(’’مختلف خود ساختہ نمازوں ‘‘کے عنوان سے جاری مضمون کی ایک اہم قسط)

اس بدعت پر ہم نے بدعات اور ان کا تعارف میں جرح کی تھی جس کا عنوان ’’شب برأت‘‘ تھا ۔ اس عنوان کے تحت شبِ برأت سے متعلق بدعات مثلاً حلوہ پکانا ، آتش بازی کرنا ، مساجد پر چراغاں اور ان میں نوافل کا اہتمام وغیرہ پر جرح و تنقید کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ یہ امور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں لیکن بعد میں چند کرم فرماؤں نے اس امر پر اعتراض کیا کہ قیام نصف شعبان کو بدعت نہیں لکھنا تھا اس لئے کہ احادیث ضعیفہ سے بہرحال ان کا ثبوت ملتا ہے اور ایسی صورت میں اس قیام کو بدعت نہیں کہا جا سکتا ۔ چنانچہ اس پر مزید وضاحتیں حسب توفیق الہٰی معترضین کی خدمت میںپیش کرتا ہوں :

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کیا عبادت میں احادیث ضعیفہ قابلِ عمل ہیں ؟ جیسا کہ معترضین نے احادیث ضعیفہ کی بنیاد پر قیام نصف شعبان کو بدعت تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ۔ اسی اعتراض پر عالم ربانی عبدالعزیز بن باز نے التحذیر من البدع میں بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ ’’عبادات میں ضعیف حدیث اس وقت قابل عمل ہوتی ہے جب صحیح دلائل سے اس کی اصل بنیاد (شرع سے) ثابت نہ ہو۔ یہ جلیل القدر قاعدہ شیخ الاسلام امام ابو العباس ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے‘‘۔ (صفحہ ۲۹ مترجم) میں امام ابن تیمیہ کے اس قاعدے کی روشنی میں معترضین

کی خدمت میں بصد ادب عرض کرتا ہوں کہ کیا وہ قیام نصف شعبان کو احادیث صحیحہ مرفوعہ کے دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں تاکہ شرع سے ہمیں اسکی اصل بنیاد مل جائے؟ فَاْتُوْا بُرْہَانَکُمْ ! پھر شیخ نے اسی کتاب میں لکھا ہے ’’اس شب کے بار ے میں ضعیف اور غیر معتبر روایات مروی ہیں اور اہل علم نے بتایا ہے کہ اس شب میںنماز پڑھنے کی فضیلت کے متعلق احادیث تمام کی تمام موضوع او رمن گھڑت ہیں‘‘۔ (صفحہ ۲۷،۲۸ مترجم) نیز اسی کتاب میں لکھا ہے ’’اس مسئلے کے بارے میں علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب لطائف المعارف میں فرمایا ہے کہ اسرائیلی روایات کی بناء پر اہل شام کے بعض تابعین خالد بن معدان ، مکحول ، لقمان بن عامر وغیرہم اس شب کی عظمت بیان کرتے اور عبادت کا اہتمام کرتے ، انہی سے دوسرے لوگوں نے حاصل کیا اور جب یہ چیز دوسرے شہروں میں مشہور ہو گئی تو اہل بصرہ وغیرہ کے بعض عابد و زاہد لوگوں نے اس کی موافقت کی اور اسے قبول کر لیا لیکن اکثر علمائے حجاز عطاء او رابن ابی ملیکہ اور فقہائے مدینہ منورہ اور اصحاب امام مالک رحمہ اللہ نے اسکی تردید کی ہے ا ور اسے بدعت قرار دیا ہے ۔

اس شب کو زندہ رکھنے کی کیفیت کے بارے میں علمائے اہل شام کے دو قول ہیں:

۔مساجد میں باجماعت نماز مستحب ہے ۔ خالد بن معدان، لقمان بن عامر وغیرہما اس شب میں بہترین کپڑے پہنتے ، خوشبو اور سرمہ لگاتے اور پوری رات قیام کرتے ۔ حرب کرمانی نے اپنے مسائل میں نقل کیا ہے کہ اسحق ابن راہویہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں ان کی موافقت کی ہے اور فرمایا کہ مساجد میں اس شب کا قیام بدعت نہیں ہے ۔

2

۔اہل شام کے عالم و فقیہ اور امام اوزاعی کا قول یہ ہے کہ نماز قصہ گوئی اور دعا کے لئے اس شب میں مسجدوں میں جمع ہونا مکروہ ہے اور تنہا نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے اور ان شاء اللہ یہی قول درست ہے ۔ اس شب کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کچھ منقول نہیں ہےشبِ عید الفطر و عید الاضحی کے قیام کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایات منقول ہیںاسی سے شبِ پندرھویں شعبان کے متعلق دو روایت کا استنباط کیاجا سکتا ہے ایک روایت میں اس شب کا قیام مستحب نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے منقول نہیں ہے او ردوسری روایت میں عبدالرحمن بن یزید الاسود تابعی کے فعل و عمل کی وجہ سے امام احمد رحمہ اللہ نے مستحب سمجھا ہے ۔ اسی طرح شعبان کی پندرھویں شب کے قیام کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں ہے ۔ اہل شام کے بڑے بڑے فقہاء و تابعین سے اس شب کے متعلق ثابت ہے‘‘۔ (التحذیر من البدع صفحہ ۳۳ مترجم استاذی محترم مولانا کرم الدین السلفی)

حافظ ابن رجب کے اس کلام سے درج ذیل امور ثابت ہوئے :۔

پندرھویں شب کا قیام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے قطعاً ثابت نہیں ہے ۔

2

پندرھویں شعبان کے قیام کی بدعت اہل شام نے نکالی ہے اور اس کی اصلی اسرائیلی روایات ہیں نہ کہ قرآن و حدیث۔

3

اس بدعت کا ارتکاب کرنے والے اور اپنانے والے صوفی عابد اور زاہد قسم کے لوگ تھے جبکہ علماء و فقہاء نے اس کی تردید کی اور اسے بدعت قرار دیا ۔

4

خالد بن معدان، مکحول، لقمان بن عامر، اسحق بن راہویہ، امام اوزاعی، عبدالرحمن بن یزید الاسود اور دیگر اہل شام سے اس شب کی عبادت ثابت ہے ۔ (پس صرف ان حضرات کا فعل ثبوت دلیل نہیں کہلا سکتا اس لئے کہ یہ غیر نبی ہیں ان کا فعل شرعاً حجت نہیں ہے)۔

اب سوال یہ ہے کہ جو عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے کیا اسے اس بنیاد پر عبادت تسلیم کر لیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے کہ وہ مذکورہ بالا بزرگ ہستیوں سے تو کم از کم ثابت ہے ؟ اگر معترضین ہاں کہتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ اس کے لئے شریعت سے دلیل پیش کرو جو کہ نص قطعی ہو ۔ اس لئے کہ یہ معاملہ ہمارے گھر کا نہیں بلکہ اللہ کے دین کاہے او رکان کھول کر سن لیجئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی شخص کو اس قسم کا اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ دنیا سے آپ کے چلے جانے کے بعد آپ کی شریعت میں عبادات و احکام وغیرہ کے اضافے کرے بلکہ آپ کا واضح فرمان ہے ’

’مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہٰذَا مَالَیْسَ مِنْہٗ فَہُوَ رَدٌّ‘‘ (متفق علیہ)

یعنی جس نے ہماری شریعت میں ایسی نئی چیز نکالی جو اس میں پہلے سے نہیں تھی تو وہ نئی بات مردود ہے لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ہر اس بدعت کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا جائے جو شریعت اسلامی کو مسخ کر رہی ہو اور پندرھویں شعبان کی یہ عبادت بھی اسی لائق ہے ۔

اسی شب سے متعلق امام ابو بکر طرطوشی نے لکھا ہے ’’ابنِ وضّاح رحمہ اللہ نے زید بن اسلم کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے مشائح و فقہاء میں کسی ایک کو بھی پندرھویں شعبان کی رات اور مکحول کے طر زعمل کی طرف توجہ کرتے ہوئے نہیں پایا ۔ اور وہ اس رات کو دوسری راتوں پر کوئی فضیلت نہیں دیتے تھے ۔ ابن ابی ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد نمیری کہتاہے کہ پندرھویں شعبان کی رات کا ثواب شب قدر کے برابر ہے ۔ اس نے کہا اگر میں اس کو سنتا اور میرے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تو میں اس کو ضرور مارتا کیونکہ زیاد قصہ گو تھا‘‘۔ (الحوادث والبدع بحوالہ التحذیر من البدع مترجم صفحہ ۳۴)

حافظ عراقی رحمہ اللہ نے فرمایا ’’شب نصف شعبان کی نماز کے بارے میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر من گھڑت ہے‘‘ ۔ نیز امام نووی رحمہ اللہ نے الجموع میں کہا ہے کہ صلوٰۃ الرغائب کی نمازِ مشہور جو رجب کی پہلی جمعرات کو بارہ رکعت مغرب و عشاء کے درمیان میں پڑھی جاتی ہے اور نصف شعبان میں سو رکعت کی نماز، بدترین بدعت ہیں‘‘۔ (بحوالہ التحذیر من البدع صفحہ۳۷)

علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ’’ابن العربی نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہاکو جو کہ شعبان کی نصف رات کو مطلقاً اس نماز کے بارے میں ہے ضعیف ہے جس کے الفاظ ہیں کہ بنو کلب کی بھیڑوں کے بالوں کے لوگ جہنم کی آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں ۔ (تذکرۃ الموضوعات ص۴۶) علامہ عینی حنفی نے لکھا ہے ’’البتہ وہ تمام احادیث جو کہ پندرھویں شعبان کی رات کی نمازوں سے متعلق روایات کی گئی ہیں تو ابو الخطاب بن دحیہ نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ سب من گھڑت یعنی موضوع ہیں ان میں ایک حدیثِ ترمذی بھی ہے جو دو مقامات سے منقطع ہے‘‘۔ (فتح الملہم شرح مسلم جلد سوم مترجم)

ملا علی قاری حنفی نے اپنی موضوعات کبیرمیںامام ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے جو موضوع روایات کے بارے میںہے ’’ان موضوع روایات میں پندرھویں شب شعبان کی نمازیں ہیں جیسے یہ حدیث ’’اے علی جس نے نصف شعبان کی شب میں سو رکعت نماز پڑھی اور اس میں ایک ہزاربار قل ھو اللہ احد پڑھی تو اللہ تعالیٰ ہر وہ حاجت پوری فرمائے گا جو وہ اس رات طلب کرے گاپھر اس راوی نے بہت بکواس کی‘‘ اس کے بعد مزید فرماتے ہیں تعجب ہے اس شخص پر کہ جسے علم سنت کی خوشبو بھی پہنچی ہو گی وہ اس قسم کی بکواس سے دھوکہ کھائے گا اور اس نماز کو پڑھے یہ نماز اسلام میں چار سو سال کے بعد وضع کی گئی اور اسکی ابتداء بیت المقدس سے ہوئی اس کے لئے چند حدیثیں وضع کی گئیں‘‘۔ (بحوالہ شب برأت ایک تحقیقی جائزہ از حبیب الرحمن کاندھلوی)

صاحب تحفۃالاحوذی شرح جامع ترمذی عبدالرحمن مبارکپوری نے لکھا ہے کہ ’’ملا علی قاری مرقاۃ میں لکھتے ہیں کہ نصف شعبان میں سو رکعت پڑھنا یا کسی قسم کی نماز پڑھنا ، اس سلسلہ میں نہ کوئی حدیث ہے اور نہ کوئی صحابی کا قول ، جتنی روایات بھی ہیں سب ضعیف یا موضوع ہیں‘‘۔ (تحفۃ الاحوذی جلد دوم صفحہ ۵۳ بحوالہ شب برأت ایک تحقیقی جائزہ)

محمد سلیمان کیلانی نے نورٌ مبین عن روایات الطیبین میں سیدنا علی کی روایت جو کہ ابن ماجہ میں فضیلت پندرھویں شبِ شعبان وارد ہوئی ہے اس پر جرح کرتے ہوئے اپنے حاشیے میں لکھا ہے ’’مختصر طور پر سمجھ لینا چاہیےکہ نصف شعبان کے متعلق جتنی بھی حدیثیں ہیں سب کمزور ہیں‘‘۔ (نور مبین عن روایات الطیبین صفحہ ۲۴۰ مترجم)

عثمان بن حسن بن احمد الخویری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے ’’اور نماز جو کہ اس شب کو جماعت سے پڑھی جاتی ہے اور صلوٰۃ البراء کہلاتی ہے وہ بدعت ہے اس کی وجہ اس کا دور صحابہ کرام میں واقع ہونا اور نہ ہی تابعین رَحِمَ اللہ علیہم سے ثابت ہے بلکہ یہ ہجرت کے چار سو برسکے بعد ایجاد ہوئی ہے ۔ یہ نماز مسجد اقصیٰ میں ۴۴۸؁ھ میں ایجاد ہوئی ہے اور اس کی حقیقت امام طرطوسی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی بیت المقدس آیا اور شعبان کی پندرھویں رات کو مسجد اقصیٰ میں کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا اس کو دیکھ کر ایک اور آدمی آیا اور اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا پھر اس کی دیکھا دیکھی دوسرا آیا پھر تیسرا آیا اور جب اس نے نماز ختم کی تو اس کے ساتھ ایک بڑی تعداد لوگوں کی تھی پھر یہ شخص ایک سال کے بعد آیا تو اس کے ساتھ خلق کثیر نے یہ نماز پڑھی پھر یہ نماز دیگر مساجد میں بھی پھیل گئی اور وہاں سے مختلف شہروں میں پھیل گئی جہاں عابدوں اور زاہدوں نے اسے اپنا لیا جبکہ علماء کرام نے اس کی سخت مذمت کی اور اس کی وضاحت کی کہ یہ نماز بدعت ہے‘‘۔ (دُرَّۃٌ النَّاصِحِیْن صفحہ ۲۶۹ مترجم)

امام شیخ ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المقدسی نے ان دونوں نمازوں کے رد میں (یعنی رجب وشعبان کی نمازیں) ایک نفیس کتاب تصنیف کی ہے بہت اچھا اور عمدہ لکھاہے۔ (از شیخ عبدالعزیز بن باز بحوالہ التحذیر من البدع)

سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز نے لکھا ہے ’’شعبان کی پندرھویں شب کو نماز یا کسی اور چیز کے لئے محفل منعقد کرنا اور اس کے دن روزے کے لئے خاص کرنا اہل علم کے نزدیک قابل مذمت بدعت ہے اور شریعتمیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔ بلکہ اسلام میں صحابہ کرام کے دور مسعود کے بعد یہ بدعت پیداہوئی ہے ۔ اس مسئلہ او ردیگر تمام مسائل کے متعلق حق چاہنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ قول

’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ‘

‘ اور اس مضمون کی دیگرآیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول

’’مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہٰذا مَا لَیْسَ مِنْہٗ فَہُوَ رَدٌّ‘‘

اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کافی ہیں ۔ (التحذیر من البدع صفحہ ۳۷، ۳۸مترجم)

ملاعلی قاری نے بحوالہ ’’المختصر‘‘ لکھا ہے ’’اسی طرح شعبان کی پندرھویں رات میں سو رکعت نماز پڑھنا اور ہر ایک میں سورۃ اخلاص دس بار پڑھنا اور نمازوں کا ذکر جو قوت القلوب یا احیا العلوم میں ہے اس سے کوئی دھوکہ نہ کھائے ‘‘۔ (موضوعاتِ کبیر صفحہ ۴۷۵) امام ابن قیم فرماتے ہیں ’’اور یہ روایت کہ جو شعبان کی پندرھویں رات میں تیرہ رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں تیس بار قُل ْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ پڑھے تو اسے دس آدمیوں کی شفاعت کی اجازت دی جائے گی جن کے لئے دوزخ واجب ہو چکی ہو گی اور اس قسم کی دیگر روایات ہیں کہ ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں‘‘ (موضوعات کبیر صفحہ ۵۴۲ مترجم)

شیخ عبدالعزیز بن باز نے مزید فرمایا ہے ’’آپ نے علمائے کرام کے کلام سے ابھی معلوم کر لیا کہ رجب کی پہلی جمعرات اور نصف شعبان کی شب کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کہ ان دونوں راتوں میںمحفلیں منعقد کرنا اورکسی قسم کی عبادت کے لئے خاص کرنا اسلام میں نکالی ہوئی بدترین بدعت ہے‘‘۔ (التحذیر من البدع صفحہ ۴۰)

علامہ عبدالسلام بستوی رحمہ اللہ نے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’شعبان کی پندرھویں شب کی فضیلت کے بارے میں بہت حدیثیں آئی ہیں لیکن وہ سب کمزور ہیں ۔ اسی طرح پندرھویں شعبان کو روزہ رکھنے کی فضیلت جن احادیث میں آئی وہ بھی کمزور بلکہ موضوع ہیں ۔ بعض علماء نے اس رات میں تنہاء عبادت کرنے نفل پڑھنے اور تلاوت کرنے کو جائز کہا ہے لیکن اجتماعی صورت میں عبادت کرنا بدعت بتایا ہے ۔ بعض مقامات پر پندرھویں شب میں نماز باجماعت یہ صلوٰۃ البرأت کے نام سے پڑھی جاتی ہے ا سکا وجود خیر القرون میں نہیں پایا جاتا ۔ صاحب مجالس الابرار نے اس سلسلے میں تفصیل بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’صلوٰۃ البرأۃ کی ابتداء چوتھی صدی ہجری کے بعد بیت المقدس میں اس طرح ہوئی کہ ایک نابلسی آدمی بیت المقدس میں آیا اور شب برأت میں نفل نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا تو ایک شخص اس کی اقتداء میں کھڑا ہو گیا پھر دوسرا پھر تیسرا اورچوتھا اسی طرح نماز پوری کرنے سے پہلے ایک بڑی جماعت اسکی مقتدی بن گئی پھر وہ شخص اگلے سال آیا تو بہت سے لوگوں نے اس کے پیچھے نماز ادا کی اس طرح یہ رسم دوسری مسجدوں اور شہروں میں پھیل گئی اور لوگوں نے اس کو سنت سمجھ کر ادا کرنا شروع کر دیا (حالانکہ یہ بدعت ہے) علمائے متاخرین نے اس کی مذمت بیان کی ہے اور اس میں بڑی خرابیاں بتائیں ہیں (ترجمہ مجالس الابرار صفحہ ۱۷۵) بعض مقامات پر اس رات میں سو رکعتیں باجماعت پڑھی جاتی ہیں اس کو صلوٰۃ الرغائب کے ساتھ موسوم کیا جاتا ہے یہ بھی بدعت ہے اس سلسلہ میں نہ صحیح حدیث ہے اور نہ کوئی اثر‘‘ (اخبار ترجمان دہلی جلد ۱۰ شمارہ ۵ بحوالہ فتاویٰ علمائے اہل حدیث جلد ششم باب احکام شعبان صفحہ ۴۷۴)

امام مجدالدین فیروز آبادی رحمہ اللہ نے کہا کہ ماہِ رجب ، شعبان و رمضان کی ہر رات میں اور شب معراج میں کسی مخصوص نماز کی کوئی بات سرے سے ثابت ہی نہیں ہے۔ (بدعات او ران کا شرعی پوسٹمارٹم)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ستائیسوں رجب کی رات اور اس جیسی دوسری راتوں کی بابت فرمایا کہ اس کے غیر مشروع ہونے پر تمام ائمہ کرام متفق ہیں ۔ معتبر علمائے کرام نے اس بات کو بیان کیاہے اس طرح کاکام صرف جاہل بدعتی ہی کر سکتا ہے (بدعات اور انکا شرعی پوسٹمارٹم صفحہ ۶۰)

علامہ شیخ احمد بن حجر قاضی محکمہ شرعیہ حکومتِ قطر نے لکھا ہے کہ ’’حاصل یہ کہ تمام علمائے محققین مثلاً امام نووی، علامہ ابن حجر ہیثمی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن الجوزی، علامہ ابن حجر عسقلانی، اور تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ رجب، شبِ معراج ، شعبان خصوصاً شعبان کی پندرھویں رات اور رمضان کے سلسلے میں لوگوں نے جو مخصوص نمازیں اور اذکار ایجادکر لئے ہیں وہ اختراعی بدعات ہیں ان کی دلیل نہ کسی صحیح حدیث سے ہے نہ صحابہ و تابعین کے عمل سے ۔ اگر کوئی جاہل اذکار و ادعیہ اور نمازوں کے متعلق وارد شدہ عمومی احکام سے استدلال کرے مثلاً اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل قول سے کہ :

یَآیُّہَا الَّذِیْن اٰمَنُوْا اذْکُرُوْا اﷲَ ذِکْرًا کَثِیْرًاوَّسَبِّحُوْہٗ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً (الاحزاب ۴۲)
اِنَّ اﷲَ وَمَلاَئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب ۵۶)
وَاِذَا سَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِیْ (غافر ۶۰)

ایک صحیح حدیث میں ہے کہ ’

’اَلصَّلاَۃُ خَیْرُ مَوْضُوْعٍ‘‘

مذکورہ بالاآیات و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوئی جاہل شخص یہ کہے کہ ان دنوں اور راتوں میں یعنی پندرھویں شعبان ، ستائیسویں رجب وغیرہ کے دنوں اور راتوں میں مندرجہ بالا آیات و حدیث کے عموم پر عمل کرتے ہوئے ذکر و اذکار ، دعائیں اور نمازیں پڑھتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر اور ان کے صحابہ پر سال بہ سال کتنے رجب شعبان اور رمضان کے مہینے گزرے لیکن انہوں نے بدعات مذکورہ میں سے کوئی چیز نہیں کی نہ انہوں نے عید میلادالنبی منائی اور نہ اس کے لئے محفل رچائی نہ معراج اور پندرھویں شعبان وغیرہ کے سلسلے میں اس طرح کے اوراد ، وظائف اور اذکار سے انہوں نے سروکار رکھا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں بکثرت روزے رکھتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاام المؤمنین سے مروی حدیث میں ہے ۔ (بحوالہ بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم صفحہ ۴۵۱،۴۵۲)

شیخ نے آگے چل کر ’’ماہِ شعبان کی بدعات‘‘ کے عنوان کے تحت اس شب کی عبادتوں اور جھوٹی روایتوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’پندرھویں شعبان کی رات کا نام لوگ ’’شبِ برأت‘‘ رکھے ہوئے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ اس رات میں گناہ بخشنے جاتے ہیں ، عمریں بڑھائی جاتی ہیں روزیوں میں اضافہ کیاجاتاہے ۔ بنا بریں لوگ رات بھر جاگ کر زور زور سے دعائیں کرتے ہیں ان دعاؤں کو لوگوں نے ازخود گھڑ لیا ہے جن میں عمر اور روزی میں اضافہ کی درخواست کی جاتی ہے ۔ پھر لوگ قبروں کی زیارت کرتے ہیں ، چراغ جلاتے ہیں ، قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں، گذشتہ شعبان سے موجودہ شعبان تک جو لوگ مرے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نام رجسٹر میں درج کراتے ہیں، حلوہ بناتے ہیں، بیوہ عورت یہ سمجھتی ہے کہ اس کے شوہر کی روح پندرھویں شعبان کی رات میں آئے گی، اس لئے اس کے واسطے کھانا پکاتی ہے اور اس کے انتظار میں بیٹھتی ہے۔

علمائے سوء اس رات کے لئے شب قدر جیسی فضیلتیں بیان کرتے ہیں اور لوگوں کے ذہن میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شب قدر میں جس روح کے نزول کا ذکر قرآن مجید میں ہے اس سے مراد مردوںکی ارواح ہیں‘‘ ۔ (بحوالہ بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم صفحہ ۶۸۵)

فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ بن زید المحمود رئیس المحاکم الشرعیہ والشوؤن الدینیۃ دولۃ قطر نے لکھا ہے ’’اسی طرح پندرھویں شعبان کی فضیلت اور اس قسم کی باتیں کہ اسی موقع پر عمروں کا اندراج کیا جاتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر گناہوں کی مغفرت ہو جاتی ہے یہ اور اس قسم کی روایتیں باطل بھی ہیں اور ہر گز صحیح نہیں ہیں یوں ہی اس رات کی فضیلت کا تصور کر کے اکٹھا ہونا بدعت ہے اور اللہ نے اس کا کوئی ثبوت نہیں فرمایا ہے‘‘۔(بحوالہ اردو ترجمہ الحکم الجامعۃ لِشَتَّی العلوم النّافعہ صفحہ ۴۷۷)

امام محمد بن وَضَّاح القرطبی اپنی تالیف ’’الابداع والنھی عنہا‘‘ میں عبدالرحمن بن زیدبن اسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ہمارے مشائخ وفقہاء نصف شعبان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیا کرتے تھے اور نہ ہی ایسی باتوں (نمازوں) کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔ دوسری روایت ابن ابی ملیکہ سے بیان کرتے ہیں کہ زیاد نمیری کہتا ہے کہ نصف شعبان کی رات کا ثواب رمضان کی لیلۃ القدر جتنا ہے تو ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ اگر میں اس سے یہ بات سنتا اور اس وقت میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تو میںاسے اس سے مارتا (جبکہ یہ زیاد اس وقت قاضی کے عہدے پر فائز تھا)۔ (البدع والنھی عنہا صفحہ ۴۶ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)

امام شوکانی رحمہ اللہ نے نصف شعبان کی رات پڑھی جانے والی سو رکعت کی نماز کو اپنی تحقیق کی روشنی میں جعلی او رمن گھڑت قرار دیا ہے ۔ (الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ صفحہ ۵۰،۵۱)

امام جلال الدین سیوطی نے من گھڑت روایات کے مجموعے پر مشتمل کتاب ’’اللآئی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘‘ میں نصف شعبان کی رات میں پڑھی جانے والی سو رکعتوں اورہر رکعت میں دس مرتبہ قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌوالی مسند الفردوس دیلمی کی روایت کو موضوع کہاہے اور ذکر کیاہے کہ اس کی سند کے تمام راوی مجہول ہیں اور ساتھ ہی بارہ رکعتوں اور چودہ رکعتوں والی نماز پر مشتمل روایات کو بھی موضوع و من گھڑت قرار دیا ہے ۔ (بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط از محمد منیر قمر)

صاحب الابداع تحریر فرماتے ہیں ’’المختصر شعبان کی پندرھویں رات میں پڑھی جانے والی مخصوص عدد کی رکعات اور مخصوص عدد کی سورئہ اخلاص والی نمازیں کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں نہ باجماعت نہ بلا جماعت ، نہ سراً نہ جہراً اور اس رات بعض مخصوص دعائیں یَاذلمنّ … الٰہی بِالتجلی الاعظم… کی جاتی ہیں جو کہ خود ساختہ ہیں ۔ صفحہ ۲۶۷ (بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط ص۳۴۰)

امام طرطوسی فرماتے ہیں کہ میں نے امام مقدسّی سے پوچھا کیا آپ نے لوگوں کو یہ نماز (شب نصف شعبان کی نماز) باجماعت ادا کرتے ہوئے خود دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ہاں ۔ اور اس پر اللہ سے مغفرت کی دعا بھی فرمائی اور استغفر اللہ کہا ۔ (الابداع للشیخ علی المحفوظ ص۲۸۸ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)

امام نووی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے کہ صلاۃ الرغائب کے نام سے معروف نماز جو ماہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو مغرب اور عشاء کے مابین پڑھی جاتی ہے جس کی بارہ رکعتیں ہوتی ہیں اور پندرہ شعبان کی رات کو ایک نماز سو رکعتوںپر مشتمل پڑھی جاتی ہے ، یہ دونوںنمازیںبدترین بدعت ہیں اورکتاب قوت القلوب اور احیاء علوم الدین میں ان نمازوں کے مذکور ہونے سے دھوکہ نہ کھایاجائے اور ان نمازوں کے بارے میں بیان کی جانے والی روایت سے بھی دھوکہ میں نہیں آنا چاہیےکیونکہ یہ سب باطل ہیں اور اہل علم میں سے ایک صاحب پر ان نمازوں کی حقیقت و شرعی حیثیت مشتبہ ہو گئی اور انہوں نے چند اوراق پر مشتمل ایک رسالہ بھی لکھ مارا جس میں ان نمازوں کا استحباب ذکر کر دیا ، اس رسالے کے فریب میں نہ آئیں ( کیونکہ وہ ذلات العلماء کی قبیل سے ہے) اس میں انہوں نے مغالطہ سے کام لیا ہے اور امام ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المقدسی نے ان کے رد میں ایک نفیس کتاب لکھی ہے جس میں بڑے عمدہ پیرائے میں ان کا بطلان ثابت کیا ہے ‘‘۔ (الابداع للشیخ علی المحفوظ)

امام ابو بکر طرطوشی نے اپنی کتاب الحوادث والبدع میں امام ابو محمد عبدالرحمن مقدسّی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے ’’بیت المقدس میںیہ نماز صلاۃ الرغائب نہیں پڑھی جاتی تھی جوکہ رجب میں پڑھی جاتی ہے اور نہ ہی پندرہ شعبان کی رات والی نماز کا رواج تھا اور ہمارے ہاں شعبان والی نماز تو ۴۴۸؁ھ میں ایجاد کی گئی ۔ (بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط صفحہ ۲۳۵)

امام شہاب الدین المعروف ابو شامہ نے اپنی کتاب ’’الباعث علی انکار البدع والحوادث‘‘ میں ما ہ رجب والی صلاۃ الرغائب او راس شعبان والی نماز جسے انہوں نے صلاۃ الالفیہ کہا ہے ، ان دونوں کی پرزور تردید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ بدعت ہیں ۔ اور ان کے بارے میںپائی جانے والی اور بیان کی جانے والی روایات ضعیف ہیں اور موضوع و من گھڑت ہیں ۔ (صفحہ ۳۳۶ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’جامع مسجد یا محلوں ، راستوں اور بازاروں کی دیگر مساجد میں یہ جو الصلاۃ الالفیہ کے لئے اکٹھا ہوا جاتا ہے یہ مُحْدَث ہے اور یہ اجتماع جو ایک مقررہ وقت ، مقررہ رکعت اور مقررہ قرأت والی نفلی نماز کے لئے ہے ، یہ غیر مشروع اور بدعت ہے ۔ اور الصلاۃ الالفیہ والی روایت اہل علم حدیث کے اتفاق کے ساتھ من گھڑت ہے (الاقتضاء جلد ۲ صفحہ ۶۲۸،۶۳۵ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)

مولانا شمس الحق عظیم آبادی اپنے فتاویٰ میں تحریر فرماتے ہیں :’’الحاصل ماہِ شعبان کا تمام مہینہ بزرگ ہے او ر اس میں روزے رکھنا مسنون ہے مگر روزے رکھنے کے لئے کوئی تاریخ معین و مقرر کرنااور بالتخصیص صرف پندرھویں تاریخ میںروزہ رکھنا احادیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ تیرہ چودہ پندرہ تاریخوں میں جن کو ایام بیض کہتے ہیں ان میں روزے رکھے اور چاہے تو اس پر بھی زیادتی کرے کیونکہ اس مہینہ میں کثرتِ صیام ثابت ہے‘‘۔ (فتاویٰ شمس الحق عظیم آبادی صفحہ ۱۸۲)

مولانا محمد سعید بنارسی مرحوم فرماتے ہیں :۔

میں نے رسالہ مولوی عبدالغفور صاحب کو دیکھا اور اس کی صحت کی ، فضائل شعبان وغیرہ میں مولوی صاحب نے خوب لکھا ہے ۔واقعی فضائل شعبان میں بہت احادیث صحیحہ آئی ہیں ۔ صوم نصف شعبان میں کوئی حدیث صحیح نہیں ۔ تخصیص اس کی ٹھیک نہیں جیسا کہ مولانا شمس الحق صاحب نے لکھا ہے میں بھی ان کا ہم قال ہوں ‘‘۔ (فتاویٰ شمس الحق عظیم آبادی صفحہ ۱۸۳)

الامام الاکبر علامہ محمود شلتوت رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

اور جودرست اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے صحابہ سے جن کی روایات محفوظ ہیں اور جنہیں اہل علم نے قبول کیا ہے وہ یہ ہے کہ شعبان تو سارا ہی مہینہ فضیلت والا ہے اس کی کسی رات کو کسی رات سے فضیلت حاصل نہیںہے اس میں خاص وجوہ سے روزہ مطلوب ہے ۔ نفس کی تدریب کے لئے اور رمضان کے استقبال کی تیاری کے لئے یہاں تک کہ لوگوں پر یہ بھای نہ ہوجائے اور یہ ان پر دشوار نہ ہو جائے ۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا گیا تھا کہ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں تو آپ نے فرمایا ’’شعبان کے تعظیم رمضان کے لئے‘‘ اور تعظیم رمضان صرف یہ ہے کہ اس کا حسنِ استقبال ہو اس کی طرف تدرب کے ذریعے اطمینان ہو اور اس سے بیزاری نہ ہو البتہ عبادت کے لئے نص شعبان کو مخصوص کرنا ، اس رات کو زندہ کرنے کے لئے جمع ہونا ، اس میں نماز پڑھنا اور اس کی دعائیں وغیرہ تواس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح روایات میں کچھ ثبوت نہیں اور صدر اول میں ایسے کسی کو ہم جانتے نہیں (جو ان مذکورہ کا حامل و عامل رہاہو)

مترجم حوالہ :الفتاویٰ محمود شلتوت صفحہ ۱۹۱ مطبوعہ داراشروق قاہرہ)

عالم جلیل الشیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ ’’اللیلۃ المبارکۃ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔

البتہ بہت سے لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ لیلہ مبارکہ جس امرحکیم کا فرق ہوتا ہے وہ نصف شعبان کی رات ہے اور وہ امور جو کہ توفیق ہوتے ہیں وہ رزق اور عمر کیلئے ہیں اور اسی طرح یہ لوگ لیلۃ القدر کے بارے میں بھی کہتے ہیں یہ ان کی جرأت ہے اللہ کے کلام پر بغیر کسی حجتِ قاطعہ کے اور ہمارے لئے جائز نہیں ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں جب تک کہ رسول معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث متواتر نہ مل جائے اور اس رات کے لئے کوئی متواتر حدیث وارد نہیں ہوئی ہے سوائے مضطرب اور ضعیف روایات کے جن کو عقائد کے باب میں اخذ کرنادرست نہیں (الفتاویٰ شلتوت ص۱۹۲)

(21) علاوہ ازیں ہم نے اس شب کے بارے میں قدرے اختصار سے تنقیداً چار صفحات لکھے تھے جوکہ بہت سے لوگوں کی طبع نازک پر گراں گزرے یہ چار صفحات ’’بدعات اور ان کا تعارف‘‘ میں شامل ہیں حالانکہ ہم نے اسوقت ان روایات کی حقیقت کشائی نہیں کی جن شبراتی حضرات کے مذہب کا دارومدار ہے اور ابھی بھی ہم نے اس شاخ کو قطع نہیں کیا ہے جس پر اہل بدعت نے آشیانہ بنایاہے ابھی تک تو سارے دلائل جو ہم نے پیش کئے ہیں وہ سب علماء کے اقوال ہیں جو اس امر کی وضاحت کر رہے ہیں کہ اس شب کا قیام احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں ہے ۔ ابھی تک ہم نے ان روایات کی روشنی میں اس بدعت اور اس کے عاملوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا تھا لیکن یہ مرحلہ اب آگیا ہے چنانچہ وہ روایات ملاحظہ فرمائیں جن میں بقول ان حضرات کے اس شب کے نام نہاد فضائل وارد ہوئے ہیں پہلی روایت ترمذی کی ہے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں

فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَۃً فَخَرَجْتُ ، فَإِذَا هُوَ بِالبَقِيعِ ، فَقَالَ : أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا ، فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ.

ترجمہ: میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا ، پس میں آپ کی تلاش میں نکلی پس دیکھا کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں ، پس مجھ سے آپ نے فرمایا کہ کیا تو اس بات کا خوف رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ زیادتی کریں گے، پھر فرمایا کہ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نصف شعبان کی شب نزول فرماتا ہے آسمان دنیا کی طرف پس مغفرت فرماتا ہے اتنی بڑی تعداد کی جو بنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ ہیں ۔ پھر اس حدیث پر جرح کرتے ہوئے امام ترمذی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’

’حَدِيثُ عَائِشَۃَ ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الحَجَّاجِ ، وَسَمِعْتُ مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الحَدِيثَ‘‘ وقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَۃَ ، وَالحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ‘‘(ترمذی جلد اوّل)

ترجمہ :ہم حدیث عائشہ رضی اللہ عنہاکو اس سند کے علاوہ کسی اور سند سے نہیں پہچانتے ۔ البتہ حجاج کی سند سے اور میں نے محمد یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کو فرماتے سنا وہ اس کو ضعیف بتلاتے تھے اور آپ نے فرمایا کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے سماعت نہیں کی نیز محمد نے فرمایا کہ حجاج نے یحییٰ بن ابی کثیر سے سماعت نہیں کی ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کی اس جرح سے ثابت ہواکہ وہ خود اس حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے وگرنہ وہ اس کی سند پر جرح نہ کرتے پھر اوروں کے لئے اس حدیث سے حجت پکڑنا کہاں سے ثابت ہو گیا ۔ دوسری بات یہ کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہانے کتنی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر سے گم پایا ؟ اگر یہ پہلی ہی بار تھا تو یہ وسوسہ ان کے دل میں کیوں گزرا کہ آپ انکی باری میں انہیں سوتا چھوڑ کر اپنی کسی دوسری زوجہ کے پاس چلے گئے ہوں گے ۔ جبکہ آپ نعوذ باللہ خائن نہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت اور صداقت کی گواہی تو آپ کے جانی دشمن بھی دیا کرتے تھے؟ ایسا وسوسہ اور خیال تو اسی صورت میں آسکتا تھا جب آپ کی امانت، آپ کا صدق اور آپکا کردار لائق اعتماد نہ ہوتا ، لیکن کلاّوحاشا آ پ کا کردار ایسا ہر گز نہیں تھا ۔ تیسری بات یہ کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ام المؤمنین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر گم اور قبرستان میں موجود پایا تو سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں کیا کررہے تھے؟ ترمذی کی اس روایت میں اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ہے البتہ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ

’’فَاِذَا ہُوَ بِالْبَقِیْعِ رافع راسہٖ اِلٰی السماء

‘‘ یعنی آپ آسمان کی طرف اپنا سر اٹھائے کھڑے تھے ۔ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اس شب کوئی عبادت نہیں فرمائی سوائے آسمان کی طرف سر اٹھانے کے ، لہٰذا وہ لوگ جو ان ضعیف احادیث سے عبادت کی دلیل پکڑتے ہیں انہیں چاہیےکہ ہر پندرھویں شعبان کو قبرستانوں میں بیویوں کو سوتا چھوڑ کر جایا کریں اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کھڑے ہو جایا کریں ۔ اس لئے کہ ان ضعیف روایات سے یہی ثابت ہو رہاہے چوتھی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ اس رات بنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ افراد کی مغفرت فرماتا ہے ان بالوں سے متعلق عرض ہے کہ بنو کلب کی بھیڑیں بہت زیادہ بالوں والی تھیں ۔ ایک بھیڑ کے بدن پر کروڑوں بلکہ اربوں بال ہوتے ہیں جو کہ شمار بھی نہیں کئے جا سکتے ہیں ۔ روایت کے مطابق جب اللہ کے رسول نے یہ کلام فرمایا اس وقت مسلمان مدینہ اور اس کے مضافات میں آباد تھے ایک معمولی سی تعداد مکے میں اور دیگر علاقوں میں آباد تھی ۔ اگر حساب لگایا جائے تو اس وقت مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے بڑھ کر نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تک کل مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ اور دو لاکھ کے درمیان تھی ۔ لہٰذا یہ بات عقل سلیم کیونکر تسلیم کر سکتی ہے کہ مجموعی تعداد مسلمانوں کی اس وقت لاکھ بھی نہیں تھی اور بخشش اربوں کھربوں بلکہ ان سے بھی زیادہ تعدادکی ہو رہی تھی ۔ کیا اللہ کے رسول کو اتنابھی علم نہیں تھا کہ جتنے لوگوں کی مغفرت کی خبر وہ اس شب میں دے رہے ہیں اتنی بڑی تعداد میں مسلمان تو مسلمان مشرک اور کافر اقوام کے لوگ بھی اس وقت روئے زمین پر آباد نہیں تھے ۔ لاریب یہ حدیث صرف ضعیف ہی نہیں بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ روئے زمین پر آج بھی اتنی بڑی تعداد میں مسلمان آباد نہیں ہیں جن کا بنی کلب کی بھیڑوں کے ساتھ باعتبار تعداد موازنہ کیاجائے پھر دوسری بات یہ کہ اگر اتنی بڑی تعداد ہر پندرھویں شعبان کو بخشی جاتی ہے تو پھر قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں شبراتی کیا کہتے ہیں

’’لأَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘‘ (السجدۃ)

میں ضرورجہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھروں گا۔ اور یہ آیت ’

’یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ مْتَلأْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِّنْ مَّزِیْدٍ‘‘ (ق)

جس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے کہ کیا تو بھر گئی؟ وہ کہے گی کہ کیا اور ہیں؟ اور بخاری میں تو ہے کہ جہنم کا پیٹ اس وقت تک نہیں بھرے گا جب تک کہ حق تعالیٰ اپنی بائیں ٹانگ اس میں داخل نہیں فرمائے گا ۔ علاوہ ازیں حدیث صحیح میں یہ بھی ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ آدم سے کہے گا کہ اے آدم! وہ کہیں گے میں حاضر ہوں اورتیری خدمت کے لئے مستعد ہوں او رتمام بھلائیاں تیرے دونوں ہاتھوں میں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرما ئے گا آگ میں جانے والوں کا لشکر نکال ۔ آدم کہیں گے کہ آگ کے لشکر کی مقدار کیاہے ؟ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ‘‘ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوٰۃ جلد سوم مترجم باب الحشر صفحہ ۵۳)

اب بتائیے کہ اگر بنی کلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ افراد اس شبِ نام نہاد میں بخشے جاتے ہیں تو پھر یہ ہزار میں سے نو سوننانوے جہنم میں جانے والے کونسی دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں اور اس شب کی مغفرتوں سے یہ لوگ کیونکر محروم کئے جا رہے ہیں ؟ حقیقت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ پھر ذرا غور فرمائیے ! کیا یہ بات عقلِ سلیم باور کر سکتی ہے کہ شبِ نصف شعبان کو محض قبرستان میں جا کر صرف اونچا سر کر کے کھڑے ہوجانے سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے؟ کیا یہ تمام امور اس امر کی نشاندہی نہیں کر رہے کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہاجو کہ ترمذی شریف میں وارد ہوئی ہے وہ روایت اور درایت کے اعتبار سے محض افتراء اور جھوٹ کاپلندہ ہے ۔ جو حضرات اس کے ضعف سے چشم پوشی کر رہے ہیںاور اسے محاسن و فضائلِ نصف شعبان میں شمار کررہے ہیں وہ اتنا یاد رکھیں کہ وہ اسطرح دین کی کوئی خدمت نہیں کر رہے ہیں ۔ کیا اس ضعیف حدیث سے یہ ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شب کے فضائل صحابہ کرام کو نہیں بتائے نہ ہی اپنی ازواج مطہرات کو اس شب کی فضیلت سے آگاہ فرمایا بلکہ چپکے سے بستر پر سے اٹھ کر بقیع کے قبرستان چلے گئے وہ تو اگر (روایت کے مطابق) ام المؤمنین آپ کی تلاش میں نہ نکلتیں اور آپ کو قبرستان میں نہ پا لیتیں تو آج ساری امت اس شب کے فضائل سے بے خبر ہوتیملاحظہ فرمائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کتنا بڑا بہتان لگایا جا رہا ہے یہ شب روایت مذکورہ بالا کے مطابق اگر ایسی برگزیدہ تھی تو آپ نے اپنے صحابہ کرام کو اس حقیقت سے اس شب کی فضیلت سے آگاہ کیوں نہیں فرمایا؟ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے کر بقیع کے قبرستان یا اپنی مسجد کی طرف کیوں نہیں نکلے؟ کیا کوئی شبراتی ان سوالات کے جوابات احادیث سے دے سکتا ہے؟ کیاکوئی شبراتی کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت کر سکتا ہے کہ اس شب کی فضیلت جان لینے کے بعد ام المؤمنین عائشہ صدیقہ نے اس شب کو اہتمام عبادت فرمایا تھا؟ میں کہتا ہوں کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل سکتا ہے لیکن کوئی شبراتی ایک بھی حدیث اپنے اس قول کی تائید میں پیش نہیں کر سکتا کہ ام المؤمنین نے اس شب میں کبھی اہتمام نوافل وغیرہ فرمائی ہو اور نہ ہی کسی صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث میں ایسا ثبوت ملتا ہے ۔ لہٰذا میں بغیر کسی قسم کی لاگ ولپیٹ کے حقائق کی روشنی میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ اس ضعیف روایت کو حجت تسلیم کرنے والے پھر اس کا بیان کرنے والے مفتری ہیں خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے متعلق ہوں ان کا افتراء بہت عظیم ہے ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہاکو اپنے افتراء کا نشانہ بنایا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بروز محشر یہ اس افتریٰ پردازی کے حق میں کیا عذر لائیں گے ۔ بہر حال میں ان کے لئے حق تعالیٰ کے حضور ہدایت کا دعا گو ہوں ۔ اس موضوع پر دوسری روایت ابن ماجہ کی ہے یہ بھی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سے مروی ہے ۔ فرماتی ہیں :۔

فَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَۃٍ ، فَخَرَجْتُ أَطْلُبُهُ ، فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ , رَافِعٌ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ , فَقَالَ : يَا عَائِشَۃُ أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ ؟ قَالَتْ ، قَدْ قُلْتُ : وَمَا بِي ذَلِكَ ، وَلَكِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا , فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ كَلْبٍ. (ابن ماجہ مصر جلد اوّل)

چند الفاظ کے اضافے کے علاوہ اس روایت کے تقریباًوہی الفاظ ہیں جو کہ ترمذی کی مذکورہ بالا روایت کے ہیں اور راوی بھی وہی ہیں جو کہ ترمذی کی سند میں ہیں ۔ ان روایت پر محدثین کی جرح کے سبب یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ان ہی اسقام سے بھرپور ہے جو کہ ترمذی کی سند میں پائے جاتے ہیں ۔

علاوہ ازیں غنیہ الطالبین مترجم میں صفحہ ۶۹۲ پر ایک اور طویل ترین روایت محاسنِ شب برأت پر ام المؤمنین سے مروی ہے جسے میں نہایت اختصار کے ساتھ لکھتا ہوں ۔ ’’جب نصف شعبان کی شب تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر سے چپ چاپ نکل گئے ، میں نے دل میں یہ خیال کیا کہ اپنی بعض ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں ۔ پس میں اٹھی اور گھر میں (اندھیرے میں) آپ کو ٹٹولنے لگی ، پس میرے ہاتھ آ پ کے قدموں تک بڑھے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے اور وہ دعا جو آپ سجدے میں پڑھ رہے تھے میں نے یاد کر لی ۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک مسلسل کھڑے ہوتے اور بیٹھتے رہے یہاںتک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم متورّم ہو گئے ۔ میں آپ کے بدن کو دباتی تھی او رکہتی تھی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کیا اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرمائے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ ایسے ایسے (انعامات و کرامات) نہیں فرمائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں اللہ شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اے عائشہ کیا تجھے علم ہے کہ اس رات میں کیا کچھ ہوتا ہے میں نے پوچھا کیا ہوتا ہے؟ اس رات میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شب میں اس سال پیداہونے والوں اور مرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں ۔ اسی شب میں رزق نازل ہوتا ہے اور ا عمال و افعال اٹھائے جاتے ہیں ۔ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا کوئی بھی شخص اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو گا ؟ فرمایا ہاں ۔ میں نے کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فرمایا میں بھی نہیں جب تک اللہ اپنی رحمت میں مجھے ڈھانپ نہ لے‘‘۔

اس روایت کا موازنہ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت سے جب کیا جاتا ہے تو ایک اور شگوفہ کھلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے غائب ہی نہیں ہوئے تھے ۔ لہٰذا اس روایت کی بنیاد پر قبرستان جانے والی روایت جھوٹ قرار پاتی ہے اور قبرستان جانے والی روایت کی بنیاد پر یہ روایت جھوٹ قرار پاتی ہےکیا شبراتیوں کے پاس اس حیص بیص سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟

اس روایت سے چند اور امور بھی ثابت ہوتے ہیں جو اہل بدعت کے ہاں خاصے مشہور ہیں مثلاً اس شب میں پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کے نام لکھے جانا، رزق نازل ہونا، اعمال وافعال کا اٹھایا جانا وغیرہ ان امور پرہم آگے چل کربحث کریں گے فی الوقت فضائل شب برأت کی ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں یہ روایت بھی غنیہ الطالبین سے لی گئی ہے لیکن اختصار کے ساتھ ۔ ’’ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ، اے عائشہ رضی اللہ عنہاجانتی ہے یہ کونسی رات ہے؟ انہوں نے کہاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نصف شعبان کی ر ات ہے اس رات میں دنیا اور بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اس رات میں بنو کلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگ اللہ کی طرف سے جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں ۔ پھر آپ نے فرمایا کیا تو مجھے آج رات رخصت دے گی؟ میں نے کہا ہاں ، پھرآپ نے نماز پڑھی اور بہت مختصر قیام کیا ۔ سورت الفاتحہ پڑھی اور چھوٹی سورہ پڑھی پھر آدھی رات تک سجدہ کیاپھر دوسری رکعت کے لئے اٹھے اور مثل پہلی رکعت کے قرأت کی پھر سجدہ کیا اور یہ سجدہ صبح صادق تک رہا ۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں دیکھتی رہی یہاں تک کہ مجھے خیال آیا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی روح قبض فرما لی ہے میں آپ کے قریب گئی آپ کے قدموں کو چھوا تو میں نے آپ کو سجدے میں یہ فرماتے سنا ‘‘ (غنیہ الطالبین مترجم صفحہ ۶۸۸)

غنیہ الطالبین کی یہ روایت جہاں دیگر روایات سے متصادم ہے وہاں خود غنیہ الطالبین کی اس روایت سے متصادم ہے جو اس سے پہلے ہم نے درج کی ہے ۔ ملاحظہ ہو کہ پہلی روایت میں ہے کہ میرے بستر سے چپ چاپ نکل گئے اور اس دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے مجھ سے عبادت کرنے کے لئے رخصت طلب کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والے کو یہ یاد رہنا بڑا مشکل ہے کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا اور اب کیاکہہ رہا ہے ۔ غنیہ الطالبین کی اس روایت سے ایک اور امر ثابت ہو رہا ہے کہ یہ نماز جو آپ نے اس شب کو پڑھی وہ جہری تھی سرّی نہیں تھی جبکہ شبراتی اس نماز کو سرّاً پڑھتے ہیں نیز آپ نے اس نماز میں رکوع بھی نہیں فرمایا جبکہ تمام ہی شبراتی نصف شعبان کی نماز میںرکوع کرتے ہیں علاوہ ازیں آپ نے پوری شب میں دو رکعات ادا کیں حالانکہ شبراتی اس شب کو سورکعات پڑھتے ہیں ۔

غنیہ الطالبین کی اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ عبادت صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لئے مخصوص تھی وگرنہ آپ ام المؤمنین کو بھی تلقین فرماتے کہ تم بھی اٹھ کر نماز پڑھو لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ نے ان سے عبادت کرنے کے لئے رخصت طلب کی ۔ اسی طرح غنیہ الطالبین کی سابقہ روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ آپ اندھیرے میں صبح تک نماز پڑھتے رہے لیکن ام المؤمنین کو آپ نے نہ حکم دیا اور نہ ہی ان کو یہ نماز پڑھنے کی تلقین فرمائی اور نہ ہی ام المؤمنین نے بھی یہ نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت محسوس فرمائی ۔ حالانکہ آپ عبادت کی حریص تھیں اور خود بھی بکثرت نوافل پڑھا کرتی تھیں ۔

یہ وہ روایات ہیں جن پر بدعتی حضرات نے اپنی اس عبادت کو سنت قرار دیتے ہوئے فروغ دیا ہے حالانکہ ان میں ایک بھی روایت صحیح نہیں ہے ۔ شیح عبدالعزیز بن باز مفتی اعظیم سعودی عرب کا فتویٰ سابقہ سطور میں گزر چکاہے کہ یہ روایات تمام کی تمام موضوع او رمن گھڑت ہیں لیکن مقام حیرت و افسوس ہے کہ ایک نہیں بلکہ بہت سے مؤحد ومحقق باوجود دعوائے اتباعِ سنت و احادیث کے، ان موضوع روایات پر نہ صرف عمل پیرا ہیں بلکہ اس بدعت کوسنت قرار دینے پر مصر ہیں ۔ چنانچہ نصف شعبان کی فضیلت میں شائع ہونے والے اخباروں اور رسالوں میں ہر سال شعبان کے موقع پر اس شب کے موضوع اور من گھڑت فضائل درج کئے جاتے ہیں اور بندگان الٰہی کو قرآن و سنت کی آڑ میں اس بدعت پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیںکئی جماعتوں اور ایک شبراتی مولوی کی طرف سے اس بدعت کی تائید میں پمفلٹ بھی سال بہ سال تکرار سے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔

میں اپنے مسلمان بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ للہ اپنی توحید اور دعوائے توحید کا بھرم رکھیے اس بدعت پر صرف اس لئے عمل نہ کریں کہ بہت سے علماء اس کو سنت قرار دیتے ہیں اگر آپ بغیر تحقیق کے اسی طرح علماء کی اتباع کرتے رہے تو پھر آپ میں اور دیگر مقلدوںمیں کیا فرق رہ جائے گا؟۔

ذرا ان روایات کی گہرائی میں جائیے تو آپ کو معلوم ہوکہ اس شب کی حقیقت کیا ہے ؟اس شب کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ اس شب اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتاہے ، اس کا نزول تو ہر شب آسمان دنیا پر ہوتا ہے ۔ (مشکوٰۃ) اس شب کی فضیلت یہ نہیں ہے کہ وہ اس شب گنہگاروں کی مغفرت فرماتا ہے وہ تو ہر شب استغفار کرنے والوںکی مغفرت فرماتا ہے (مشکوٰۃ) اس شب کی فضیلت و حقیقت یہ نہیں ہے کہ اس شب کو موت و زندگی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے یکبارگی میں ہی ہو چکے ہیں اور اب یہ عالم ہے کہ رُفِعَتِ الاَقْلاَمُ وَجُفّتِ الصُّحُفُ۔قلم اٹھائے جا چکے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں ۔ اس شب کی حقیقت یہ ہے کہ اس شب میں رافضیوں کے بارھویں امام مہدی نے شیعہ روایات کے مطابق جنم لیا ۔ اس مزعومہ امام غائب کی پیدائش کی خوشی میں رافضی اس دن حلوہ پکاتے ہیں رات کو اپنے گھروں پر دئیے جلا کر چراغاں کرتے ہیں اور ہمارے شہر کراچی میں رات کے پچھلے پہر نیٹی جیٹی پل پر جمع ہو کر امام غائب کے نام آٹے کی گولیوں میں لپٹی ہوئی عرضیاں ڈالتے ہیں ۔ درحقیقت شب برأت کا تعلق ہی روافض سے ہے اس کی فضیلت میں انہوں نے اس قدر روایات گھڑی ہیں کہ انہیں لکھنے کے لئے ایک وسیع دفتر درکار ہے ۔ میں ان شاء اللہ اگلے صفحات میں ان میں سے چند روایات نقل کروں گا ۔

اس شب کا نام لیلۃ البرأۃ بھی اس سلسلے میں ایک عمدہ دلیل ہے ۔ لیلۃ البرأۃ کے معنی ہیں تبرّے والی رات ۔ اس رات رافضی قرآن مجید پر تبرّا بھیجتے ہیں جسے اس بات کی دلیل درکار ہو وہ اس شب نیٹی جیٹی پل (کراچی) پر اس امرکا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لے جیسے روافض ۲۲رجب کو جعفر صادق کے نام کے کونڈے بھرتے اور خوشیاں مناتے ہیں ظاہراً انکی خوشی جعفر صادق کی نذرونیاز کی ہوتی ہے لیکن یہ دل خراش حقیقت لاکھ پردوں میں بھی چھپائے نہیں چھپتی کہ وہ اس دن سیدنا امیر معاویہ کی وفات کی خوشیاں مناتے ہیں ۔ بعینہٖ یہ معاملہ شب برأت کا ہے روافض اور نام نہاد سنی اس دن حلوے پر سیدالشہداء حمزہ کی فاتحہ دلاتے ہیں حالانکہ یہ دن نہ ان کی پیدائش کاہے اور نہ ہی ان کی شہادت کا ہے۔ ان کی شہادت تو غزوئہ احد میں ہوئی تھی جو کہ شوال کے مہینے میں واقع ہوا تھا ۔ حقیقت اس حلوے کی وہی ہے جومیں نے پہلے درج کی کہ یہ ان کے امام غائب کی پیدائش کی خوشی میں پکتاہے ۔ مجھے سخت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سنی بھائی بغیر کسی تحقیق کے اس دن روافض کی پھیلائی ہوئی جھوٹی روایات کے شکار ہو کر اپنے اپنے گھروں میں حلوہ پکاتے اور جا بجا کھاتے پھرتے ہیں ۔ ہمارا روافض کے امام سے کیا تعلق ہے جوہم ان کے نام کی نذر و نیاز کریں؟ نذرو نیاز اورفاتحہ کے کھانے جو غیر اللہ سے منسوب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کھانوں کو قرآن مجید میں یہ فرماتے ہوئے حرام قرار دے دیا ہے ’’وَمَا اُہِلَّ بِہِٖ لِغَیْرِ اﷲِ‘‘۔

اس شب کے فضائل و محاسن میں جتنی بھی روایات وارد ہوئی ہیں ان سب میں غالی قسم کے رافضی راوی پائے جاتے ہیں مثلاً ابن ماجہ، ترمذی اور غنیہ الطالبین کی روایات میں اکثر راوی رافضی ہیں ۔ ان رافضی راویوں نے اپنی موضوع اور من گھڑت روایات کو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سے زیادہ تر اس لئے منسوب کیا ہے کہ اس طرح انکی کردار کشی کی جائے یعنی جب بھی ان روایات کو پڑھا جائے گااور سنایا جائے گا یہی تأثر ابھرے گا کہ ام المؤمنین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت داری پر شک کیا کرتی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کیا کرتی تھیں اور آپ پر اعتماد نہیں کرتی تھیں ۔ (نعوذ باللہ ) اس طرح ان لوگوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے ۔ جھوٹی ، ضعیف اور موضوع روایات کو پھیلایا اور ام المؤمنین کے پاکیزہ کردار کو اپنے زعم باطل میں داغدار کیا ۔ پھر انہیں اس سلسلے میں دشواری بھی پیش نہیں آئی کہ بہت سے روایت پسند اور لکڑی، پتھر ہضم کرنے والے نادان مولویوں نے اپنے اپنے کاروبار لات و منات کو فروغ دینے کے لئے ان روایات کو ہاتھوں ہاتھ لیا پھر ان روایات پر عمل ہی نہیں بلکہ اپنے ایمان کی بنیادیں بھی قائم کر دیں ۔

روایات روافض در فضیلت عبادت شب برأت:

شیعہ مذہب کی معتبر کتاب ’’تحفۃ العوام‘‘ میں مرقوم ہے کہ ’’شب نیمۂ شعبان اور روز نیمۂ شعبان دونوں بے حد مبارک ہیں ۔ پندرھویں شب جو کہ شب برأت کے نام سے موسوم و مشہور ہے بڑی مبارک ر ات ہے ۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شعبان کی پندرھویں رات کو عبادت میں بسر کرو اور دن کو روزہ رکھو یقینا اوّل شب سے آخر شب تک اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ نداکی جاتی ہے کہ آیا کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے تاکہ میں اس کے گناہوں کو بخشوں ؟ آیا کوئی ایساا ہے کہ روزی طلب کرے او رمیں اس کی روزی زیادہ کروں ؟ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص چاہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی روحیں اس سے مصافحہ کریں تووہ شعبان کی پندرھویں شب کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے ۔ لہٰذاہر مومن کو چاہیےکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے(جو زیارات کے باب میں مذکور ہے) اور چونکہ اس شب کی بڑی فضیلت و عظمت یہ ہے کہ حضور امام آخر الزمان صاحب الامر علیہ السلام کی ولادت باسعادت اس شب کی صبح کو واقعہ ہوئی‘‘۔ (جدید تحفۃ العوام مصدّقہ صفحہ ۳۶۶، ۳۶۷)

دوسری روایت

منجملہ اعمال اس شب کی زیارت امام حسین علیہ السلام کی ہے کہ پیغمبران و ملائکہ اس شب اللہ تعالیٰ سے رخصت لے کر آنحضرت علیہ السلام کی زیارت کو آتے ہیں پس خوشحال اس کا جو ان بزرگوں سے مصافحہ کرے‘‘۔ (تحفۃ العوام بحوالہ شب برأت ایک تحقیقی جائزہ صفحہ ۵۸۶)

تیسری روایت

اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت او رغسل زیارت اس روز مستحب ہے اور تیرہویں شب دورکعت نماز اور چودھویں شب چار رکعت نماز اور پندرھویں شب چھ رکعت پڑھنا سنت ہے‘‘ ۔ (جدید تحفۃ العوام صفحہ ۳۶۶)

چوتھی روایت

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص اس شب میں سومرتبہ سبحان اللہ اور سو مرتبہ الحمدللہ اور سو مرتبہ اللہ اکبر اور سو مرتبہ لا الٰہ الا اللہ کہے تو خداوند عالم اس کے گزشتہ گناہ بخش دے گا اور دنیا و آخرت کی حاجتیں برلائے گا‘‘ ۔(تحفۃ العوام صفحہ ۳۶۸)

پانچویں روایت

وارد ہے کہ اس شب کو چار رکعت نماز پڑھے دو سلام سے اور ہر رکعت میں بعد الحمدللہ سو مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھے اور بعد نمازیہ دعا پڑھے اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اِلَیْکَ فَقِیْرٌ…اِلٰی آخرہٖ (تحفۃ العوام ص۳۶۷)

چھٹی روایت

وارد ہے کہ شب نیمۂ شعبان میں دس رکعت نماز دو دو کر کے پڑھیں اور ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورۃ قل ھو اللہ احد پڑھیں پھر سجدہ کریں اور یہ دعا پڑھیں

۔اَللّٰہُمَّ لَکَ سَجَدَ سَوادِی وَاخَیَالِیَ وَبَدَاضِی…اِلٰی آخِرہٖ‘‘ (تحفۃ العوام صفحہ ۳۶۸)

ساتویں روایت

’’بہترین دعا اس شب میں بلکہ ہر شب جمعہ میں دعائے کمیل ہے جو ادعیہ ماثورۃ کے باب میں درج ہے ۔ غرض کہ اس شبِ مبارکہ میں جاگنا اور تلاوت قرآن او ردعاو نماز میں بسر کرنا آتش جہنم سے آزادی او ردعا مقبول ہونے کا باعث ہے پھر علی الصباح اس عریضہ کا پیش کرنا معمول مومنین ہے جو حضور صاحب الامر علیہ السلام کی خدمت اقدس میں استغاثہ ہے جو حسب ذیل ہے :۔

’’عریضہ ٔ حاجت‘‘

بحضور پرنور شہنشاہِ دوران حضرت صاحب العصر والزمان عجَّل اللہ فرجہٗ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کَتَبْتُ اِلَیْکَ یَا مَولاَیَ صَلَوَاتُ اﷲِ عَلَیْکَ مُسْتَغِیْثًا بِکَ وَشَرْتُ وَانَزَلَ بِیْ مُسْتَجِیْرًا بِاﷲِ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ بِکَ مِنْ اَمْرٍ قَدْ وَہَمَنِیْ وَاَشْغَلَ قَلْبِیْ وَاَطَالَ فِکْرِیْ وَسَلِیْنِیْ بَعْضَ لُبِّی وَغَیْرَ خَطِیْرَ نِعْمَۃَ اﷲِ عنْدِیْ وَاَسْلَمَنِیْ عِنْدَ تَخَیُّلِ وِرْدِہٖ الْخَلِیْلُ وَتَبَرَّأَ مِنِّیْ عِنْدَ تَرَآئِیْ اِقْبَالِہٖ اِلَیَّ الْحَمِیْم وَعَجَزَتْ عَنْ رِفَاعِہٖ حِیْلَتِیْ وَخَنَنَی فِیْ تَحَمُّلِہٖ صَبْرِیْ وَقُوَّتِْ فَلْجِئْتُ فِیْہٖ اِلَیْکَ وَتَوَکَّلْتُ وَتَوَسَّلْتُ فِیْ الْمَسْئَلَۃِ اﷲِ ثَنَآؤُہٗ عَلَیْہٖ وَعَلَیْکَ فِیْ دِفَاعِہٖ عَنِّیْ عِلْمًا بِمَکَانِکَ مِنَ اﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَلِیَّ التَّدْبِیْرِ وَمَالِکِ الاُمُوْرِ وَاثِقًا بِکَ فِیْ الْمَسَارِعَۃِ فِیْ الشَّفَاعۃِ اِلَیْہِ جَلَّ ثَنَآؤُہٗ فِیْ اَمْرِیْ مُتَیَقِّنًا لِاِجَابَتِہٖ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اِیَّاکَ بِاَعْطَآءِ سُؤْلِیْ وَاَنْتَ یَا موَْلاَیَ صَلَوَاتُ اﷲِ عَلَیْکَ جَدِیْدٌ بِتَحْقِیْقٌ ظَنِّیْ وَتَصْدِْقِ اَمَلِیْ فِیْکَ فِیْ اَمْرٍ …… (یہاں اپنی حاجات و پریشانیاں لکھیں) …… فِیْمَا لاَ طَاقَۃَ لیْ بِحَمْلِہٖ وَلاَ صَبْرَلِیْ عَلَیْہٖ وَاِنْ کُنْتُ مُسْتَحِقًّا لَہٗ وَلِاِضْعَافِہٖ بِقَبِیْحِ اَفْعَالِیْ وَتَفْرِیْطٰی فِیْ الْوَاجِبَاتِ الَّتِیْ ﷲِ عَزَّوَجَلَّ فَاَغِثْنِیْ یَامَوْلاَیَ صَلَوَاتُ اﷲِ وَسَلاَمُہٗ عَلَیْکَ عِنْدَ اللَّہْفِ وَقَدِّم الْمَسْئَلۃَ ﷲِ عَزَّوَجَلَّ فِیْ اَمْرِی قَبْلَ حُلوْلِ التَّلْفِ وَشَمَاتَۃِ الاََعْدَآءِ فَبِکَ بُسِطَتِ النِّعْمَۃُ عَلَیَّ وَاسْئَلِ اﷲَ جَلَّ جَلاَلَہٗ لِیْ نَصْرًا عَزِیْزًا وّفَتْحًا قَرِیْبًا فِیْہِ بُلوعُ الاٰمَالِ وَخَیْرُ لمَبادِی وَخَوَاتِیْمِ الاَعْمَالِ وَالاَمْنُ مِنَ الْمَخَاوِفِ کُلِّہَا فِیْ کُلِّ حَالٍ اَنَّہٗ جَلَّ ثَنَآؤُہٗ
لِمَا یَشَآ ءُ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ وَہُوَ حَسْبِی وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ فِیْ الْمَبْداء وَالْمَال مَاشَاءَ اﷲُ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲِ الْعَظِیْمِ… (یہاں اپنا نام لکھیں)…۔

ھدایات :

زعفران سے عریضہ کے درمیان اپنی حاجات لکھ کر نیچے اپنانام لکھے اور خوشبو یعنی عطر لگاکر آٹے یاپاک مٹی میں رکھ کر دریایا نہر یا گہرے کنوئیں میں علی الصبح ڈالے جس وقت عریضہ دریا میں ڈالنے کا ارادہ کرے بتوجہ تمام پکارے :

یَا حُسین بن روح!اور یہ دعا پڑھ کر عریضہ ڈال دے:۔

یَاحُسَیْن بْنَ رَوْحٍ سَلاَمٌ عَلَیْکَ اَشْہَدْ اَنَّکَ وَفَاتَکَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَاَنَّکَ حَیٌّ عِنْدَ اﷲِ مَرْزُوْقٌ وَقَدْ خَاطَبْتُکْ فِیْ حَیٰوتِکَ الَّتِیْ عِنْدَ ا ﷲِ عَزَّوَجَلَّ فَہٰذِۂ رُقْعَتِیْ وَحَاجَتِیْ اِلٰی مَوْلٰینا صَاحِبِ الاَمْرِ علَیْہِ السَّلاَمُ فَسَلِّمْہَااِلَیْہِ فَاَنْتَ الثِّقَۃُ الاَمِیْنُ

(بحوالہ تحفۃ الاعوام صفحہ ۳۶۹)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے