الحمد للہ الذی أکمل لنا دیننا وأتم علینا نعمہ ورضی لنا الاسلام دینا

اللہ رب العزت نے اس کائنات کو ايک عظيم مقصد کے ليے بنايا اور اس مقصد کي تکميل کے ليے انبياء ورسل کو مبعوث فرمايا۔ان ميںسب سے آخري ہمارے پيارے رسول محمد عربي  صلي اللہ عليہ وسلم  ہيں۔ خالق ومخلوق کے درميان تعلق کا ايک اہم ترين ذريعہ وسبب رسول ہوتا ہے جو بندوں کوبندوں کي بندگي سے نکال کر اللہ کے ساتھ جوڑتا ہے۔

اللہ رب العالمين نے اس امت پر عظيم تر احسان کيا اور بہت بڑي نعمت سے نوازا کہ نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کو اس امت کي رشد وہدايت کے ليے رحمة للعالمين بناکر مبعوث فرمايااللہ نےنبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم  کو بہت ساري خصوصيات سے نوازا، انبياء ميں سب سے خاص اور اعلي مقام عطا فرمايا، سب سے بہتر شريعت ومنہاج سے نوازا۔

ان کے مبعوث ہونے سے گمراہوں کو راہ ِحق ملي ، اندھوں کو بصيرت ملي، بہروں کو سماعت ملي، بند دلوں کي کھڑکياں کھليں، ٹوٹے دل آپس ميں جڑ گئے، دشمن شير وشکر ہوگئے،يتيموں مزدوروں کو ان کا حق ملا، اسيروں اور غلاموں کو آزادي ملي،عورت کو عزت ورفعت ملي، جھالت کے اندھيرے مٹ گئے، ہر سو علم کي کرنيں پھيل گئيں، حق وباطل کي پہچان ہوئي، زندگي گزارنے کا ڈھنگ ، طريقہ، سليقہ ملا، اک سويرا اٹھا سارے عالم کو روشن کرگيا۔انسان کھانے پينے اور سانس لينے کا اتنا محتاج نہيں جتنا کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم  پر ايمان لانے اور اس کي تعليمات پر عمل پيرا ہونے کامحتاج ہے۔

اس عظيم نعمت کو اللہ نے بطور احسان ذکر کيا ہے :

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہِ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ  وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ   

’’بيشک مسلمانوں پر اللہ تعاليٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہيں ميں سے ايک رسول ان ميں بھيجا جو انہيں اس کي آيتيں پڑھ کر سناتا ہے اور انہيں پاک کرتا ہے اور انہيں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے يقيناً يہ سب اس سے پہلے کھلي گمراہي ميں تھے۔‘‘ (آل عمران:164)

جب اللہ کے ہاں نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم  کا يہ مقام ومرتبہ اور لوگوں کي اس قدر ضرورت وحاجت ہے تو اللہ نے اس امت پر نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم کے کچھ حقوق اور ذمہ دارياں بھي عائد کي ہيں جنہيں پورا کرنا ايمان کا لازمي تقاضا ہے اور يہ حقوق دراصل دين کي دو بنيادوں ميں سے دوسري بنياد ( أشهد أن محمدا رسول الله) ہے۔ اس کا علم حاصل کرنا اسے قولي وفعلي طور پر اپنے عقيدے کا حصہ بنانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

ليکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کا مسلمان ان حقوق اور ذمہ داريوں سے بالکل غافل، لا علم اور کوتاہ ہے۔ لوگ ان حقوق کے متعلق دو انتہاؤں کو پہنچے ہوئے ہيں۔ ياتو غفلت اور لاپرواہي سے کام ليتے ہيں گويا کہ ان کے ہاں ان حقوق اور ذمہ داريوں کي کوئي اہميت وحيثيت نہيں ہے ۔ يا پھر غالي قسم کے بدعتي لوگ ہيں جو اپني من ماني بدعات وخرافات کو بہت اچھا، نيکي کا کام اور دين سمجھتے ہيں اور کہتے ہيں کہ ہم نے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  سے محبت کا حق ادا کرديا۔ يہ حقوق ہمارے دين وايمان کا حصہ اور عبادت ہيں اور عبادت ميں دو چيزيں لازمي ہيں: اخلاص اور سنت کے مطابق ہونا۔

نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے وہ حقوق جو بحيثيت مسلمان ہم پر لازم ہيں:

پہلا حق: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لانا۔

سب سے بنيادي اور پہلا حق يہ ہے کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم  پر ايمان لايا جائے ، ان کي نبوت ورسالت کا اقرار کيا جائے۔ يہ عقيدہ اپنايا جائے کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہيں ۔ اللہ نے انہيں اپني نبوت ورسالت کے ليے چن ليا ہے۔ اور وہ خاتم النبيين ہيں ان کے بعد نہ کوئي نبي آيا ہے نہ آئے گا۔ان کي شريعت کے بعد نہ کوئي شريعت آئي ہے نہ آئے گي۔ اللہ نے انہيں قيامت تک کے انسانوں کے ليے رحمت، نذير وبشير بناکر بھيجا ہے۔اور اس حق کو ادا کرنے کا حکم خود اللہ نے فرمايا ہے:

فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ    (التعابن:8)

’’سو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے نازل فرمايا ہے ايمان لاؤ اور اللہ تعاليٰ تمہارے ہر عمل پر باخبر ہے۔‘‘

اور جو اس حق سے اعراض کرتا ہےاسے عذاب کي وعيد سنائي گئي ہے۔

وَمَنْ لَّمْ يُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَعِيْرًا       (الفتح:13)

’’اور جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ايمان نہ لائے تو ہم نے بھي ايسے کافروں کے لئے دہکتي آگ تيار کر رکھي ہے۔‘‘

اور نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا ہےــ:

وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ(مسلم كتاب الإيمان باب وجوب الإيمان برسالة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم إلى جميع الناس ونسخ الملل بملته  الحديث:153)

قسم ہے اس ذات کي جس کے ہاتھ ميں محمد کي جان ہے کہ اس امت کا کوئي بھي يہودي اور نصراني جو ميري بات سنے (شريعت) جس کے ساتھ ميں بھيجا گيا ہوں (يعني اسلام) اور وہ اس پر ايمان نہ لائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم والوں ميں سے ہوگا۔

دوسرا حق: اطاعت واتباع

نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کي اطاعت اللہ ہي کي اطاعت ہے اور نبي اکرم  صلي اللہ عليہ وسلم کي نافرماني اللہ کي نافرماني ہےکيونکہ نبي معظم  صلي اللہ عليہ وسلم کي اطاعت کا حکم اللہ ہي نے ديا ہے۔ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم  کي اطاعت کرنا، آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کے راستے پرچلنا،آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کي سنتوںپرعمل پيرا ہونا، آپ  صلي اللہ عليہ وسلم کےحکم اور فيصلےکو دل وجان سے تسليم کرنا ہي ايمان ہے ۔ ايمان کي صحت وسلامتي اور تکميل کي  برہان ودليل ہي يہ ہے کہ جو آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  حکم فرمائيں «سمعنا وأطعنا» جس سے منع فرمائيں بغير چوں وچرااس سے رک جائيں۔نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم جو بھي خبر ديں اس کي تصديق کرنا ، جو راستہ دکھائيں اس پر چلنا ، جو طريقہ بتلائيں اس کے مطابق عمل کرناہي اطاعت واتباع کہلاتا ہے۔اللہ رب العزت نے اپني محبت کے حصول کو بھي نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي اتباع کے ساتھ لازم کرديا ہے۔

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

’’کہہ ديجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو ميري تابعداري کرو خود اللہ تعاليٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعاليٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (آل عمران:31)

اور جب نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کوئي حکم فرماديں اس کے سامنے نہ کسي کا اختيار ہے نہ کسي کي رائے وعقل چل سکتي ہے نہ ہي کسي کي بات کو مقدم کيا جاسکتا ہے کائنا من کان اور نہ ہي کسي کو مخالفت کرنے کا کوئي حق ہے۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا (الأحزاب:36)

’’اور (ديکھو) کسي مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فيصلہ کے بعد کسي امر کا کا کوئي اختيار باقي نہيں رہتا ياد رکھو جواللہ تعاليٰ اور اس کے رسول کي بھي نافرماني کرے گا وہ صريح گمراہي ميں پڑے گا۔‘‘

اور اگر کوئي مخالفت کرتا ہے تو وہ عذاب اليم کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

تیسرا حق : نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرنا

اللہ رب العزت نے پيارے پيغمبر  صلي اللہ عليہ وسلم کو بہت سے جمالات ، کمالات ،خوبيوں اور خلق عظيم سے نوازا ہے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کي شان بڑي ہي نرالي ہے۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم ہر لمحہ اپني امت کي فکر ميں مصروف رہتے کيونکہ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم تمام جہانوں کے ليے رحمت اور مؤمنوں کے ليے رؤف ورحيم بن کر آئے ۔نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  سے محبت کرنا يہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کا حق ہےاور کيوں نہ ہو!اللہ نے خود انہيں اپنا حبيب بنايا ہے۔ اس ليے مؤمنوں پر بھي لازم ہے کہ وہ بھي نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم  سے محبت کريں اور محبت بھي ايسي کہ ان کي محبت اللہ کے علاوہ ہر چيز پر غالب ہوتب ہي جاکر انسان کو ايمان کي لذت اور مٹھاس حاصل ہوتي ہے۔

اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ  (الأحزاب:6)

’’پيغمبر مومنوں پر خود ان سے بھي زيادہ حق رکھنے والے ہيں ۔‘‘

جب سيدناعمر ؄ نے فرمايا :

واللَّهِ، لَأَنْتَ أحَبُّ إلَيَّ مِن نَفْسِي

تب اللہ کے نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرماياکہ:» اے عمر! ابھي تو سچا مؤمن ہے۔»( بخاري:6632)

اورنبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ(متفق عليه)

اوراگر ديگر چيزوں کي محبت نبي اکرم  صلي اللہ عليہ وسلم کي محبت پر غالب آجائے تو اللہ کا عذاب آيا کرتا ہے۔

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ  وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ     

’’آپ کہہ ديجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بيٹے اور تمہارے بھائي اور تمہاري بيوياں اور تمہارے کنبے قبيلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کي کمي سے تم ڈرتے ہو اور وہ حويلياں جنہيں تم پسند کرتے ہو اگر يہ تمہيں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کي راہ کے جہاد سے بھي زيادہ عزيز ہيں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعاليٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعاليٰ فاسقوں کو ہدايت نہيں ديتا ۔‘‘ (التوبة:24)

اس محبت کا يہ تقاضا ہے کہ محبوب کو ہر چيز پر مقدم رکھا جائےحتي کہ اپنے نفس اور خواہشات سے بھي مقدم رکھا جائے۔ اس محبت کا يہ تقاضا ہے کہ محبوب کي بات ماني جائے، اس کي اتباع کي جائے، اسے اپنا آئيڈيل بنايا جائے،اس کي سنت اور طريقے سے محبت کي جائے،اسي کے نقش قدم پر چلا جائے، اس کي صورت وسيرت سے بھي محبت کي جائے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا(الأحزاب:21)

’’يقيناً تمہارے لئے رسول اللہ ميں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعاليٰ کي اورقيامت کے دن کي توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعاليٰ کي ياد کرتا ہے ۔‘‘

اس محبت کا يہ بھي تقاضا ہے کہ محبوب کي پسند ناپسند کا خيال رکھا جائے۔ کوئي ايسا کام نہ کيا جائے جس سے محبوب ناراض ہو يا اسے وہ کام ناپسند ہو۔

اس محبت کا يہ بھي تقاضا ہے کہ محبوب کے دوستوں سے دوستي اور دشمنوں سے دشمني رکھي جائے۔

اس محبت کي سب سے بڑي علامت يہ ہے کہ انسان اپنے نبي مکرم صلي اللہ عليہ وسلم  کي اطاعت واتباع ميں ان کے نقش قدم پر چل کر سنت کے مطابق زندگي بسر کرے۔ان کے اقوال وافعال کواہميت اوراوليت دےاوراسي پراکتفاء کرے ہر معاملہ ميں ان ہي سےرہنمائي لےاور ان کي تعليمات پر عمل کرے۔اپني محبت کے دعوي ميں وہي شخص سچا اورصحيح ہوگا جس ميں يہ علامات موجود ہوں۔

نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کا محب وہي کہلائے گا جو نبي  صلي اللہ عليہ وسلم  کي ذات کے ساتھ ساتھ نبي  صلي اللہ عليہ وسلم  کي بات سے بھي محبت کرتا ہو۔ اور آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  کي سنت کو زندہ رکھتا ہو۔

مَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي (سنن الترمذي أبواب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، الحديث: 2678)

’’جس نے ميري سنت کو زندہ کيا گويا کہ اس نے مجھ سے محبت کي ۔‘‘

لہذا جو بھي شخص سنت سے اعراض کرتے ہوئے بدعات وخرافات کو اپناتا ہےوہ محب نہيں ہوسکتاوہ اپنے دعوي ميں جھوٹا ہے۔

فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي(صحیح البخاری،کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح الحدیث:5063)

’’ جو ميري سنت سے روگرداني کرے گا، وہ ميرے طريقے پر نہيں۔ ‘‘

چوتھا حق: تعظیم وتوقیر

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کو بڑي شان،عزتوں، عظمتوں اور رفعتوں سے نوازا ہے۔دنيا ميں بھي اللہ نے بلند مقام عطا فرمايا اور آخرت ميں بھي اللہ مقام محمود عطا فرمائيں گے۔ قيامت کے دن سب سے بڑي امت نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي ہوگي ، سب سے زيادہ ماننے والے نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے ہونگے۔اور دنيا ميں بھي اللہ نے ان کے ذکر کو بلند رکھا ہے؛ کوئي ايسا لمحہ کوئي ايسا منٹ نہيں گزرتا جس ميں نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کا ذکر نہ ہوتا ہو۔ اذان ہو ،نماز ہو، خطبہ ہو، وعظ ونصيحت ہو،محفل ہو ہر لمحہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم  کا ذکر بلند ہوتا رہتا ہے۔ اللہ نے اپنے ذکر کے ساتھ اپنے محبوب کے ذکر کو بھي لازم قرار دے ديا ہے۔ اللہ کے ہاں اپنے محبوب کا يہ مقام ہے تو اللہ نے مؤمنوں کو بھي حکم فرمايا ہے کہ اپنے محبوب نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کي تعظيم وتوقير کيا کرو، آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  کي قدر کيا کرو، آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے سامنے ادب واحترام سے پيش آيا کرو،آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کو ايذاء وتکليف پہنچانے سے بچ جاؤ،تمہاري وجہ سے انہيں کوئي پريشاني نہيں ہوني چاہيے۔

لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ (الفتح:9)

’’تاکہ (اے مسلمانو)، تم اللہ اور اس کے رسول پر ايمان لاؤ اور اُن کي مدد کرو اور اُن کا ادب کرو ۔‘‘

نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم کي تعظيم وتوقير کرنا ايمان کاحصہ ہے۔ اور  ايمان کا يہ حصہ محبت سے بھي کہيں بڑھ کر اہميت کا حامل ہے۔

نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي تعظيم يہ ہے کہ اپنے علم ودانش،اپني فہم وفراست، اپني سوچ وفکر ، اپني منطق وفلسفہ اوراپني عقل رائے کو ان کے قول وفعل پر مقدم نہيں کرنا چاہيے۔نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي تعظيم يہ ہے کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کي ذات وبات کے سامنے اپني آواز کو پست رکھنا چاہيے بلند نہيں کرنا چاہيے۔حتي کہ علماء نے تو يہاں تک کہہ ديا کہ ان کي قبر کے پاس بھي آواز بلند کرنا جائز نہيں۔ سيدنا عمر ؄تو مسجد نبوي ميں آواز بلند کرنے پربھي غصہ ہوجايا کرتے تھے۔

نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم کي تعظيم يہ ہے کہ جب آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کو پکارا جائے تو لقب يا خطاب کے ساتھ رسول اللہ نبي اللہ پکارا جائےنام ليکر نہيں پکارنا چاہيے۔پکارتے ہوئے  لہجہ بھي نرم ہو اور آواز ميں بھي نرمي ہو چيخ کر يا چلا کر نہيں پکارنا چاہيےاس سے اعمال کے ضايع ہونے کا خطرہ ہے۔اللہ تعالي نے جب کسي نبي کو خطاب کيا تو نام ليکر کيا ہے يا آدم، يا نوح، يا عيسي ، يا موسي وغيرہ ليکن جب اپنے محبوب کو مخاطب کيا تو نام نہيں ليا بلکہ بڑي عزت وتکريم کے ساتھ لقب وخطاب سے مخاطب کياہے ياأيھا النبي، يا أيھا الرسول ، يا أيھا المزمل، ياأيھا المدثر۔سورہ حجرات کي ابتدائي آيات ميں اللہ رب العزت نے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے آداب بيان کرديے ہيں:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ  اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ      يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ    (الحجرات:1۔2)

اے ايمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو يقيناً اللہ تعاليٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔اے ايمان والو! اپني آوازيں نبي کي آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچي آواز سے بات کرو جيسے آپس ميں ايک دوسرے سے کرتے ہو، کہيں (ايسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائيں اور تمہيں خبر نہ ہو ۔ ‘‘

نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي تعظيم يہ ہے کہ وہ جب بھي بلائيں فورا لبيک کہتے ہوئے حاضر ہونا چاہيے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ (الأنفال:24)

’’اے ايمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جب کہ رسول تم کو تمہاري زندگي بخش چيز کي طرف بلاتے ہوں ۔‘‘

پانچواں حق: درود وسلام

اللہ رب العزت نے جہاں نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي تعظيم وتکريم کاحکم فرمايا اور ساتھ ہي اذيت دينے سے منع بھي فرمايا وہاں اللہ نے نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے اظہار شرف وکرامت کے ليے ان کي عقيدت ميں درود وسلام کا تحفہ پيش کرنے کا بھي حکم فرماديا ہے۔اللہ تعالي اور  اس کے مقرب فرشتےبھي نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  پر درود وسلام بھيجتے ہيں اور مؤمنوں کو بھي حکم ہوا ہے کہ وہ بھي درود وسلام بھيجا کريں۔جب بھي نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم  کا نام کانوں ميں پڑے زبان سے وردِ درود جاري ہوجائے يہ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کا حق ہے۔اور اللہ کو يہ عمل اتنا پسند ہے کہ اسے تشہد کي صورت ميں نماز کا مستقل رکن بنا ديا جس کے بغير نماز مکمل ہي نہيں ہوتي۔جو شخص اس حق کوايک بار ادا کرتا ہے اسے اللہ کي دس رحمتوں کي نويد سنائي گئي ہے اور جو شخص اس حق کي ادائيگي ميں سستي اور غفلت سے کام ليتا ہے اسے بخيل، نامراد اور خسارے کي وعيد سنائي گئي ہے۔

البَخِيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ (سنن الترمذي باب في فضل التوبة والاستغفار، الحديث: 3546)

اس حق کي ادائيگي اس ليے بھي ضروري ہے کہ نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم ہمارے محبوب ہيں اور محبوب کا ذکر ہر لمحہ زبان پر جاري رہنا چاہيے۔اور اس ليے بھي کہ يہ اللہ کي نعمتِ عظمي ہے اور اس نعمت کي قدر اور شکر اسي طرح ممکن ہےکہ ہم بارگاہ رسالت ميں درود وسلام کا ہديہ پيش کرتے رہيں۔

چھٹا حق: نصرت وحمایت

اللہ تبارک وتعالي نے تمام انبياء کرام سے يہ عہد ليا کہ تم نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  پر ايمان لاؤگے اور اس کي مدد بھي کروگے۔صحابہ کرام ؇ بہترين مددگار اور حمايت ونصرت کرنے والے تھے۔اپني جان ، اپنا مال، اپني اولاد ہر چيز نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم  کے دفاع کے ليے قربان کر دي۔جس طرح انہوں نے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي ذات کا دفاع کيا ان کي بات کا بھي دفاع کيا۔ جنگ احد ميں سيدناطلحہ ؄ جيسے جري بہادروں نے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کا دفاع کرتے ہوئے اپني جانوں کا نذرانہ پيش کيا تو حسان بن ثابت ؄نے اپنے اشعار سے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کا دفاع کيا۔ سيدنا ابوبکر ؄ نے ہر ميدان ميں نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کا ساتھ ديا ۔جب ساري دنيا نے جھوٹا کہا ابو بکر ؄ نے اپني صداقت دکھائي۔ جب مکہ ميں اسلام کے اظہار کي ضرورت پڑي سيدنا عمر ؄ نے اپني شجاعت دکھائي۔ جب مال وزر کي ضرورت پڑي سيدنا عثمان؄ نے سخاوت دکھائي۔ جب افراد کي ضرورت پڑي ماؤں نے اپنے جگر گوشے پيش کيے۔اور اللہ کے اس فرمان پر پورا اترکر دکھايا:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ (الأنفال:24)

’’اے ايمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جب کہ رسول تم کو تمہاري زندگي بخش چيز کي طرف بلاتے ہوں ۔‘‘

اور اللہ نے ان کے اس جذبہ وقرباني کو ديکھ اعلان فرماديا کہ اللہ ان سے راضي اور يہ اللہ سے راضي۔

وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ  

’’اور جو مہاجرين اور انصار سابق اور مقدم ہيں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پيرو ہيں اللہ ان سب سے راضي ہوا اور وہ سب اللہ سے راضي ہوئے ۔‘‘ (التوبة:100)

اور اللہ نے ان کي تعريف ميں قرآن نازل فرماديا:

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُوَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا  (الأحزاب:23)

’’مومنوں ميں (ايسے) لوگ بھي ہيں جنہوں نے جو عہد اللہ تعاليٰ سے کيا تھا انھيں سچا کر دکھايا بعض نے تو اپنا عہد پورا کر ديا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہيں اور انہوں نے کوئي تبديلي نہيں کي۔ ‘‘

اللہ تعالي نے صحابہ کرام ؇ کو اپنے نبي  صلي اللہ عليہ وسلم  کي نصرت وحمايت کے ليے چن ليا تھا يہ اللہ کا چناؤ ہے:

إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ (مسند احمد:3600)

’’اللہ تعاليٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر فرمائي تو نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کے دل کو سب سے بہترين پايا، چنانچہ اللہ نے انہيں اپنے نبي کا وزير بنا ديا، جو ان کے دين کي بقاء کے لئے اللہ کے راستہ ميں قتال کرتے ہيں ۔‘‘

سيدنا عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے صحابہ کرام ؇ کي تعريف يوں فرمائي ہے کہ : يہ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے ساتھي ہيں، دلوں کے بڑے پاکباز اور صاف ہيں، علم ميں بڑے پختہ ہيں،سادہ،بے تکلف زندگي گزارنے والے ہيں، انہيں اللہ نے اپنے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي صحبت، نصرت وحمايت، حق کے اظہار، دين کي نشر واشاعت اور اسے دنيا کے کونے کونے تک پہنچانے  کے ليے چن ليا ہے۔ رب کعبہ کي قسم! يہ صراط مستقيم کے راہي تھے۔

نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کے دنيا سے رخصت ہونے کے بعد نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي نصرت وحمايت اس طرح ممکن ہے کہ سنت کا دفاع کيا جائے، اس کے متعلق شبہات کا ازالہ کيا جائے،اسے تحريفات وتأويلات سے بچايا جائے، اسے کمي وبيشي اور مسخ ہونے سے محفوظ کيا جائے،ملحدين اور منکرينِ حديث کے اعتراضات کا علمي انداز ميں جواب ديا جائے۔ اور اس کي اہميت کو اجاگر کيا جائے اور اسے عملي طور پر زندہ کيا جائے۔صحابہ کرام ؇ کے بعد تابعين ومحدثين نے اپني ساري زندگياں اس حق کو ادا کرتے ہوئے بسر کرديں۔ا سي طرح نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي حرمت وتقدس کا دفاع کرنا بھي ہم پر فرض ہے اور يہ ہمارے نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم  کا ہم پر حق ہے۔

لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ (الفتح:9)

’’تاکہ (اے مسلمانو)، تم اللہ اور اس کے رسول پر ايمان لاؤ اور اُن کي مدد کرو اور اُن کا ادب کرو ۔‘‘

ساتواں حق: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت و پیغام کو عام کرنا۔

دين کي دعوت  عام کرنا ، لوگوں کو شريعت اسلام اور نبي معظم صلي اللہ عليہ وسلم  کي تعليمات سے روشناس کروانا يہ نبي اکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کا اس امت پر حق ہے۔ صحابہ کرام ؇ نے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے اس فرمان پر عمل کرکے دکھايا اور وراثت کا حق ادا کرديا :

بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً (بخاري: 3461)

يہ اسي حق ہي کي برکت ہے کہ يہ دين ہم تک پہنچا اور ہم مسلمان ہيں۔يہ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي اتباع ہي ہے کہ ہم اس کے دين کي دعوت ديں:

قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ  (يوسف:108)

’’آپ کہہ ديجئے ميري راہ يہي ہے، ميں اور پيروکار اللہ کي طرف بلا رہے ہيں، پورے يقين اور اعتماد کے ساتھ۔‘‘

اور يہ کوئي چھٹا موٹا يا اتنا آسان کام نہيں ہے بلکہ تمام انبياء کي بعثت کا مقصد اور مشن بھي يہي تھا۔ بلکہ اس امت کا بھي يہي خاصہ وامتياز ہے۔

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ  (آل عمران:110)

’’تم بہترين امت ہو جو لوگوں کے لئے پيدا کي گئي ہے تم نيک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بري باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعاليٰ پر ايمان رکھتے ہو ۔‘‘

آٹھواں حق:نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے لیے آئیڈیل بنانا

ايک مؤمن کے ليے يہ لازم ہے کہ اپني مکمل زندگي نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے بتلائے ہوئے طريقے اور منہج کے مطابق گزارے۔زندگي کا کوئي بھي پہلو، عبادت، رياضت ، اخلاقيات ، معاملات ، سياست وامارت، گھريلو معاملات يا خانداني معاملات ،لين دين وتجارت کے مسائل يا دين ودنيا کے معاملات ، خوشي ہو يا غمي ، آسانياں ہوں يا مشکلات اور تکاليف ہر پہلو ، ہر حالت وکيفيت، اور زندگي کے ہر شعبے ميں اللہ کے محبوب ہمارے ليے بہترين اسوہ اور نمونہ ہيں۔اس کے بغير نجات ناممکن ہے۔

وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا      (النساء:115)

’’جو شخص باوجود راہ ہدايت کے واضح ہو جانے کے بھي رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کي راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہي متوجہ کرديں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ ميں ڈال ديں گے وہ پہنچنے کي بہت ہي بري جگہ ہے۔‘‘

کيونکہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  ہي ہمارے ہادي ورہبر ہيں جو کہا کرکے دکھايا۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  بے نظير ہيں آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کي کوئي مثال نہيں۔ يہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کا حق ہے کہ ہم اپنے قول وفعل ،حرکات وسکنات، شب وروز، نشيب وفراز ميں اپنے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کو اپنا آئيڈيل بنائيں۔خود اللہ نے يہ واضح کرديا ہے کہ اگر کوئي ہستي اس لائق ہے کہ اسے اپنے ليے ماڈل اور پسنديدہ قرار ديا جائے تو وہ ہستي کامل واکمل، خوبصورت وخوب سيرت، تمام خوبيوں کا محور ومرکز، وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍکا پيکر، اشرف الانبياء ، سيد ولد آدم، رحمة للعالمين کي ذات ہي ہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

’’يقيناً تمہارے لئے رسول اللہ ميں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ۔‘‘ (الأحزاب:21)

نواں حق:نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے آل وأصحاب سے محبت کرنا۔

يہ بھي ايمان کا حصہ ہے کہ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کي آل واولاد اور اصحاب سے بھي محبت کي جائے ان کا بھي احترام کيا جائے، ان کي بھي تعظيم وتکريم کي جائے، ان کے متعلق کلمہ خير ہي کہا جائے، ان کے ليے استغفار کيا جائے۔ يہ اللہ کا انتخاب ہيں؛ اللہ نے انہيں اپنے محبوب اور لاڈلے رسول  صلي اللہ عليہ وسلم  کي صحبت ورفاقت کے ليے چن ليا ہے۔ اور اللہ نے ہي ان کي سيرت کو ان کے ايمان کو ہمارے ليے معيار قرار ديا ہے کہ جس طرح صحابہ کرام ايمان لائے اسي طرح ايمان لاؤگے تو ہي ايمان قابل قبول ہوگا۔ يہ صحابہ کرام ؇ -اللہ کروڑہا رحمتيں نازل فرمائے ان پر- ہمارے ليے ستاروں کي مانند ہيں۔ان کے راستے ان کے منہج  پر چل کر ہي ہماري نجات ممکن ہے۔ان کي مخالفت کرنے والا ، ان کي تنقيص کرنے والا، ان کے متعلق غلط زبان استعمال کرنے والااور انہيں برا بھلا کہنے والا اپنا ٹھکانا جہنم ميں بنارہا ہے۔

وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا      (النساء:115)

’’اور جومومنوں کي راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہي متوجہ کرديں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ ميں ڈال ديں گے وہ پہنچنے کي بہت ہي بري جگہ ہے۔‘‘

اللہ نے دنيا ميں ہي صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کوجنت کا سرٹيفکيٹ دے ديا اور اپني رضا کي خوشخبري بھي عطا فرمادي کہ اللہ ان سے راضي ہے اور يہ اللہ سے راضي ہيں۔اللہ کے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم نے بھي بار بار متنبہ فرماديا کہ

لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ، ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ (صحيح البخاري، كتاب المناقب باب قول النبي صلى الله عليه وسلم:لو كنت متخذا خليلا ، الحديث:3673)

نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي بيويوں کو امہات المؤمنين قرار ديا گياہے ان کي عزت واحترام بھي مسلمانوں پر فرض ہے۔اور يہ بھي قرآن وحديث کي متعدد نصوص سے اہل بيت ميں شامل ہيں۔ان کي براءت ميں اللہ نے قرآن نازل فرماديا اس کے بعد بھي اگر کوئي خناسيت پر اتر آئے اور ازواج مطہرات پر تبرا کرے تو اس کا اس دين سے کوئي تعلق نہيں ہے۔نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم وصيت فرماگئے تھے :

أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي(مسلم:2408)

نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي آل واولاد سےمحبت کرنا بھي ايمان کا حصہ ہے۔ شديد اختلافات ہونے کے باوجود بھي آپس ميں نرم تھے ايک دوسرے کا احترام کرنے والے تھے۔ہميں بھي اعتدال ميں رہتے ہوئے افراط وتفريط سے بچ کرتمام صحابہ کرام ،ازواج مطہرات، آل واولاد سے محبت کرنا ،ان کي تعظيم کرنا، ان کا احترام کرنا چاہيے۔ان کے آپس کے اختلافات کے متعلق سکوت اختيار کرتے ہو ئے ان کے ليے استغفار کرنا چاہيے۔

دسواں حق: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حق میں غلو سے اجتناب کرنا۔

اللہ رب العزت نے جو حدود قائم کي ہيں ان سے تجاوز کرنا غلو کہلاتا ہے،چاہے وہ عقيدے ميں ہو يا قول وعمل ميں ہو۔

انبياء کرام ؈ کو اللہ تبارک وتعالي نے ايک خاص مقام عطا فرمايا ہے جو تمام انسانوں سے اعلي وارفع اور بہت ہي عاليشان رسالت ونبوت والا مقام ہے، اور نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کو تمام انبياء پر فوقيت اور عظمت  عطا فرمائي کہ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  کو تمام انبياء کا امام، سيد،تاج اور خاتم النبيين بناياہے۔

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ  ۘ مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ۭ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ  (البقرة:253)

’’يہ رسول ہيں جن ميں سے بعض کو بعض پر فضيلت دي ہے ان ميں سے بعض وہ ہيں جن سے اللہ تعاليٰ نے بات چيت کي ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہيں، اور ہم نے عيسيٰ بن مريم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کي تائيد کي ۔‘‘

انبياء کرام عليہم السلام کي شان ميں تنقيص کرنا ان کي توہين کرنا انہيں جھٹلانا اور قتل کرنا انسان کو کفر تک پہنچاديتا ہے جيسا کہ يہوديوں نے اپنے انبياء کے ساتھ کيا۔اسي طرح انبياء کرام عليہم السلام کو ان کے خاص مقام سے اونچا دکھانا انہيں عبديت اور بشريت سے الوہيت وربوبيت تک پہنچانا بھي کفر ہے جيسا کہ عيسائيوں نے عيسي ؈ کے متعلق کيا ۔ يعني جو مقام اللہ نے انہيں عطا فرمايا غلو سے بچتے ہوئے انہيں اسي مقام تک رکھنا ہي  ايمان کہلاتا ہے۔

قرآن مجيد ميں اللہ تبارک وتعالي نے غلو کي نسبت اہل کتاب کي طرف کي ہے اور انہيں اس سے منع بھي فرمايا ہے:

يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ  اَلْقٰىهَآ اِلٰي مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ  فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ  وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ  اِنْتَھُوْا خَيْرًا لَّكُمْ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَهٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ   لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَكَفٰي بِاللّٰهِ وَكِيْلًا     (النساء:171)

’’اے اہل کتاب اپنے دين کے بارے ميں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے کچھ نہ کہو، مسيح عيسيٰ بن مريم (عليہ السلام) تو صرف اللہ کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پيدا شدہ) ہيں جسے مريم عليہا السلام کي طرف ڈال ديا تھا اور اس کے پاس کي روح ہيں اس لئے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تين ہيں اس سے باز آ جاؤ کہ تمہارے لئے بہتري ہے، اللہ عبادت کے لائق تو صرف ايک ہي ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کي اولاد ہو، اسي کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں ميں ہے اور جو کچھ زمين ميں ہے۔ اور اللہ تعاليٰ کافي ہے کام بنانے والا۔‘‘

اللہ کےنبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  نے بھي اپني امت کو اس سے آگاہ کيا اور تنبيہ فرمائي کہ اہل کتاب کي تباہي وبربادي کا سبب يہي غلو تھاتم اس سے بچ کر رہنا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ (سنن النسائی كتاب مناسك الحج باب: التقاط الحصى ، الحديث :3057 وابن ماجة كتاب المناسك باب قدر، حصى الرمي الحديث:3029)

’’ اے لوگو!دين ميں غلوسے بچنا کيونکہ تم سے قبل کي امتيں دين ميں غلو (شدت) اختيار کرنے کي وجہ سے ہلاک ہوگئيں۔ ‘‘

نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے حق ميں غلو کے خطرے کے پيش نظر اللہ تعالي نےنبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي حيثيت اورمقام قرآن کريم ميں متعدد جگہ پر واضح کرديا کہ وہ الہ اور رب ہونے کي کوئي خاصيت وصفت نہيں رکھتے اور نہ ہي وہ مختار کل ہيں بلکہ وہ اللہ کے بندے اوررسول ہيں مگر سيد البشراور انسان ہي ہيں:

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ   اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ  (الأنعام:50)

’’آپ کہہ ديجئے کہ نہ تو ميں تم سے يہ کہتا ہوں کہ ميرے پاس اللہ کے خزانے ہيں اور نہ ميں غيب جانتا ہوں اور نہ ميں تم سے يہ کہتا ہوں کہ ميں فرشتہ ہوں ۔ ميں تو صرف جو کچھ ميرے پاس ہے وحي آتي ہے اس کي اتباع کرتا ہوں۔‘‘

اور فرمايا:

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ   ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ  اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ  

’’آپ فرما ديجئے کہ ميں خود اپني ذات خاص کے لئے کسي نفع کا اختيار نہيں رکھتا اور نہ کسي ضرر کا، مگر اتنا ہي کہ جتنا اللہ نے چاہا اور اگر ميں غيب کي باتيں جانتا ہوتا تو ميں بہت منافع حاصل کرليتا اور کوئي نقصان مجھے نہ پہنچتا ميں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دينے والا ہوں ان لوگوں کو جو ايمان رکھتے ہيں ۔‘‘ (الأعراف:188)

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الکہف:110)

کہہ ديجيے ميں صرف تمہارے جيسا آدمي ہي ہوں۔‘‘

اور فرمايا:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ (الإسراء: 1)

’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو راتوں رات سير کرائي۔‘‘

مزيد فرمايا:

فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى (النجم: 10)

’’پس اس نے اللہ کے بندے کو وحي پہنچائي۔‘‘

نبي مکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے حق ميں غلو کرنے سے خود اللہ کے نبي  صلي اللہ عليہ وسلم  نے منع فرماديا ہے:

لاَ تُطْرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ (صحیح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء ، الحديث:3445)

’’ مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جتنا نصاريٰ نے ابن مريم کو بڑھايا ہے ميں تو محض اللہ کا بندہ ہوں تو تم بھي يہي کہو کہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔ ‘‘

قرآن وسنت ميں اتني واضح اور صريح نصوص ہونے کے باوجود کچھ ايسے لوگ بھي ہيں جو نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي محبت ميں آکر تمام حدوں کو پار کر جاتے ہيں اور نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے بارے ميں غلو کرتے ہيں۔اور اپنے ان باطل عقائد ونظريات کو ثابت کرنے کے ليے ان واضح نصوص کا اپني من ماني باطل تاويلات اور تحريفات سے رد کرتے ہيں حتي کہ قرآن کي تحريف کرنے سے بھي گريز نہيں کرتے۔آپ ديکھيں کہ کس طرح يہ لوگ موضوع اور من گھڑت روايات کا سہارا لے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہيں۔ يہ عقيدہ کہ اگر نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  نہ ہوتے تو يہ دنيا نہ ہوتي، بھي ايک موضوع اور من گھڑت روايت

لولاك لولاك لما خلقت الأفلاك.

کے سہارے پر قائم ہے۔ اب ايک انسان جو اللہ اور اس کے رسول  صلي اللہ عليہ وسلم سے محبت کا دعوي کرتا ہو وہ اللہ کے دين کے متعلق ايک جھوٹي اور من گھڑت روايت سے کيسے استدلال کرسکتا ہے۔ ايسا عقيدہ رکھنے والا انسان اللہ کي محبت، بخشش اور جنت کا کيسے مستحق ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہو اور قرآن وسنت کي واضح نصوص کي صريح خلاف ورزي بھي کر رہا ہو۔

نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کے متعلق اس طرح کا عقيدہ رکھنے اور غلو سے کام لينے والا انسان نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي لائي ہوئي شريعت کي مخالفت کرتا ہے۔ بلکہ وہ اللہ رب العزت پر جھوٹ بولنے اور راہ حق سے اعراض کرنے کي بہت بڑي جرأت کرتا ہے۔وہ اس زعم باطل ميں رہتا ہے کہ اس نے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  سے محبت کا حق ادا کرديا ہےجبکہ وہ اپني دنيا وآخرت برباد کررہا ہوتا ہے۔

جس طرح نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم سےہر چيز سے بڑھ کر محبت کرنا نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کا حق ہے اسي طرح آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کے بارے ميں غلو سے بچنا بھي ان کا حق ہے۔اللہ حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کي توفيق عطا فرمائے اور باطل کو سمجھ کر اس سے بچنے کي توفيق عطا فرمائے۔ آمين

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے