فرمان باری تعالیٰ ہے: 

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللهِ أَنْدَادًا يُّحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے) ۔(سورۃ البقرۃ:165

کسی ذات کا ادب و احترام اور اس کی تعظیم اس ذات سے محبت کی دلیل ہوتی ہے جس طرح اس کی یا اس کے نام کی بے ادبی ، تحقیر اور بے وقعتی اس ذات سے نفرت کی دلیل ہوتی ہے ۔ چنانچہ فطرت انسانی پر پرورش پانے والا ہر شخص اپنے محسن کا شکرگزار اور اسکا ادب و احترام کرنے والا ہوتا ہے۔ چاہے اس کا احسان اس پر کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اور اگر اس کے احسانات اس پر کئی ایک ہوں تو یہ انسان اپنے اس محسن و مشفق کی تعریف کرتے نہیں تھکتا، دوران گفتگو اگر اس کا نام زباں پر آجائے تو نہایت ادب و احترام اور وقار کے ساتھ اسے ادا کرتا ہے اور اس کے نام کو ان چیزوں کی طرف منسوب نہیں کرتا جو اس کے لائق نہ ہوں۔ جبکہ یہ رویہ مخلوق کے ساتھ ارباب عقل کا ہوتا ہے تو تصور کیجئے اس وقت کیا رویہ ہونا چاہئے جب معاملہ خالق و مخلوق کا ہو، انعام کرنے والے اور انعام وصول کرنے والوں کا ہو، رازق کائنات اور فقیر و محتاج بندوں کا ہو، مالک الملوک بادشاہوں کے بادشاہ اور ذلیل و فقیر مخلوق کا ہو۔ یقیناً معاملہ ادب و احترام ، عزت و تکریم سے کہیں بڑھ کر تعظیم و تجلیل اور غایت درجہ وقعت و توقیر کا ہونا چاہئے۔ مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اپنے خالق و مالک اور اپنے رازق کی قدر نہیں کی۔ فرمان ذوالجلال ہے:

وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ  ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ  ۔

اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔(سورۃ الزمر:67

اور رب ذوالجلال کے بلند و باکمال ناموں کو دنیا کے حقیر مال و متاع کی طرف منسوب کردیا مثلاً : 

ط   رحمٰن بریانی

ط   رحمٰن ملک شاپ

ط   رحمٰن آٹوز

ط  ر حمٰن بیکرز وغیرہ وغیرہ

جبکہ یہ سراسر رب رحیم کے ساتھ گستاخی و بے ادبی ہے جس کی بنیاد یا تو لاعلمی ہے یا پھر اللہ رب العزت کے ناموں کے ذریعے دنیا کمانے کی لالچ۔

 وَيَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا (سورۃ البقرۃ174

اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں۔

رحمان:اللہ رب تعالیٰ کے خاص ناموں میں سے ہیں : 

جن کا استعمال غیر اللہ کیلئے نہ تو بلا اضافت ”عبد“ کے جائز ہے جیسے کسی شخص کو صرف رحمان کہنا، جس طرح کسی کو صرف اللہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ عبداللہ کہا جاتا ہے بالکل اسی طرح کسی کو صرف رحمان بھی نہیں کہا جاسکتا بلکہ عبدالرحمان کہا جائیگا کیونکہ یہ دونوں نام اللہ کے ذاتی ناموں میں سے ہیں اور نہ ہی ان ناموں کے ذریعے دنیاوی مال و متاع اور فوائد اکٹھے کرنا درست ہے۔ اسی لئے رب تعالیٰ نے فرمایا: 

اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى

رحمان عرش پر مستوی ہے۔ (سورۃ طٰہٰ : 5

اور فرمایا: 

قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ  ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى  ۚ

کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں ۔ (سورۃ الاسراء :110

اور اپنی کتاب میں کہیں اللہ رب العزت نے اس (رحمان) نام سے کسی مخلوق کو موصوف نہیں فرمایا جبکہ رحیم کے نام اپنے پیارے نبی کریم کو ایک مقام پر موصوف فرمایا: 

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَحِيْمٌ

تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہارے فائدے کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں ۔ (سورۃ التوبہ 128

اور اسی طرح اس مبارک نام کو بری صفات کے ساتھ لینا یا ان کی طرف منسوب کرنا بھی اس مبارک نام (رحمان) کے ساتھ کفر و الحاد سے کم نہیں۔ جیسا کہ رحمان ڈکیت وغیرہ وغیرہ (نعوذ باللہ)۔

وَلِلهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا  ۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ  ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    (سورۃالاعراف:180

اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔

جو اس گستاخی و گناہ میں پڑے ہیں وہ کیا کریں؟

غلطی پر اصرار اس سے بڑی غلطی ہے اور جب یہ غلطی گناہ کبیرہ اور خالق کائنات کے ساتھ گستاخی اور اس کے ناموں میں الحاد ہو تو اس کا فوراً بدل دینا ہر مسلمان بلکہ ہر مخلوق پر یکساں فرض و واجب ہے۔ خصوصاً جب معاملہ اللہ رب العزت کے ماننے والوں کا ہو۔

اور جہاں تک بات شیطانی وسوسوں کی ہے کہ وہ یہ وسوسے ڈالے گا کہ تمہارا نام بہت بڑا ہوچکا ہے اور تم اس نام سے کمارہے ہو اور اگر نام تبدیل کیا تو کاروبار ٹھپ ہوجائیگا وغیرہ وغیرہ تو یہ سوائے شیطانی وسوسے کے کچھ نہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ ۚ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا  ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ    (سورۃ البقرۃ268

شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے۔

اور شیطان کے جھوٹے دعووں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بندے کو کہتا ہے کہ اگر نام تبدیل کردیا تو تم فقیر ہوجائوگے، کام ٹھپ ہوجائیگا وغیرہ وغیرہ جبکہ اللہ رب العزت ہر مخلوق کو رزق دینے والا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: 

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ مَآ أُرِيْدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَآ أُرِيْدُ أَنْ يُطْعِمُوْنِ إِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ

میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ مجھے کھلائیں اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔  (سورۃ ا الذاریات:56۔58

تو تصور کیجئے کہ اگر وہ غفور و رحیم ذات اپنی نافرمانی پر آپ کو اتنا رزق دیتی ہے تو کیا اپنی فرمانبرداری پر برکت سے بھرا رزق عنایت نہیں فرماسکتی! کتنے افسوس کی بات ہے کہ جو رب رحمان ہمیں دن رات بے پناہ نعمتوں سے نواز رہا ہے ، بجائے اس کے کہ ہم اس کے مبارک ناموں کی عزت و توقیر کریں ان کا غایت درجہ احترام کریں ، ہم اپنی اس غلطی کو سدھارنے کو بھی راضی نہیں! صرف شیطان کے دلائے اس خوف سے کہ اگر نام تبدیل کیا تو کاروبار ٹھپ ہوجائیگا! حالانکہ رزق تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: 

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا

زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہیں ۔ (سورۃ ھود :6

اور ہمیں یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ آپ کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ ”بندے میں جب اللہ کی طرف سے فرشتہ روح پھونکنے آتا ہے تو اسی وقت اسکو چار چیزیں بھی لکھنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ (۱) اس کا رزق (۲) اس کی عمر (۳) اس کے اعمال (۴) نیکوکار ہوگا یا بدکار۔ (رواہ مسلم، کتاب القدر)۔

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی قدر کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں صحیح اسلامی عقائد اپنانے کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین۔

وما علینا الا البلاغ المبین

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے