آ پریشن ’’ردّ الفساد‘‘ شروع ہوئے ابھی چند گھنٹے بھی نہ گزرپائے تھے کہ لاہور کے پوش علاقے میں دھماکہ ہوگیا جس میں کم از کم آٹھ(8)لوگ جاں بحق ہوگئے۔اس واقعے کے فوراََ بعد شرم و حیا سے عاری بےلگام میڈیا نے یہ خبرچلادی کہ لاہورمیں ایک مشہور رسٹوران کے قریب خودکش دھماکہ ہوگیا یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی یا پھیلا دی گئی۔مقابلے اور مسابقت کی دوڑ میں دیگر چینلز نے اندھی تقلید کرتے ہوئے اس جھوٹی خبر کو زور و شور سے نشر کیا  اور اپنے غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت فراہم کیا جبکہ قرآنی اصول تو یہ ہے

:يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ   (الحجرات: 6)

اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔

جبکہ ہمارا میڈیا اسلامی ملکی نمائندگی سے زیادہ اغیار کی وکالت کرنے میں پیش پیش اوربے حیائی پھیلانے میں بےباک ہے۔قرآن اسلام اور اسلام کا صرف نام لینے والوں سے اللہ واسطے کابیر ہے۔مذکورہ بالا آیت سے یہ بات واضح ہورہی کہ جب کوئی خبر سنو تو دو اعتبار سے ا س کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔ خبرکی سچائی کی تحقیق اوراس خبر کی حقیقت تک رسائی۔کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خبر بذات خود تو صحیح ہوتی ہے لیکن اس کی تحقیق کے بارے میں خبر نہیں ہوتی۔لاہور دھماکہ والی خبرمیں بھی ایسی ہی مجرمانہ کوتاہی کا ارتکاب کیا گیا ہے،خبر سب سے پہلے کے چکرمیں کتنےماںباپ کو پریشان کیا ،مائیں اپنے بچو ں کی خیریت کے لیے سکولوں اور کالجوں کی طرف دیوانہ وار دوڑ پڑیں۔اب میڈا والوں سے کون پوچھے یہ کس کی خدمت کی جارہی ہے؟اتنے لوگوں کو جو اذیت اور زحمت اٹھانا پڑی ، اس کا ذمہ دار کون ہے؟جھوٹی خبروں کے ذریعے سنسنی اور ہیجان پیدا کیا جاناکونسی اور کیسی صحافت ہے؟اس سے صاف واضح ہے کہ جانتے اوربوجھتےکسی اور کےاشارے پر ملک میں بدامنی پیدا کی جارہی ہے ۔میڈیا کے علاوہ زخم پر نمک چھڑکنے کا کام سوشل میڈیا نے بھی کیا۔گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیاپر واٹس ایپ کے ذریعے ایسے پیغامات پھیلا ئے جارہے ہیںجن سے بے یقینی اور خوف وہراس کی کیفیت میں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔واٹس ایپ پر ایک صوتی پیغام کے ذریعے ایک نام نہاد انٹیلی جنس فرد یہ فرماتےہیں کہ وہ موٹر وے سےبول رہے ہیں لاہور اس وقت دہشت گردوں کے نرغے میں ہے۔اسی طرح ایک اورپیغام کے ذریعے یہ دعویٰ کیا جارہاہے کہ پولیس ناکے پرنہ رکنے والوں کوگولی مارنےکا حکم جاری کردیا گیا ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ باشعور پڑھے لکھے لوگ بھی ایسے پیغاما ت کو دوسروں کو  Forwardکرتے نظر آتے ہیں جس سے یہ پتہ چلتاہے کہ میڈیا کی بدنیتی کی وجہ سے دہشت گردوں نے گولی چلائے بغیر اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔اگر میڈیا کودین اسلام اور رسول رحمت کے فرامین کا ادراک ہوتا تو ملک دشمنوں کو نفسیاتی محا ذ پر کامیاب نہ ہونے دیتا ،ایسی خبروں سے قوم کامورال متاثر نہ ہوتا ۔رسول اللہ کی سیرت مبارکہ سے ہمیں خبر کی حقیقت جاننے کی مثالیں ملتی ہیں۔ ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حیی آپ سے ملنے آئیں۔ آپ رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے تھے۔ انہوں نے رات کو کچھ دیر آپ سے بات چیت کی پھر اٹھ کر واپس جانے لگیں تو رسول اللہ بھی انہیں چھوڑنے کے لئے اس دروازہ تک تشریف لائے جو ان کے مکان کو لگتا تھا آپ دونوں کے پاس سے دو انصاری مرد گزرے انہوں نے رسول اللہ کو سلام کیا اور آگے بڑھ گئے۔ رسول اللہ نے ان سے فرمایا ٹھہرو! یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول سُبْحَانَ اللَّهِ (یعنی کیا ہم آپ پر شبہ کرسکتے ہیں) آپ کا یہ فرمانا ان پر گراں گزرا۔ تو رسول اللہ نے فرمایا شیطان انسان میں خون کی طرف دوڑتا ہے اور مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں وسوسہ نہ ڈالے۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب  الصیام ،باب في المعتكف يزوره أهله في المسجد:حدیث نمبر:1779)یہ اس لیے کہ روایت بیا ن کرنے والا کہہ سکتا تھا کہ میں نے دیکھا کہ رات کی تاریکی میں رسول اللہ ایک عورت کے ساتھ جارہے تھے تو اس کی بات صحیح تھی لیکن اسے حقیقت حال کا پتہ نہیں تھااسی کو تحقیق کہتے ہیں ۔شاید جس کا ہمارا میڈیا دعویٰ کرتا توہے مگر عملی طرپر سب لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔بلکہ بھیڑ چال چل رہےہوتے ہیں ،ایک بھیڑ اگر اندھے کنویں گرِرہی ہوتی ہے تو بعد میں آنے والیں بھی آنکھیں بند کر کے اسی کے پیچھے پیچھے گر رہی ہوتی ہیں۔

 

اور یوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔پاکستان میں نائن الیون کے بعد سے لیکر اب تک ملک بھر میں دہشت گردی کے ہزاروں واقعات میں پچاس ہزار سے زائدعام شہری لقمہ اجل بن

چکے ہیں،دہشت گردوں کی گھناؤنی کارروائیوں میں پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے بھی سات ہزار سے زائد جوان اور افسران جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کے خلاف کئی بڑے آپریشن کئے جن میں ہزاروں غیر ملکی ایجنٹ ، ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار اور کالعدم تنظیموں کے شدت پسندوں کو ٹھکانے لگا دیا گیا ۔بد امنی اور فساد خاندانوں، معاشروں اور ملکوں کو تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ فساد کی وجہ سے معاشرتی، معاشی اور سیاسی امن ختم ہو جاتا ہے۔ بد امنی کی فضا میں علوم وفنون کی ترقی رک جاتی ہےاور صنعتی ترقی کے لیےماحول سازگار نہیں رہتا۔ معاشرے کا ہر فرد مستقل طور پر خوف وہراس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر افراد زیادہ دیر تک خوف وہراس کی کیفیت میں مبتلا رہیں تو ان کی صلاحیتیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ عوام نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں ۔ اسلام ایک فطری دین ہے۔ وہ ہر شعبہ حیات میں تعمیر ترقی چاہتا ہے۔ اسلام یہ بات پسند نہیں کرتا کہ انسانی زندگی اور اعلیٰ اقدار کے فروغ میں کسی بھی طرح تعطل پیدا ہو۔ اس لیے اس نے فتنے فساد کے خاتمے کے لیے مؤثر اور مثبت لائحہ عمل دیا ہے۔ قرآن مجید فتنے فساد کی مَذمت بھی کرتا ہے اور اس کے انسداد کے لیے لوگوں کی ذہنی تربیت بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عبرت کے لیے حدود وتعزیرات کی صورت میں سزائیں بھی نافذ کرتا ہے تاکہ جن پر کوئی وعظ و نصیحت اثر نہ کرے، اُنہیں قانون کے شکنجے میں جکڑ کر لاقانونیت سے روکا جاسکے۔رسول اکرم ہمیشہ لڑائی سے بچنے کا حکم دیاکرتے جو شخص لڑائی سے بچتا ہے، آپ اس کی مدح اور حوصلہ افزائی فرماتے۔ رسول اللہ جب کسی گورنر کو تعینات فرماتے تو اسے ہدایت کرتے کہ ’’بشّروا ولا تنفروا، يسّروا ولا تعسّروا‘‘(صحيح مسلم: 4525)’’خوشخبری دینا، نفرت پیدا نہ کرنا ۔ آسانیاں پیدا کرنا، مشکلات اور دقتیں پیدا نہ کرنا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسی فضا پیدا کرنا جس میں لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا نہ ہو،لوگ آپس میں ایک دوسرے کےلیے سہولتیں پیدا کرنے والے ہوں جھگڑالو نہ ہوں ۔دوسری جگہ آپ نے فرمایا

:مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَهُ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلَاهَا (جامع ترمذی:

1993)’’جس نے باطل چیز (جس پر اس کا حق نہیں تھا) کے لیے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ،اللّٰہ اس کے لیے جنّت کے کنارے پر محل تیار کرے گا اورجس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کیا تو اللّٰہ جنّت کے وسط میں اس کے لیے محل تیار کرے گا اور جس نے (نہ صرف جھگڑا کرنے سے اجتناب کیا بلکہ) حسن خلق کا مظاہرہ کیا تو اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں محل تیار کردیا جائےگا ‘‘۔ سیدنا سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ میں رسول اللّٰہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لوگ میرا ذکر اور تعریف کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہاری نسبت اس سے زیادہ واقف ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ سچ فرماتے ہیں۔ آپ میرے شراکت دار تھے،اور بہت ہی خوب شراکت دار تھے۔ نہ آپ لڑائی کرتے نہ جھگڑا کرتے۔ ( سنن ابو داؤد: 4836نبی کریم نے اس بات سے منع فرمایا کہ لوگ اتحاد کی بجائے تفرقے میں پڑ جائیں۔ ظاہر ہے جب لوگ گروہوں میں بٹ جائیں تو فتنہ فساد ہی برپا ہو گا۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ معاشرے میں بد امنی ، فساد اوربے چینی کا ایک سبب معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں ظلم وزیادتی اور حقوق کی پامالی بھی ہے۔ ظالم اپنے اقتدار، معاشرتی برتری، یا معاشی شعبے میں بالا دستی کی بنا پر دوسروں کو زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ ان کا استیصال کرتا ہےتو متاثرہ افراد یا طبقات احتجاج کرتے ہیں۔ اگر احتجاج غیر مؤثر ہو جائے تو وہ ظالم سے خود نمٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ بد امنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلام اس سلسلے میں معاملات کو جڑ سے پکڑتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ حقوق کی عدم ادائیگی دنیوی اعتبار سے قابل دست انداز آئین وقانون ہے اور آخرت میں بھی قابل مؤاخذہ جرم قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: اپنے آپ کو مظلوم کی بد دعا سے بچاؤ کیونکہ مظلوم کی آہ اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا:’’

انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا‘ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ:2؍ 611)’’

اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔صحابہ نے پوچھا کہ مظلوم بھائی کی تو مدد سمجھ میں آتی ہے، ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ آپ نے فرمایا کہ ظالم کا ہاتھ روکنا اور اسے ظلم سےباز رکھنا اس کی مدد ہے۔‘‘اورفرماتے ہیں ’’جن مقاصد کے لیے انبیاے کرام کو دنیا میں مبعوث کیا گیا ان میں سے ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان مظالم کو روکنے اور ان کے تدارک کے لیے تدابیر عمل میں لائیں۔ کیونکہ اگر ظلم وزیادتی کا سد باب نہ کیا جائے تو نظامِ زندگی میں ابتری واقع ہو جائے۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ:2؍ 158)’’شریعت نے بعض جرائم پر حدود مقرر کی ہیں۔ یہ وہ جرائم ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں فتنہ وفساد پیدا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے کا امن وسکون غارت ہو جاتا ہے۔ دوسرے ان جرائم کے بار بار ارتکاب سے نفس انسانی کو ان جرائم کی عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر اس جرم سے باز رکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات بے چارے مظلوم کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ان مجرموں کے مقابلے میں اپنا تحفظ کر سکے۔ اگر ان جرائم کی روک تھام نہ کی جائے تو پھر ان جرائم کے خاتمے کیلئے محض آخرت کے خوف اور وعظ وتلقین سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کیلئے سخت سزاؤں کا نفاذ ضروری ہوتا ہے تاکہ مجرم کا انجام سب کے سامنے ہو جسے دیکھ کر دوسرے لوگ جرم سے باز رہیں۔ ‘(جرم و سزا كا اسلامی تصور: از جسٹس تنزیل الرحمٰن:۱۲۰) مگر دیکھا جارہا ہے کہ ردالفساد آپریشن کے دوران سادہ لوح ،داڑھی پگڑی والےلوگوں کو بلاوجہ تنگ کرنے سے نفرتوں وتعصب میں اضافہ ہوگا حکومت آپریشن کے نام پر اسلامی لباس ، شکل وصورت کو نشانہ نہ بنائیں ، یہ مذہبی طبقات ،اسلام سے محبت کرنے والوں کیساتھ زیادتی ہوگی دہشت گردی ختم کرنے کے بجائے نفرتوں وتعصب پیداکرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائیں۔ ہر زیادتی وظلم کے خلاف ہر فورم پرآوازاُٹھائی جانی چاہیے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے مگر اس کو کسی خاص قوم ،طبقہ وعلاقے تک محدود نہ کیا جائے بلکہ حقیقی دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق آپریشن کیا جائے مالی دہشت گرد اور کرپشن کرنے والے رشوت خور، بنکوں کے قرضے معاف کروانے والے چوروں،ذخیرہ اندوزوںاور بڑے بڑے مگرمچھوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے معاشرے میں عدم توازن کےاصل ذمہ دار تو یہی لوگ ہیں ۔ہماری حکومت وقت سے اپیل ہے کہ اس آپریشن ردّالفساد کو انشاء فتنہ بننے سے روکاجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے