نرمی اور بردباری

عقلمند انسان کی علامت یہ ہے کہ وہ ہر معاملے کو نرمی اور بردباری سے حل کرتا ہے، جبکہ بے وقوف انسان کی علامت یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں جلدبازی اور نادانی سے کام لیتا ہے۔

مثال مشہور ہے کہ ’’عقلمند سوچ کے کرتا ہے اور بے وقوف کرکے سوچتا ہے۔‘‘

نرمی کا تعلق‘ درگزرکرنے، معاف کرنے اور غصہ پر قابو پانے۔ اور بردباری کا تعلق‘ کسی بھی معاملے کو سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کر کے اختیار کرنے سے ہے۔ اور دونوں کا تعلق عقلمندی سے ہے۔

ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی دینِ اسلام کی تعلیمات ہمارے لئے روشنی کا مینار ہیں۔

َنرمی اور ُبرد باری!! انسانوں کی بھلائی کے یہ دو ایسے اوصافِ حمیدہ ہیں جن سے اللہ رب العزت بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی:

{ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْضَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ}

’’اور(متقی) غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیںاور اللہ ایسے ہی نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔‘‘(ال عمران:134)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک صحابی اشجع بن عبدالقیس رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ’’تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ بردباری اور سوچ سمجھ کر کام کرنا۔‘‘ (صحیح مسلم)

امُّ المؤمنین ، طاہرہ طیبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پیارے پیغمبر جنابِ محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ رفیق (نرمی کرنے والا) ہے اور ہر معاملے میں نرمی کرنے کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

مزید ارشادِ نبویصلی اللہ علیہ و سلم ہے:

’’بے شک اللہ تعالیٰ رفیق (نرمی کرنے والا) ہے ، نرمی کو پسند فرماتا ہے، نرمی پر جو کچھ عطا فرماتا ہے وہ سختی پر اور اس کے علاوہ کسی اور طریقے پر عطا نہیں فرماتا۔‘‘(صحیح مسلم)

ان دلائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نرمی اور بردباری جیسی اعلیٰ صفات اللہ تعالیٰ کو انتہائی محبوب ہیں اور ان صفات کے اعلیٰ اور محبوبِ الٰہی ہونے کے لئے اگرچہ یہی بات کافی ہے کہ یہ خود ربُّ العالمین کی اپنی صفات ہیں، لیکن اللہ احکم الحاکمین نے انہیں ہر معاملے میں اپنے بندوں میں بھی ازحد پسند فرمایا ہے اور ساتھ ہی اپنی بارگاہِ اقدس میں معاملات کی قبولیت کیلئے بھی ان صفات کو اوّلین ترجیح عطافرمائی ہے۔ لہٰذا ان صفات کا حامل انسان بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور مقبول ترین انسان ہوتا ہے۔

کوئی بھی انسان جو یہ چاہتا ہو کہ اس کے ہر معاملے کا حل بہترین ہو، اس کی ہر بات مقبولیت کے درجہ کو پہنچے اور اس کا ہر کام خوبصورت ہو تو اسے چاہئے وہ انہی دو صفات کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنالے۔

جنابِ خاتم النبیّین، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمانِ مبارک ہے:

’’بے شک جس معاملے میں بھی نرمی شامل ہوتی ہے تو وہ اسے زینت دار(خوبصورت) بنادیتی ہے اور جس معاملے سے نکال لی جاتی ہے اسے عیب دار بنادیتی ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم)

اس حدیث پر غور کریں‘ پیغمبرِ اسلام، نبیٔ مکرم، محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ و سلم ہر اس معاملے کی خوبصورتی اور زینت کی خبر دے رہے ہیں‘ جس میں نرمی شامل ہو۔ اور ہر اس معاملے کی بدصورتی اور بدنمائی کی بابت بتا رہے ہیں‘ جس میں نرمی شامل نہ ہو۔

ہمارے معاشرے میںعموماً دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں:ایک وہ جو اچھے اخلاق کے حامل، نرم گفتگو کرنے والے، سمجھداری کا مشورہ دینے والے اور خلوص کا اظہار کرنے والے ہیں۔ اور دوسرے وہ جوبد اخلاق، بدتمیز، چڑچڑے مزاج والے اور جان چھڑانے کیلئے غلط مشورہ دینے والے ہیں۔

ہر انسان دیکھے کہ وہ ان دونوں اقسام کے لوگوں میں سے کس کے پاس شوق اور محبت کے ساتھ جانا گوارا کرتا ہے؟ ظاهرہے بااخلاق، نرم خو، بردبار اور مخلص انسان کے پاس۔

ذرا سوچیں‘ انہیں کن چیزوں نے لوگوں کا محبوب بنایا؟ خود ہی جواب ملے گا کہ ان کی انہی اعلیٰ اور احسن صفات نے۔ بات کو مزید سمجھنے کیلئے ہم اسی مثال کو قرآن کریم سے بھی ذکر کرتے ہیں۔

اللہ ربُّ العزت نے قرآنِ مجید میں اپنے سب سے پیارے اور آخری رسول، امامِ کائنات ، محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایاہے:

{ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْکُنْتَ فَضًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ }

’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ(صلی اللہ علیہ و سلم ) ان (صحابہ رضی اللہ عنہم) پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، لہٰذا ان سے درگزر کریں، ان کیلئے استغفار کریں اور معاملات کا مشورہ ان سے کیا کریں۔‘‘(اٰل عمران:159)

اس آیت مبارکہ میں اللہ ربُّ العزت نے ہمارے لئے ہمارے ہی نبیصلی اللہ علیہ و سلم کی نرم دلی اور اعلیٰ اخلاق کی مثال بیان فرمائی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا آپصلی اللہ علیہ و سلم کے پاس انتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ بار بار تشریف لانا اور محوِ گفتگو ہونا بھی انہی صفات کے سبب بتایا ہے کہ اگر یہ صفات نہ ہوتیں تو یہ لوگ کبھی بھی آپصلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جمع نہ ہوتے، بلکہ آپصلی اللہ علیہ و سلم سے دور بھاگتے۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ کی ابتدا ء میں ایک اور انتہائی اہم سبق بھی دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب ہے، انسان کی ذاتی صلاحیت کا حصہ نہیں! لہٰذا جو انسان ان خصوصیات کا حامل ہے وہ سمجھ لے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے، اسے بغیر کسی تکبر اور غرور میں مبتلا ہوئے اپنے رب کا اور زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے۔ اور جو انسان ان خصوصیات سے محروم ہے اسے جان لینا چاہئے کہ وہ نہ صرف اللہ رب العالمین کی رحمت سے، بلکہ ہر خیر سے دور ہے۔ جیسا کہ حدیث میں رسول اللہصلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’جو شخص نرمی سے محروم کردیا گیا ‘ وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم کردیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم)

لہٰذا ایسے انسان کو اللہ تعالیٰ سے اپنی ذات میں ان صفات کے حصول کیلئے خصوصی دعا کرنی چاہئے۔

نرمی اور بردباری کا سب سے بڑا فائدہ:

بلاشبہ نرمی اور بردباری انتہائی نیک صفات ہیں، جبکہ بدمزاجی اور بے وقوفی انتہائی بری صفات ہیں۔ نیکی لوگوں کو قریب، جبکہ برائی دور کرتی ہے۔ نیکی دوست بناتی ہے اور برائی دشمن۔ لہٰذا نیکی کرکے لوگوں کو اپنا دوست بنایاجائے، برائی کرکے دشمن نہ بنایاجائے۔

انہی باتوں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میں یوں بیان فرمایا ہے:

{ وَلَاتَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَاالسَّیّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ   وَمَایُلَقّٰھَآ اِلَّاالَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَایُلَقّٰھَآ اِلَّاذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ }

’’نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتی، برائی کو نیکی کے ذریعے دفع کرو‘ تب وہ شخص جو تمہارا (بدترین) دشمن ہے‘ ایسے ہوجائے گا، جیسے وہ تمہارا انتہائی گہرا دوست ہو۔ اور یہ بات انہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جو صبر کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کو نصیب ہوتی ہے جو بڑی قسمت والے ہوتے ہیں۔‘‘ ( حم السجدہ: 34-35)

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ خالق و مالک نے گہرے دوست بنانے کا ایک انتہائی اہم اور مجرّب نسخہ تجویز فرمایا ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ برائی یا زیادتی کرے اور جہالت کا ثبوت دے تو اس کی ان برائیوں کا مقابلہ قرآنی حکم کے مطابق نیکی سے کریں۔ اس سے درگزر کریں، محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اجر و ثواب کے حصول کی خاطر اسے معاف کردیں اور اس کی جہالت کا مقابلہ اپنی اعلیٰ اخلاقی تعلیم سے کریں۔ اور اس شخص کی طرح نہ ہوجائیں‘ جو کسی راستے سے گزررہا تھا کہ وہاں کھڑے ایک گدھے نے اسے لات ماردی، اس آدمی نے پلٹ کر گدھے کو زور سے لات ماری اور غصے سے کہا کہ ’’کیا میں تجھ سے کم ہوں؟‘‘۔

جس طرح یہ چیز مناسب نہیں ہے، بالکل اسی طرح اپنے آپ کو ظالم کے مقابلے پر ظالم، بدتمیز کے مقابلے پر بدتمیز اور جاہل کے مقابلے پر جاہل بنانا بھی مناسب نہیں ہے۔ اگر دونوں ایک دوسرے سے یکساں سلوک کریں تو پھر دونوں میںفرق ہی کیا رہ جائےگا؟ لہٰذا ہر بری صفت کا مقابلہ اپنی نیک صفت سے کیا جائے کہ یہی اللہ احکم الحاکمین کا حکمِپاک بھی ہے:

{ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ }

’’درگزر سے کام لو، نیکی کا حکم کرو اور جاہلوں سے اعراض کرو۔‘‘ (الاعراف:199)

غُصّہ نیکی کا دشمن ہے:

غصہ ہر لحاظ سے انسان کیلئے نقصان دہ ہے۔ بعض اوقات انسان غصے کی حالت میں‘ نادانی اور جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دین کے معاملات میں بھی کچھ ایسے الفاظ کہہ دیتا ہے جو اس کے ایمان اور نیکیوں کو ضائع کردینے کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہی غصہ بہترین دوستوں کو بدترین دشمن بنادیتا ہے۔ اپنوں کو پرایا کردیتا ہے۔ اس لحاظ سے غصہ انسان کا بدترین دشمن ہے۔ لہٰذا غصے کو ہرگز اپنے قریب مت آنے دیجئے۔

نبی کریمصلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ و سلم ! مجھے کوئی نصیحت فرمایئے۔ آپصلی اللہ علیہ و سلم نے اسے نصیحت فرمائی کہ ’’غصہ مت کرو‘‘ ۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے کئی مرتبہ اپنی بات دہرائی کہ مجھے نصیحت کیجئے، آپصلی اللہ علیہ و سلم نے ہر بار اسے یہی نصیحت فرمائی کہ ’’غصہ مت کرو‘‘۔ (صحیح بخاری)

اگر کوئی انسان یہ سمجھتا ہے کہ غصے کے ذریعے وہ اپنی قوت کا اظہار کرتا اور اپنے طاقتور ہونے کا ثبوت دیتا ہے تو اس کی یہ سوچ سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔نبی کریمصلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے:

’’طاقتور وہ نہیں ہے جو(مدمقابل کو) پچھاڑ دے،بلکہ طاقتور (پہلوان) تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

دینِ اسلام میں جسمانی طاقت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ اصل طاقت نیکی کی طاقت ہے۔ اس لحاظ سے اسلام کی نظر میں اصل طاقتور وہ نہیں ہے‘ جو غصہ کے عالم میں مخالف کو زیر کرکے انتقام کا نشانہ بنائے، بلکہ اصل طاقتور وہ ہے‘ جو حق پر ہوتے ہوئے اور بدلہ لینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہوئے اپنے غصے اور جذبۂ انتقام پر قابو رکھے اور درگزر سے کام لے۔

اس بات کی شہادت قرآنِ مجید میں بھی موجود ہے۔

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

’’اور جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو بے شک یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘ (الشوریٰ :43)

نبیٔ آخر الز ّماںصلی اللہ علیہ و سلم کی مثال

’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمصلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کیا آپصلی اللہ علیہ و سلم پر (جنگ) اُحد سے بھی زیادہ کوئی سخت دن آیا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں نے تیری قوم سے بہت تکلیف اٹھائی ہے اور سب سے زیادہ تکلیف مجھے اس عقبہ والے دن پہنچی جب میں نے اپنے آپ کو (اسلام کی دعوت کیلئے) ابن عبد یا لیل بن عبد کلال پر پیش کیا۔ (جو طائف کا ایک بڑا سردار تھا) اس نے میری دعوت کو‘ جو میں چاہتا تھا‘ قبول نہیں کیا،تو میں وہاں سے سخت پریشان ہو کر نکلا۔ قرنِ ثعالب پر پہنچ کر مجھے کچھ افاقہ محسوس ہوا تو میں نے سر اٹھایا تو ناگہاں ایک بادل نے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو اس میں جبرئیل علیه السلام تھے، انہوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی وہ بات سن لی جو آپ نے ان سے کہی اور وہ بھی جو انہوں نے آپ کو جواب دیا، اللہ تعالیٰ نے آپصلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پہاڑوںپر مقرر فرشتہ بھیجا ہے، تاکہ آپ اسے ان لوگوں کی بابت جو چاہیں حکم دیں۔ ‘‘ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا۔ اور کہا: ’’اے محمدصلی اللہ علیہ و سلم ! بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی گفتگو‘ جو آپ سے ہوئی‘ سن لی اور میں پہاڑوں پر مقرر فرشتہ ہوں، مجھے میرے رب نے آپ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ آپ مجھے اپنے معاملے میں حکم دیں، پس آپ کیا چاہتے ہیں؟ اگر آپ چاہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں؟‘‘ تو نبی کریمصلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 🙁 ایسا نہ کرو) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ‘‘(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

اللہ کے ایک نبی کی مثال:

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں (اب بھی) گویا رسول اللہصلی اللہ علیہ و سلم کو انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، اس نبی علیہ السلام کو اس کی قوم نے مار مار کر لہو لہان کردیا تھا۔ وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ ’’اے اللہ! میری قوم کو معاف کردے، کیونکہ وہ لاعلم ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری )

ہمارا دین کس قدر اَعلیٰ و اَرفع تعلیمات اور مثالوں کا حسین ترین گلدستہ ہے، جس میں ہر لحظہ محبت و امن، نرمی و بردباری اور درگزر و معافی کا حکم دیا گیا ہے ۔اور ظلم و تشدد ، عدمِ برداشت اور بدلہ و انتقام کی سوچ کو غیر اسلامی کہا گیا ہے۔

 

 

لہٰذا آیئے!

اللہ رب العالمین کی طرف سے اس حسین ترین گلدستۂ اسلام کا تحفہ قبول فرمایئے!

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی طرف ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔

وماعلینا الا البلاغ المبین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے