وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا اِلَّا هُوَ (الانعام: 59)
’’اور اسي کے پاس غيب کي چابياں ہيں انہيں اس کے سوا کوئي نہيں جانتا ۔‘‘
اللہ تعاليٰ کا حکم اور ارشاد ہے کہ ميں ہي زمين و آسمانوں کا غيب جانتا ہوں ،ميرے سواکوئي غيب نہيں جانتا۔ سوائے اس کے کہ جسے ميں غيب کي کسي بات سے آگاہ کروں۔ غيب سے آگاہ ہونا اور غيبي امور کو جاننا صرف اللہ تعاليٰ کي صفت ہے۔ يہ صفت کسي دوسرے ميں نہيں پائي جاتي۔ اسي ليے اللہ تعاليٰ نے بڑے بڑے انبياء کرامo کے واقعات بيان فرمائے۔ جن سے دو اور دو چار کي طرح واضح ہوتا ہے کہ انبياء عظامo غيب نہيں جانتے تھے۔ نبي معظم رسول مکرمeتمام انبياء کے سردار اور خاتم المرسلين ہيں۔ آپ سے باربار ااعلان کروايا گيا کہ آپ اس بات کا اعلان کريں کہ ميں بھي غيب نہيں جانتا۔ اسي حوالے سے قرآن مجيد ميں آپe کے کچھ واقعات بيان کيے گئے ہيں تاکہ آپe کي امت شرک سے بچ جائے اور اس کا عقيدہ ٹھيک ہوجائے۔
قُلْ لَّا اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْٓءُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ
’’ فرما ديں کہ ميںتو اپنے ليے بھي نفع اور نقصان کا اختيار نہيں رکھتا۔ہاں !جو اللہ چاہے اوراگر ميں غيب جانتا ہوتا تو بہت سي خير حاصل کرليتا اور مجھے کوئي تکليف نہ پہنچتي ، ميں صرف ڈرانے والا اور خوشخبري دينے والاہوں ان لوگوں کے ليے جو ايمان رکھتے ہيں۔‘‘ (الاعراف: 188)
سيدنا نوح عليہ السلام اپني قوم کو ساڑھے نوسو سال توحيد کي دعوت ديتے رہے۔ (العنکبوت:14)ليکن قوم نے دو ٹوک انداز ميں کہا کہ ہم اپنے معبودوں کو نہيں چھوڑ سکتے۔ (نوح:23) ہم پرجو عذاب لانا چاہتے ہو لے آئو۔ (ھود:32) سيدنا نوح عليہ السلام نے انتہائي مجبور ہوکر اپني قوم کے ليے بددعا کي جس کے نتيجے ميں ان کي قوم پر شديد ترين طوفان آيا۔ سيدنا نوح عليہ السلام نے اللہ کے حکم سے کشتي بنائي اورايماندر ساتھيوں کو لے کر کشتي پر سوار ہوگئے۔(ھود:40)
’’ کشتي ان کو لے کر پہاڑوں جيسي اونچي موجوں ميں چلي جارہي تھي۔ ان کا نافرمان مشرک بيٹا ايک اونچے پہاڑ پر کھڑا تھا۔ سيدنا نوح عليہ السلام نے اپنے بيٹے کو آواز دي اے ميرے بيٹے ! کافروں کے ساتھ شامل ہونے کي بجائے ہمارے ساتھ سوار ہو جائو۔اس نے کہا ميں اونچے پہاڑ پر ہوں يہ مجھے بچا لے گا۔نوح عليہ السلام نے فرمايا:آج اللہ تعاليٰ کے حکم سے بچانے والاکوئي نہيں ہوگا، مگر جس پر وہ رحم فرمائے۔پھر دونوں کے درميان موج حائل ہو گئي اور نوح عليہ السلام کا بيٹا غرق ہونے والوں ميں سے ہو گيا ۔‘‘ (ھود:42،43)
بوڑھے باپ نے کربناک منظر ديکھا تو پدرانہ شفقت جوش ميں آئي اور بے ساختہ اپنے رب کي بارگاہ ميں فرياد کي۔ ميرے رب! آپ نے ازراہِ کرم ميرے ساتھ وعدہ فرمايا تھا کہ ميں تيرے اہل کو بچالوں گا۔ آپ کا وعدہ ہميشہ سچا ہوا کرتا ہے اور آپ ہر اعتبار سے اپنا وعدہ پورا کرنے پر قادر ہيں۔ کيونکہ آپ حاکموں کے حاکم ہيںاور آپ کا حکم ہي چلا کرتا ہے۔ اللہ تعاليٰ نے بڑے جلال ميں فرمايا کہ اے نوح! تيرا بيٹا تيرے اہل ميں سے نہيں رہاکيونکہ اس کا عقيدہ اور اعمال اچھے نہيں۔ميں تجھے نصيحت کرتا ہوںکہ
اب حضور يہ درخواست نہ کرناورنہ جاہلوں ميں شمار کيے جائوگے۔ ارشاد سنتے ہي سيدنا نوح عليہ السلام کانپ اٹھے اور اپنے رب کے حضور نہايت عاجزانہ انداز ميں استدعا کي ۔
قَالَ يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْـَٔلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ اِنِّيْ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ قَالَ رَبِّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـَٔلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ وَاِلَّا تَغْفِرْ لِيْ وَتَرْحَمْنِيْ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ (ھود: 46،47)
’’اللہ تعاليٰ نے فرمايا: اے نوح! بلا شک تيرا بيٹا تيرے اہل ميں نہيںرہاکيونکہ اس کے عمل صالح نہيں۔ پس مجھ سے اس با ت کا سوا ل نہ کرنا جس کا تجھے پتہ نہيں ۔ بے شک ميں تجھے نصيحت کرتا ہوں يہ کہ تو جاہلو ں ميں سے ہو جائے ۔ نوح عليہ السلام نے کہا اے رب! بے شک ميں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے اس بات کا سوا ل کروں جس کا مجھے علم نہيں اگر تو نے مجھے معاف نہ کيا اور مجھ پر رحم نہ فرمايا تو ميں نقصان پانے والوں سے ہو جائو ں گا ۔‘‘
معزز قارئين!ايمان اور انصاف کي بات يہ ہے کہ سيدنانوح عليہ السلام غيب نہيں جانتے تھے اگر وہ غيب جانتے ہوتے تو جان بوجھ کر اپنے رب سے جھڑک نہ کھاتے ۔
سيدنا ابراہيم عليہ السلام کے مہمان اور قرباني کا واقعہ
قرآن مجيد ميں سيدنا ابراہيم عليہ السلام کے مہمانوں کا واقعہ تين مرتبہ ايک جيسے الفاظ ميں بيان ہواہے(ھود:69، 70 ) ہر مقام پر يہي بيان ہوا ہے کہ ابراہيم عليہ السلام نہ صر ف ا پنے مہمانوں کو پہچان نہ سکے بلکہ ان سے خوف زدہ ہوگئے۔وہ جانتےتھے کہ فرشتے کھايا پيا نہيں کرتے۔ اگر وہ غيب جانتے ہوتے تو ملائکہ سے ڈرنے کي بجائے خوش ہوتے کہ يہ تو مجھے بڑھاپے ميں نيک بيٹے اور پوتے کي خوشخبري دينے کے لئے آئے ہيں۔
هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ الْمُكْرَمِيْنَ اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا قَالَ سَلٰمٌ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ فَرَاغَ اِلٰى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنٍ فَقَرَّبَهٗ اِلَيْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً قَالُوْا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ(الذاريات: 26 تا 28)
اے نبي کيا آپ کو ابراہيم کے معزز مہانوں کي خبر پہنچي ہے؟ جب وہ اس کے پاس آئے تو اُسے سلام کہا ابراہيم نے کہا کہ آپ پر بھي سلامتي ہو۔سوچا کہ ناآشنا لوگ ہيں،پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ايک موٹا تازہ بچھڑا بھون کر مہمانوں کے سامنے پيش کيا ۔ فرمايا کھاتے کيوں نہيں؟ ابراہيم نے ان سے خوف محسوس کيا انہوں نے کہا:ڈريں نہيںاور انہوں نے ابراہيم کو ايک صاحب ِعلم بيٹے کي خوشخبري سنائي۔‘‘
وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَا اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ فَلَمَّا رَاٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّا اُرْسِلْنَا اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍ وَامْرَاَتُهٗ قَآىِٕمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ وَمِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ قَالَتْ يٰوَيْلَتٰى ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّهٰذَا بَعْلِيْ شَيْخًا اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيْبٌ قَالُوْا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ اِنَّهٗ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِيْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ (ھود: 69 تا 75)
’’اور تحقيق ہمارے بھيجے ہوئے ملائکہ ابر اہيم کے پاس خوشخبري لے کر آئے ،انہوں نے سلام کيا ۔اس نے کہاتمہيں بھي سلام ہو پھر دير نہ کي کہ اور بھنا ہو ا بچھڑا لے آيا ۔ جب ديکھا ان کے ہاتھ کھانے کي طرف نہيں بڑھتے تو انہيں اجنبي جانا اوران سے خوف محسوس کيا۔ انہوں نے کہا ڈرو نہيں ہم قومِ لوط کي طرف بھيجے گئے ہيں۔اور اس کي بيوي کھڑي تھي ۔وہ ہنس پڑي ہم نے اسے اسحاق اور اسحاق کے بعد يعقوب کي خوشخبر ي دي۔ اس نے کہا ہائے ميں ہائے ہائے !کيا ميں جنم دوں گي جبکہ ميں بوڑھي ہوں اور ميرا خاوند بھي بوڑھا ہے ۔يقيناً يہ ايک عجيب بات ہے۔ملائکہ نے کہا کيا تو اللہ کے حکم پر تعجب کرتي ہے؟اللہ کي رحمتيں اور اے گھر والو!تم پراس کي برکتيں ہوں بے شک اللہ بے حد تعريف کيا گيا ،بڑي شان والا ہے ۔ جب ابراہيم سے خوف جا تا رہا اور ان کو خوشخبر ي مل گئي تو وہ ہم سے لوط کي قوم کے بارے ميں جھگڑنے لگا۔ بے شک ابراہيم نہايت برد بار ، بہت آہ وزاري کرنے والا،رجوع کرنے والاہے ۔‘‘
حضرات!آپ قرباني کے واقعہ پر غور فرمائيںاگر سيدنا ابراہيم عليہ السلام کو علم تھا کہ اللہ تعاليٰ نے ميرے بيٹے کو ميرے ہاتھوںذبح ہونے سے بچا لينا ہے تو پھر آزمائش کيسي ؟اوربيٹے کو زمين پر لٹاکر اس کے گلے پر چھُري رکھنے کا کيامقصد؟
حقيقت يہ ہے کہ سيدنا ابراہيم عليہ السلام کو يہ علم نہ تھا کہ ميرا بيٹا ذبح ہونے سے بچ جائے گا انہوں نے نہايت اخلاص کے ساتھ سيدنا اسماعيل عليہ السلام کي قرباني پيش فرمائي۔جس کي اللہ تعاليٰ نے نہ صرف تعريف فرمائي بلکہ رہتي دنيا کے ليے اسے ياد گار بنا ديا ۔
فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّٰاِبْرٰهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِيْنُ وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ (الصافات: 103تا 108)
جب دونوں نے سر تسليم خم کر ديا اور ابراہيم نے بيٹے کو پيشاني کے بل لٹا ديا اور ہم نے آواز دي کہ اے ابراہيم تو نے خواب سچ کر دکھاياہےہم نيکي کرنے والوں کو ايسي ہي جزا ديتے ہيں۔يقيناً يہ ايک کھلي آزمائش تھي اور ہم نے ايک عظيم قرباني فديے ميںدے کر اُس بچے کو چھڑا ليا اور اُس کي تعريف بعد والے لوگوںميں جاري کر دي۔‘‘
سیدنا یعقوب علیہ السلام غیب جانتے تو سیدنا یوسف علیہ السلام کے غم میں نابینا نہ ہوتے
شديد قحط سالي سے مجبورہوکر برادرانِ يوسف غلہ لينے کے ليے عزيز مصر کے پاس گئے اس نے طے شدہ کو ٹہ کے مطابق نہ صرف پورا غلہ ديا بلکہ ان کي حالتِ زار ديکھ کر ان کي رقم بھي واپس کردي تاکہ اس حسن سلوک سے متاثر ہوکر دوبارہ آئيںاور بنيامين کو اپنے ساتھ لائيں۔
انہوں نے واپس جاکر اپنے باپ سيدنا يعقوب عليہ السلام کو حاکمِ مصر کا اخلاق بتلايا اوراس کا فرمان سنايا کہ ہم بنيامين کو ساتھ ليکر نہ گئے توپھر ہميں غلہ نہيں ديا جائے گا ۔ سيدنا يعقوب عليہ السلام نے بالآخر ان سے پختہ حلف ليکر بنيامين کو ان کے ساتھ جانے کي اجازت دے دي اور فرمايا کہ بنيامين کو ہر صورت اپنے ساتھ لانا سوائے اس کے کہ تم سب کے سب گھير ليے جائواور نصيحت فرمائي کہ مصر ميں سب کے سب ايک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ حاکمِ مصر کے پاس مختلف دروازوں سے جانا۔ سيدنا يعقوب عليہ السلام نے فرمايا: يہ ايک احتياطي تدبير ہے۔ہوتا وہي ہے جو اللہ تعاليٰ چاہتا ہے اس ليے ميرا اللہ پر بھروسہ ہے اور ہر بھروسہ کرنے والے کو اسي پر بھروسہ کرنا چاہيے ۔
برادرانِ يوسف کومعلوم نہ تھا کہ عزيزِ مصرہمارا بھائي ہے دوسري مرتبہ غلّہ ديتے ہوئے سيدنا يوسف عليہ السلام نے وحي الٰہي کے مطابق ايک بہانے سے اپنے حقيقي بھائي بنامين کو اپنے پاس رکھ ليا ۔انہوں نے عزيزِمصرسے درخواست کي کہ آپ اس کي بجائے ہم ميں سے کسي اور کو گرفتار کر ليں۔ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور وہ اس سے بڑا پيار کرتا ہے ۔عزيزِ مصرنے کہا: معاذ اللہ! يہ کيسے ہوسکتا ہے کہ ہم اسے چھوڑ کر کسي بے گناہ کو پکڑ ليں۔
نامعلوم برادرانِ يوسف نے بنيامين کو رہا کروانے کے ليے کس قدر منت سماجت اور ترلے کيے ہوں گے۔ مگر بادشاہ نے ان کي کوئي بات نہ ماني۔ جب بادشاہ سے بالکل مايوس ہوگئے تو عليحدہ ہو کر آپس ميں مشورہ کرنے لگے اب کيا کرنا چاہيے ۔بالآخر ان کا بڑا بھائي جس کا نام يہودہ تھاوہ کہنے لگا کيا تمہيں معلوم نہيں کہ والد صاحب نے ہم سب سے قسميں اٹھوا کر وعدہ ليا ہے کہ تم ہر صورت بنيامين کو اپنے ساتھ واپس لائو گے اورتمہيں يہ بھي معلوم ہے کہ تم اس سے پہلے يوسف کے ساتھ کياکر چکے ہو۔ مجھے اس طرح واپس جاتے ہوئے حيا آتي ہے کہ ميں اپنے دکھي اور بوڑھے باپ کو کيا منہ دکھائوں گا۔ لہٰذا تم جانا چاہتے ہو تو جائو ميںتو يہاں سے کبھي نہيں جائوں گايہاں تک کہ والد گرامي مجھے واپس آنے کاپيغام بھيجيں يا اللہ تعاليٰ ميرے ليے کوئي فيصلہ کر دے وہي بہترين فيصلہ کرنے والا ہے۔اپنے باپ کے پاس جائو اور جاکر ابا جان! کو پورا واقعہ عرض کرو ۔اگران کو باتوں پر يقين نہ آئے توعرض کرنا۔اس قافلے والوں سے پوچھ ليں جن کے ساتھ ہم واپس آئے ہيں۔ يقين فرمائيں کہ ہم بالکل سچے ہيں :
وَسْـَٔلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَ الْعِيْرَ الَّتِيْ اَقْبَلْنَا فِيْهَا وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ (يوسف: 82)
’’اور اس بستي سے پوچھ ليں جس ميںہم تھے اور اس قافلے سے بھي جس کے ساتھ ہم آئے ہيں اور يقيناً ہم سچے ہيں ۔‘‘
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ (يوسف: 83)
’’يعقوب عليہ السلام نے فرمايا تمہارے ليے تمہارے دل نے يہ کام آسان کر ديا ہےميںاچھا صبر کروں گا اميد ہے اللہ ان سب کوميرے پاس لے آئے گايقينا ًوہي سب کچھ جاننے اور حکمت والا ہے۔‘‘
صبر جميل سے مراد ايسا صبر جس ميں کسي قسم کا گلہ شکوہ اور جزع فزع نہ پايا جائے۔
وَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ يٰاَسَفٰى عَلٰى يُوْسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌ (يوسف: 84)
’’اس نے منہ پھير ااور کہنے لگا ۔ہائے يوسف!اس کي آنکھيں غم سے سفيد ہو گئيں ،پس وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔‘‘
سيدنا يعقوب عليہ السلام نے ٹھنڈي آہ بھري اور اپنا چہرہ بيٹوں سے پھيرتے ہوئے کہا کہ ہائے يوسف۔ ميں اس غم کي شکايت ا پنے ر ب کي با ر گا ہ ميںپيش کرتا ہوں۔وہ ہميں ضرور اکٹھا کرے گا۔اس غم ميں ان کي آنکھوں کي بينائي جاتي رہي اور ان کي حالت يہ تھي کہ ان کے جسم کا ايک ايک عضو يوسف کي ياد ميں غم سے چور چور ہو چکا تھا۔
سیدنا لوط علیہ السلام کو بھی علم نہ ہوسکا یہ تو فرشتے ہیں جو مجھے ظالم قوم سے نجات دلانے آئے ہیں
وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْٓءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ هٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ وَجَآءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ قَالَ يٰقَوْمِ هٰؤُلَآءِ بَنَاتِيْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِيْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّ وَاِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيْدُ قَالَ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْ اِلٰى رُكْنٍ شَدِيْدٍ (ھود: 77 تا 80)
’’اور جب ملائکہ لوط کے پاس آئے وہ ان کي وجہ سے پريشان ہوئے، ان کا دل تنگ پڑا اورفرمانے لگے يہ بہت سخت دن ہے اس کي قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے اس کے پاس آئے جو پہلے سے برے کا م کے عادي تھے۔ لوط عليہ السلام نے فرمايا:اے ميري قوم! يہ ميري بيٹياں ہيںيہ تمہارے ليے جائز ہيں اللہ سے ڈرو اور ميرے مہمانوں ميں مجھے رسوا نہ کرو۔ کيا تم ميں سے کوئي بھلا آدمي نہيں ہے ؟ انہوں نے کہا توجانتا ہے کہ تيري بيٹيوں ميں ہماري کوئي دلچسپي نہيں اورتو ضرور جانتا ہے کہ ہم کيا چاہتے ہيں۔ لوط عليہ السلام نے فرمايا: کاش ميرے پاس تمہارے مقابلے کے ليے کوئي طاقت ہوتي يا ميں کسي مضبوط سہارے کي پناہ لے ليتا۔‘‘
مفسرين نے لکھا ہے کہ اوباش لوگ دوڑتے ہوئے سيدنا لوط عليہ السلام کے گھر پہنچے تو سيدنا لوط عليہ السلام نے دروازہ بند کرديا ليکن وہ ديواريں پھلانگتے ہوئے اندر آگھسے۔ جس پر سيدنا لوط عليہ السلام نے انہيں بار بار شرم دلائي ليکن ان پر کوئي اثر نہ ہوا۔بالآخر انہوں نے فرماياکہ ميري بيٹياں حاضر ہيں۔سيدنا لوط عليہ السلام کا يہ فرمان کہ ميري بيٹياں تمہارے ليے حاضر ہيں۔ اس کا يہ معنيٰ نہيں کہ سيدنا لوط عليہ السلام نے ان کو اپني بيٹيوں کے ساتھ بُرائي کي اجازت دي تھي۔ سيدنا لوط عليہ السلام ايسي بات ہرگزنہيں کہہ سکتے تھے کيونکہ پيغمبر سب سے زيادہ غيرت والاہوتا ہے۔پيغمبر نازک سے نازک ترين حالات ميں بھي اپني غيرت اورحياء کے خلاف بات نہيں کرتا۔ سيدنا لوط عليہ السلام کے فرمان کے دو معني ليے گئے ہيں۔ ايک يہ کہ تمہارے گھروں ميں جوتمہاري بيوياں ہيں وہ ميري بيٹياں ہيںوہ تمہارے ليے حلال ہيںکيونکہ پيغمبر امت کا روحاني باپ ہوتا ہے اس ليے ان کي بيوياں سيدنا لوط عليہ السلام کي بيٹياں تھيں۔
ان کے فرمان کادوسرا مقصد يہ ہوسکتاہے کہ نکاح کے ليے ميري بيٹياں حاضر ہيں جن کے ساتھ تعلقات قائم کرنا تمہارے ليے فطري اورجائز طريقہ ہوگا۔
سيدنالوط عليہ السلام اگرجانتے ہوتے کہ ميرے پاس خوبصورت شکلوں ميں آنے والے لڑکے نہيں بلکہ فرشتے ہيں اور يہ ميري ظالم قوم کو تباہ کرنے کے ليے آئے ہيں تو انہيں غم کھانے اور قوم کو شرم دلانے کے ليے يہ کہنے کي ضرورت نہ تھي کہ تمہارے ليے ميري بيٹياں حاضر ہيں۔ سيدنا لوط عليہ السلام کے يہ الفاظ پڑھنے اور سننے کے بعد بھي جو شخص يہ کہتا ہے کہ نبي غيب جانتے تھے تو اس کي عقل پر افسوس ہي کرنا چاہيے ۔
سیدناموسیٰ علیہ السلام اپنے عصا سے دو مرتبہ ڈر گئے
سيدنا موسيٰ عليہ السلام بڑے ہوئے توان کے ہاتھوں غيرارادي طور پر ايک شخص قتل ہوگيا۔ سيدنا موسيٰ عليہ السلام خوف کے مارے مدين کي طرف بھاگ گئے۔(القصص:22) وہاں سيدنا شعيب عليہ السلام کے ساتھ آٹھ ، دس سال رہنے کا معاہدہ کيا۔(قصص:27)مدت پور ي ہوگئي تواپني اہليہ کے ساتھ اپنے وطن مصر واپس آر ہے تھے تو انہيں نبوت عطا کي گئي۔
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَسَارَ بِاَهْلِهٖ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْا اِنِّيْ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْ اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ فَلَمَّا اَتٰىهَا نُوْدِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ يّٰمُوْسٰى اِنِّيْ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (القصص: 29۔30)
جب موسيٰ عليہ السلام نے مدت پوري کردي اور وہ اپنے اہل خانہ کو لے کر واپس چلے تواُسے نے طور کي جانب آگ نظر آئي اس نے اپنے گھروالوں سے کہا ٹھہرو۔ ميں نے آگ ديکھي ہے شايد ميں وہاں سے راستے کے بارے ميں پوچھوں يا آگ سے انگارہ لائوںجسے آپ تاپ سکيں۔ موسيٰ عليہ السلام وہا ں پہنچے تو وادي کے دائيں کنارے ايک مبارک مقام پرانہيں درخت سے آواز دي گئي اے موسيٰ !ميں ہي ’’اللہ ‘‘ہوں سارے جہانوں کا مالک۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد ہوا کہ اپنے جوتے اُتارديںآپ مقدس وادي ميں پہنچ چکے ہيں ۔(طہ:12)
’’اور ميں نے تجھ کومنتخب کر ليا ہے جو کچھ آپ کي طرف وحي کياتي ہے اُسے توجہ سے سنو۔ميں ہي اللہ ہوں۔ميرے سوا کوئي معبود نہيں پس ميري بندگي کرو اور مجھے يادکرنے کے ليے نماز پڑھا کرو۔‘‘ ( طٰہٰ:۱۳ تا ۱۴)
اللہ تعاليٰ نے اس مقام پر موسي عليہ السلام کو يدِ بيضااوران کي لاٹھي کے اژدھا بننے کا معجزہ عطا فرمايا۔اللہ تعاليٰ نے لاٹھي کو ازدھا بنانے سے پہلے موسي عليہ السلام سے استفسار فرمايا :موسيٰ! تيرے ہاتھ ميں کيا ہے ؟ موسيٰ عليہ السلام نے ربّ کريم سے ہم کلامي کے شرف اور اس کي لذّت سے سرشار ہوکر اپني بات کو قدرے لمبا کرتے ہوئے کہا:
وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى (طٰہٰ:17)
’’اے موسيٰ تيرے ہاتھ ميں کيا ہے ؟
قَالَ هِيَ عَصَايَ اَتَوَكَّؤُا عَلَيْهَا وَ اَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِيْ وَلِيَ فِيْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى (طٰہٰ:18)
’’موسيٰ نے جواب ديا يہ ميري لاٹھي ہے اس پر ٹيک لگا تا ہوںاس سے اپني بکريوںکے ليے پتے جھاڑتا ہوں، اس سے اور بھي کام ليتا ہوں ۔‘‘
قَالَ اَلْقِهَا يٰمُوْسٰى (طٰہٰ:19)
’’فرمايا اے موسيٰ اسے پھينک دے ۔‘‘
فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعٰى (طٰہٰ:20)
’’ موسيٰ نے اسے پھينک ديا عصا يکايک سانپ بن کر دوڑنے لگا ۔‘‘
قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيْدُهَا سِيْرَتَهَا الْاُوْلٰى
’’اللہ تعاليٰ نے فرمايا اسے پکڑ و اور ڈرونہ ہم اسے پہلے کي طرح عصا بنا ديں گے ۔‘‘ (طٰہٰ:21)
وَاضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ اٰيَةً اُخْرٰى (طٰہٰ:22)
’’اور اب اپنا ہاتھ اپني بغل ميں دباکر نکاليں وہ کسي تکليف کے بغير چمکتا ہوا نکلے گا يہ دوسري نشاني ہے ۔‘‘
غور فرمائيں!ايک لمحہ پہلےموسيٰ عليہ السلام کو معلوم اور يقين تھا کہ ميرے ہاتھ ميں لاٹھي ہے ليکن جوں ہي ان کي لاٹھي اژدھا بنتي ہے توغيب جاننا تو درکنار موسيٰ عليہ السلام خوف کے مارے يہ بھي بھول گئے کہ يہ تو ميري لاٹھي ہے جو اللہ کے حکم سے اژدھا بن گئي ہے ۔
قَالُوْا يٰمُوْسٰى اِمَّااَنْ تُلْقِيَ وَ اِمَّا اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰى قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَ عِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى
’’جادوگر بولے موسيٰ تم پھينکتے ہو يا پہلے ہم پھينکيں ؟موسيٰ نے فرمايا تم پھينکو اچانک ان کي رسياںاور ان کي لاٹھياں ان کے جادو سے موسيٰ کو دوڑتي ہوئي دکھائي دينے لگيں۔ اورموسيٰ اپنے دل ميں ڈر گئے۔ ہم نے کہا ڈريں نہيں تو ہي غالب رہے گا۔ ‘‘ (طٰہٰ: 65تا 68)
سيدنا عزير عليہ السلام بھي غيب نہيں جانتے تھے
يہوديوں نے محبت و عقيدت ميںآکر سيدنا عزير کو اللہ تعاليٰ کا بيٹا قرار دے رکھا ہے ۔قرآن مجيد اس عقيدے کو کفر قرار ديتا ہے (التوبة:30) اور سيدنا عزير عليہ السلام کي زبانِ اقدس سے اس بات کي وضاحت کرتا ہے کہ وہ بھي غيب کے معاملات سے بے خبر تھے ۔
سيدنا عزير عليہ السلام کاايک بستي سے گزر ہواجو اپني چھتوں کے بل گري پڑي تھي۔ فرمانے لگے اس بستي کے تباہ ہونے کے بعد اللہ تعاليٰ اسے کس طرح زندہ کرے گا ؟ اللہ تعاليٰ نے سيدنا عزير عليہ السلام کو سو سال کے ليے موت دے دي پھر انہيں اٹھا کر پوچھا تُو کتني مدت ٹھہرا رہا؟ سيدنا عزير عليہ السلام کہنے لگے ايک دن يا دن کا کچھ حصہ۔اللہ تعاليٰ نے فرمايا نہيں تُو سو سال تک مرا رہا۔
مفسرين کا خيال ہے کہ يہ بستي بيت المقدس تھي جسے بخت نصر نے تہس نہس کردياتھا۔تاريخي اور مقدس شہر کو ويران اور سنسان ديکھ کر سيدنا عزير عليہ السلام کو شديد دھچکا لگا اور خيالات کي دنيا ميں سوچنے لگے کہ کبھي اس کے بازار پُر رونق، اس کے مکان اپنے مکينوں سے آباد، يہاں چہل پہل ہوتي تھي اور شہر کي ايک شان ہوا کرتي تھي۔ اب يہاں ہُو کا عالم ہے اب تو اس ميں سے گزرتے ہوئے بھي دل کانپتا ہے۔ اس سوچ ميں غلطاں ہو کر کہنے لگے:
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰى قَرْيَةٍ وَّ هِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا قَالَ اَنّٰى يُحْيٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (البقرة: 259)
’’يا اس شخص کي طرح کہ جس کا گزر ايک بستي سے ہواجو اپني چھتوں کے بل گري پڑي تھي وہ کہنے لگا اس کے گر جانے کے بعد اللہ تعاليٰ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟ اللہ تعاليٰ نے اسے سو سال کے ليے موت دے دي پھر اسے اٹھا کر پوچھا تو کتني مدت ٹھہرا رہا؟ کہنے لگا ايک دن يا دن کا کچھ حصہ۔ فرمايا بلکہ تو سو سال تک اسي حالت ميں رہا۔اب اپنے کھانے پينے کو ديکھ جو بالکل خراب نہيں ہوااور اپنے گدھے کو بھي ديکھ تاکہ ہم تجھے لوگوں کے ليے ايک نشاني بنائيں۔ ديکھو ہم ہڈيوں کو کس طرح جوڑ کر پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہيں؟ جب اس کے سامنے سب کچھ واضح ہوگيا تو وہ کہنے لگا ميں اچھي طرح جان گيا کہ اللہ تعاليٰ ہر چيز پرخوب قادر ہے۔‘‘
اس واقعہ کا ايک ايک لفظ اس بات کي گواہي دے رہاہے کہ سيدنا عزير عليہ السلام غيب نہيں جانتے تھے ۔اگر وہ غيب کي باتيں جانتے ہوتے تو اللہ تعاليٰ کے استفسار پر يہ نہ کہتے کہ الہٰي! ميں ايک دن يا دن کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔اگروہ غيبي امور سے واقف ہوتے تووہ بستي کے بارے ميں يہ تبصرہ نہ کرتے کہ اللہ تعاليٰ اسے کس طرح زندہ کرے گا۔
سیدنا دائود علیہ السلام نبی اوربہت بڑے حکمران ہونے کے باوجود دو آدمیوں سے خوف زدہ ہوگئے
اِصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ اِنَّهٗ اَوَّابٌ (ص: 17)
’’اے نبي اُن باتوں پر صبر کرو جو يہ لوگ کہہ رہے ہيںاور ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا واقعہ بيان کرو جو بڑي قوت کا مالک ، ہر حال ميں اللہ کي طرف رجوع کرنے والا تھا۔‘‘
اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ
’’ ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دياجوصبح و شام اس کے ساتھ تسبيح پڑھتے تھے۔‘‘ (ص:18)
وَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً كُلٌّ لَّهٗ اَوَّابٌ (ص:19)
’’اس کے پاس پرندے حاضر ہوتے تھے، جو اُس کي تسبيح کي طرف متوجہ ہوتے تھے۔ ‘‘
وَشَدَدْنَا مُلْكَهٗ وَاٰتَيْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ (ص:20)
’’ ہم نے اس کي سلطنت مضبوط کي،اسے حکمت عطا فرمائي اور فيصلہ کُن بات کہنے کي صلاحيت بخشي تھي۔‘‘
وَهَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ
’’کيا آپ کو اُن جھگڑنے والوں کي خبر پہنچي ہے جوديوار پھلانگ کر داؤد کے گھر ميں گھس گئے تھے۔‘‘ (ص:21)
اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْ خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَ لَا تُشْطِطْ وَ اهْدِنَا اِلٰى سَوَآءِ الصِّرَاطِ (ص: 22)
’’جب وہ داؤد کے پاس پہنچے تو وہ انہيں ديکھ کر گھبرا گئے اندر آنے والوں نے کہا ڈريں نہيںہم دو فريق ہيں جن ميں سے ايک نے دوسرے پر زيادتي کي ہے آپ ہمارے درميان حق کے ساتھ فيصلہ فرمائيں بے انصافي نہيں ہوني چاہئے اور ہماري راہنمائي فرمائيں۔‘‘