فاسق ایک عام نام ہے جو کہ تمام نافرمانی کے کاموں پر استعمال کیا جاتا ہے  ۔

فسق کا لغوی معنی:

فسق کا لغوی معنی ہے کسی چیز سے نکلنا یا ارادہ کرنا یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نکلنا۔

فسق کا اصطلاحی معنی:

اس کے ایک سے زائد معنی بیان کیے جاتے ہیںجن میں سے معروف درج ذیل ہیں

ابن عطیہ کہتے ہیں: اللہ رب العالمین کی اطاعت سے نکلنا اور روگردانی کرنا

بیضاوی نے کہا: فاسق آدمی کبیرہ گناہ کی وجہ سے اللہ کے دین سے نکل جانے والا ہوتا ہے۔

آلوسی نے کہا: فسق کا معنی ہے سمجھدار لوگوں کا (اللہ رب العالمین اور اس کے رسول کی) اطاعت سے نکلنا۔

ان تمام تعریفات سے یہ معلوم ہوا کہ فسق کفر سے زیادہ عام ہے۔ (مفردات الرأغب: ص 572)

فسق کی اقسام

فسق کی ایک سے زاید اقسام ہیں کچھ کا تعلق کفر اکبر سے ہے اور کچھ کا تعلق کفر اصغر سے ہے ۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز کہ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کسی خاص نام کے ساتھ اہل اسلام کے علاوہ دوسروں کی طرف کی ہو جیسے خاسر (نقصان اٹھانے والا)، مسرف (فضول خرچی کرنے والا) ظالم (ظلم کرنے والا)۔فاسق (گناہ کرنے والا)  تو اس سے مراد کفر ہوتا ہے۔اور جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کی طرف کی ہو تو اس سے مرادہ گناہ ہوتا ہے۔ (تفسیر ابن جریر 142/1)

اسی طرح  المروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: فسق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک فسق وہ جو دین اسلام سے منتقل کر دینا ہے اور دوسرا فسق وہ ہے جو دین اسلام سے (کسی دوسرے دین کی طرف) منتقل نہیں کرتا۔ پس کافر کو فاسق بھی کہا جاتا ہے اور فاسق مسلمان میں سے پہلے اپنے فسق کی وجہ سے ہے۔

اس امر کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے ایمان کے ستر سے زائد شاخیںہیں اور ان میں سے کچھ کا تعلق ایمانیات سے ہے اور کچھ کا تعلق اخلاقیات سے ہے اب جو ایمان کی شاخیں سے ہیں ان کا تارک اور اخلاقیات کا تارک ایک جیسا نہیں ہو سکتا اسی طرح فاسق کی بھی اقسام ہیں  اور فسق کی کچھ اقسام اعتقادی ہیں اور کچھ عملی ان کی مثالوں سے بات واضح ہو جایے گی ۔

فسق اعتقادی کی مثال:اللہ کا ارشاد ہے :

قُل اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ (التوبۃ: 53)

اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ تم جس اپنی خوشی یا نا خوشی سے خرچ کرو بھی تو اللہ تعالیٰ ہرگز تم سے قبول نہیں کرے گا اس لئے کہ تم فاسق قوم ہو۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:کہ’’ بیشک تم فاسق قوم ہو‘‘ (یہ ان کے صدقات قبول نہ ہونے کی وجہ ہے) (فتح القدیر للشوکانی:369/2)

اور اللہ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبۃ:67)

 بیشک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں ۔

امام شوکانی نے (اس آیت کے بارے میں) ارشاد فرمایا: یہ منافقین ’’مکمل فاسق ہیں‘‘ (فتح القدیر 379/2)

اور فسق عملی کی مثال کہ جس سے انسان دین اسلام سے نکل جاتا ہے ابلیس نے کیا جیسا کہ اللہ عزو جل نے ارشاد فرمایا:

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ  ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ  ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سب (فرشتوں) نے سجدہ کیا ، ابلیس کے علاوہ جو کہ جنوں میں سے تھا، اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ظالموں کا کیا ہی بُرا بدلہ ہے۔ (الكهف:50)

ابلیس نے فسق کیا اور یہ فسق سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ہوا اور اپنے رب کے حکم کی پیروی سے روگردانی کرنے کی وجہ سے واقع ہوا۔ اور سجدہ کو ترک کرنا فعلاً و عملاً شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ ایسی باتوں کو اصول کی کتابوں میں ذکر کیا جاتا ہے۔

قرآن کریم کی بیشمار آیات میں فسق کا  ذکر کیا گیا ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول >کے زمانہ میں فاسق کا اطلاق کافر پر ہوتا تھا۔ فسق کے نام کا اطلاق اس آدمی پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ احکامات کو چھوڑنے اور ایسا کرنے سے باز نہ آئے۔

جیسا کہ منافقین کے لیے اس لفظ کا استعمال ہوا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبۃ:67)

بیشک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِھَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ (البقرۃ:99 )

اور بیشک ہم آپ کی طرف واضح نشانیاں اتاریں جن کا انکار سوائے فاسقوں کے کوئی نہیں کرتا۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاَمَّا الَّذِيْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ ۭ كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْـرُجُوْا مِنْهَآ اُعِيْدُوْا فِيْهَا وَقِيْلَ لَهُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ  20؀

اور جن لوگوں نے فسق (نافرمانی کی) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے جب کبھی بھی اس (جہنم) سے باہر نکلنا چاہیں گے، اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب چکھو۔ (السجدۃ:20)

پس یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پہلے عرف عام میں فاسق کا کافر پر اطلاق کیا گیا ۔

فسق کا کافر کے لیے استعمال پر مزید کچھ آیات درج ذیل ہیں :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ

اور نوح علیہ السلام کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہو چکا تھا) وہ بھی بڑی فاسق قوم تھی۔(الذّٰرِیٰت:20)

اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْئٍ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فَرْعُوْنَ وَقَوْمِہٖ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ (النمل:12)

اور (اے موسیٰ علیہ السلام) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالئے وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے، آپ نو نشانیاں فرعون اور اس کی قوم کی طر (لے کر جایئے) یقینا وہ نافرمانوں کا گروہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو ذکر کیا:

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ

موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب مجھے تو اپنے اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار نہیں ہے، پس تو ہمارے اور نافرمانوں کے درمیان جدائی کر دے۔ ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے۔ یہ (خانہ بدوش) ادھر ادھر سرگردان پھرتے رہیں گے، پس تم ان نافرمانوں کے بارے میں غمگین نہ ہو۔  (المائدہ:2526)

اور اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَرَھْبَانِیَّۃَ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْہِمْ اِلّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ ﷲ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْھُمْ اَجْرَھُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ  (الحدید:27)

ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے خود ایجاد کر لی تھی، ہم نے اسے اللہ رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے فرض نہیں کیا تھا۔ سو انہوں نے اس کا پوری طرح خیال نہیں رکھا پھر بھی ہم نے ان کو اجر و ثواب دیا جو ان میں سے ایمان لائے تھے۔ اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان تھے۔

اوراس آیت کی تفسیر کے بارے میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بھی ہے : فرمایا: مومن وہ لوگ ہیں جو میرے ساتھ ایمان لاتے ہیں اور میری تصدیق کر تے ہیں اور (نافرمان) فاسق وہ لوگ ہیں جو مجھے جھٹلاتے ہیں اور میرے بارے میں جھگڑا کرتے اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا نام (فساق) ہمیشہ نافرمانی کرنے والے رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

کَیْفَ وَاِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً یُرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاھِہِمْ وَتَاْبٰی قُلُوْبُہُمْ وَاَکْثَرُھُمْ فٰسِقُوْنَ  (التوبۃ:8)

ان (مشرکوں) کے وعدوں کا کیا اعتبار۔ اگر وہ تم پر غالب آجاتے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا۔ وہ تم کو اپنی زبانوں سے تو خوش کرتے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے اور زیادہ تر تو ان میں نافرمان ہیں۔

اور قرآن میں ایسی دلیل بھی ہے کہ جس میں شرک کی قسموں میں سے بعض کو فسق قرار دیا گیا ہے۔

وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اﷲِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ (الانعام:121)

اور ایسے (جانور یا چیزیں) مت کھاؤ کہ جن پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اور یہ کام نافرمانی کے ہیں۔

پس اس کو امام شافعی نے اس بات پر محمول کیا ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کی جائے۔ (تفسیر ابن کثیر 161/2)

اور اللہ عز و جل کا ارشاد ہے:

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اﷲِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَتُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ(المائدۃ:3)

تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو چوٹ کی وجہ سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندے نے مار کھایا ہو۔ مگر جس کو تم ذبح کرو (اللہ کا نام لے کر وہ تمہارے لئے حلال ہے)۔ اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ تم قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو۔ یہ سب بدترین گناہ ہیں۔

امام شوکانی اللہ تعالیٰ کے اس قول {ذٰلِکُمْ فِسْقٌ}

 ’’یہ بدترین گناہ ہیں‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ فسق کا اشارہ قرعہ کے تیروں سے بدفالی کرنے کی طرف ہے یا اس آیت میں مذکورہ تمام حرام کردہ چیزوں کی طرف ہے۔

 یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ فسق بدعت کے مقابلہ میں عام ہے لہذا جب فسق کا اطلاق بدعت یا اس کے علاوہ کسی اور پر کیا جائے اسی لیے حافظ ابن صلاح ے فرمایا کہ ہر بدعتی فاسق ہے اور ہر فاسق بدعتی نہیں۔ (فتاویٰ ابن صلاح صفحہ 28)

 اس بات پر سعد بن ابی وقاص tسے منقول روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ جس میں خارجیوں کو فاسق کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر 4728)

اور اسی طرح شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ ان (خارجیوں) کو فاسقوں کے نام سے تعبیر کرتے تھے ۔(الاعتصام ، امام شافعی 84/1)

اور عملی فسق کی مثالیں بہت زیادہ ہیں اور اس کا اطلاق ہر نافرمانی کے عمل پر کیا جا سکتا ہے یعنی برے کاموں پر فسق کا اطلاق ہوتا ہے مثلاً کسی پر تہمت لگانے والے کو قرآن مجید میں فاسق قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (النور:۴ )

اور وہ لوگ جو کہ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔

 اور اسی طرح جھوٹ بولنے والے پر بھی فاسق کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْآ اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْآ اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (الحجرات:6)

اے ایمان والو اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچا دو  پھر اپنے کئے پر خود ہی پشیمان ہو۔

فرمان رسول اللہ  (سباب المسلم فسوق)

’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے‘‘ میں بھی اس بات کی دلیل ہےکہ جب کوئی مسلم کسی مسلمان کو گالی دیتا ہے اور اس پر تہمت لگاتا ہے تو گویا اس نے جھوٹ بولا اور جھوٹے لوگ فاسق ہوتے ہیں ان سے ایمان کا نام تک زائل ہو جاتاہے۔اوراسی طرح حالت احرام میں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان کو بھی فسق کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجْ

حج کے مہینے مقرر ہے اس لئے جو شخص ان میں حج کو لازم کرے وہ اپنی بیوی میل ملاپ نہ کرے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے۔(البقرۃ:197)

میں فسوق سے مراد یہاں پر ہر وہ کام ہے کہ جس کے کرنے سے احرام کی حالت میں روکا گیا ہے جیسا کہ یہی تفسیر ابن جریر نے اور ان کے علاوہ دوسروں نے ذکر کی ہے۔

اور اسی طرح برے القاب کے ساتھ دوسروں کو پکارنے کو بھی فسق کے ساتھ قرآن میں تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ

 اور تم آپس میں ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے۔ اور جو توبہ نہ کرے پس وہ ظالم لوگ ہیں۔(الحجرات:11)

اورابن تیمیہ رحمہ اللہ حدیث (سباب المسلم فسوق) کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:جب تم کسی مسلمان کو گالی دو اور اس سے مسخرہ بازی کرو اور اس کو تم (طرح طرح) کے عیب لگاؤ تو تم اس بات کے مستحق ہو کہ تم کو (ان کاموں کے کرنے کی وجہ سے) فاسق کہا جائے۔

اور رسول اللہ نے (اللہ کی) نعمتوں کا انکار کرنے والے کا نام فاسق رکھا ہے جیسا کہ حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا ہے (بیشک فساق جہنم میں ہوں گے) آپ سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول فساق کون ہیں؟ آپ نے فرمایا (عورتیں) ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول کیا وہ ہماری مائیں اور ہماری بہنیں اور ہماری بیویاں نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں لین ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کوئی چیز دی جاتی ہے تو وہ (اللہ کا) شکر ادا نہیں کرتی اور جب ان پر کوئی آزمائش آتی ہے تو وہ صبر نہیں کرتیں۔ (احمد 488444/3)

لہذا نعمتوں کے انکار کرنے والے کو بھی فاسق کہا جا سکتا ہے اور اسی طرح چوری کرنے والے کو بھی شریعت میں فاسق کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ جناب حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حال ہو گا ان لوگوں کا جو کہ کھوج لگاتے ہیں ہمارے گھروں کی اور ہمارے بہترین قسم کے اموال چرا کر لے جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا یہی لوگ تو فاسق ہیں۔( بخاری ، کتاب التفسیر ح 4658)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا: کہ فسق عملی کی دو قسمیں ہیں: فسق عملی نافرمانی کے ساتھ اور فسق عملی بغیر نافرمانی کے ۔

فسق عملی نافرمانی کے ساتھ: اس چیز کا مرتکب ہونا جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور عصیان معنی یہ ہے کہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلٰکِنِ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زِیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ کَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرّٰشِدُوْنَ

اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور مزیّن کر دیا ہے اسکو تمہارے دلوں میں اور کفر اور فسق اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے یہی لوگ راہنمائی پانے والے ہیں۔(الحجرات :7)

اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ

وہ (فرشتے) نہیں نافرمانی کرتے اس کا، جس کا اللہ تعالیٰ انکو حکم کرتا ہے۔(التحریم :6 )

اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بھائی ھارون علیہ السلام سے کہا:

مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَہُمْ ضَلُّوْآ اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ (طٰہٰ :92۔93)

انہیں گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو میرے پیچھے نہ آیا کیا تو بھی میرے حکم کا نافرمان بن بیٹھا۔

بس فسق خاص ہے اللہ تعالیٰ کی صنع کردہ چیزوں کے مرتکب ہونے کیساتھ۔اور اس لئے اطلاق کیاجاتا ہے اس بہت سے معاملات کا ۔جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:

وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌ بِکُمْ (البقرۃ:282)

اور اگر تم لوگ ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔

اور نافرمانی خاص ہے (اللہ کے ) کسی حکم کی مخالفت کرنے کے ساتھ او رکبھی ا طلاق کیاجاتا ہے ان دونوں کا ایک دوسرے پر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 اِلَّآ اِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ

(پس سب نے سجدہ کیا )سوائے ابلیس کے یہ جنوں میں سے تھا اس نے اپنے پروردگار کے حکم کی نافرمانی کی۔(الکہف:50)

اور اسی طرح (اللہ تعالیٰ کے ) حکم کی مخالفت کو بھی فسق کا نام دیا جاتا ہے ۔جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے :

وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی  (طٰہٰ:121)

آدم (علیہ السلام ) نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس وہ بہک گئے۔

اللہ تعالی ہم ہر قسم کی نافرمانی سے اپنی امان اور عافیت میں رکھے ۔آمین اللھم آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے