کسی بھی قوم کی نظریاتی اور تمدنی بنیادوں کو مستحکم رکھنے کے لیے حکومتی اور معاشرتی دونوں سطحوں پر عدل کا قیام انتہائی ضروری ہے،محض منصب و اقتدار کی منتقلی اور چہرے بدل جانے سے کسی بھی ریاست میں تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔پرانی شراب کو نئی بوتل میں ڈال دیا جائے تو صرف بوتل کا نیا ہونا شراب کی اصل تاثیر کو زائل نہیں کر سکتا۔

منصفی صرف عدالت کا ہی کام نہیں ہے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی معاملات میں عدل و انصاف سے کام لے اور ظلم و زیادتی سے گریز کرے کہ یہ ہر باشعور شہری کا شیوہ ہے۔ ہر فرد کی ذات میں یہ اخلاقی حِس ہونی چاہیے اور معاشرے کی اجتماعیت کا شعور بھی عدل کی بنیاد پر استوار ہو نا لازمی امر ہے۔یوں تو حکومت کی اصل غرض وغایت ہی عوام کے لیے عدل و انصاف فراہم کرنا ہے۔عوام اپنے اندر سے کچھ لوگوں کو حق رائے دہی کے ذریعے ایوان اقتدار میں بھیجتے ہی ا س غرض سے ہیں کہ ان کے مجموعی مفادات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور انہیں جانی اور مالی تحفظ دیا جائے۔ ان کی بنیادی ضروریات اور احتیاجات کے حصول کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ ریاست کا ہر فرد امن و سکون کی زندگی گزار سکے اور بھرپور طریقے سے اپنی سماجی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہے ، لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب معاشرے میں بلا تفریق عدل کی فراہمی کو قا بل عمل بنایا جائے۔

کتاب و سنت کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ خالق کائنات نے ایک طرف انسان کو رزق کی فراہمی کا ایک مربوط نظام وضع کیا ہے تو دوسری جانب انسان کی روحانی، فکری اور اس کی تمدنی زندگی کی آبیاری کے لیے بھی ایک ایسا بے مثال لائحہ عمل پیش کیا ہے جو اپنی ہیئت ترکیبی میں مکمل طور پر عدل کی انوار و برکات پر مبنی ہے۔انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے لیے اس میں واضح ہدایات موجود نہ ہوں۔اور ان ہدایات میں اس امر کا بھی خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ اس میں کسی خاص طبقے یا نسلی اعتبارسے کسی اعلیٰ قوم کو عدل و انصاف سے بالا تر مقام حاصل نہ ہو،بلکہ معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہبود کو ہر پہلو سے اہمیت دی گئی ہے۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیایک نگاہ ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بعثت اللہ کی زمین پر اللہ کے احکام کے بالفعل نفاذ کے ساتھ ، نظام عدل وقسط قائم کر کے دنیا میں انسانوں کے رائج کیے ہوئے ظالمانہ اور جابرانہ نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔ ظلم و بربریت اور استحصالی سوچ پروان ہی جب چڑھتی جب عدل کی طنا بیں ڈھیلی پڑھنے لگتی ہیں،اور پھر خودغرضی، منافرت، تعصب،ہٹ دھرمی،حسد، انتقامی کارروائی اور جنبہ داری کی فضاء معاشرے کی مجموعی فکر میں در آتی ہے۔اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کی فوزو فلاح کے پیش نظر عدل و قسط کا ایک جامع اور مربوط لائحہ عمل دیا گیا۔ ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ

بلاشبہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ۔(الحدید25)

عدل کا رویہ انسان کے اندرایک احساس تحفظ پیدا کر تا ہے اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ عدل ہی وہ شئے ہے جس کا عالمی سطح پر بھی فقدان ہے۔ اور دور جدید میں مسند اقتدار پر بیٹھے مسلم حکمراں بھی عدل وانصاف کی ضرورت اور اسکی اہمیت سے غافل طاقت و جبر کے زور پر حکومت کر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو جو ایک نظام عدل و قسط سونپا گیا ہےاس میں اس کی مخلوق پر ظلم و استحصال ، جائز حقوق کی پامالی، احکام الہٰی سے بغاوت اور بندوں کو اپنے ہی جیسے دوسرے بندوں کی فکری اور عملی غلامی سے نجات دلانے کا کامل قانون موجود ہے۔اور حیات دنیوی کے تمام گوشوں ، تعلیم، معیشت، سیاست، ثقافت اور سماجی اقدار کے تحفظ کا ایک جامع لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اس ضمن میں قرآن و سنت کی تعلیمات ہی وہ واحد اور بہترین راستہ ہے جس پر چل کر ایک پرسکون ، کامیاب اور زندگی کی حلاوتوں سے متمتع ہو کر اس خیر و شر کی دنیا میں رہا جاسکتا ہے، ورنہ گمراہی، دجل وفریب اور زیغ و ضلال کے زہریلے ناگ انسان کونگلنے کے لیے منہ پھاڑے بیٹھے ہیں۔ عدل کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو پھر انسان کی فکری، عملی اور نظری قوت کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔اور انسان کی یہی کمزوریاںہیںجو اسے فکری اور عملی اعتبار سے ،وقت کی ترقی یافتہ قوموں کی غلامی پر مجبور کر دیتی ہیں۔اور آج عالمی سطح پر مسلم امہ اقوام مغرب کی غلامی کایہ طوق اپنے گلے میں ڈالے بیٹھی ہے۔آج عزل و نصب کے فیصلے بھی مغرب کے اشاروں پر طے کیے جاتے ہیں، بلکہ ہماری معیشت،سیاست،معاشرت اوراخلاقی اصول سب کچھ مغرب سے درآمد شدہ ہوتے ہیں۔

اب غور و فکر کا مقام یہ ہے کہ آیا عدل و قسط کا یہ الہامی نظام از خود نافذ ہوجائے گااور اس کی برکات و ثمرات سے ہم کسی معجزاتی عمل کے ذریعے بہرہ ور ہونے لگیں گے یا ہمیں بھی اپنی حیات دنیوی کی ترجیحات پرنظر ثانی کر نی ہو گی۔ اس ضمن میں ہماری اہم اوراولین ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کی اس زمین پر اس کی ہدایات کی روشنی میں نظام عدل و قسط کے بالفعل نفاذ کے لیے اپنے جسم و جاں کی توانائیاں کھپا کر اپنے خلیفہ ارض ہونے کا ثبوت دیں۔ا سی میں ہمار ی بقاء اور سلامتی کا راز مضمر ہے۔ یہ دنیا اللہ کے وضع کیے ہوئے طبعی قوانین کے تحت رواں دواں ہے، چنانچہ خالق کون و مکاں اپنے فرمانبردار اور خدا ترس بندوں کے ذریعے سے ہی اس کائنات رنگ و بو میں تغیر و تبدل کر کے انسانوں کی غیر متوازن طرز زندگی کو صحیح شعور عطا کرتا ہے۔تاکہ وہ عادلانہ اور منصفانہ نظام کے لیے بھرپور جدوجہد کر سکیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت 251میں ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے: ’’ اسی طرح اللہ لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹا تا نہ رہتا تو زمین میں فساد ہی مچا رہتا،لیکن اللہ تعالیٰ اقوام عالم پر بڑا فضل کرنے والا ہے‘‘۔

نظام عدل و قسط کے عملی نفاذ کے لیے ایک ایسے گروہ یا جماعت کی تشکیل انتہائی ناگزیر ہے جو اجتماعی طور پر اس اہم ترین کام کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کرے، کیونکہ اسلا م کا مزاج اجتماعیت کا حامل ہے۔فرد تو اپنی ذات کے دائرے میں ہی مقید رہتا ہے، اسے تو صرف اپنے مفادات سے ہی غرض ہوتی ہے ،لیکن اجتماعیت کا تصور ذہنوں میں اجاگر ہی اس وقت ہوتا ہے جب من حیث القوم کسی ایسے واضح مقصدکو حاصل کرنا ہو ، جس کا تقا ضا اللہ کے احکام کی صورت میں بھی دیا گیا ہو اور اس کو پورا کرنے میں انسانیت کی فوز و فلاح ،اس کے مفادات کا تحفظ ، سلامتی اوربقاء کی ضمانت بھی ہو۔

فرمان الہٰی ہے:

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (آل عمران 104)

اور تم میں کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں اور وہ اچھے کاموں کا حکم دیتے رہیںاور برے کا موں سے روکتے رہیں اورایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

عدل اجتماعی کی مساعی جمیلہ اس امر کی متقاضی ہے کہ اللہ نے انسان کو جو اختیار و ارادہ کی قوت عطا کی ہے اس کو عمل میں لاکر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو یقینی بنایا جائے اور اپنے باہمی تضادات اور دین کے فروعی مسائل سے صرف نظر کر کے اپنے سیاسی، معاشرتی، سماجی، تعلیمی اور معاشی مسائل کو اپنی بھر پور توجہ کا مرکز و محور بنایا جائے اور یہ سب کچھ اس ہدایات اور احکام کے تابع ہو جو قرآن و سنت کے حوالے سے ہمیں عطا ہوئی ہیں۔

عدل اجتماعی انسان کی حریت و آزادی پر زور دیتا ہے، یہ آزادی انسانی بنیادی حقوق مثلاً سیاست ، معیشت اور معاشرت کے دائرے میں بھی ہوگی اور سماجی رسوم و رواج کی اسیری سے بھی اسے نجات دے گی۔ غلامی ایک ایسی لعنت ہے کہ اگراس سے نجات مل بھی جائے تو عرصۂ دراز تک انسانی وجود سے بوئے غلامی نہیں جاتی۔ عدل کا قیام ایک ایسی صحیح فکر اور واضح ہدف ہے کہ اس کے ساتھ تمام انسانوں کا اشتراک عمل نہ صرف اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرتا ہے بلکہ پوری قوم کے لیے بھی امن و سکون اور راحت و انبساط کاسامان مہیا کر دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں اسی لیے تاکید کی گئی ہے:

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا     (النسآء58)

(مسلمانو!)بلا شبہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جو امانتوں کے حقدار ہیں انہیں امانتیں ادا کرو جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو، اللہ یقینا اچھی نصیحت کرتا ہے اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

اسی بات کو ایک اور مقام پر بڑے سخت الفاظ میں یوں فرمایا:

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ (المآئدہ44)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ کافر ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں عدل و انصاف کی بہترین مثالیں قائم کی ہیں ۔ مثلاً فتح خیبر (628ء ) کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے پیداروار کی محض نصف وصولی کا معاہدہ کیا تو یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انصاف پروری کی بے حد تعریف کی۔ اسلام نے تو غیر مسلموں سے بھی عدل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو پورا کرو، ان کی جان و مال کی حفاظت کرو اور ان سے جزیہ صرف اسی صورت میں وصول کیا جائے جب ان کی جان ومال کی پوری طرح حفاظت کی گئی ہو۔سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عدل و انصاف کی اہمیت جنگ یرموک (636ء ) کے موقعہ پر نظرآتی ہے جب فوج کی کمی کی وجہ سے مسلمان لشکرحمص کو چھوڑ کر دمشق آیا تو عیسائیوں کو جزیے کی رقم لوٹا دی گئی، اس لیے کہ فوجوں کی واپسی کی وجہ سے اب عیسائیوں کی جان و مال کی حفاظت کر نا مسلمانوں کی لیے ممکن نہ رہا تھا۔ عدل کے نفاذ کی یہ برکات ہیں جس سے صرف مسلم امہ ہی نہیں بلکہ غیر مسلم اقوام بھی ایک عادل اسلامی ریاست میں اپنے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ اطمینان والی اور بے خوف زندگی بسر کر سکتے ہیں۔یہی اسلام کے وضع کر دہ نظام عدل و قسط کا خاصہ ہے۔

وقت کا اہم تقاضا یہ ہے کہ امت مسلمہ کے ہر فرد کو نظام عدل وقسط کے نفاذ کے لیے خود کو ذہنی اورعملی طور پر تیار کرنا چاہیے ۔تاکہ اول اپنے وطن عزیز میں اور بعد اذاں پورے عالم اسلام میں قرآن و سنت کے دیے ہوئے اس اعلیٰ و ارفع نظام کا بول بالا ہو سکے۔ اور یہ کام کسی اجتماعیت میں جڑے بغیر ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں مستحضر رہے کہ عدل و انصاف کے اولین حقدار ہمارے رحمی رشتے اور قرابت دار ہیں ، اس کے بعد وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ہم زندگی کا ایک بڑا عرصہ بسر کرتے ہیں۔یہ بڑا عجیب معاملہ ہے کہ بعض لوگ اپنے گھر پر اولین توجہ دینے کی بجائے گھر سے باہر لوگوں کی اصلاح کو ترجیح دیتے ہیں۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الہٰی کے ذریعے یہ حکم دیا کہ آپ اپنی قوم کو واشگاف الفاظ میں دین کی دعوت پیش کریں، ارشاد باریٔ تعالیٰ ہوا:

وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (سورۃ الشعراء214،215)

اور اپنے کنبہ کے قریبی رشتے داروں کو خبردار کیجیے، اور ایمان لانے والوں میں جو آپ کی اتباع کریںان سے تواضع سے پیش آیئے۔

اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام یہی کیا کہ اپنے قرابت داروں کو اللہ کے پیش کیے ہوئے دین کی دعوت دی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے پیغام کے سب سے پہلے مستحق ہمارے قرابت دار ہیں۔خاندان ایک ایسے مضبوط ادارے کا نام ہے جو کسی ایک ہدف کے حصول کے لیے مشترکہ جدوجہد کرے تو نتائج مثبت اور دوررس نکلتے ہیں۔ پھر یہی خاندان مل کر ایک بہت بڑی اجتماعیت میں ڈھل جاتے ہیں اور اس طرح کسی بڑے سے بڑے ہدف اور مقصد کو حاصل کرلینا انتہائی آسان ہوجاتا ہے۔ اور انسان کے لیے سب بند دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔عدل کے بند دروازے بھی ہم پر جب ہی کھل سکیں گےجب بکھری ہوئی اور دھنکی ہوئی روئی کی مانند یہ امت مسلمہ کسی ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہو کر اسلام کے عطا کردہ نظام عدل و قسط کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دنیا میں رائج نظام باطل سے ٹکرائیں گے۔

اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ

اللہ یقینا ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو اس کی راہ میں صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں ، جیسے کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (سورۃ الصف(04

فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے