بَاب غَسْلِ الأَعْقَابِ وَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ يَغْسِلُ مَوْضِعَ الْخَاتَمِ إِذَا تَوَضَّأَ
ایڑیوں کے دھونے کا بیان، ابن سیرین جب وضو کرتے تھے تو انگوٹھی کے نیچے کی جگہ ( بھی) دھوتے تھے۔
22– 165– حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا وَالنَّاسُ يَتَوَضَّئُونَ مِنَ الْمِطْهَرَةِ قَالَ أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ فَإِنَّ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ
آدم بن ابی ایاس، شعبہ، محمد بن زیاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا جب وہ ہمارے پاس سے گزرتے اور لوگ برتن سے وضو کر رہے ہوتے تو فرماتے: لوگو! وضو پورا کرو کیونکہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا: (خشک) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔
Narrated Muhammad Ibn Ziyad: I heard Abu Hurairah saying as he passed by us while the people were performing ablution from a utensil containing water, “Perform ablution perfectly and thoroughly for Abul-Qasim (the Prophet) said, ‘Save your heels from the Hell-fire ”
معانی الکلمات :
يَمُرُّ گزرتا ہے
يَتَوَضَّئُونَ وہ سب وضو کرتے ہیں
الْمِطْهَرَة برتن
أَسْبِغُوا مکمل کریں/اچھی طرح کریں
وَيْلٌ ہلاکت ہے
أَعْقَابِ ایڑیاں
النَّار آگ
تراجم الرواۃ :
1 آدم بن ابی ایاس کا ترجمہ حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں ۔
2 شعبہ بن حجاج کا ترجمہ حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں۔
3نام ونسب : محمد بن زياد القرشى الجمحى مولی عثمان بن مظعون
کنیت : ابو الحارث المدنی
محدثین کے ہاں رتبہ :
امام احمد بن حنبل ، یحییٰ بن معین ،ترمذی اور نسائی رحمہم اللہ نے انہیں ثقہ کہا ہے۔
3 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ترجمہ حدیث نمبر 12 میں ملاحظہ فرمائیں۔
تشریح :
اس حدیث مبارکہ میں ایڑیوں کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے ایسی صورت حال پیش آئی تھی بصورت دیگر اس سے مراد ہر وہ عضو وضو ہے جسے اچھی طرح دھونے میں عام طور پر بے پروائی یا سستی سے کام
لیا جاتا ہے مثلاًایڑیاں اور پاؤں کا نچلا حصہ وغیرہ چنانچہ
حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن
حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا:”خشک ایڑیوں اور پاؤں کے تلوؤں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔”( مسند احمد 4/191) امام بخاری رحمہ اللہ نے امام ابن سیرین رحمہ اللہ کا عمل اسی مقصد کے لیے بیان فرمایا ہے کیونکہ بعض اوقات انگوٹھی ہوتی ہے اور سہولت کے ساتھ پانی نہیں پہنچ پاتا اس لیے آپ اسے حرکت دیتے۔”(فتح الباری:1/350)
اسی طرح عام طور پر عورتیں اپنے چہرے کے میک اپ کے لیے ایسی اشیاء استعمال کرتی ہیں کہ اعضائے وضو تک پانی پہنچانے کے لیے ان کی جمی ہوئی تہ رکاوٹ بن جاتی ہے مثلاً:ہونٹوں کے لیے لپ سٹک ، چہرے کے لیے تہ دار پاؤڈر اور نیل پالش وغیرہ لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ ایسے سامان زیبا ئش کے استعمال سے اجتناب کریں جو اعضائے وضو کی جلد تک پانی پہنچانے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہو۔
رسول اللہ ﷺکا مقصد لوگوں کوآگاہ کرنا تھا کہ جلدی میں وضو کرتے وقت اپنی ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں جیسا کہ عام طور پر جلدی میں پاؤں کاکچھ حصہ خشک رہ جاتاہے۔یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائے گی،نیز اعقاب سے مراد صاحب اعقاب ہیں۔یعنی وضو کرتے وقت جن کی ایڑیاں خشک رہیں گی،انھیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔
اور اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو کرتے وقت پاؤں کو اچھی طرح دھونا چاہیے۔ ان پر مسح کرنا جائز نہیں جو روایت پیش فرمائی ہے، اس میں وضاحت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اپنے پاؤں دھونے میں جلدی سے کام لیا تو ایڑیاں خشک نظر آئیں تو اس پر رسول اللہ ﷺنے خشک ایڑیوں کے متعلق وعید سنائی کہ یہ ایڑیاں جہنم میں جائیں گی اگر پاؤں کو صرف مسح کرنا جائز ہوتا تو اس قدر سخت وعید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ مسح سے مطلوب عمل تو حاصل ہوچکا تھا چونکہ پاؤں کا مطلوب دھونا ہے لہٰذا اس کوتاہی پر رسول اللہﷺ نے انھیں وعید شدید سنائی۔اس سے معلوم ہوا کہ پاؤں کا دھونا ضروری ہے مسح کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ استدلال اس صورت میں ہے کہ(تَمسَحُ)کے معنی حقیقی مسح کیا جائے لیکن اگر یہ معنی کیے جائیں کہ ہم اپنے ہاتھ سے پانی تر کر کے پاؤں پر پھیرنے لگے جس سے ایڑیوں کے کچھ حصے خشک رہ گئے تو بھی استدلال صحیح ہے کہ پاؤں کو اچھی طرح دھونا ہے تاكه اس کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہےاور اس عنوان کو یہاں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے باب میں استشار کا بیان تھا کہ ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے کپڑے سے صاف کر لینا کافی نہیں کیونکہ ہم لوگ احکام شریعت کے پابند ہیں اپنی طرف سے ان میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتے لہٰذا اگر شریعت نے کسی عضو کے متعلق غسل ضروری قرار دیا ہے تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم یہ سوچ کر کہ مقصود تو صفائی ہے لہٰذا دھونے کے بجائے کپڑے سے صفائی کر لیں ایسا کرنا جائز نہیں۔ جس طرح پاؤں کو دھونا ضروری ہے اسی طرح ناک میں پانی ڈال کر اسے اچھی طرح صاف کرنا ضروری ہے نیز ناک بدن کی اعلیٰ جانب ہے اور پاؤں بدن کی نچلی جانب ہے اس لیے ناک کے بعد قدم کا وظیفہ بتایا گیا ہےاس روایت سے شیعہ حضرات کی تردید بھی ہوتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک پاؤں کا مطلوب غسل نہیں بلکہ مسح ہے اور وہ اس روایت کا یہ جواب دیتے ہیں کہ لوگوں کی ایڑیاں نجاست آلود تھیں اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں دھونے کا حکم دیا لیکن ہمیں ان حضرات کی عقل و فکر پر حیرت ہوتی ہے اگر ایک دو آدمیوں کی ایڑیاں نجاست آلود ہوتیں تو بات بن سکتی تھی کیا تمام حضرات کی ایڑیوں پر نجاست لگی ہوئی تھی اور انھیں اس کے دور کرنے کا خیال تک نہ آیا۔ حالانکہ نجاست کا ازالہ حدث کے ازالے سے زیادہ ضروری ہوتا ہے پھر رسول اللہ ﷺنے انھیں پاک کرنے کا حکم نہیں فرمایا کہ تمھاری ایڑیاں نجاست آلود ہیں انھیں دھو کر پاک کرو۔ دراصل ان حضرات نے پورے دین کا ڈھانچہ از سر نو تشکیل دیا ہے اذان ،اوقات نماز ،طریقہ نماز،زکاۃ الغرض ہر چیز الگ وضع کر رکھی ہے حتی کہ موجودہ قرآن کریم کے متعلق ان کے ہاں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
۔۔۔