم ص ۱۲۰) انهی ام كلثوم نے بعد میں ابان بن عثمان سے نكاح كیا تھا۔ (بلاذری پنجم ص ۱۳) سیدنا جعفر كی تیسری پوتی ام ابیها بنت عبد الله نے عبد الملك بن مروان سے اس كے عهد خلافت میں شادی كی تھی۔ ( ابن قتیبہ ، المعارف ص ۲۰۷) سیدنا جعفر كی چوتھی پوتی رمله بنت محمد نے پهلی شادی سلیمان بن هشام بن عبد الملك اموی سے كی تھی۔ (كتاب المحبر ص ۴۴۹) انهیں رمله بنت محمد كی دوسری شادی سفیانی گھرانے كے ایك فراد ابو القاسم بن والید بن عتبه بن ابی سفیان اموی سے هوئی تھی۔ ( كتاب المحبر ص ۴۴۰)

جعفری خانواده كی ایك اور دختر جو سیدنا جعفر رضی الله عنه كی سگڑ پوتی تھیں۔ ربیحه بنت محمد بن علی بن عبد الله كی پهلی شادی یزید بن ولید بن یزید بن عبد الملك بن مروان سے هوئی تھی۔ ( كتاب المحبرص ۴۴۰) انهی ربیحه كی دوسری شادی بكابن عبد الملك بن مروان اموی سے هوئی تھی۔( كتاب المحبر ص ۴۴۰) جعفری خانوادے كی ان سات شادیوں كی ایك خاص تاریخی اهمیت اس لیے هے كه واقعه كربلا كو گزرے ابھی كچھ خاص مدت نه هوئی تھی كه یہ شادیاں منعقد هوئیں۔

عباسی خانواده :

سیدنا عباس رضی الله عنه كی پوتی لبابه بنت عبید الله كی ایك شادی سیدنا ابو سفیان كے ایك پوتے ولید بن عتبه سے هوئی جو یزید كے عم زاد بھائی اور اس كے عهد میں مكه اور مدینه میں گورنر تھے۔ (زبیری ص ۳۲)

دوسری شادی هاشمی خانوادوں كی مانند عباسی خانوادہ كی ایك دختر كا واقعه كربلا كے فوراً بعد یزید اموی كے عم زاد اور اس كے ایك گورنر سے شادی كرنا جبكه ان كے پهلے شوهر (عباسی علوی) اور ان كے ایك بیٹے واقعه كربلا میں سیدنا حسین كی جانب سے لڑتے هوئے شهید هوچكے تھے كافی اهم تاریخی حقیقت هے انهی لبابه كی بهن میمونه نے ابو السنابل عبد الرحمان اموی سے شادی كی تھی۔ (زبیری ص ۳۲) مشهور صحابی رسول سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنهما كی ایك پوتی ریطه بنت عبید الله كی شادی مشهور اموی خلیفه عبد الملك بن مروان كے بیٹے عبد الله اموی سے هوئی تھی۔ (زبیری ص ۳۰) محمد بن ابراهیم بن علی بن عبد الله بن عباس هاشمی نے سیدنا عثمان كی ایك پڑ پوتی رقیه صغریٰ بنت محمد الدیباج بن عمرو سے شادی كی تھی۔(زبیری ص ۱۱۷)

یه هے عهد اموی كے دوران بنو هاشم اور بنو امیه كے درمیان ازدواجی روابط كی دلچسپ ، اهم اور مفصل تاریخ۔ اتنے وسیع تعلقات كے بارے میں بلا خوف تردید كهاجاسكتاهے كه وه نه تو سیاسی، سماجی اور معاشی دباؤ كے تحت قائم هوئے تھے نه بے انصافی، ظلم یا جور كے ڈنڈے كے زور سے ……

چند معاملات میں تو سیاسی مصالح ، وقتی ضرورت یا كسی نوع كی سیاست كارفرما هوسكتی هے لیكن اتنے كثیر اور گوناگوں ازدواجی روابط كی اساس صرف ایك هوسكتی تھی اور تھی وه اساس تھی ’’ دونوں قریشی خاندانوں كے درمیان باهمی مفاهمت ،آپس میں سماجی لحاظ سے هم مرتبه اور كفو هونے كا شعور اور خون كے رشته سے پیدا هونے والی مهر ومحبت‘‘۔ یه درخت اس قدر طاقتور تھا اور اس كی جڑیں زمین میں اتنی گهری پیوست تھیں كه دولت بنی امیه كے اواخر اور آغاز دولت بنی عباس میں بنو هاشم اور بنو امیه كے سیاسی رقابت كی زبردست آندھی میں وه اپنی جگه كھڑا هی نهیں رها بلكه برگ وبار بھی لاتا رها۔

عهد عباسی:

یه عجیب تاریخی حقیقت هے كه عباسی انقلاب كے جلو میں آنے والی حشر سامانیوں، نفرتوں اور كدورتوں كے نتیجه میں اموی خون كے دھارے بهنے ابھی پوری طرح بند نهیں هوئے تھے كه هاشمی اور اموی خاندانوں كی فطری محبت والفت كے سوتے ابلنے شروع هوگئے۔ دوسرے عباسی خلیفه ابو جعفر عبد الله المنصور نے اپنی خلافت كے دوران كسی وقت خاندان بنو امیه سے عهد عباسی كی پهلی شادی بنفس نفیس۔كی بیوی كا نام تھا عالیه بنت عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن عبد الله بن خالد بن اسید اموی (بلاذری چهارم ب ص ۱۶۹)۔ منصور كی ایك اور اموی خاتون سے شادی كا ذكر ابن حزم نے كیا هے لیكن ان كا نام ذكر نهیں كیا۔(جمہره ص ۱۹) اسی اموی خاتون كی ایك بهن سے منصور نے اپنے بیٹے جعفر كا عقد كیا تھا۔ (جمره ص ۱۹) طبری كے ایك بیان سے معلوم هوتاهے كه جعفر كی ایك دختر عالیه كی والده بھی اموی تھیں (طبری هشتم ۱۰۲) غالباً یه كوئی اور اموی خاتون رهی هوں گی۔ اس لیے ماهرین انساب ان خواتین كے ساتھ اولادوں كا بھی ذكر كرتے هیں اور یه نام وهاں نهیں ملتا ….. یعنی منصور نے اپنے دوران خلافت چار شادیاں بنو امیه میں كی تھیں اور یه ایك بڑی تاریخی حقیقت هے كه ابھی نهایت پر آشوب دورکوگزرے كچھ زیاده زمانه نه هوا تھا۔

منصور كے فرزند اور عباسی خانواده كے تیسرے خلیفه محمد المهدی نے سیدنا عثمان كے خانواده كی ایك دختر رقیه بنت عمر و بن خالد بن عبد الله نے عمر و بن عثمان اموی سے ۶۶۰ھ میں شادی كی تھی (طبری هشتم ص ۱۳) انهیں رقیه سے بعد میں علی بن حسین بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب نے عقد كرلیا تھا۔ ( طبری هشتم ص ۲۱۹) مشهور عالمی خلیفه هارون رشید نے ایك عثمانی اموی خاتون عائشه بنت عبد الله سے شادی كی۔( زبیری ص ۱۱۰) هارون رشید كی وفات كے بعد ان كے بھائی منصور بن مهدی نے اسی عائشه بنت عبد الله سے شادی كر لی تھی۔ (زبیری ص ۱۱۹)

ابن حزم كا بیان هے كه ان كے بعد منصور بن مهدی نے ان كی پھوپھی سے شادی كرلی تھی۔(جمہره ص۷۷) ممكن هے كه عهد عباسی میں ان دونوں خاندانوں كے افراد نے آپس میں مزید شادیاں كی هوں لیكن همیں اس سلسله میں مزید معلومات نهیں هوسكی هیں۔ خیال یه هوتاهے كه اس عهد میں خاص كر عهد متوكل كے بعد سے مؤرخین كی ساری توجه اندرونی سازشوں ‘ ریشه دوانیوں اور سیاسی افراتفری پررهی كه یهی ان كی دلچسپی كا محور تھا اور اس وجه سے دیگر پهلو چھپ گئے۔

آخر میں ان دونوں خاندانوں كے ازدواجی روابط كا ایك مجموعی جائزه لینا ضروری هے اس سے مختلف ادوار كے سیاسی وسماجی پهلوؤں كا تجزیه كرنے كا موقع ملے گا۔ تاریخی ترتیب كے مطابق ان ازدواجی روابط كی ابتداء هاشم كے بیٹے عبد المطلب كے هاتھوں هوئی۔ جب انهوں نے اپنی بیٹی كی شادی حرب كے ایك بیٹے سے كی، پھر عهد جاهلیت میں بنو هاشم نے تین تین نسبتیں بنو امیه میں كیں(اور اگر ان كی ایك صاحبزادی كے بنوامیه كے حلیف سے عقد هونے كو شامل كر لیا جائے تو یه تعدادچار هوجاتی هے۔ یهی چاررشتے عهد جاهلیت میں هوئے تھے جن میں تین هاشمی دختریں بنو امیه میں گئی تھیں اور ایك اموی دختر بنو هاشم میں آئی تھی یعنی اس وقت تك بالكل مساوی سطح پر قرابت قائم نهیں هوئی تھی۔ عهد نبوی میں رشتوں كی تعداد بڑھ كر چھ هوگئی جن میں دونوں خاندانوں كی تین تین دختریں ایك دوسرے كے یهاں منسوب هوئیں اور اگر حضرت زید (مولائے رسول ) كی اموی بیوی سیده ام كلثوم كو شامل كرلیا جائے تو اموی دختروں كی تعداد چار هوجاتی هے۔

عهد خلافت راشده میں سب سے كم رشتے هوئے یعنی لیكن اگر بنظر انصاف دیكھاجائے تو یه رشتے اپنی اهمیت كے لحاظ سے كسی طرح كم نه تھے۔ جو دو براه راست رشتے هوئے تھے۔ ان میںایك سیدنا علی رضی الله عنه كا سیده امامه كے ساتھ اور دوسرا سیدنا علی رضی الله عنه كے بڑے بھائی سیدنا عقیل كا فاطمه بن عتبه كے ساتھ اور یه دونوں رشتے بهت اهم تھے۔ تیسرا رشته اگرچه براه راست بنو امیه سے نه تھا۔ لیكن اس لیے اهمت كا حامل تھا كه اس كی رو سے سیدنا حسین رضی الله عنه بنو امیه كے دامادلگتے تھے۔ اس زمانے كے تمام رشتوں كا سیدنا علی رضی الله عنه اور ان كے عزیزوںسے متعلق هونا اگر اتفاق هے تو بڑا هی اهم اور تاریخ ساز اتفاق هے۔ جس سے اس نظریه كی جڑ كٹتی هے كه اس عهد میں بنو امیه اور بنو هاشم خلافت كے مسئلے پر دو متصادم گروهوں میں بٹ گئے تھے۔ اموی دور خلافت میں سب سے زیاده ازدواجی روابط هوئے اس دور كے آغاز هی میں ان كی ابتداء هوگئی تھی۔ اپنے مخصوص تاریخی پس منظر میں اس عهد میں سیدنا علی كی تین دختروں كا بنو امیه سے روابط استوار كرنا بڑی اهمیت كا حامل هے۔ اسی طرح حسنی اور حسینی خانوادوں كا بنو امیه كے یهاں سے ازدواجی روابط كا دیگر هاشمی خانوادوں كے مقابلے میں زیاده قائم كرنا بڑی اهم تاریخ ساز حقیقت هے۔ اس لیے كه اس سے كچھ هی پهلے سیدنا معاویه سے بنو هاشم كے بڑے سنگین قسم كے اختلاف چل چكے تھے۔ پھر بیچ میں یزید بن معاویه سے بھی ایسے هی اختلافات هوئے جن میں سیدنا حسین كی شهادت بھی هوگئی تھی۔

بهر كیف ! ان صبر آزما اور جاں گسل اعداد وشمار كی مفصل بحث كا لب لباب یه هے كه بنو هاشم اور بنو امیه میں ازدواجی تعلقات هر دور میں قائم هوتے رهے۔چاهے ان كا تناسب هر خاندان كے اعتبار سے كچھ بھی كیوں نه رها هو ان دونوں عم زاد خاندانوں میں الفت ومحبت كے رشتے همیشه استوار هوتے رهے۔ رهی دونوں كی سیاسی آویزش تو انگریزی كا مشهور مقوله یادركھنا چاهیے كه ’’حكومت وحكمرانی رشته داری وقرابت نهیں جانتی۔‘‘

اللہم صل علی محمد وعلی اٰل محمدکما صلیت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے