نماز دین کا اہم ترین ستون ہے شہادتین کے بعد اسلام میں اس کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ لیکن ہماری عوام کی اکثریت موروثی دین پر عامل ہونے کی وجہ سے اسے بھی صحیح طرح سے ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عوامی معاشرہ میں تعلیم وتعلّم کا سلسلہ ناپید ہے ۔ دین سے وابستہ لوگوں کی بھی ترجیحات مختلف ہونے کی وجہ سے اس اہم ترین رکن کو کماحقہ ادا کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے ۔ مساجد میں ائمہ کے انتخاب کیلئے احکام الصلاۃ سےواقفیت سےزیادہ خوش الحانی اور ترنم کو ملحوظ رکھا جاتاہے ۔ ائمہ مساجد کا انتخاب ایسے لوگ کرتے ہیں اور انٹرویو ایسے لوگ لیتے ہیں جو شرعی علم تو کجا تجوید کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے ۔انہی معاملات کی وجہ سے ہماری نمازوں میں روحانیت ، للہیت ، خشیت باری جل وعلا اور لطف وچاشنی ناپیدہے ۔ لہٰذا اس امر کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ پیارے پیغمبر ﷺ کا نماز میں اسوہ معلوم کیا جائے کہ آپ ﷺ نماز میں قراءت کیسے کرتے تھے ۔ باجماعت نماز میں آپ کی تلاوت کی مقدار کیا ہوا کرتی تھی ۔ زیرنظر مضمون میں ان شاء اللہ اسی اسوہ کے حوالے سے چند امور بیان کئے جائیں گے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہ وہ سمجھنے اورعمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے انہ ولی التوفیق ۔
نبی کریم ﷺکا اکثر معمول ہوا کرتا تھا کہ جب جماعت کراتے تو مختصر کرتے:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ کان النبي صلی الله عليه وسلم يوجز الصلاة ويکملها‘‘۔
’’ نبی کریم ﷺ نماز مختصر اور پوری پڑھتے تھے۔‘‘( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 669)
نبی کریم ﷺ باجماعت نماز پڑھاتے ہوئے نمازیوں کا خیال رکھتے تھے :
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ
’’قال إني لأدخل في الصلاة فأريد إطالتھا فأسمع بکاء الصبي فأتجوز مما أعلم من شدة وجد أمه من بکائه ‘‘۔
’’ آپ نے فرمایا میں نماز شروع کرتا ہوں تو اس کو طول دینا چاہتا ہوں مگر بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ اس کے رونے سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ اس کی ماں سخت پریشان ہو جائے گی‘‘۔ ( صحیح بخاری)
آپ ﷺ نےیہی حکم اپنی امت کے ائمہ کو بھی دیا ہے۔
سیدنا ابو ہریرۃ tفرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’إذا صلی أحدکم للناس فليخفف فإن منھم الضعيف والسقيم والکبير وإذا صلی أحدکم لنفسه فليطول ما شاء ‘‘۔
’’ جب کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے تخفیف کرنا چاہیے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور اور بیمار اور بوڑھے سب ہی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی اپنی نماز پڑھے تو جس قدر چاہے طول دے ‘‘۔ (صحیح بخاری: جلد اول:حدیث نمبر 666)
سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس امر کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے کہ مقتدیوں کے حال کا لحاظ رکھنا کتنا زیادہ شرع مطہر میں اہمیت کا حامل ہے ۔
واقعہ ملاحظہ کریں :سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص دو اونٹ پانی سے بھرے ہوئے لا رہا تھا رات کا اول وقت تھا اس نے جب معاذ کو نماز پڑھتے پایا تو اپنے دونوں اونٹوں کو بٹھلا دیا اور معاذ کی طرف متوجہ ہوا معاذ نے سورہ بقرہ یا نساء پڑھنا شروع کی، سو وہ شخص (نیت توڑ کر) چلا گیا پھر اس کو یہ خبر پہنچی کہ معاذ اس سے رنجیدہ ہیں لہذا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے معاذ کی شکایت کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا اے معاذ تو فتنہ برپا کرنے والا ہے (اگر ایسا نہیں ہے) تو تو نے
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی اور وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا اور وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی
کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھ لی کیونکہ تیرے پیچھے بوڑھے اور کمزور اور صاحب حاجت (سب ہی طرح کے لوگ) نماز پڑھتے ہیں ۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 668)
مذکورہ بالا روایت میں رسول اللہ ﷺ نے جہاں طویل قراءت پر ناراضگی کا اظہار فرمایا وہاں اپنے صحابی جلیل کو یہ نصیحت بھی کی کہ ضعیف وکمزور لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز میں کون سی سورتیں مقدم رکھنی چاہئیں ۔
نوٹ : نماز میں تخفیف کے حوالےسے اہل علم نے استحباب کا حکم بیان کیا ہے اور اگر لوگوں کے متنفر ہونے کا خدشہ ہے تو یہ امر ضروری ہوجاتاہے اور شریعت کے عمومی قواعد بھی اسی کی تائید کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے :’’ (دین میں) آسانی کرو اور سختی نہ کرو، لوگوں کو خوشخبری سناؤ اور انہیں متنفر نہ کرو‘‘۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 70)
ہاں آپ ﷺ سے بسا اوقات طویل سورتیں بھی پڑھنے کا ثبوت موجود ہے جیسا کہ آپ ﷺ ایک دفعہ مغرب میں سورہ طور کی تلاوت کی ایک دفعہ سورہ مرسلات کی اور ایک دفعہ سورہ اعراف پڑھنے کا بھی ثبوت ہے ۔ لیکن یہ اس صورت میں جب نمازیوں کے تھکنے کا خدشہ نہ ہو ورنہ بصورت دیگر تنفر کا خدشہ ہوتاہے ۔
اور یہ امر ہمارے اس دور میں کچھ زیادہ توجہ طلب ہے جس کی بنیادی وجہ لوگوں کی جسمانی اعتبار سے کمزوری اوراس کے ساتھ ایسی بیماریوں میں مبتلا ہونا جن کی وجہ سے انسان کیلئے زیادہ دیر کھڑا رہنا مشکل ہوتاہے ۔ جیسےجوڑوں، گھٹنوںکےامراض ، شوگر ، بلڈ پریشر ، دل کی بیماریاں وغیرہ وغیرہ ۔ اور ان امراض میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد مبتلا ہے لہٰذا تخفیف الصلاۃ کا عمومی حکم ملوظ رکھا جائے تو بہتر ہے ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں جو تخفیف کا حکم دیا ہے یہ ایک نسبی امر ہےجس کا مرجع آپ ﷺ کے فعل اور آپ کی مواظبت کو ملحوظ رکھ کر لگایا جاسکتاہے ۔ یہ ایسا معاملہ نہیں کہ اس میں نمازیوں کی خوشنودگی اور چاہت کو ہی محض ملحوظ رکھا جائے ۔ کیونکہ ایسا کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ رسول اللہ ﷺ امت کو کسی چیز کا حکم کریں اور پھر خود اس کی مخالفت کریں ۔ جبکہ آپ ﷺ بخوبی جانتے تھے کہ ان کے پیچھے بوڑھے ، ضعیف اور ضرورت مند نماز ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ نے جو تخفیف کا حکم دیا ہے اسے آپ ﷺ کے فعل کے پیرائے میں جانچا جائے گا کہ آپ نے جہاں مناسب سمجھا تطویل کی جہاں مناسب سمجھا تخفیف کی ۔ اور آپ ﷺ کی تطویل بھی تخفیف ہی تھی کیونکہ آپ ﷺ تو اس سے زیادہ بھی نماز کو طویل کرسکتے تھے لیکن انہوں نے امت پر شفقت کرتے ہوئے اسے ایک مقررہ حد تک رکھا ۔لہذا آپ ﷺ کا فعل اور معمول وہ ضابطہ ہے جس سے ہم تخفیف اور تطویل کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور مسئلہ مذکورہ میں اختلاف کرنے والوں کے مابین یہ فعل اور معمول ہی فیصل ہے جس سے حق وصواب کی نشاندہی ہوسکتی ہے ‘‘۔
آپ ﷺ نماز میں تلاوت ٹہر ٹہر کر کرتے اور ہر آیت پر وقف کیا کرتے تھے :
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قرأت علیحدہ علیحدہ ہوتی تھی الحمدللہ رب العالمین پڑھتے اور پھر ٹھہرتے پھر الرحمن الرحیم پڑھتے اور ٹھہرتے‘‘۔ ( أبو داود (4001) والترمذي (2927)
امام زھری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أَنَّ قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ آيَةً آيَةً
’’ رسول اللہ ﷺ کی قراءت آیت ، آیت ہوا کرتی تھی‘‘۔
بہت سے ائمہ مساجداورقراء حضرات کا احکامِ وقف و ابتدا کا لحاظ نہ رکھنا ۔
اہل علم فرماتے ہیں وقف وابتداء کاجاننا نصف علمِ ترتیل ہے ۔ جس کو اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور فرمایا:’’ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا‘‘ [المزمل: 4]
ترجمہ :’’اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کرو ‘‘۔
کیونکہ علم ترتیل کی تعریف اہل علم نے یہ بیان کی ہے کہ ’هو: تجويد الحروف، ومعرفة الوقوف‘۔
’’ حروف تجوید سے ادا کرنا اور وقف کی معرفت حاصل کرنا ‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’ ہم نے ایک عرصہ گزارا ہے اور دیکھا ہے کہ ہم میں سے ایک کو ایمان قرآن سے پہلے دیا جاتاتھا ، (ہوتا یوں کہ) محمد ﷺ پر سورت نازل ہوتی ہم اس میں وارد حلال وحرام کو سیکھتے اور ساتھ یہ بھی سیکھتے کہ کہاں وقف کرناہے (اور کہاں نہیں )یہ چیزیں ہم ایسے سیکھتے جیسے تم لوگ آ ج کل قرآن کی تلاوت سیکھتے ہو ، اور آج ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جنہیں قرآن ایمان سے پہلے مل جاتاہے ۔ لہذا وہ اسے فاتحہ سے آخر تک پورا قرآن پڑھ لیتاہے لیکن اسے یہ پتہ نہیں ہوتاکہ اس میں امر کیا ملاہے اور روکا کس چیز سے گیاہے ؟اور نہ یہ پتہ ہے کہ وقف کہاں کرنا ہے اور کہاں نہیں ‘‘۔(رواه الطحاوي في “شرح مشكل الآثار”(4/84)،والحاكم في “المستدرك” (1/91))
علامہ نحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ وقف کے احکام بھی ایسے ہی سیکھتے تھے جیسا کہ قرآن سیکھا کرتے تھے ‘‘۔
سلف صالحین کی ان تصریحات سے واضح ہوتاہے کہ وقف وابتداء کی معرفت کتنی زیادہ ضروری ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں غالب ائمہ اس کا اہتمام نہیں کرتے۔ وقف کا خیال نہ کرنے سے قرآن مجید کے معانی ومفاہیم میں کیسی تحریف اور تبدیلی ہوتی ہے اس کا شاید اندازہ لوگوں کو نہیں ہے بلکہ بسا اوقات یہ چیز کفریہ مفہوم پر منتج ہوتی ہے ۔
جیسے اگر کوئی انسان یہ پڑھتاہے
[ لَقَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ]
’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی سنا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں‘‘(آل عمران/181 )
اس میں اگر( قالوا )پر وقف کرتاہے پھر اس کے بعد (ان اللہ فقیر ) سے ابتدا کرتاہےتو معنیٰ کفریہ بن جاتاہے جس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ ’’ بیشک اللہ فقیر ہے اور ہم امیر وغنی ہیں ‘‘ ( والعیاذ باللہ ) اسی طرح درج ذیل آیت میں ملاحظہ کریں کہ وقف کی غلطی سے معنیٰ میں کتنی بڑی تبدیلی ہوجاتی ہے ۔ الحفیظ والامان ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
( لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى ڼ وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْابِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ) (الرعد/18)
’’ جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہےاور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے‘‘۔
اس آیت میں اگر’لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ‘ یہاں آخر میں وقف کیا جاتاہے تو معنیٰ بالکل بدل جائے گا ۔ اور آیت کا مفہوم یہ بن جائے گاکہ ’’جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی ان کیلئے بھی بھلائی ہے ‘‘ ۔
ملاحظہ کریں معنیٰ میں کتنی بڑی اور بھیانک تبدیلی واقع ہوگئی لہذا اس آیت میں وقف کرنا ہے تو اس جملہ پر کریں’لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى‘ کہ ’’ جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے‘‘ ۔
پھر اس کے بعد یہاں سے ابتدا کی جائے ’’
( وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ )
کہ ’’ اور جن لوگوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہےاور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے‘‘۔
وقف وابتدا کے احکام ایک پورا علم ہے ۔ قارئین کتب فن کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں ۔ بخشیت طوالت انہی مثالوں پر اکتفا کیا جاتاہے ۔
نبی ﷺ کا نماز میں قراءت کرنے کا مسنون طریقہ:
آخر میں ہم نبی اکرم ﷺکا نماز میںقراءت کرنے کا کیا طریقہ ہوا کرتا تھا قارئین کے فائدہ کیلئے وہ مختصرا تحریر کرتے ہیں:
۱ : آپ ﷺ دعائے استفتاح کے بعد تعوذ پڑھا کرتے تھے جس کے صیغے کتب حدیث میں مذکور ہیں قارئین ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔
یہ الفاظ بھی منقول ہیں :
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه
۲: پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا کرتے تھے ۔
۳: اس کے بعد سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے تھے ۔ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔
۴ :سورہ فاتحہ پڑھنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے ایک ایک آیت الگ الگ ٹھہر ٹھہرکر پڑھا جائے مثلاـ : سب سے پہلے( بسم الله الرحمن الرحيم )پڑھے ۔ پھرٹھہر جائے ۔ پھر ( الحمد لله رب العالمين ) پڑھے اور ٹھہر جائے , پھر ( الرحمن الرحيم )پڑھے اور ٹھہر جائے ۔ اسی طرح سورت کے آخر تک اپنا معمول بنائے ۔رسول اللہ ﷺ کا نماز کی دیگر قراءت میں بھی معمول یہی ہوا کرتا تھا کہ آپ ہر آیت کے آخرپر وقف کرتے تھے ۔
فاتحہ کے حوالے سے مقتدی پر بھی واجب ہے کہ وہ ہر نماز چاہے سری ہو یا جہری امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھے۔
۵ : سورہ فاتحہ کے بعد کسی اور سورت کی قراءت کی جائے سوائے چار رکعت والی نماز کے جس کی آخر دو رکعت میں محض سورہ فاتحہ کی ہی قراءت ہوتی ہے ۔
۶: سورت کی قراءت طویل بھی ہوسکتی ہے اور مختصر بھی ۔
۷: قراءت کا طویل اور مختصر ہونا نمازوں کے حساب سے بھی مختلف ہے جیسا کہ آپ فجر کی نماز میں طویل قراءت کیا کرتے تھے ۔ اس طرح دیگر نمازوں میںظہر عصر ، عشاءاور مغرب اسی ترتیب سے ۔ ان میں چند نمازوں میں آپ ﷺ مختصر تلاوت کرتے اور چند میں قدرے طویل ۔
۸ : تہجد کی نماز میں آپ ﷺ طویل قراءت کیا کرتے تھے ۔ حتی کہ سورہ بقرۃاور آل عمران بھی پڑھا لیا کرتے تھے ۔
۹: مسنون یہ ہے کہ پہلی رکعت دوسری رکعت کے مقابلے میں قدرے طویل ہونی چاہئے ۔ لہذا امام اور منفرد دونوں کو چاہئے کہ پہلی رکعت دوسری رکعت کے مقابلے میں لمبی رکھیں ۔ اس میں جماعت کے لحاظ سے یہ فائدہ اور حکمت بھی ہے کہ اگر کوئی نمازی لیٹ پہنچا ہے یا وضو میں مشغول ہے تو وہ بھی پہلی رکعت کو پاسکے ۔
اور اگر چار رکعت والی نماز ہے تو اس میں پہلی دو رکعت لمبی ہونی چاہئیں اور آخری دو رکعت مختصر ۔ حتیٰ کہ بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ آخری دو رکعتوں کی قراءت پہلی دو رکعتوں کے مقابلے میں آدھی ہونی چاہئے ۔ تفصیل کیلئے دیکھئے ((صفة صلاۃالنبی ﷺ ص 102))
۱۰: امام کو چاہئے کہ نمازیوں کا خیال رکھے اور نماز میں ان کے احوال کو دیکھتے ہوئے تخفیف اور تطویل اپنائے ۔
۱۱:سنت نبویہ ہے کہ قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھا جائے ترتیل کا مقصد یہ ہے کہ قراءت اتنی کھینچ تان کے بھی نہ ہو جس میں مد ، غنہ وغیرہ میں مبالغہ آرائی کی جائے اور نہ اتنی تیز کہ سامع کو سمجھنے میں مشکل ہو بلکہ ہدر اور متوسط انداز سے احکام تجوید ادا کرتے ہوئے قراءت کی جائے۔
یہ بھی مسنون ہے کہ قرآن مجید کو شرعی حدود میں رہتے ہوئےخوبصورت آواز میں پڑھا جائے لیکن اس میں قواعد تجوید کے برخلاف ترنم اور اہل بدعت کی طرح طرز اختیار کرنا یا موسیقی کے قوانین کے طرز پر تلاوت کرنا جائز نہیں ۔
نمازوں کی اصلاح اور عوام الناس کی تربیت کیلئے چند اہم گذارشات :
۱: مسجد میں امام متعین کرتے وقت محض خوش الحانی کو ہی مدنظر نہ رکھا جائے بلکہ یہ بھی جانچا جائے کہ آیا جسے امام متعین کیا جا رہاہے وہ نماز کے احکام ، سجدہ سہو کے احکام کاعالم ہے یا نہیں؟ ۔ اگر نہیں ہے تو ایسے شخص کو امام متعین نہیں کرنا چاہئے کیونکہ امامت ایک بہت بڑا عظیم منصب ہے جسے ہم نے بہت ہی ہلکا سمجھا ہوا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے پوری زندگی خود امامت کرائی حالانکہ صحابہ میں عظیم الشان قراء بھی تھے اور ان میں بعض کی تعریف تو آپ ﷺ نےان الفاظ میں فرمائی ’يا أبا موسى ، لقد أوتيت مزمارا من مزامير آل داود ‘‘۔
آپ ﷺ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا :’’ اے ابو موسیٰ ! تجھے داؤد( علیہ السلام) کی خوش الحانی سے حصہ عطا فرمایا گیا ہے‘‘۔
اور بعض صحابہ کے بارے میں فرمایا:’’ :’
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطبًا كَمَا أُنْزِلَ فَلْيَقْرَأْ قِرَاءَةَ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ ‘۔
’’ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد( یعنی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) کی قرأت پر اسے پڑھے‘‘۔
لیکن مصلےپرآپ ﷺ کی موجودگی میں کسی کو جرأت نہ ہوئی آگے بڑھنے کی اور نہ ہی آپ ﷺنےاپنی موجودگی میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اس وقت حکم ملا جب آپ ﷺ بہت زیادہ علیل تھے ۔ لہذا مساجد ومدارس کے منتظمین کو اس منصب کی اہمیت کا ادراک ہونا چاہئے اور وہ اس کیلئے اہل فرد کا انتخاب کریں
۲ : جو امام مسجد مقرر کیا جائے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاہے بگاہے نمازیوں کی تربیت اور احکام الصلاۃ سکھانےکی غرض سے ان کیلئے انفرادی یا اجتماعی تعلیمی کلاسز کا اہتمام کرے ۔
۳ : امام مسجد کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ نمازیوں پر گاہے بگاہے نظر رکھے ان میں جس کی نماز میں کوئی خلل محسوس کرے اسے پیار ومحبت سے تنہائی میں اس سے آگاہ کرے اور اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے ۔
۴ : مساجد ومدارس کے منتظمین کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گاہے بگاہے ائمہ مساجد کیلئے بھی چند تربیتی اور تعلیمی کلاسز اور ورکشاپس کا اہتمام کریں ۔ جیساکہ بعض مقامات پر ائمہ مساجد اور خطباء حضرات کیلئے خاص کورس ترتیب دیئے جاتے ہیں ۔ اس طرح کے کورس ہر مسجد ومدرسہ میں ہونے چاہئیں ۔
۵ : ائمہ کا انتخاب اہل علم کی ایک کمیٹی کرے ۔ اور کیا ہی مستحسن ہوکہ صوبائی یا علاقائی سطح پر ایک عمومی کمیٹی تشکیل دی جائے جس کا کام ائمہ مساجد ، خطباء ، اور قراء کا انتخاب کرنا ہو ۔ جس شخص کے پاس اس کمیٹی کی اجازت موجود ہو وہی مسجد میں امامت کا اہل ہو وگرنہ نہیں ۔