سیدناخلیل اللہ ابراہیم ﷺ کی داڑھی مبارک:

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (النحل:123)

پھر ہم نے آپ کی جانب وحی کی کہ آپ یکسو ہوکر ملت ابراہیم کی اتباع کریں اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔

وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (البقرۃ:130)

ملت ابراہیم سے وہی ہٹتا ہے جو خود کو بےوقوف بنارہا ہو، انہیں ہم نے دنیا میں چنا تھا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے۔

قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (آل عمران:95)

آپ کہہ دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ،پس تم ملت ابراہیم کی اتباع کرو جو یکسو تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔

وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا

اس سے بڑھ کر اچھا دیندار کون ہوگا جس نے خود کو اللہ کا مطیع بنالیا اور اس نے ملت ابراہیم کی اتباع کی جو یکسو تھے اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا۔(النساء:125)

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ

تمہیارے لئے ابراہیم اور اسکے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے۔(الممتحنۃ:4)

نیز اسی قسم کے الفاظ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی اختیار کئے جو اِن دونوںکے اسوہ حسنہ کی یگانگت کی عکاسی کرتے ہیں،چنانچہ ارشاد فرمایا:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا

تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے ان کے لئے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتے ہوں اور اللہ کا بکثرت ذکر کرتے ہوں۔(الاحزاب:21)

سیدنا ابراہیم ﷺ سے متعلق یہ تمام آیات واضح دلیل ہیں کہ اُن کے اسوہ حسنہ کی اتباع فرض ہے،اور یہ اتباع صرف عقیدے سے متعلق امور تک محدود نہیں ،بلکہ انکی سیرت و ملت اور اسوہ سے متعلق جو بات بھی کتاب و سنت سے ثابت ہو اسے اختیار کرنا مقصود ِ الہٰی ہے، چنانچہ ذیل میں انکی داڑھی سے متعلق ایک روایت ملاحظہ ہو:

امام سليمان بن احمد بن ايوب بن اللخمی الشامی، ابو القاسم الطبرانی (المتوفیٰ: 360ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَائِلَةَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

متن:

أَوْفُوا اللِّحَى، وقُصُّوا الشَّوَارِبَ قَالَ: وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ خَلِيلَ الرَّحْمَنِ، يُوفِّي لِحْيَتَهُ، ويَقُصُّ شَارِبَهُ.

داڑھی کو پورا کرو،اور مونچھوں کو پست کرو،اور ابراہیم علیہ السلام خلیل الرحمٰن اپنی داڑھی کو پورا اور مونچھیں پست رکھتے تھے۔(طبرانی کبیر:11724)

تحقیق:

ان الفاظ کے ساتھ یعنی مرفوعاً یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے،کیونکہ اسکی سند میں اسماعیل بن عمرو البجلی ضعیف ہے،نیز سماک کی عکرمہ سے روایت میں بھی محدثین نے کلام کیا ہے،لیکن معنی کے اعتبار سے دیکھا جائے اور قرائن کا اعتبار کیا جائےتویہ روایت نصوص صحیحہ کے عین مطابق ہے:

پہلا قرینہ: 

گذشتہ آیات دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ ملت ابراہیمی کی اتباع کرتے تھے،اوراب تک کےمضمون میں ہم تواتر کے ساتھ ثابت کر آئے ہیں کی رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مکمل تھی ،آپ نے کبھی داڑھی کو کاٹا یا تراشا نہیں،یقیناً ؒ یہ بھی ملت ابراہیمی کی اتباع کے ضمن میں ہی ہے۔

دوسرا قرینہ: 

رسول اللہ ﷺ کی داڑھی کا حال آپ ملاحظہ کرچکے ہیںاوراحادیث صحیحہ کے مطابق بنی آدم میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ شکل و صورت میں سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے محمد رسول اللہ ﷺ تھے،جیسا کہ درج ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے،چنانچہ فقیہ امت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي:رَأَيْتُ مُوسَى: وَإِذَا هُوَ رَجُلٌ ضَرْبٌ رَجِلٌ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى، فَإِذَا هُوَ رَجُلٌ رَبْعَةٌ أَحْمَرُ، كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ، وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ.

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس رات مجھے معراج کروائی گئی میں نے سیدناموسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو وہ چھریرے بدن والے قد آور اور گھنگریالے بالوں والے تھے،گویا شنوءۃ قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں،اور میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو وہ میانے قد کے گورے انسان تھے گویا دیماس(حمام) سے نکلے ہوں(یعنی ہشاش بشاش)،اور ابراہیم ﷺ کی نسل میں انکے ساتھ سب سے زیادہ مشابہہ میں ہی ہوں ۔(صحیح بخاری:3394)

نیز سیدنا رئیس المفسرین عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَمَّا إِبْرَاهِيمُ فَانْظُرُوا إِلَى صَاحِبِكُمْ.

اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام(کو دیکھنا ہو )تو اپنے صاحب (یعنی خود نبی کریمﷺ)کو دیکھ لو۔(صحیح بخاری:3355،5913)

نیزامام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)رحمہ اللہ نے کہا:
سند:
حدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، وَحَسَنٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ حَسَنٌ أَبُو زَيْدٍ: قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: قَالَ: حَدَّثَنَا هِلَالٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:

متن:

أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ جَاءَ مِنْ لَيْلَتِهِ، فَحَدَّثَهُمْ بِمَسِيرِهِ، وَبِعَلَامَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَبِعِيرِهِمْ، فَقَالَ نَاسٌ، قَالَ حَسَنٌ: نَحْنُ نُصَدِّقُ مُحَمَّدًا بِمَا يَقُولُ؟ – فَارْتَدُّوا كُفَّارًا، فَضَرَبَ اللهُ أَعْنَاقَهُمْ مَعَ أَبِي جَهْلٍ، وَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: يُخَوِّفُنَا مُحَمَّدٌ بِشَجَرَةِ الزَّقُّومِ ‍‍‍، هَاتُوا تَمْرًا وَزُبْدًا، فَتَزَقَّمُوا، وَرَأَى الدَّجَّالَ فِي صُورَتِهِ رُؤْيَا عَيْنٍ، لَيْسَ رُؤْيَا مَنَامٍ، وَعِيسَى، وَمُوسَى، وَإِبْرَاهِيمَ، صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ؟ فَقَالَ: “ أَقْمَرُ هِجَانًا – قَالَ حَسَنٌ: قَالَ: رَأَيْتُهُ فَيْلَمَانِيًّا أَقْمَرَ هِجَانًا – إِحْدَى عَيْنَيْهِ قَائِمَةٌ، كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ، كَأَنَّ شَعْرَ رَأْسِهِ أَغْصَانُ شَجَرَةٍ، وَرَأَيْتُ عِيسَى شَابًّا أَبْيَضَ، جَعْدَ الرَّأْسِ، حَدِيدَ الْبَصَرِ، مُبَطَّنَ الْخَلْقِ، وَرَأَيْتُ مُوسَى أَسْحَمَ آدَمَ، كَثِيرَ الشَّعْرِ – قَالَ حَسَنٌ: الشَّعَرَةِ – شَدِيدَ الْخَلْقِ، وَنَظَرْتُ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَلَا أَنْظُرُ إِلَى إِرْبٍ مِنْ آرَابِهِ، إِلَّا نَظَرْتُ إِلَيْهِ مِنِّي، كَأَنَّهُ صَاحِبُكُمْ، فَقَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: سَلِّمْ عَلَى مَالِكٍ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ “

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاکہ نبی کریم ﷺ کو بیت المقدس تک سیر کروائی گئی پھر اسی رات آپ تشریف لائے اور لوگوں کو اپنی سیراور بیت المقدس کی علامات اور انکے تجارتی قافلےکا بتایا تو لوگوں نے کہا:ہم محمد ﷺ کی بات کی تصدیق کریں؟ لہذا مشرکین مکہ کفر پر قائم رہے،تو اللہ نے ابوجہل کے ساتھ انکی گردنیں بھی ماردیں(یعنی انہیں مختلف مواقع پر ہلاک کردیا)اور ابوجہل نے کہا: محمد ﷺ ہمیں شجرہ زقوم سے ڈراتے ہیں،کھجور اور مکھن لاؤ،پھر انہوں نے دونوں کو ملاکر کھالیا (یعنی لغت کے حساب سے بھی زقوم ہی ہے جسے اس نے کھاکر یہ ظاہر کیا کہ وہ شجرہ زقوم سے خوفزدہ نہیں)،اور آپ نے اپنی آنکھوں سے نہ کہ خواب میں دجال کو اسکی اصل شکل میں دیکھا،اور سیدناعیسیٰ ،موسیٰ اور ابراہیم صلوات اللہ علیہم کو بھی دیکھا،پس رسول اللہ ﷺ سےدجال کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:نہایت گورا (سرخ)،راوی حسن نے کہا:میرے خیال میں اس طرح کہا کہ:نہایت گورا اور بڑے جثے والا،اسکی دو میں سے ایک آنکھ ٹیرھی ہوئی ہے گویا چمکتا ہوا تارہ ہو،اسکے سر کے بال گویا کسی درخت کی ٹہنیاں ہوں،اور میں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ،جوان ، گورے، گھنگریالے بال اور تیز نگاہ والے،دبلے پتلے،اور میں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا پختہ گندمی رنگت والے،بہت بال والے،حسن راوی نے کہا:بہت بالوں والے،مضبوط جسامت والے،اور میں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا پس میں نے انکے جس بھی عضو کو دیکھا گویا انہیں دیکھ کر میں نے خود کو دیکھا ،گویا وہ تمہارے صاحب(یعنی خود آپ ﷺ)ہی ہیں،تو جناب جبریل علیہ السلام نے کہا،مالک (داروغہ جہنم)کو سلام کریں ،تومیں نے انہیں سلام کیا۔(مسند احمد:3546،مسند ابی یعلیٰ:2720،تہذیب الآثار لمحمد بن جریر الطبری:1/408 1/461،رقم:747،اخبار الدجال لعبدالغنی المقدسی (المتوفیٰ:600ھ) :64،السنن الکبری للنسائی مختصراً:11219،اسے شیخ شعیب الارناؤط نے مسند احمد کی تخریج میںصحیح اور علامہ البانی نے الاسراء والمعراج (ص:77)میں حسن کہا ہے)

فائدہ:

اس روایت میں سیدنا موسیٰ ﷺ کے متعلق یہ الفاظ کے ”كَثِيرَ الشَّعْرِ“ یعنی بہت بال والے،دلالت کرتے ہیں کہ انکی داڑھی بھی گھنی رہی ہوگی۔

دوسرا فائدہ:

اس روایت میں نبی کریم ﷺ سیدنا ابراہیم ﷺ کاحلیہ مبارک جس انداز میں بیان کیا ہے یہ انداز و الفاظ پوری صراحت کرتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی داڑھی بھی مکمل طور پرنبی کریم ﷺ کی داڑھی کی مانند تھی۔

تیسرا قرینہ:

حسن درجے کی ایک موقوف روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے مونچھیں پست کرنے کے سلسلے میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کی،روایت درج ذیل ہے:

امام محمد بن عیسیٰ بن سورہ الترمذی نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الوَلِيدِ الكِنْدِيُّ الكُوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:

متن:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُصُّ أَوْ يَأْخُذُ مِنْ شَارِبِهِ، قَالَ: وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ يَفْعَلُهُ.

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:

نبی کریم ﷺ اپنی مونچھیں پست کیا کرتے تھے اور خلیل الرحمن ابراہیم ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

تخریج وتحقیق:

سنن ترمذی:2760،مصنف ابن ابی شیبہ:25503، مسند احمد:2738،علل الحدیث لابن ابی حاتم:6/56، رقم:2314،شرح معانی الآثار: 6558،الاحادیث المختارہ:484951،مسند ابی یعلی:2715،الانوار فی شمائل النبی المختارللبغوی:1104،اخلاق النبی لابی الشیخ:817، الاستذکار:8/428۔

شواہد کی بناء پر یہ روایت حسن ہے،اسے ابن عباس سے روایت کرنے والے عکرمہ مولیٰ ابن عباس ہیں عکرمہ سے روایت کرنے والے سماک بن حرب ابوالمغیرہ الکوفی ہیں،اور سماک سے روایت کرنے والے تین ہیں:

1زائدہ بن قدامہ الکوفی

مصنف ابن ابی شیبہ:25503،حدیث ابی العضل الزہری:219،علل الحدیث لابن ابی حاتم:6/56، رقم:2314،شعب الایمان للبیہقی: 6033، التمہید: 21/63
2اسرائیل بن یونس الہمدانی
سنن ترمذی:2760
3حسن بن صالح الہمدانی
مسند احمد:2738،شرح معانی الآثارللطحاوی: 6558، الاحادیث المختارہ للمقدسی:484951، مسند ابی یعلی:2715،الانوار فی شمائل النبی المختار للبغوی: 1104،اخلاق النبی لابی الشیخ:817، الاستذکارلابن عبدالبر:8/428، التمہید:21/63

امام ترمذی نے اس روایت کے متعلق کہا:

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

یہ روایت حسن غریب ہے۔(سنن ترمذی:2760)

حافظ ابن حجر نے امام ترمذی کی موافقت کی ہے۔(فتح الباری:10/347)

امام ابو حاتم نے کہا:

حدَّثَناه أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ،عَنْ زَائِدَةَ، مَوْقُوفٌ بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَهُوَ أصحُّ ممَّن يَرْفَعُهُ.

ہمیں یہ روایت احمد بن یونس نے زائدہ کے طریق سے اسی سند سےموقوفاً بیان کی،اور یہ مرفوعاً روایت کرنے والوں سے زیادہ صحیح ہے۔(علل الحدیث لابن ابی حاتم:6/56، رقم:2314)

علامہ ابو اسحاق الحوينی الاثری حجازی محمد شريف نے کہا:
ولكن الحديث حسنٌ لشواهده الكثيرة.

لیکن بہت سے شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے۔( بذل الاحسان بتقريب سنن النسائی لابی عبد الرحمن:1/150)

چوتھا قرینہ

اس روایت سے ہمارا استدلال عقیدے کے باب میں نہیں،نہ ہی اس سے کسی عبادت یا عمل کا اثبات کرنا مقصود ہے،نہ ہی اسکے ذریعے حلا ل یا حرام ، جائز یا ناجائز کا تعین مقصود ہے،بلکہ صرف حلیہ مبارکہ سے متعلق ایک جزئی ثابت کرنا مطلوب ہے،جبکہ یہ جزئی بطریق اقتضاء النص صحیح حدیث سے ثابت ہورہی ہے،یعنی رسول اللہ ﷺ کی ابراہیم ﷺ سے مشابہت والی حدیث سے۔

سیدنا ہارون کی داڑھی :

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت نمبر 83 سے آیت نمبر 86 تک میں اٹھارہ انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ والسلام کے نام ذکر کئے ،پھر آیت نمبر 87 میں انکے آباء و اجداد،انکی ذریت اور انکے بھائیوں کا ذکر کیا،اور اس بات کا کہ وہ سب اللہ کے چنے ہوئے اور صراط مستقیم پر چلنے والے بندے تھےپھر آیت نمبر 88 اور 89 میں اس بات کا ذکر کیا کہ وہ نہ تو مشرک تھے نہ ہی انہوں نے کبھی کفریہ عمل کیا،اور پھر آیت نمبر 90 میں ارشاد فرمایا:

أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ.

’’ان لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی پس آپ انکی ہدایت کو اختیار کریں۔‘‘

متذکرہ بالا آیت میں ذکر کردہ انبیاء و رسل کے نام یہ ہیں: (1) ابراہیم (2) اسحاق (3) یعقوب (4) نوح (5) داؤد (6) سلیمان (7) ایوب (8) یوسف (9) موسیٰ (10) ہارون (11) زکریا (12) یحیی (13) عیسیٰ (14) الیاس (15) اسماعیل (16) الیسع (17) یونس (18) لوط صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہم وسلّم تسلیماً کثیراً

اگرچہ ان میں سے بعض رسل کی شریعتیں امت محمدیہ کی شریعت سے مختلف تھیں،اور امت محمدیہ انکی شرائع کی مکلف نہیں،علاوہ ازیں شریعت محمدیہ آجانے کے بعدوہ منسوخ بھی ہوچکی ہیں،لیکن جن امور کا تعلق فطرت سے ہے وہ سبھی شرائع میں متحد ہیں،اور داڑھی بھی امور فطرت میں سے ہے جیسا کہ چند سطوربعدصحیح مسلم( کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ )کے حوالے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں صراحت آجائیگی،بناء بریں ہارون ﷺ کی داڑھی کے سلسلے میں اقتداء شرعاً مطلوب ہے،اور انکی داڑھی کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب سیدنا موسیٰ ﷺ کو کوہ طور پر طلب کیا تو انہوں نے ہارون ﷺ کو بنی اسرئیل کی نگرانی کے لئے چھوڑدیا اور ساتھ لیکر نہ گئے،پھر جب 40 راتوں بعد واپس آئے تو قوم کو بعل پرستی میں مبتلا دیکھا تو ہارون ﷺ پر شدید ناراض ہوئے اور غصے میں انکی داڑھی اور سر کے بالوں کو پکڑ کر انہیں کھینچنے لگے ،اس واقعہ سے متعلق قرآن مجید کے دو مقامات ملاحظہ کریں:

پہلا مقام:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قَالَ يَاهَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي.

موسی نے کہا اے ہارون،جب تو نے انہیں گمراہ ہوتا دیکھا تو میری اتباع کرنے سے تجھے کس نے روکا،کیا تو نے میری نافرمانی کی؟ہارون نے کہا:اے میرے خالہ زاد ،میری داڑھی اور میرا سر نہ پکڑ ،مجھے ڈر ہوا کہ تو کہے گا کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کی پاسداری نہ کی۔(طہ:9294)

دوسرا مقام:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِنْ بَعْدِي أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (الاعراف:150)

جب موسیٰ اپنی قوم کی جانب غصہ ہوکر افسردہ لوٹا تو کہا:تم نے میرے پیچھے بڑا برا کام کیا،کیا تم نے اپنے رب کے حکم کا انتظار نہ کیا،اور اس نے لوحیں پھینک دیں اور اپنے بھائی کا سرپکڑ کر کھینچنے لگا،اس نے کہا:اے میرے خالہ زاد قوم کے لوگوں نے مجھے بے بس کردیا اور مجھے قتل کرنے کے درپے ہوگئے،پس تو میرے سبب دشمنوں کو ہنسنے کو موقع نہ دے،اور نہ ہی مجھے ظالموں میں شامل کر۔

استدلال:

ہمارا استدلال یہ ہے کہ ہارون ﷺ کی داڑھی کافی دراز تھی کہ موسی ﷺ نے اسے باآسانی پکڑلیا،تقریباً سبھی قدیم و جدیدمفسرین اس معنیٰ پر متفق ہیں کہ انکی داڑھی کافی طویل و ضخیم تھی ،بلکہ بعض شدید ضعیف روایات میں صراحت ہے کہ انکی داڑھی انکی ناف تک دراز تھی۔(دلائل النبوۃ للبیہقی:2393،الشریعۃ للآجری:1070، تاریخ دمشق:3/513،سلسلہ ضعیفہ:6203واللہ اعلم

تنبیہ:

ابو طالب المکی (المتوفیٰ:386ھ)کی قوت القلوب (2/240)اور ابو حامد الغزالی(المتوفیٰ:505ھ)کی احیاء العلوم(1/144)کے مطابق اہل جنت کی داڑھی نہ ہوگی سوائے ہارون علیہ السلام کے ،لیکن انہوں نے اسکی کوئی سند ذکر نہیں کی۔

نیزبعض روایات کے مطابق اہل جنت کی داڑھی نہ ہوگی نہ ہی انکے جسم پر کوئی بال ہوگا سوائے موسیٰ علیہ السلام کے انکی داڑھی ناف تک ہوگی۔

یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے،تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو:(فوائد تمام:669،الضعفاء الکبیر للعقیلی:2/197، تاریخ بغداد:7325،تاریخ دمشق:7/389،(الکامل فی ضعفاء الرجال،رقم الراوی: 907، العظمۃ لابی الشیخ:5/1580،مشیخۃ قاضی المارستان:371،صفۃ الجنۃ لابی نعیم الاصبہانی:2/108،المجروحین لابن حبان:483،مسند الفردوس: 1649،مَسَائل أجَابَ عَنہا الحَافظُ ابن حَجر العَسقَلانی:27،الموضوعات لابن الجوزی:3258، معرفۃ التذکرۃ فی الاحاديث الموضوعۃ لابن القیسرانی:616،سلسلہ ضعیفہ: 7041815 18161817)

البتہ اس روایت کا پہلا فقرہ کہ” اہل جنت کی داڑھی اورانکے جسم پر بال نہ ہوں گے“ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔(سنن ترمذی:2539،صحیح الجامع:2525)

ایسے ہی بعض روایات (تاریخ دمشق:7/389)میں آدم علیہ السلام کے متعلق بھی اسی طرح آیا ہے کہ جنت میں انکی داڑھی ناف تک ہوگی ۔

اول تو یہ کعب احبار کا قول ہے دوم اسکی سند میں بقیہ بن ولید کثیر التدلیس ہے اور عن سے روایت کررہا ہے،نیز موسیٰ بن ابراہیم المروزی شدید ضعیف ہے،اسکے علاوہ اس میں کچھ اور علتیں بھی ہیں،لہذا اس کا من گھڑت ہونا واضح ہے۔

اہم تنبیہ:

شاملہ فارمیٹ میں موجود کتاب ”العظمۃ لابی الشیخ“ (5/15791580)میں تابعی بکر بن عبداللہ المزنی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا گیا ہے جسکے رواۃ ثقات ہیںاورسند متصل ہے اورالفاظ یہ درج ہیں:

لَيْسَ أَحَدٌ فِي الْجَنَّةِ لَهُ لِحْيَةٌ إِلَّا آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ، أَكْرَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِذَلِكَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

جنت میں کسی کی داڑھی نہ ہوگی سوائے آدم علیہ السلام کے انکی کنیت ابو محمد ہوگی ، اللہ عزَّ و جلَّ انہیں محمدﷺ کی نسبت دے کر اعزاز عطاء فرمائے گا۔

ہمارے ناقص خیال کے مطابق یہ تصحیف ہے ،یہاں لفظ ”لحیۃ“(داڑھی)نہیں بلکہ لفظ ”کنیۃ“(کنیت) ہے۔ واللہ اعلم

سیدنا موسی کی داڑھی مبارک:

چند سطور قبل ہم مسند احمد(3546)کے حوالے سے ایک صحیح روایت ذکر کر آئے ہیں جسکے مطابق موسیٰ علیہ السلام بہت زیادہ بالوں والے تھے،جو انکی داڑھی کی ضخامت و کثاثت اور داڑھی کے بالوں کی کثرت و طوالت کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

نیز بعض ضعیف روایات کے مطابق انکی داڑھی بھی ہارون علیہ السلام کی مانند کافی دراز تھی،جیسا کہ اہل جنت کی داڑھی کے ضمن میں گذرا۔

جبکہ بعض دیگر روایات کے مطابق ہارون علیہ السلام اور موسی علیہ السلام ایک دوسرے کے مشابہہ تھے،اورموسیٰ علیہ السلام ”کث اللحیۃ“یعنی گھنی داڑھی والے تھے، درج ذیل سطور ملاحظہ ہوں:

انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ و السلام کی تصاویر:

کتب احادیث میں ایسی متعدد صحیح روایات ملتی ہیں جنکے مطابق یہود و نصاریٰ اور مشرکین نے انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ والسلام اور صالحین کی تصاویر بناکر اپنی عبادت گاہوں میں آویزاں کردی تھیں،انکی مختصر تفصیل آگے آجائے گی۔

سردست ہم تین روایات پیش کریں گےپہلی دو روایات میں انبیاء کی تصاویرکا اجمالی تذکرہ ہے،جبکہ تیسری روایت میں کچھ تفصیل ہے،پہلے مجمل روایات ملاحظہ ہوں:

پہلی روایت:

امام محمد بن اسماعیل البخاری نے کہا:

سند:

حدثنى محمد بن عمر قال حدثتنا ام عثمان بنت سَعِيد عَنْ أَبِيها سَعِيد عَنْ أَبِيه مُحَمَّد بْن جُبَيْر عَنْ جُبَيْر بْن مطعم قَالَ :

متن:

خرجت تاجرا إلى الشام فلقيت رجلا من أهل الكتاب فقَالَ هل عِنْدَكم رجل يتنبأ؟ قلت نعم، فجاء رجل من أهل الكتاب فقَالَ فِيم أنتم؟ فأدخلني منزلا لَهُ فإذا فِيهِ صور فرأيت النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ هُوَ هذا؟ قلت نعم، قَالَ أَنَّهُ لم يكن نبي إلا كَانَ بعده نبي إلا هذا النَّبِيّ.

میں ملک شام تجارت کی غرض سے گیاتو میری ملاقات ایک اہل کتاب سے ہوئی،اس نے پوچھا:کیا تمہاری طرف کوئی نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟میں نے کہا:ہاں،تو ایک اور اہل کتاب آیااس نے کہا:تم کس حال میں ہو؟پھر اس نے مجھے ایک گھر میں داخل کیا جس میں تصاویر تھیں،تو میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، تو اس نے پوچھا:کیا یہ وہی ہیں؟میں کہا:ہاں،اس نے کہا:ہر نبی کے بعد نبی آیاسوائے اس نبی کے۔

(التاریخ الکبیر للبخاری:1/179،رقم:545،طبرانی کبیر:1609،طبرانی اوسط:8231،تاریخ دمشق، ج:72،ص:43،دلائل النبوۃ للبیہقی:1/384، دلائل النبوۃ لابی نعیم:2،دلائل النبوۃلاسماعیل الاصبہانی 79، الشریعۃ للآجری:983،تاریخ الاسلام :1/355)

تحقیق:

بقول علامہ طرہونی اسکی سند میں کوئی بھی راوی متکلم فیہ نہیں ہے،محمد بن عمر کو امام بخاری (التاریخ الکبیر: 1/179،رقم:545)اور امام ابوحاتم(الجرح والتعدیل: 8/19،رقم:87) نے ذکر کیا ہے ، اس سے روایت بھی کی ہے لیکن اس پر کوئی جرح نہیں کی،نیز امام ابن حبان نے اسے الثقات (15218)میں ذکر کیا ہے،ام عثمان بنت سعید(جدۃ محمد بن عمر) جیسی مجہول الحال خواتین کے متعلق امام ذہبی نے المیزان (4/604،فصل فی النسوۃ المجھولات) میںکہا کہ:میں کسی بھی ایسی خاتون کو نہیں جانتا جو متہمہ ہو یا متروکہ ہو،سعید بن محمد کو حافظ ابن حجر (تقریب التہذیب: 2385) نے مقبول کہا،اور محمد بن جبیر (تقریب التہذیب: 5780) ثقہ ہیں،بنا بریں علامہ محمد بن رزق بن طرہونی حفظہ اللہ نے ”صحیح السیرۃ النبویۃ المسماۃ السیرۃ الذہبیۃ“(طبع دار ابن تیمیہ القاہرہ ،ص: 341)میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

دوسری روایت:

اس معنی کی ایک اور روایت سیدنا دحیہ بن خلیفہ الکلبی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ،لیکن وہ شدید ضعیف ہے،ملاحظہ ہو:الدیباج للختلی (المتوفیٰ: 283ھ) :35 ، امالی ابن سمعون (المتوفیٰ:387) :1/275،رقم: 304،التدوین فی اخبار قزوین:4/24،تاریخ دمشق: 17/209،سلسلہ ضعیفہ از البانی:3304،البتہ عصر حاضر کے عظیم محقق علامہ محمد بن رزق بن طرہونی حفظہ اللہ کےمطابق اسے امام ابن عساکر نےاپنی سند سے تاریخ دمشق میںاسحاق بن ابراہيم الختلی نا عمر بن ابراہيم بن خالد نا نجيح ابو معشر عن محمد بن کعب عن دحيۃ بن خليفۃ رضی اللہ عنہ…کے طریق سے روایت کیا ہے جسے بعض ائمہ نے قبول کیا ہے،اس اعتبار سے اس روایت کو بطور شاہد کے پیش کیا جاسکتا ہے،نیز صحیح بخاری(07)وغیرہ کی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہرقل کے پاس اپنا نامہ مبارک سیدنا دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں روانہ کیا تھا۔واللہ اعلم(صحیح السیرۃ النبویۃ المسماۃ السیرۃ الذہبیۃطبع دار ابن تیمیہ القاہرہ ،ص:342)

تیسری روایت:

سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت سے متعلق ایک طویل روایت جو دو صحابہ (ہشام بن العاص اور عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہما)سے مروی ہے،جس میں بہت سے انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام کی تصاویر اور انکے حلیوںکا ذکر ہے، اس میں انکی داڑھیوں کے ضمن میں درج ہے کہ وہ مکمل داڑھی والے تھے،یہ روایت بالاختصار درج ذیل ہے،چنانچہ امام بیہقی نے کہا:

سند:

وَفِي كِتَابِي عَنْ شَيْخِنَا أَبِي عَبْدِ اللهِ الْحَافِظِ، وَهُوَ فِيمَا أَنْبَأَنِي بِهِ إِجَازَةً: أَنَّ أَبَا مُحَمَّدٍ، عَبْدَ اللهِ بْنَ إِسْحَاقَ الْبَغَوِيَّ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ الْعَاصِ الْأُمَوِيِّ، قَالَ:

متن بالاختصار:

…فَأَقَمْنَا ثَلَاثًا، فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا لَيْلًا، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَاسْتَعَادَ قَوْلَنَا فَأَعَدْنَاهُ، ثُمَّ دَعَا بِشَيْءٍ كَهَيْئَةِ الرَّبَعَةِ الْعَظِيمَةِ مُذَهَّبَةٍ فِيهَا بُيُوتٌ صِغَارٌ عَلَيْهَا أَبْوَابٌ، فَفَتَحَ بَيْتًا وَقُفْلًا، وَاسْتَخْرَجَ حَرِيرَةً سَوْدَاءَ فَنَشَرَهَا، فَإِذَا فِيهَا صُورَةٌ حَمْرَاءُ، وَإِذَا فِيهَا رَجُلٌ ضَخْمُ الْعَيْنَيْنِ، عَظِيمُ الْأَلْيَتَيْنِ، لَمْ أَرَ مِثْلَ طُولِ عُنُقِهِ، وَإِذَا لَيْسَتْ لَهُ لِحْيَةٌ، وَإِذَا لَهُ ضَفِيرَتَانِ، أَحْسَنُ مَا خَلَقَ اللهُ(وفی روایۃ ابی نعیم)رَجُلٌ طَوِيلٌ أَكْثَرُ النَّاسِ شَعْرًا.
قَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ: هَذَا آدَمُ، عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَإِذَا هُوَ أَكْثَرُ النَّاسِ شَعْرًا.
ثُمَّ فَتَحَ لَنَا بَابًا آخَرَ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ حَرِيرَةً سَوْدَاءَ، وَإِذَا فِيهَا صُورَةٌ بَيْضَاءُ، وَإِذَا لَهُ شَعْرٌ كَشَعْرِ الْقِطَطِ، أَحْمَرُ الْعَيْنَيْنِ، ضَخْمُ الْهَامَةِ، حَسَنُ اللِّحْيَةِ(وفی روایۃ ابی نعیم) رَجُلٌ ضَخْمُ الرَّأْسِ، عَظِيمٌ، لَهُ شَعَرٌ كَشَعْرِ الْقِبْطِ، أَعْظَمُ النَّاسِ إِلْيَتَيْنِ، أَحْمَرُ الْعَيْنَيْنِ.
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ: هَذَا نُوحٌ، عَلَيْهِ السَّلَامُ.
ثُمَّ فتح بابا آخر، فاستخرج مِنْهُ حَرِيرَةً سَوْدَاءَ، وَإِذَا فِيهَا رَجُلٌ شَدِيدُ الْبَيَاضِ، حَسَنُ الْعَيْنَيْنِ، صَلْتُ الْجَبِينِ، طَوِيلُ الْخَدِّ، أَبْيَضُ اللِّحْيَةِ، كَأَنَّهُ يَتَبَسَّمُ(وفی روایۃ ابی نعیم) رَجُلٌ أَبْيَضُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ، كَأَنَّهُ حَيُّ يَتَبَسَّمُ.
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ: هَذَا إِبْرَاهِيمُ، عَلَيْهِ السَّلَامُ.
ثُمَّ فَتَحَ بَابًا آخَرَ، فَإِذَا فِيهَا صُورَةٌ بَيْضَاءُ وَإِذَا، وَاللهِ، رَسُولُ اللهِ، قَالَ: أَتَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: نَعَمْ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَبَكَيْنَا.
قَالَ: وَاللهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ قَامَ قَائِمًا ثُمَّ جَلَسَ وَقَالَ: وَاللهِ، إِنَّهُ لَهُوَ؟ قُلْنَا: نَعَمْ. إِنَّهُ لَهُوَ كَأَنَّمَا نَنْظُرُ إِلَيْهِ فَأَمْسَكَ سَاعَةً يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ كَانَ آخِرَ الْبُيُوتِ وَلَكِنِّي عَجَّلْتُهُ لَكُمْ لِأَنْظُرَ مَا عِنْدَكُمْ.
ثُمَّ فَتَحَ بَابًا آخَرَ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ حَرِيرَةً سَوْدَاءَ، فَإِذَا فِيهَا صُورَةٌ أَدْمَاءُ سَحْمَاءُ، وَإِذَا رَجُلٌ جَعْدٌ قَطَطٌ، غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، حَدِيدُ النَّظَرِ، عَابِسٌ، مُتَرَاكِبُ الْأَسْنَانِ، مُقَلَّصُ الشَّفَةِ، كَأَنَّهُ غَضْبَانُ(وفی روایۃ ابی نعیم)رَجُلٌ مُقَلَّصُ الشَّفَتَيْنِ، غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، مُتَرَاكِبُ الْأَسْنَانِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ عَابِسٌ.
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا.
قَالَ: هَذَا مُوسَى، عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَإِلَى جَنْبِهِ صُورَةٌ تُشْبِهُهُ، إِلَّا أَنَّهُ مِدْهَانُ الرَّأْسِ، عَرِيضُ الْجَبِينِ، فِي عَيْنِهِ قَبَلٌ (وفی روایۃ ابی نعیم)رَجُلٌ يُشْبِهُهَ غَيْرَ أَنَّ فِي عَيْنَيْهِ قُبْلًا، وَفِي رَأْسِهِ اسْتِدَارَةٌ،.
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا:
قَالَ: هَذَا هَارُونُ بْنُ عِمْرَانَ.
ثُمَّ فَتَحَ بَابًا آخَرَ، فَاسْتَخْرَجَ حَرِيرَةً بَيْضَاءَ، فَإِذَا فِيهَا
صُورَةُ رَجُلٍ آدَمَ، سَبْطٍ، رَبْعَةٍ كَأَنَّهُ غَضْبَانُ (وفی روایۃ ابی نعیم).
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا: قَالَ: هَذَا لُوطٌ عَلَيْهِ السلام.
فتح بابا آخر، فاستخرج منه حَرِيرَةً بَيْضَاءَ، فَإِذَا فِيهَا صُورَةُ رَجُلٍ أَبْيَضَ، مُشْرَبٌ حُمْرَةٍ، أَقْنَى، خَفِيفَ الْعَارِضَيْنِ، حَسَنَ الْوَجْهِ .
فقال: هل تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ: هَذَا إِسْحَاقُ، عَلَيْهِ السلام.
ثم فتح بابا آخر، فاستخرج منه حَرِيرَةً بَيْضَاءَ، فَإِذَا فِيهَا صُورَةٌ تُشْبِهُ إِسْحَاقَ إِلَّا إنَّهُ عَلَى شَفَتِهِ السُّفْلَى خَالٌ .
فقال: هل تعرفون هذا؟ قُلْنَا: لَا:
قَالَ: هَذَا يَعْقُوبُ، عَلَيْهِ السَّلَامُ.
ثُمَّ فَتَحَ بَابًا آخر، فاستخرج مِنْهُ حَرِيرَةً سَوْدَاءَ، فِيهَا صُورَةُ رَجُلٍ أَبْيَضُ، حَسَنُ الْوَجْهِ، أَقْنَى الْأَنْفِ، حَسَنُ الْقَامَةِ، يَعْلُو وَجْهَهُ نُورٌ، يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ الْخُشُوعُ، يَضْرِبُ إِلَى الْحُمْرَةِ .
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ: هَذَا إِسْمَاعِيلُ جَدُّ نَبِيِّكُمْ.
ثُمَّ فَتَحَ بَابًا آخَرَ، فَاسْتَخْرَجَ حَرِيرَةً بَيْضَاءَ، فِيهَا صُورَةٌ كَأَنَّهَا صُورَةُ آدَمَ، كَأَنَّ وَجْهَهُ الشَّمْسُ .
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ: هَذَا يُوسُفُ عَلَيْهِ السَّلَامُ.
ثُمَّ فَتَحَ بَابًا آخَرَ، فَاسْتَخْرَجَ حَرِيرَةً بَيْضَاءَ، فِيهَا صُورَةُ رَجُلٍ أَحْمَرَ، حَمْشِ السَّاقَيْنِ، أَخْفَشَ الْعَيْنَيْنِ، ضَخْمِ الْبَطْنِ، رَبْعَةٍ، مُتَقَلِّدٍ سَيْفًا (وفی روایۃ ابی نعیم) رَجُلٌ مَرْبُوعٌ.
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ: هَذَا دَاوُدُ، عليه السلام.
ثم فتح بابا آخر، فاستخرج حَرِيرَةً بَيْضَاءَ، فِيهَا صُورَةُ رَجُلٍ ضَخْمِ الْأَلْيَتَيْنِ، طَوِيلِ الرِّجْلَيْنِ، رَاكِبٍ فَرَسٍ (وفی روایۃ ابی نعیم)رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى فَرَسٍ طَوِيلِ الرِّجْلَيْنِ، قِصِيرِ الظَّهْرِ، كُلُّ شَيْءٍ مِنْهُ جَنَاحٌ تَحُفُّهُ الرِّيحُ.
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ:
هَذَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَلَيْهِ السَّلَامُ.
ثم فتح بابا آخر، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ حَرِيرَةً سَوْدَاءَ، فِيهَا صُورَةٌ بَيْضَاءُ وَإِذَا رَجُلٌ شَابٌّ، شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ، كَثِيرُ الشَّعْرِ، حَسَنُ الْعَيْنَيْنِ، حَسَنُ الْوَجْهِ (وفی روایۃ ابی نعیم) شَابٍّ تَعْلُوهُ صُفْرَةٌ، صَلْتُ الْجَبِينِ، حَسَنُ اللِّحْيَةِ،يُشْبِهُهُ كُلُّ شَيْءٍ مِنْهُ.
فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ: هَذَا عِيسَى بن مَرْيَمَ، عَلَيْهِ السَّلَامُ.
قُلْنَا: مِنْ أَيْنَ لَكَم هَذِهِ الصُّوَرُ، لِأَنَّا نَعْلَمُ أَنَّهَا عَلَى مَا صُوِّرَتْ عَلَيْهِ الْأَنْبِيَاءُ، عَلَيْهِمُ السَّلَامُ، لِأَنَّا رَأَيْنَا صُورَةَ نَبِيِّنَا، عَلَيْهِ السَّلَامُ، مِثْلَهُ؟ فَقَالَ: إِنَّ آدَمَ، عَلَيْهِ السَّلَامُ، سَأَلَ رَبَّهُ أَنْ يُرِيَهُ الْأَنْبِيَاءَ مِنْ وَلَدِهِ، فَأَنْزَلَ عَلَيْهِ صُوَرَهُمْ، وَكَانَ فِي خِزَانَةِ آدَمَ، عَلَيْهِ السَّلَامُ، عِنْدَ مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَاسْتَخْرَجَهَا ذُو الْقَرْنَيْنِ مِنْ مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَدَفَعَهَا إِلَى دَانْيَالَ.
ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللهِ إِنَّ نَفْسِي طَابَتْ بِالْخُرُوجِ مِنْ مُلْكِي، وَاَنْ كُنْتُ عَبْدًا لَا يُتْرَكُ مُلْكُهُ حَتَّى أَمُوتَ (وفی روایۃ اسماعیل الاصبہانی) أَمَا وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنَّ نَفْسِي طَابَتْ بِالْخُرُوجِ مِنْ مُلْكِي وَأَنِّي كُنْتُ عَبْدًا لِشَرِّكُمْ مَلَكَةً حَتَّى أَمُوتَ.
ثُمَّ أَجَازَنَا فَأَحْسَنَ جَائِزَتَنَا، وَسَرَّحَنَا. فَلَمَّا أَتَيْنَا أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، حَدَّثْنَاهُ بِمَا رَأَيْنَا، وَمَا قَالَ لَنَا، وَمَا أَجَازَنَا. قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: مِسْكِينٌ، لَوْ أَرَادَ اللهُ [عَزَّ وَجَلَّ] بِهِ خَيْرًا لَفَعَلَ. ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللهِ، صلى الله عليه وسلم، أَنَّهُمْ وَالْيَهُودَ يَجِدُونَ نَعْتَ مُحَمَّدٍ، عَلَيْهِ السَّلَامُ، عِنْدَهُمْ .

سیدنا ہشام بن العاص الاموی رضی اللہ عنہ نے کہا:

…ہم ہرقل کے پاس تین دن رہے،پھر ایک رات اس نے اپنا نمائندہ بھیج کر ہمیں بلوایا ،ہم اس کے پاس گئے ،اس نے ہم سے ہماری باتیں دوبارہ کہلوائیں ،ہم نے اس پر اپنی باتیں دہرائیں،پھر اس نے ایک سنہرے رنگ کا بڑا سا چوکورگھر منگوایاجس میں چھوٹے چھوٹے خانے تھے جن پر دروازے لگے تھے۔

۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے