اسلام کی عمارت جن بنیادوں پر کھڑی ہے وہ تین ہیں، ایمان بااللہ، ایمان بالآخرۃ اور ایمان با لرسالت۔بظاہر یہ الگ الگ نظر آنے والے عقائد اپنے مفہوم کے اعتبار سے ایک نا قابل تقسیم وحدت ہیں۔ایمان با للہ یہ یقین عطا کرتا ہے کہ یہ عالم کون و مکاں جس کی حد نا پیدا کنار نظر آتی ہے، یہ نہ ہمیشہ سے ہے اور نہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔البتہ اس کائنات کو وجود بخشے والی ایک ذات ایسی ہے جس کی نہ کوئی ابتد ہے اور نہ کوئی انتہا۔جسے اللہ یا ربّ کائنات کہتے ہیں۔اس کی یہ شان ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔وہ تمام صفات و کمال کا مالک ہے اور ہر اعتبار سے یک و تنہا ہے۔اس کی ذات، اس کی صفات اور اس کے اختیارات و حقوق میں کوئی شریک اور ساجھی نہیںہے۔
ازروئے قرآن حکیم:
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ
’’ کہہ دو ! اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے ، اللہ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں،وہ کسی کا محتاج نہیں،نہ اس کی کوئی اولاد ہے، نہ وہ کسی کی اولاد ہے،اور اس کا جوڑ کوئی بھی نہیں۔‘‘( سورۃ لاخلاص)
ایمان بالآخرۃ کا تصور انسان میں یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ اس کی یہ زندگی فانی ہے اور اس کو اس دنیا میں کسی اعتبار سے بھی مداومت حاصل نہیں۔یہ انسان کے سفر حیات کا انتہائی مختصر سا وقفہ ہے جو وہ آزمائشوں اور امتحانات کی حالت میں بسر کر تاہے۔اور اپنی طبعی عمر گزار کر وہیں واپس لوٹ جاتا ہے جہاں سے اسے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
’’ ہم سب اللہ ہی کے ہے ، اور ہم کو اللہ ہی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔( البقرہ 156)
موت فناہو جانے یا مٹ جانے کا نام نہیں ہے بلکہ اِ س عالم فانی سے اُ س عالم لافانی میں منتقل ہوجانے کا نام ہے۔جس کی پہلی منزل عالم بر زخ ہے جو عارضی ہے اور موت کے فوراً بعد شروع ہوجاتی ہے اور آخری اور ابدی منزل ہے یوم آخرت(The Day of Judgement) جس آغاز ہوگا قیامت کے دن سے۔بعث بعد الموت، حشر و نشر، احتسابِ اعمال ، جزا و سزااور جنت و دوزخ سب اسی ایمان با لآخرۃ کے برگ وبار ہیں۔رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ خدا کی قسم تم سب پر موت طاری ہو کر رہے گی جیسے تم روزانہ رات کو سوجاتے ہو، پھر تمھیں لازماً اٹھا لیا جائے گاجیسے روزانہ تم صبح کو بیدا ر ہوتے ہوپھر یقیناً تم سے حساب لیا جائے گا اس کا جو تم کر رہے ہوپھر بدلہ مل کر رہے گا بھلائی کا بھلا اور برائی کا برااور وہ یا تو جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے ہمیشہ کے لیے۔‘‘
ایمان با للہ اور ایمان با لآخرۃ باہم مل کر حیات انسانی کی ابتدا اور انتہا کی علم و آگہی کی صورت گری کرتے ہیں۔ ایمان باللہ اور ایمان با لآخرت کے صحیح شعور و ادراک کے بغیر انسان اس مسافر کی مانند ہوتا ہے جسے اپنے سفر کا مقصد اور اپنی منزل کی کچھ خبر نہ ہو۔ ’’ گویا نہ ابتدا ء کی خبر ہے نہ انتہامعلوم ‘‘ کی سی کیفیت ہوتی ہے۔اور انسان سفر حیات کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر تشکیک و ارتیاب کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کے پاس لا ادریت (Agnosticism)اور ارتیابیت (Scepticism) کے سوا اس کے فکر و عمل میں اور کچھ نہیںرہتا۔اور بعض اوقات وہ خود اپنے وجود کے بارے میں بھی وسوسے اور تذبذب (Vacillation ) میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو سمیع و بصیر یعنی سننے والا اور دیکھنے والا بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے ، ازروئے قرآن حکیم:
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا
’’ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفے سے اس طرح پیدا کیا ، کہ اسے آزمائیں، پھر اسے ایسا بنایا کہ وہ سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے، ہم نے اسے راستہ دکھایا کہ وہ یا تو شکر گزار ہو ،یا نا شکرا بن جائے۔‘‘ (الدھر 02.03)
اور سورۃ الشمس کی آیت 07.08میں ارشاد فرمایا:
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا
’’ اور (قسم) ہے انسانی جان کی اور ا س کی جس نے اسے سنوارا،پھر اس کے دل میں ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے ،اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔‘‘( الشمس 07–08)
اب ان فطری صلا حیتوں اور استعدادات Faculties)) کی بنا پر انسان کو مکلف بنا یا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات اور طرز عمل کو اللہ کی خوشنودی میں گزارے ، تاہم پھر بھی اللہ نے ایک اور فضل انسان پر فرمایا کہ اس کی رشد و ہدایت کے لیے انبیاء رسل کا سلسلہ جاری کر دیا۔ جو ختم ہوا ہے محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس پر۔چنانچہ ایمان باللہ اور ایمان با لآخرت پر یقین کامل حاصل ہونے کا دارومدار انبیاء رسل کی تعلیمات پر عمل کرنا اللہ کی طرف سے حجت پوری ہونا ہے، اب کوئی انسان اللہ کے حضور یہ عذر نہیں پیش کر سکتا کہ مجھے سیدھے راستے اور تیری رضا و بندگی کا علم نہیں تھا۔چنانچہ یہ ہے وہ فطری آہنگ جو ان ایمان ثلاثہ کے مابین پایا جاتا ہے۔اور یہی نبوت و رسالت کی ضرورت اور اہمیت کو بھی واضح کر تا ہے۔
اس دنیا میں بنی نوع انساں کی آمد کے ساتھ ہی نبوت و رسالت کا سلسلہ بھی جاری کر دیا گیا۔کیونکہ ابو البشر آدم علیہ السلا م کو اپنا نائب بنا کر اس صفحہ ارضی پر بھیجتے وقت ہی خالق کائنات نے ان کی تالیف قلب کے لیے آگاہ کر دیا تھا کہ:
فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرۃ 38 )
’’پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تمھیں پہنچے ، تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کو نہ کوئی خوف ہوگا ، اور نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔‘‘
چنانچہ انسان کے ورود ارضی کے ساتھ ہی اس کی روحانی تعلیم و تربیت کا انتظام کر دیا گیا۔ یہ اللہ کی انسان پر بہت بڑ ی رحمت اور اس کا انعام ہے … ہر قوم میں اللہ نے کوئی نہ کوئی رسول ضرور بھیجا ہے ۔ محمد رسول اللہ ﷺ اور ان سے پہلے رسولوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پچھلے تمام رسولوں کی دعوت کا مرکز و محور ان کی اپنی قوم تھی۔ اسی لیے ان کی دعوت کا آغاز ’’ اے میری قوم ! یا اے میری قوم کے لوگو! ‘‘ کے الفاظ سے ہوتا ہے۔لیکن محمد مصطفی ﷺ کی بعثت پوری بنی نوع انساں کے لیے ہے۔نہ صرف یہ بلکہ آپ ﷺ پر نبوت و رسالت کا یہ طویل سلسلہ ختم ہوا ہے ۔آپ ﷺ خاتم النبیین بھی ہیں اور خاتم المرسلین بھی۔یہ دونوں شانیں بیک وقت آپ ﷺ کی ذات اقدس میں پائی جاتی ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے تمام رسولوں کے دور میں نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ کیوں ختم نہ ہوا اوراس کے لیے محمد رسول اللہﷺ کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ اس میں بھی ایک بڑی حکمت پائی جا تی ہے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد قوم بنی اسرائیل میں بے شمار نبی آئے ۔جب کبھی بھی اس قوم میں للٰہیت اور ایمانی جذبات کی لو دھیمی پڑنے لگتی تو اللہ تعالیٰ کسی رسول کو بھیج کر ان کی ہدایت کا اہتمام کر دیتا۔چنانچہ بنی اسرائیل میں بھیجے جانے والے نبی اور رسول کا سلسلہ ختم ہوتا ہے ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر ،جو بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری حجت بن کر آئے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد تقریباً 600برس کا عرصہ ہے جس میں اس روئے ارضی پر کوئی نبی یا رسول نہیں تھا، اور یہ دور فترہ اولیٰ کا دور کہلاتا ہے، جو در اصل تمہید تھی ختم نبوت اور تکمیل رسالت کی۔ان 600 برسوں میں عقل انسانی اپنی پختگی کو پہنچ چکی تھی، اور انسان بحیثیت ایک انسان جو کچھ سوچ بچار کرسکتا تھا وہ کر چکا تھا۔گویا نسل انسانیت عہد طفولیت سے نکل کر اپنے بلوغ کی دہلیز پر آپہنچی تھی۔نسلی انسانی عقلی و فکری اعتبار سے بالغ ہوچکی تھی۔
تاریخ انسانی کے 1200برس… یعنی عیسیٰ ابن مریم سے 600برس قبل اور ان کے رفع ّآسمانی کے 600 برس بعد تک کا عرصہ فکرِ انسانی کے عہد طفولیت سے نکل کر عقل و شعور کی پختگی تک پہنچنے کا زمانہ ہے۔ چنانچہ اس عرصے کے درمیان تمام مذاہب عالم بھی پیدا ہو چکے تھے اور تمام مکاتب فلسفہ بھی وجود میں آچکے تھے۔اور نوع انسانی کا فلسفیانہ شعور (Philosophical Consciousness) ان بارہ سو سالوں میں ترقی کی منازل طے کر تا ہوااپنی بلوغ کی منزل کو پہنچا ہے۔تمام فلسفے انھیں بارہ سالوں میں پیدا ہوئے ہیں۔سقراط ، افلاطون اور ارسطو بھی اسی دور کی پیداوار ہیںاور گوتم بدھ، مہا ویر، کنفیوشس اور تاؤ بھی اسی دور میں پیدا ہوئے۔
اس کے بعد دنیا نے مادی علوم میںبلا شبہ بہت ترقی کی اور انسانی معلومات کا دائرہ نہایت وسیع ہوا اور یہ دنیا ایک چھوٹا سا گاؤں (Global Village )کی صورت میں ڈھل گئی۔ مگر فکر کے میدان میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔چنانچہ نہ کوئی نیا مذہب واقعۃً وجود میں آیااور نہ جدید مکتب ِ فکر یا مدرسۂ فکر!اگر فلسفہ جدید کے نام سے کچھ مکتبِ فکر سامنے آئے بھی تو ان کی حیثیت محض نئی بوتلوں میں پرانی شراب کے سوا کچھ نہ تھی۔
چنانچہ اب فضا تیا ر ہوگئی تھی کہ انسانیت کی فوز و فلاح اور اس کی ہدایت تامہّ کا مستقل بنیا دوں پر انتظام کیا جائے۔ وقت کے اسی اہم تقاضے کی تکمیل کے لیے بعثت محمدی ﷺ ہوتی ہے۔ یہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے رفع آسمانی کے چھ سو برس کے بعد کا زمانہ ہے۔ رسول کریمﷺ کی ولادت با سعادت سن عیسوی کے حساب سے 571ہے، جبکہ آپ ﷺ پر پر وحی کا آغاز 610عیسوی میں ہوتا ہے۔
محمدرسول اللہ ﷺ پر نبوت صرف ختم ہی نہیں ہوئی بلکہ مکمل بھی ہوئی ہے۔دراصل رسول کریمﷺ کی فضیلت کی بنیاد محض ختم نبوت نہیں ، بلکہ تکمیل نبوت و رسالت ہے۔ ازروئے قرآن حکیم:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
’’ آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیاہے، اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے،اور تمھارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔‘‘ (المائدہ 03)
عربی لغت اور محاورے کی رو سے ’’ ختم‘‘ کے معنی مہر لگانے ، بند کرنے، آخر تک پہنچ جانے اور کسی کام کو پورا کر کے فارغ ہوجانے کے ہیں۔خَتَمَ اَلْعَمَلَ کے معنی ہیں فرَ غَ مِنَ الْعَمَل ، ’’ کام سے فارغ ہوگیا۔‘‘خَتَمَ لْاِنَاءَ کے معنی ہیں ’’ برتن کا منہ بند کردیااور اس پر مہر لگا دی تاکہ کوئی چیز اس میں سے نکلے اور نہ کچھ اس کے اندر داخل ہو۔‘‘خَتَمَ الرِّسَالَۃَ کے معنی ہیں ’’ خط بند کر کے اس پر مہر لگادی تاکہ خط محفوظ ہوجائے۔‘‘خَتَمَ عَلَی الْقَلب کا مطلب ہے کہ’’ دل پر مہر لگادی کہ نہ کوئی بات اس کی سمجھ میں آئے، نہ پہلے سے جمی ہوئی کوئی بات اس میں سے نکل سکے۔‘‘اسی بنا پر تمام اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالاتفاق خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کے لیے ہیں۔عربی لغت و محاورے کی رو سے خاتم کے معنی ڈاک خانے کی مہر کے نہیں ہیںجسے لگا لگا کر خطوط جاری کیے جاتے ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ مہر ہے جو لفافے پر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر سے کوئی چیز باہر نکلے اور نہ باہر کی کوئی چیز اندر جائے۔
رسول کریم ﷺ کے اپنے اقوال اس بات کے شاہد ہیں کہ آپﷺ خاتم النبیین والمرسلین ہیں؛ ارشاد فرمایا:’’ بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے، جب کوئی نبی فوت جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتامگر میرے بعدکوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفا ہوں گے۔‘‘ ( بخاری ، کتاب المناقب)
ایک اور موقع پر آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ:
’’ میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اورخوب حسین و جمیل بنائی، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے۔مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیو ں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اورمیں خاتم النبیین ہوں۔( یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمارت مکمل ہو چکی ہے، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پُر کرنے کے لیے کوئی نبی آئے۔‘‘(صحیح البخاری 3535، صحیح مسلم 2286)
رسول کریم ﷺ کے مقصد بعثت کی امتیازی شان قرآن حکیم میں تین مقامات پر بیان ہوئی ہے۔اور ان تینوں آیات میں ایک شوشے کا بھی فرق نہیں ہے۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ
’’ وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول کو الہدیٰ (قرآن حکیم)اور دین حق دے کر تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے۔‘‘ (سورۃ التوبہ33 ، سورۃ الفتح28 ، سورۃ الصف09 )
رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا قرآن میں کئی جگہ پر اظہار کیا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
’’ (مسلمانو!) محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی(سلسلہ نبوت ختم کرنے والے)ہیں۔اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب40)
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي
’’ میری امت میں تیس کذاب (بڑے چھوٹے) پیدا ہوں گے ، ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ (مسند احمد278،سنن ابی داؤد 4252)
رسول کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق آپ ﷺ کی فضیلت ان الفاظ میں واضح ہوتی ہے:
’’ ۱) مجھے جامع اور مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی۔
۲) مجھے رعب کے ذریعے سے نصرت بخشی گئی۔
۳) میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گئے۔
۴) میرے لیے پوری زمین کو مسجد بنا دیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔
( یعنی میری شریعت میں نماز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں،بلکہ روئے زمین پر ہر جگہ پڑھی جاسکتی ہے۔
اور پانی نہ ملے تو میری شریعت میں تیمم کر کے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے اور غسل کی حاجت بھی)
۵) مجھے تمام دنیا کے لیے رسولﷺ بنایا گیا۔
۶) اور میرے اوپر انبیاء علیھم السلام کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔( صحیح مسلم، ترمذی، ابن ماجہ)
خاتم النبیین کے الفاظ اس بات کا واضح اظہار ہے کہ جس نبی کے بعد اگر کوئی دوسرا نبی ہو وہ اگر نصیحت اور توضیح احکام میں کوئی کسر چھوڑ جائے تو اس کے بعد آنے والا نبی اس کو پورا کرسکتا ہے۔مگر جس کے بعد کوئی نبی آنے والا نہ ہو وہ امت پر زیادہ شفیق ہوتا ہے اور اس کو زیادہ واضح رہنمائی دیتا ہے۔کیونکہ اس کی مثال اس باپ کی ہوتی ہے جو یہ جانتا ہے کہ اس کے بعد اس کے بیٹے کا کوئی ولی اور سرپرست نہیں ہے۔بلا شبہ رسول اللہ ﷺ انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں جس نے ان کا سلسلہ ختم کردیا،یا جس سے انبیاء کے سلسلے پر مہر کردی گئی۔اور عیسیٰ علیہ السلام کا آپ کے بعد نازل ہونااس ختم نبوت پر قادِح نہیں ہے کیونکہ جب وہ نازل ہوں گے تو آپ ﷺ کے دین پر ہی ہوں گے۔
نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور جب آپﷺ کے بعد نبی کوئی نہیں تو رسول بدرجۂ اولیٰ نہیں ہے۔کیونکہ رسالت کا منصب خاص ہے اور نبوت کا منصب عام، ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔رسول اکرمﷺ کے بعد جو شخص بھی اس مقام کا دعویٰ کرے، وہ جھوٹا، مفتری، دجال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے، خواہ وہ کیسے ہی خرقِ عادت،شعبدے، جادو ، طلسم اور کرشمے بناکر لے آئے۔ یہی حیثیت ہر اس شخص کی ہے جو قیامت تک اس منصب کا مدعی ہو۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی امت کے علماء آپ ﷺ سے صرف ولایت ہی کی میراث پائیں گے، نبوت میں میراث آپ ﷺ کی ختمیت کے باعث ختم ہوچکی۔اورسیدنا عیسیٰ علیہ السلام آپ ﷺ سے پہلے نبی بنائے جا چکے ہیں، اور جو نازل ہوں گے تو شریعت ِ محمدی ﷺ کے پیرو کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔آپﷺ ہی کے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں گے، آپﷺ کی امت کے ایک فرد کی طرح ہوں گے۔نہ ان کی طرف وحی آئے گی اور نہ وہ احکام دیں گے۔بلکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ ہوںگے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ’’وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ‘‘ اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے، ’’ لا نبی بعدی‘‘۔ اور جو کوئی یہ کہے کہ ہمارے نبی کے بعد کوئی نبی ہے وہ کافر ہے۔اور اسی طرح اس شخص کی بھی تکفیر کی جائے گی جو اس میں شک کرے کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے ممیز کر دیا ہے۔
اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد چوتھے نمبر پر مسا ئل دین میں جس چیز کو حجت کی حیثیت حاصل ہے ، وہ دور صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد علمائے امت کا اجماع ہے۔اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک ہر زمانے میں ، اور پوری دنیائے اسلام میں ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتااور یہ کہ جو بھی آپ ﷺ کے بعد اس منصب کا دعویٰ کرے ، یا اس کو مانے، وہ کافراور خارج از ملت ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمه الله کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیااور کہا: ’’ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامت پیش کروں۔‘‘
اس پر امام ابو حنیفہ رحمه اللهنے فرمایاکہ: ’’ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا، وہ بھی کافر ہوجائے گا، کیونکہ رسول اللہﷺ فرما چکے ہیں کہ ’’لا نبی بعدی‘‘۔ ( مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہؒ ، ج اول،ص 161)
نبی کا لفظ رسول کی بہ نسبت عام ہے۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے خود بخود لازم آتا ہے کہ آپ ﷺ خاتم المرسلین بھی ہوںاور آپ ﷺ کے خاتم الانبیاء و رسل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں وصف نبوت سے آپ ﷺ کے معتصف ہونے کے بعد اب جن وانس میں سے ہر ایک کے لیے نبوت کا وصف منقطع ہوگیا۔رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا ایک ایسی بات ہے، جسے کتاب اللہ نے صاف صاف بیان کیا ہے، سنت نے واضح طور پر اس کی تصریح کی، اور امت نے اس پر اجماع کیا۔لہٰذا جو اس کے خلاف کوئی دعویٰ کرے ، اسے کافر قرار دیا جائے گا۔
قرآن حکیم نے خود بے شمار مقامات پر واضح کیا ہے کہ، رسول اللہ ﷺ کو تمام دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے، اور دنیا کی تمدنی تاریخ بتاتی ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپ ﷺ کی دعوت سب قوموں تک پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء علیہم السلام آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہی۔پھر قرآن یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کردی گئی ہے۔لہٰذا تکمیل دین کے لیے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں۔
ایک قابل غور امر یہ بھی ہے نبی جب بھی کسی قوم میں آئے گاتو فوراً اس میں کفر و ایمان کا سوال اٹھ کھڑا ہوگا۔جو اس کو مانیں گے ایک امت قرار پائیں گے اور جو اس کو نہ مانیں گے وہ لامحالہ دوسری امت قرار پائیں گے۔ان دونوں امتوں کا اختلاف ہوگا، جو انھیں اس وقت تک جمع نہ ہونے دے گا، جب تک ان میں سے کوئی ایک عقیدہ چھوڑ دے۔پھر ان کے لیے عملاً بھی ہدایت اورقانون کے مآخذ الگ الگ ہوں گے،کیونکہ ایک گروہ اپنے تسلیم کردہ نبی کی پیش کی ہوئی وحی اور اس کی سنت سے قانون لے گا اور دوسرا گروہ اس کے مآخذ کے قانون ہونے کا سرے سے منکر ہوگا، اس بنا پر ان کا ایک مشترک معاشرہ بن جانا کسی طرح بھی ممکن نہ ہوگا۔
ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھے تو اس پر یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ ختم نبوت امت مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بننا ممکن ہوا۔اس چیز نے مسلمانوں کو ہر ایسے بنیادی اختلاف سے محفوظ کردیا ہے، جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہوسکتا ہو۔اب جو شخص بھی محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنا ہادی اور رہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور مآخذ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کا قائل نہ ہو، وہ اس برادری کا فرد ہے اور ہر وقت ہوسکتا ہے۔یہ وحدت اس امت کو کبھی نصیب نہ ہوسکتی تھی اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوجاتا، کیونکہ ہر نبی کے آنے پر یہ پارہ پارہ ہوتی رہتی۔
نبی خواہ ’’ ظِلّی ہو یا ’’ بُرُوزی‘‘ ، امتی ہو یا صاحب شریعت اور صاحب کتاب۔۔بہر حال جو شخص بھی نبی ہوگا اور اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہوگا، اس کے آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ اس کے ماننے والے ایک امت بنیں اور نہ ماننے والے کافر قرار پائیں۔یہ تفریق اس حالت میں تو نا گزیر ہے ، جبکہ نبی کے بھیجے جانے کی فی الواقع ضرورت ہو۔ مگر جب اس کے آنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے تو اللہ کی حکمت اور اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو کفر و ایمان کی کشمکش میں مبتلا کرے اور انھیں کبھی ایک امت نہ بننے دے،لہٰذا جو کچھ قرآن حکیم سے ثابت ہے اور جو کچھ سنت اور اجماع سے ثابت ہے، عقل بھی اسی کو تسلیم کرتی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہی رہنا چاہیے۔
اسلامی تصور حیات میں توحید کے بعد سب سے بڑی اہمیت ’’ عقیدہ ختم نبوت‘‘ کو حاصل ہے۔بلکہ اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گاکہ یہی وہ اصل بنیاد ہے جس کی وجہ سے اسلام دوسرے الہامی مذاہب سے ممیز ہے۔اللہ تعالیٰ نے کسی گذشتہ پیغام کے متعلق یہ نہیں فرمایاکہ اس کی تکمیل ہوچکی ہے، اور اس کی حفاظت کا میں ذمہ دار ہوں۔دنیا کے تمام صحائف جو گم ہوچکے ہیں ان کا گم ہوجانا ہی ان کے وقتی اور عارضی ہونے کی ایک بین دلیل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس روئے ارضی پر بسنے والے انسانوں کے لیے جس آخری نبی کے ذریعہ مستند ہدایت نامہ اور ضابطہ قانون بھیجا تھا اور جس کو اس ضابطہ کے مطابق کام کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کردینے پر مامور کیا گیا تھاوہ محمد ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ارشاد ربانی ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
’’اور (اے پیغمبر) ہم نے تمھیں سارے ہی انسانوں کے لیے ایک ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے اور خبر دار بھی کرے، لیکن لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں۔‘‘ (سورۃ سبا 28)
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ محمدمصطفی ﷺ کی ذات ِ مقدس ہی وہ کامل نمونہ جس کی پیروی تمھارے ایمان کی اولین شرط ہے۔اور جس کی غیر مشروط اطاعت پر تمھاری دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا انحصار ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت محض ایک ما بعد الطبیعی تصور (Metaphysical Imagination)میں شامل نہیں بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کی تکمیل میںاس نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔بقول علامہ اقبال ؒ:
’’ اس تصور کی عقلی اہمیت یہ ہے کہ اس سے باطنی تجربے کی نسبت ایک تنقیدی روش پیدا ہوجاتی ہے جو یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہر قسم کا شخصی اقتدار جو فوق الفطرت (Supernatural)بنیاد پر قائم ہو ، تاریخ انسانی میں ختم ہوگیاہے اس قسم کا عقیدہ ایک نفسیاتی قوت ہے جو اس طرح فوق ا لفطری اقتدار کی نفی کرتی ہے۔‘‘
محمد رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت ورسالت ہی نے مسلمانوںکو ایک الگ امت بنایا ہے، وحدتِ فکر اور اشتراکِ عمل بلا شبہ ایک قوم کے مختلف اجزا کو جوڑتے ہیں ۔ان کے ذریعہ سے ہی قوم کو ایک زبردست قوتِ رابطہ و ضابطہ میسر آتی ہے جو اجسام کے تعدّد اور نفوس کے تکثّر کے باوجود لوگوں کو ایک جگہ جمع کرتی ہے۔
ختم ِنبوت سے انکار کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے استحکام پر ضرب لگائی جائے۔ اس لیے کہ نبوت کے اجرا کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کی جمعیت ہمیشہ پراگندگی اور افتراق کے خطرے میں مبتلا رہے۔اور ہر نئے نبی کے آنے پر کفر اور اسلام کی ایک نئی تفریق پیداہوجائے۔اسلام نے دراصل نبوت کا دروازہ بند کر کے ملت اسلامیہ کو ایک وحدت اور پائیدار قوت عطا کی ہے۔
محمد رسول اللہ ﷺ آخری پیغمبر ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ایسے عالمگیر پیغام سے نوازا جوساری نوع بشر کے لیے مکمل اور جامع ہے کہ اب اس میں ترمیم و اضافہ کی ضرورت نہیں۔اب کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہ گئی جس کا انکشاف انسانیت کے لیے ضروری ہو اور نہ عمل صالح اور ہدایت کا کوئی گوشہ ایسا رہ گیا ہے جس کو آشکار کرنے کے لیے نوع انسانی کسی نبی کی محتاج ہو۔
raheelgoher5@gmail.com
کتابیات
٭آسان ترجمہ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی
٭خطباتِ نبوی ﷺ بحوالہ نہج البلاغہ
٭قادیانیت ایک فتنہ مرتب: شاہد حمید
٭مفردات القرآن امام راغب اصفہانی ؒ
٭المنجد Louis Malof
٭مصباح اللغات مولانا عبد الحفیظ بلیاوی
٭تفسیر کبیر امام فخرالدین رازیؒ
٭تفسیر ابن کثیر حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیرؒ
٭تفسیر روح المعانی علامہ محمود آلوسیؒ
٭ختمِ نبوت سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
٭تشکیل جدید الٰہیات ِ اسلامیہ نذیر نیازیؒ
۔۔۔