چھبیسواں اصول:

 اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا(الحجرات:6)

’’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔‘‘

اس قرآنی اصول کا لوگوں کی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس زمانے میں اس اصول کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے‘ اس لیے کہ خبروں کی اشاعت کے وسائل بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔

سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے بہت سارے عظیم آداب سکھائے ہیں‘ اسی ضمن میں قرآن ِ کریم کا یہ اصول بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ    (الحُجرات6)

’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو!اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو‘ پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘                              

 اس آیت کی معروف سات قرآنی قراء توں میں سے ایک قراء ت میں یہ لفظ ’’تَثَبَّتُوْا‘‘ ہے ‘یعنی خبر کو ثابت کرلیا کرو۔ اس قراء ت کو سامنے رکھیں تو معاملہ اور بھی زیا دہ واضح ہو جاتا ہے۔ یہ آیت عام مسلمانوں کو حکم دے رہی ہے کہ جب کسی خبر کو سنو تو دو اعتبار سے اس کی تحقیق کر لیا کرو:

(۱)  خبر کی سچائی کی تحقیق۔

(۲)  اس خبر کی حقیقت تک رسائی۔

سوال : کیا ان دونوں باتوں میں فرق ہے؟

جواب: ہاں ‘ اس لیے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خبر بذاتِ خود صحیح ہو‘ لیکن اس کی حقیقت کے بارے میں خبر نہ ہو۔ ہم اس بات کی وضاحت ایک واقعے کے ذریعے کر سکتے ہیں اور یہ واقعہ رسول اللہ کی زندگی میں پیش آیا۔ نبی اکرم مسجد سے نکلے کہ اپنی زوجہ محترمہ اُمّ المؤمنین سیدہ صفیہ rکو گھر تک پہنچا سکیں‘ تو آپ کو دو صحابہ کرام t نے دیکھ لیا اور انہوں نے جلدی جلدی قدم بڑھا دیے۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنی چال چلتے رہو‘ یہ صفیہ ہیں‘‘۔ اگر کوئی روایت بیان کرنے والا کہتا کہ میں نے دیکھا کہ رات کی تاریکی میںنبی اکرم ایک عورت کے ساتھ جا رہے تھے تو اُس کی بات صحیح تھی‘ لیکن اُسے حقیقت حال کا پتا نہیں تھا۔ اسی کو تحقیق کہتے ہیں ۔

ایک اور مثال دیکھ لیں جس سے ہمیں روزانہ واسطہ پڑتا رہتا ہےکہ لوگ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کی طرف جارہے ہیںاور ایک آدمی اپنے گھر میں داخل ہو جاتا ہے۔ اگر یہ اعتراض ہو کہ نماز کھڑی ہو نے کے بعد فلاں شخص اپنے گھر چلا گیا تو بات بظاہر صحیح ہے‘ لیکن کیا اس کے سبب کی تحقیق کی گئی؟ اعتراض کرنے والے کو کیا خبر‘ ممکن ہے بندہ ابھی ابھی سفر سے آیا ہو اور اُس نے راستے میں ہی جمع وتقدیم کر کے نماز ادا کر لی ہو ‘ لہٰذا اِس وقت اُس پر نماز فرض ہی نہ ہو ‘ یا اس کے علاوہ بھی اس کے پاس کوئی عذر ہو !

ایک دوسری مثال پر غورکریں جس سے ہمیں رمضان میں واسطہ پڑتا ہے۔ کسی نے دیکھا کہ ایک آدمی رمضان میں دن کے وقت کچھ کھا پی رہا ہے۔ اگر کوئی اس خبر کو بیان کرے کہ اُس نے فلاں شخص کو دن میں کھاتے پیتے دیکھا ہے ‘ تو بیان کرنے والا سچا ہے لیکن کیا اُس نے معاملے کی تحقیق کر لی ہے؟ ممکن ہے کہ بندہ مسافر ہو اور اُس نے دن کے ابتدائی حصے میں روزہ کھول لیا ہو اور پھر اسی حال پر قائم ہو۔ واضح رہے کہ اہلِ علم کی ایک جماعت کے نزدیک یہ صحیح ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مریض ہو ممکن ہے کہ اس نے بھول کر کھا لیا ہو یااور بھی کوئی عذر ہوسکتا ہے۔

اس قرآنی اصول کے کچھ اور بھی مطالب ہیںـ:

(۱) جن خبروں کو پھیلانے سے خطرات جنم لیتے ہوں اُن خبروں کو پھیلانے میں جلد بازی کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کو برا کہا ہے‘ فرمایا:

وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا      (النساء:83)

’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوف ناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں‘ حالانکہ اگر یہ اُسے رسول () اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اَصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو اُن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اَخذ کر سکیںاور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔‘‘

جب یہ بات واضح ہو کر سامنے آگئی توسخت افسوس ناک بات ہے کہ خود مسلمانوں کی بڑی اکثریت اس قرآنی اصول کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہوتی ہے ‘جس میں فرمایا گیا:

اِنْ جَآء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا(الحجرات:6)

’’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔‘‘

جدید وسائل ِ اطلاعات ونشریات‘ جیسے موبائل ‘ انٹر نیٹ اوردوسرے ذرائع کی وجہ سے اس معاملے کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔ ان وسائل کے ذریعے سب سے زیادہ جھوٹ نبی اکرم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں بولا جاتا ہے۔ کتنے ہی جھوٹے قصے اور احادیث آپ کی طرف منسوب کیے گئے‘ بلکہ اس قسم کے جھوٹ بھی آپ کے نام سے بولے گئے جو کسی دوسرے انسان کی طرف منسوب کرنا بھی صحیح نہیں‘ کجا یہ کہ انہیں آپ کی ذاتِ مبارکہ کی طرف منسوب کیا جائے۔

اور اس کے قریب ترین خطرناک بات یہ ہے کہ علماء کرام کی بات کو نقل کرنے میں جلد بازی کی جائے‘ جبکہ علماء انبیاء oکے وارث ہیں‘ اور عام مسلمان اُن کی بات کا انتظارکرتے رہتے ہیں‘ اُن کے اقوال کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح کی غیر تسلی بخش خبر پھیلانا حرام ہے اور قطعاً جائز نہیں جبکہ ہمیں حکم ہے کہ عام خبروں کی تحقیق کر لیا کریں تو پھر نبی اکرم اور آپ کے ورثاء (علماء) سے متعلق خبروں کی تحقیق کرنا تو اور زیادہ ضروری ہے۔

اور یہی حکم ہو گا مسلمانوں کے حکمرانوںکی بات نقل کرنے کے بارے میںاور معاشرے کے اُن بڑے لوگوں کی بات نقل کرنے کے بارے میںجن کی بات کا معاشرے میں کوئی وزن ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ معاملے کی اچھی طرح تحقیق و تفتیش کر لی جائے ‘اس سے پہلے کہ خبر پھیلانے والا خود شرمندہ ہواور اُس وقت شرمندہ ہونا کوئی فائدہ نہیںدیتا۔اور میاں بیوی کو بھی اس قرآنی اصول پر عمل کرنا چاہیے:

اِنْ جَآء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا(الحجرات:6)

’’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو‘‘۔ نیز والدین کواپنے بچوں کے بارے میں اور بچوں کو اپنے والدین کے بارے میں اس اصول پر عمل کرنا چاہیے۔اوریہی صورتِ حال اُس وقت بنتی ہے جب غیر مقصودی یا مذاق سے کوئی میسج خاوند کے موبائل پر آجائے اور اسے بیوی دیکھ لےنتیجتاً وہ اپنے خاوند پر خیانت (ناجائز تعلقات)کا الزام دھر دیتی ہے اور میسج کی تحقیق کرنے سے پہلے ہی طلاق کا مطالبہ کر دیتی ہے ۔

جب آپ صحافت یا دیگر وسائل نشریات کے میدان میں داخل ہو کر دیکھیں تو اس قرآنی حکم کی دھجیاں اڑتی ہوئی دیکھ کرتعجب میں ڈوب جائیں گے۔ کتنی ہی بار تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی گئیں کسی ایسی خبر کی وجہ سے جو یا تو سرے سے ہی غلط تھی یا اس میں اس قدر مبالغہ اور مرچ مسالا تھا کہ اس نے قارئین یاناظرین کو یہ باور کروایا کہ یہ معاملہ بہت بڑا اور خطرناک ہے‘ حالانکہ ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں ۔

لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہےکہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی قدر ہے وہ اپنے رب سے ڈرتا رہے اور اس قرآنی حکم پر عمل پیرا ہو ‘جس کی طرف اس قرآنی اصول نے ہماری راہنمائی کی ہے ۔ فرمایا: ’’فَتَبَیَّنُوْا‘‘ چنانچہ معاملے کی تحقیق کر لیا کرو!

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے