ماہرین فرق کا اس بات پر متفق ہے کہ بہائی مذہب دراصل بابیت نامی گمراہ مذہب کی بنیاد پر ہی قائم ہوا تھا اور بہائیت دراصل بابیت کی ہی ایک ارتقائی شکل ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ شروع میں بابیت اور اس کے بانی کا بھی مختصر طور پر تذکرہ کر دیں۔
بابیت کا مختصر تعارف:
یہ ایک نیا خود ساختہ ، من گھڑت فرقہ تھا جو کہ تیرہویں صدی ہجری میں ایک شیعہ مرزا علی محمد شیرازی کے ہاتھوں ظاہر ہوا جس کا تعلق ایران سے تھا جو کہ اس بات کا جھوٹا و باطل دعوی کرتاتھا کہ وہ مہدی منتظر کا باب (دروازہ) ہے۔پھر اس نے اپنی گمراہ دعوت کے اعلان کے بعد اپنے آپ کو (الباب) کے لقب سے مشہور کروایا اور اسی طرف بابیت کے مذہب کو منسوب کیا جاتا ہے۔(عقیدہ ختم النبوۃ، (عربی) د۔ احمد الغامدی ص 202، مقالہ ایم۔اے جامعہ ام القری مکہ مکرمہ)
بابیت فرقے کا ظہور اس شیعہ اثناءعشری معاشرے میں ہوا جو کہ سختی سے اس بات کا قائل تھا کہ ان کا بارہواں امام ’’محمد حسن العسکری‘‘ تیرہویں صدی ہجری سے (روپوش) ہو چکا ہے۔ اور وہ آج تک زندہ ہے اور وہی امام منتظر ہے۔
الباب کے لقب سے مشہور شخص کا مختصر تعارف:
اس کا نام علی والد کا محمد رضاشیرازی تھا وہ اس بات کا دعویٰ کرتاتھا کہ وہ اہل بیت میں سے ہے اس کی پیدائش شیراز کے علاقے میں 1235 ہجری میں ہوئی۔ اس کے باپ کا انتقال اس کی چھوٹی عمر میں ہو گیا تھا بعد میں اس کے ماموں مرزا علی شیرازی نے ا س کی پرورش اور دیکھ بھال بحال کی اس کے ماموں نے اسے کسی دینی درسگاہ میں داخل کرایا۔ مگر یہ حصول علم کی طرف راغب نہیں تھا پھر اس کے ماموں اس کو اپنے ساتھ تجارتی سفر میں لے جانے لگے، پھر جب وہ اس سے واپس آیا تو وہ ازخود کواکب و سیارگان کے روحانی علوم (جادوگری اور کہانت) سیکھنے میں مصروف ہو گیا، جس سے اس کی عقلی و جسمانی صلاحیتیں کافی متاثر ہوئیں۔ اور ان کی وجہ سے اس پر شدید اعصابی و نفسیاتی دورے پڑنے لگے اور اس نے ایسی بہکی بہکی گفتگو کرنا شروع کر دی جسے اس کے استاذ کاظم الرشتی کے شاگردوں نے بھی کفر شمار کیا۔ (عقیدہ ختم النبوۃ، الغامدی، ص 204)
الباب کا خاتمہ:
1260 ہجری میں جب علی بن محمد الباب نامی شخص پچیس برس کا ہوا تو اس نے ایسے گمراہ کن دعوے کرنا شروع کر دئیے جنہیں اس وقت کا ایرانی معاشرہ برداشت نہ کر سکا اور بالآخر 1265 ہجری میں جبکہ مذکورہ گمراہ (الباب) کی عمر صرف تیس سال تھی تو اس کو قتل کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ (عقیدہ ختم النبوۃ ص 207)
اس کے مختلف گمراہ کن دعوے:
سب سے پہلے 25 سال کی عمر میں اس نے اپنے الباب ہونے کا اعلان کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہی مہدی منتظر تک پہنچانے والا دروازہ ہے جس کے ذریعے لوگ مہدی سے اپنا رابطہ اور تعلق استوار کر سکتے ہیں۔
دعوی مہدیت: پھر کچھ ہی عرصے بعد اس نے یہ گمراہ کن دعوی کرنا شروع کردیا کہ وہی المہدی المنتظر ہے جو کہ زمین کو اسی طرح انصاف سے بھر دے گا جیساکہ وہ ظلم سے بھر گئی تھی۔
پھر اس نے نبوت کا بھی دعوی کر ڈالا اور یہ گمراہ کن اعلان کیا کہ اس کی نام نہاد کتاب (البیان) نے اسلامی شریعت کو منسوخ کر دیاہے۔(عقیدہ ختم النبوہ ص 205)
یہاں تک کہ جب مذکورہ گمراہ شخص نے مشہور امام آلوسی کے نام ایک خط تحریرکیا تو اس میں لکھا کہ:
ولقد بعثنی اللہ بمثل ما قد بعث محمداً رسول اللہ من قبل (حقیقۃ البابیۃ والبھائیۃ
اور اللہ نے مجھے (نعوذ باللہ) ایسا ہی رسول اور پیغمبر بنا کر بھیجا ہے جیساکہ اس سے پہلے محمد علیہ السلام کو نبی اور رسول بنا کر بھیجا تھا۔ (ڈاکٹر عبدالمحسن حمید ص 62)
اور جو علماء اس سے مناظرہ کرنے آئے تھے ان سے کہا کہ یہ میری کتاب البیان ہے تو تم لوگ اس کی تلاوت کرو اور اس کو پڑھو تو تم دیکھو گے کہ اس کی عبارت قرآن سے بھی زیادہ فصیح ہے اور میری کتاب کے احکامات قرآن کے احکامات کو منسوخ کر دینے والے ہیں۔ والعیاذ باللہ (حقیقۃ البھائیۃ ص 62)
اور پھر اس شخص نے صرف نبوت کے دعوے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو تمام پیغمبروں کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بہتر قرار دے دیا۔ تو وہ ہرزہ رسائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
انی افضل من محمد کما ان قرآنی افضل من قرآن محمد (مفتاح باب الابواب ص 20)
میں (الباب) محمد سے بہتر ہوں جیساکہ میرا قرآن بھی محمد کے قرآن سے بہتر ہے۔
پھر محترم الشیخ ڈاکٹر احمد بن سعد الغامدی نے اپنی کتاب عقیدہ ختم النبوۃ میں بابیت کے مذہب کا شاندار علمی رد کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ بابیت کے اس نا پاک مذہب کے پیچھے روسیا کا ہاتھ تھا اور اس نے ہی مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس غلط مذہب کی داغ بیل ڈالی اور اسے فروغ بھی دیا۔
بہائیت کا بانی:
اس گمراہ بہائی فرقے کا بانی حسین علی نامی شخص ہے جس کے باپ کا نام عباس بزرگ نوری مازندرانی ہے۔ حسین علی نوری مازندرانی کی پیدائش مازندان نامی علاقے کے نور نامی گاؤں میں ہوئی جو کہ ایران میں واقع ہے۔ اور اس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ (انتہائی بد ترین شخص) 1233 ہجری میں تہران میں پیدا ہوا۔ اور اس شخص نے 27 سال کی عمر میں 1260 ہجری میں بابی مذہب بابیت کو قبول کیا۔ اور یہ حسین نامی شخص بابی مذہب کے بانی الباب شیرازی پر بہت زیادہ خفا تھا کہ اس نے اسے بابی مذہب کے اہم سرکردہ افراد میں شمار نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس کے بجائے اس کے بھائی صبح الازل کو بابی مذہب میں اہم درجہ دے دیا تھا۔ مگر اس مازندرانی نے اپنے اس غصے کو چھپائے رکھا اور اس کا الباب پر اظہار نہیں کیا اور مناسب موقع کی تلاش میں لگا رہا یہاں تک کہ ایران کے بدشت نامی صحراء میں ایک اہم بابی کانفرنس منعقد ہوئی جسے مؤتمر بدشت کہا جاتا ہے۔ (فرق معاصرہ، د۔ غالب العواجی 663/2)
اس کانفرنس میں کھلم کھلا بے شرمی و بے حیائی اور شراب نوشی کا مظاہرہ کیا گیا اور زنا کاری کو جائز و حلال قرار دیا گیا۔ (فرق معاصرہ 635/2)
اس بدنام زمانہ کانفرنس میں یہ مازندرانی شخص بابیوں کی نہایت بدکار و بد چلن خاتون (قراۃ العین) کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔(فرق معاصرہ 663/2)
اور یہ قراۃ العین نامی بدکردار و بد چلن خاتون اس بات پر اصرار کر رہی تھی کہ اسلامی شریعت کو بابی مذہب کے ذریعے منسوخ کر دیا جائے۔جب اس کانفرنس میں معاملات کافی الجھن کا شکار ہوگئے تو مازندارنی ، قراۃ العین نامی بدچلن خاتون کی حمایت میں بولنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ اور اس نے سورۃ الواقعہ کی تلاوت کر کے اس کی غلط باطنی تشریح کرنا شروع کردی اور یہ جھوٹا دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ ’’معاذ اللہ‘‘ اس سورت میں خود اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ دین اسلام کو بابی شریعت سے منسوخ کر دیا جائے۔ پھرا س کانفرنس کے تمام شرکاء نے متفقہ طور پر بدکار و نہایت بدچلن اور فاسق وفاجر خاتون قراۃ العین کو اپنی فرمانروا اور قائدہ تسلیم کرلیا۔ بعد میں اس قراۃ العین نامی خاتون نے اپنے آپ کو مازندرانی کے سپرد کر دیا۔اور کہا کہ میں خود بھی آپ کی فرمانبردار اور پیروکار ہوں۔ قراۃ العین نے حسین علی مازندرانی کو بھاءاللہ کا لقب دیا بعض مفکرین کا خیال ہے کہ بھاءاللہ کالقب اس گمراہ مازندرانی نے اپنے آپ کو خود ہی دیا تھا، یا یہ لقب اسے یہودیوں نے دیا تھا۔ (فرق معاصرہ 663-664/2)
مازندرالی کی ثقافت:
اس نے بچپن میں شیعی اور صوفی علوم سیکھئے اور وہ مہدی کے بارے میں کافی شوق اور رغبت سے پڑھتا تھا اور فلسفیوں، صوفیوں اور باطنیوں کی کتب کا بھی مطالعہ کرتا تھا مگر جب وہ غرور کا شکار ہوا اور اس نےنبوت کے دعوے کا ارادہ کیا تو کہنے لگا کہ میں تو امی ان پڑھ و ناخواندہ ہوں اور میرے پاس جو بھی کچھ علم ہے وہ براہ راست اللہ کی طرف سے (وحی ) ہے۔
بہائیت کے بانی کی ہلاکت:
جب مازندرانی کی عمر 75 برس ہو گئی تو وہ 1309 ہجری میں شدید بخار کا شکار ہوا جوکہ اس کی موت کا باعث بنا اور اس طرح 1309ھ میں خدائی اور جھوٹی نبوت کا دعویدار اللہ کے حکم سے موت کا شکار ہوا۔ اور اسے اس کے گھر کے قریب ہی عکّا (فلسطین) میں دفن کردیا گیا۔ اور اس کی ہلاکت کے بعد اس کا بڑا بیٹا عباس اس کا خلیفہ بن گیا۔
بہائیت کے کفریہ اور گمراہ کن عقائد کا مختصر تذکرہ:
1۔ اپنی زندہ اور مردہ حالت میں حسین علی مازندرانی ہی ان کا رب اور الہ اور معبود و سجود ہے۔
2۔ تمام کائنات کے خالق و مالک اللہ اپنی اصلی حالت میں پوری طرح حسین مازندرانی کی صورت میں ہی ظاہر ہوگئے ہیں۔ (جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ جاہل و کافر لوگ حلول و اتحاد کے مشرکانہ عقائد کے بھی قائل ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ مازندرانی اپنے چہرے پر کپڑا ڈال کر چلا کرتا تھا تاکہ عام لوگوں کو اس (جعلی خدا) کا دیدار حاصل نہ ہو جائے۔
3۔ قرآن و صحیح احادیث میں سیدنا عیسی علیہ السلام کے حوالے سےجو کچھ بیان ہوا ہے وہ اس پر یقین نہیں رکھتے ہیں بلکہ دیگر اسلام دشمن عناصر کی طرح وہ بھی یہی دعوی کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو قتل کر دیا گیا ہے اور سولی پر چڑھا دیا گیا ہے۔ (فرق معاصرہ 705/2)
4۔ بابی اور بہائی اسلامی شریعت کو پوری طرح منسوخ سمجھتے تھے۔ (فرق معاصرہ 705/2)
5۔ قیامت کے دن پر اسلامی عقائد کے مطابق ایمان نہیں رکھتے، بلکہ اس کی گمراہ کن خود ساختہ تاویلات کرتے ہیں۔ (فرق معاصرہ 705/2)
6۔ ان کے نزدیک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء نہیں ہیں بلکہ لوگوں کے نبی بننے کا سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جاری رہے گا۔ (فرق معاصرہ 706/2)
7۔ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ الباب شیرازی کی کتاب (البیان العربی) اور مازندرانی کی کتاب (الاقدس) اللہ کی وحی کا ہی حصہ ہیں۔ (فرق معاصرہ 706/2)
8۔ قرآنی آیات کی بد ترین باطنی ملحدانہ تاویلات کرتے ہیں۔ (فرق معاصرہ 706/2)
9۔ اللہ کے سچے انبیاء کو ملنے والے معجزات کے بالکل قائل نہیں ہیں۔(فرق معاصرہ 706/2)
10۔ فرشتوں، جنات اور جنت و دوزخ کے منکر ہیں۔ (فرق معاصرہ 706/2)
11۔ عدد ۱۹کو مقدس اور نہایت اہم سمجھتے ہیں۔ (فرق معاصرہ 706/2)
12۔ اللہ کے تمام سچے نبی محض اس جاہل و گمراہ بہاء کی خوشخبری دینے اور اس کی بکواسوں کی آؤ بھگت کے لیے ہی آئے تھے۔ (فرق معاصرہ 679/2)
13۔ جہاد بہائی شریعت میں مکمل طور پر حرام اور سخت منع ہے اور جہاد سے روکنا بھی مازندرانی کا ایک اہم مشن تھا جس کے لیے اسے پرموڈ کیا گیا تھا۔ (فرق معاصرہ 711/2)
بہائیت کے عقائد و نظریات جو کہ اسلام کے خلاف ہیں ان کا مختصر تذکرہ:
یوں تو بہائیت کے غلط عقائد اور اسلام دشمنیاں بے شمار ہیں مگر یہاں اس بات کی کوشش کیجائیگی کہ بطور خاص ان بہائی عقائد کا رد کیا جائے جوکہ بعض اسلامی معاشروں میں دراندازی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہاں ہم نماز، حج، غیب پر اور رسولوں پر ایمان اور ان کے حوالے سے بہائیوں کےعقائد کا مختصر طور پر تذکرہ کرینگے۔
1۔ نماز کے حوالے سے ان کا مؤقف:
بہاء نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ پورے دن میں صرف 9 رکعات ہی فرض ہیں اور عبداللہ بن خراب الکندی جسے کہ بہت بے عقلوں اور جاہلوں نے خدا سمجھ لیا تھا اس نے کہا تھا کہ پورے دن اور رات میں 9 نمازیں فرض ہیں۔
2۔ حج اور کعبہ مشرفہ کے حوالے سے ان کا مؤقف:
ان کے نزدیک کعبہ تبدیل ہونیوالی اشیاء میں سے ہی ایک ہے (یعنی اس کی باقاعدہ مستقل اور مسلسل حیثیت نہیں ہے۔ بلکہ آج کوئی چیز کعبہ ہے تو کل کوئی دوسری چیز کعبہ ہے) تو وہ اپنے شروع عہد میں اس جگہ کا حج کیا کرتے تھے جہاں کہ ان کا پختہ یقین تھا کہ وہاں الباب نامی مذہبی راہنما موجود ہے۔ اور یہ یقین درحقیقت ان کا ایک وہم ہی تھا کیونکہ ایرانی حکومت نے بغداد میں اس گھر کو تباہ کر دیا تھا جس میں الباب مدفون تھا، جبکہ یہ بات بھی مشہور ہے کہ جب الباب کو قتل کیا گیا تھا تو اس کے پیروکاروں نے اس کی لاش کو چرا لیا تھا اس کے بعد انہوں نے عکانامی فلسطینی شہر کا حج شروع کر دیا تھا جہاں کہ البھاء مدفون ہے اسی طرح البھاء نے وصیت کی تھی کہ جب ان کے (بہائی) گروہ کا کوئی بااختیار وبااثر شخص ظہور پذیر ہو جائے تو (نعوذباللہ) مکہ مکرمہ میں واقع بیت اللہ شریف کو تباہ کر کے رکھ دیا جائے۔
قبلے کے حوالے سے ان کا مؤقف اور طرز عمل:
جیسا کہ سطور بالا میں مذکور ہے کہ بہائیوں کا قبلہ تبدیل ہوتا رہتا ہے تو جو اس باطل مذہب کا بانی تھا بہاء اس نے شروع میں اپنی رہائش کی جگہ عکا کو ہی قبلہ قرار دیاتھا پھر جب اسے گرفتار کر کے تہران کی جیل میں بند کردیا گیا تو تہران کی جیل ہی بہائیوں کا قبلہ تھا پھر جب وہ بغداد منتقل ہو گیا۔ تو ان کا قبلہ بھی بغداد کی طرف منتقل ہو گیا بعد میں جب اسے عکّا میں دفن کر دیا گیا تو عکا ہی ان کا قبلہ قرار پایا۔
تبصرہ:
حیرانگی کی بات یہ ہےکہ یہ کم عقل (بہائی) لوگ اپنے نام نہاد جھوٹے اور جعلی خدا کی قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں جو کہ اپنے آپکو جیل میں جانے سے بھی نہیں بچا سکا تھا اور جو کہ جیل میں جانے کے بعد کہتا تھا:
انا المظلوم المرمی فی السجن الاعظم
کہ میں نہایت مظلوم شخص ہوں جسے عظیم ترین جیل میں پھینک دیا گیا ہے۔
تو آخر یہ کونسا اور کیسا رب ہے جو کہ اپنے آپ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ نہ رکھ سکا بلکہ ان کا شکویٰ کر رہا ہے اور یہ کیسا رب ہے جو کہ جیل میں ڈالے جانے کے بعد اپنے آپ کو وہاں سے نکالنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔۔؟؟؟
اس سے یہ بات واضح ہے کہ بہائی مذہب کے پیروکار انتہائی بے عقل لوگ ہیں ورنہ اگر وہ شدید بے وقوف نہ ہوتے تو جیل میں ڈال دئیے جانے والے بے کس کمزور انسان کو اپنا رب نہ مانتے اور ان بہائیوں کا اسلام دشمن عناصر سے بھی گہرا رابطہ اور تعلق ہے اور یقیناً بہائیوں کا اپنے مؤسس (بہاء) کی قبر پر سجدہ کرنا اور اس کی قبر کا طواف کرنا اور ان کا یہ یقین رکھنا کہ فوت شدہ اور دفن شدہ بہاء دعاؤں کا سننے والا بھی ہے اور جواب دینے والا بھی ہے یہ تمام باتیں اس بات کا واضح اور کھلا ثبوت ہیں کہ بہائی بھی قبروں کے پجاری اور مشرک ہیں۔
عقیدہ کے حوالے سے ان کا مؤقف اور طرز عمل:
بہائیوں کا یقین حسب ذیل ہے:
البعث (زندہ کر کے اٹھایا جانا): روحانی بیداری کا نام ہے۔
الحشر (لوگوں کا حساب کے لیے اکٹھا کیا جانا): یہ ہے کہ لوگ انبیاء کی ذات پر اکٹھے ہو جائیں اور اس کے اردگرد جمع ہو جائیں۔
الیوم الآخر(قیامت کا دن): بہاء کے ظہور کا دن ہے۔
الحساب: یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھاء کے جسم میں داخل ہو جائیں، اس کے جسم میں حلول کر جائیں۔
صحائف الاعمال اعمال کے صحیفے: اس سے مراد روزانہ شائع ہونے والے اخبارات ہیں۔
الجنۃ (جنت): اس کمال کا نام ہے جو کہ انسان کوبہائی مذہب میں شامل ہونے پر حاصل ہوتا ہے۔
النار (دوزخ کی آگ): ان نقصانات اور ناکامیوں کا نام ہے جو کہ کسی بھی انسان پر (بھاء) کے انکار پر آتے ہیں۔
مذکورہ بالا عقائد سے ثابت ہوا کہ بہائی اس قیامت اور جنت اور دوزخ پر ہرگز ایمان نہیں رکھتے جو کہ قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں بلکہ انہوں نے ان اہم ترین اعتقادی معاملات اور حقائق کی خود ساختہ ، من گھڑت اور گمراہ کن تاویلات کی ہوئی ہیں۔
رسول معظم پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بہائیوں کا مؤقف:
بہائیوں نے عقیدہ کے اہم ترین ابواب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو واضح خلاف ورزیاں کی ہیں وہ اس بات کی واضح اور کھلی دلیل ہیں کہ ان کے دل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کے منکر ہیں اور اگر وہ کچھ کتابوں میں اس بات کا صرف بظاہر تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کا یہ چھوٹا دعویٰ محض ایک آڑ اور پردہ ہے تاکہ وہ اس محض زبانی اقرار کے پیچھے چھپ کر اسلام کو ختم کرنے کی کوشش و سازش کریں۔
نبوت کے جھوٹے دعویدار مازندرانی کی جھوٹی پیش گوئی:
بہائیت کے جب اس جھوٹے بانی حسین مازندرانی نے پہلے نبوت پھر خدائی کا جھوٹا دعویٰ کیا تو اس نے اپنے ان جھوٹے دعووں کو سہارا اور تقویت دینے کے لیے مختلف طریقے بھی اپنائے جن میں غیب دانی اور جھوٹی پیش گوئی بھی شامل تھیں۔
مگر جس طرح اللہ کا قانون اور سنت ہر جھوٹے دعویدار کے لیے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے جھوٹ کا پردہ چاک کر کے رکھ دیتے ہیں جس طرح اللہ نے مرزا غلام احمد قادیانی کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا تھا تو اسی طرح اللہ نے اپنی حکمت اور قدرت کاملہ سے بہائیت کےبانی حسین مازندرانی کے جھوٹ کا پردہ بھی چاک کیا اور اسے بہت زیادہ رسواکیا۔
یوں تو مازندرانی کی جھوٹی پیش گوئیوں کی فہرست کافی طویل ہے۔ مگر یہاں اختصار کے پیش نظر اس کی صرف تین پیشگوئیوں کا ہی تذکرہ کرینگے۔جو کہ بعد میں جھوٹی ثابت ہوئیں اور ان پیشگوئیوں کا جھوٹا ثابت ہونا خود مازندرانی کے ہی جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔
قارئین کرام بہائی مذہب کے بانی جھوٹے حسین مازندرانی کی مزید جھوٹی پیشگوئیوں کا مطالعہ کرنا چاہیں تو وہ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی عربی کتاب ’’البھائیہ نقد و تحلیل‘‘ سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ص 249 تا 308)
پہلی خود ساختہ پیش گوئی:
مازندرانی نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ عراق کے ملک میں بہائیت کا بڑا تابناک مستقبل ہوگا۔ اور کچھ ہی عرصے بعد یہاں کے لوگ بہائیت پر فخر کرینگے۔ تو کیا اس کا یہ دعویٰ سچ ثابت ہو سکا ہرگز نہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہی ہوا۔کہ ابھی تک اس کی پیش گوئی کو سینکڑوں سال گذر گئے مگر آج تک اہل عراق نے بہائیت پر فخر نہیں کیا فخر تو درکنار بلکہ عراق میں تو کوئی بہائیت کی کھلم کھلا تبلیغ بھی نہیں کر سکتا۔ (فرق معاصرہ، غالب العواجی، ص 730، 731/2)
دوسری پیشگوئی:
مازندرانی نے اس بات کی بھی پیشگوئی کی تھی کہ پورا تہران بہائیت کا گڑھ بن جائیگا اور بہائی ہی وہاں حکمرانی کرینگے اور ان کی حکمرانی تہران سے نکل کر دوسرے علاقوں تک بھی پہنچ جائیگی۔ (فرق معاصرہ، غالب العواجی، ص 730، 731/2)
حقیقی نتیجہ:
مگر جس طرح اس کی دوسری پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں تو یہ پیشگوئی بھی جھوٹی ہی ثابت ہوئی اورتہران میں بہائیوں کو حکمرانی تو کیا مل سکی ان کو وہاں سر اٹھا کر چلنے کی یا اپنی دعوت کو عام کرنے کی بھی اجازت نہیں ملی بلکہ وہ وہاں بالکل ذلیل اور بے عزت ہو کر رہے اور انہیں تہران میں کوئی بھی حکمرانی یا برتری بالکل بھی حاصل نہ ہو سکی۔(فرق معاصرہ، غالب العواجی، ص 730، 731/2)
تیسری پیشگوئی:
جب مازندرانی کے چھوٹے بیٹے عبد البھاء عباس آفندی سے پوچھا گیا کہ وہ کونسا آخری سال ہے جس میں کہ بہائیت واقعی دنیا میں پھیل چکی ہوگی تو اس نے کہا کہ میرے باپ اور خدا حسین مازندرانی کے فرمان کے مطابق یہ کام 1957ء تک مکمل ہو جائیگا۔
نتیجہ:
مگر یہاں بھی اللہ نے ان کو پوری طرح ذلت اور شکست سے دوچار کیا اور کسی بھی ملک نے بہائیت کو ہرگز بھی اپنا سرکاری مذہب قرار نہیں دیا اور ان کا بہائی مذہب کے عالمگیر مذہب ہونے کا خواب یہود و نصاری اور امریکی و اسرائیلی اور روسی مدد و سپورٹ کے باوجود محض خیالی پلاؤ اور دیوانے کی بڑھک ہی ثابت ہوا اور ہرگز بھی مکمل اور وقوع پذیر نہ ہوسکا۔ (فرق معاصرہ، غالب العواجی، ص 730، 731/2)
اور اب نتیجہ اور زمینی صورتحال یہ ہے کہ بہائیت کو ایران، عراق، ترکیا، مصر اور لیبیا سے دھتکار کر نکالا جا چکا ہے اسی طرح پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک میں بھی بہائی مذہب کو کافر اور گمراہ قرار دیکر اس کے خلاف دائرہ تنگ کیا جا چکا ہے۔
گمراہ بہائیوں جواب دو:
تو اب نبوت اور خدائی کے جھوٹے دعوے دار حسین مازندرانی اور اس کے بیٹے عباس کے وہ دعوے اور فرامین کہاں چلے گئے کہ 1957ء تک پوری دنیا میں بہائیت پھیل چکی ہو گی؟؟
قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین