قیادت عربی زبان کا لفظ  قادَ يَقُود ،قِيادَةً سے مصدرہے یعنی کسی کے آگے چلنا ،رہبری  اور راہنمائی کرنا وغیرہ، جیسے کہا جاتاہے، قیادۃ الجیش یعنی لشکر کی کمانڈاوررہبری کرنا یا قائد الجیش یعنی آرمی کمانڈروغیرہ ،قیادت ورہبری کی ضرورت اتنی واضح اورآشکارہے کہ جس کا کوئی عقل مند انسان انکار نہیں کرسکتا ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ  إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ [ رعد:7] ’’تم صرف ڈرانے والاہو اورہرقوم کے لیے ایک ہادی اوررہبرہے ۔‘‘اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیادت اور رہبر کے بغیر کسی بھی معاشرے کی بقا نا ممکن ہے ۔لیڈر، قائد یا رہنما کون ہوتا ہے، اسکی خصوصیات اسکی صلاحیت طریقہ کار اور ذات کیسی ہونی چاہیے؟قائد ایک سچا، انتھک، امین، دیانتدار امانت دار، وہ قربانی کا جذبہ رکھتا ہو اور اپنی قوم کی ضروریات سے آشنا ہو، وہ رشوت، سفارش،کنبہ پروری کی لعنت سے پاک ہو۔ وہ پہل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ اپنے عوام اور ملک کا وفادار ہو۔ وہ تابعداری اور وفاداری کے معنی سمجھتا ہو۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے

:كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ( صحيح البخاري : 3)

’’ قطعا نہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رنجیدہ نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، فقیروں، محتاجوں کو ک کر دیتے ہیں، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے سلسلے میں پیش آنے والے مصائب میں مدد کرتے ہیں۔‘‘ قائد ایک بقائم ہوش و حواس ماضی سے سبق لینے والا، پرسان حال، اردگرد کے حالات سے شناسا، وہ زمانہ حال اور اپنے عوام کی طبیعت انکی ضروریات، حال اور مستقبل شناس ہونےوالی شخصیت ہونا لازمی ہے۔قائد کی صلاحیت، شخصیت، دیانت اور امانت سے ہوتی ہے تابعدار شخص کے چہرے پر متانت اور وفادار شخص کے چہرے پر منافقت نہیں بلکہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔ وہ پابندی اوقات کی مثال ہو۔ جھوٹ اورفریب سے دور ہو۔ مردانہ وجاہت کا مظہر ہو اور اپنے مقصد کے حصول کا جذبہ رکھتا ہو۔ خود اعتمادی کا مظہر ہو۔ وہ ”جو کہتا ہوں اسے کرو“ پر یقین نہیں رکھتا بلکہ جو کرتا ہوں وہ کرو پر عمل اور یقین رکھتا ہو۔ وہ سچا اور جس پر بھروسہ اعتماد اور اعتبار کیا جا سکے کہ شخصیت کا امین ہو۔ بلند حوصلہ ہو۔ ان تمام اوصاف کی جامع شخصیت نبی کریم ﷺکی ذات ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی 63سالہ زندگی میں پہلے 40سال صداقت، امانت اور پابندی اوقات کے مظہر ہے۔ اگلے دس سال اپنوں کی زیادتیوں، آپ کی بلند حوصلگی اور اپنے مقصد کے حصول کی تگ و دو ہے۔ آخری 13سال دین کی ترویج و تبلیغ، 85غزووں اور سریوں میں شمولیت (35غزوے جن میں خود شمولیت فرمائی اور 50سریے جن کی منصوبہ بندی فرمائی۔ اس تمام عرصے میں جو کرتا ہوں وہ کرو اور مندرجہ بالا صفات کا عملی ثبوت بہم فرمایا آپکے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم، اسلامی ملی ہیروز، بہادروں اور دلیروں نے رسول اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ اور مثالوں کو اپنا کر تاریخ انسانی میں نام پیدا کیا اور دوسری اقوام کےلئے مثالیں چھوڑیں۔ انہوں نے جذبہ ایمانی سے متحد اور منظم ہو کر وسطی ایشیا، ترکی، ایران، شرق اردن، عراق، شام، سپین، مصر، شمالی افریقہ، خلیجی ریاستوں، افغانستان، ہندوستان اور مشرق بعید میں انڈونیشیا، ملائشیا اور دیگر ممالک یعنی زمین کے 1/4 حصے کو تصرف میں لیا اور اپنے پیار، محبت، خلوص اور دیانت سے قائدانہ مثالیں چھوڑیں۔ اس طرح مندرجہ بالا تمام علاقوں میں علماء کرام اور مشائخ عظام نے اپنے پیار محبت، خلوص اور سچائی کی بدولت اعلیٰ قیادت، ریاضت، صداقت اور امانت کی مثالیں چھوڑیں جن سے رب عظیم کے پیغام اور دین کی ترویج ہوئی جو آج تک کرہ ارض پر جاری ہے۔ کسی بھی لیڈر کو راسخ العقیدہ ہونا چاہیے اور جو دنیاوی، مذہبی اور عصری علوم کے بارے میں جانتا ہو۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کوئی حاکم جو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی منصب سنبھالے پھر اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے جان نہ لڑائے اور خلوص کیساتھ کام نہ کرے وہ مسلمانوں کیساتھ جنت میں قطعاً داخل نہیں ہوگا۔ سورۃ النساء میں ارشاد ہے :

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ  (النساء:58)’’

ا للہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیںاہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کیساتھ کرو۔‘‘سیدنا ابو ذررضی اللہ عنہ نے اگر قیادت کی خواہش ظاہرکی تو آپ ﷺ نے ارشادفرمایا

:يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةُ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا(صحيح مسلم 1825)

اے ابوذررضی اللہ عنہ !تم کمزور آدمی ہو اور حکومت کا منصب ایک امانت ہے۔ قیامت کے روز وہ رسوائی اور ندامت کا مؤجب ہوگا سوا اسی شخص کے جو اس کے حق کا پورا پورا لحا ظ کرے اور جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے اسے ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص حکمران ہو اس کو سب سے زیادہ بھاری حساب دینا ہوگا اور وہ سب سے زیادہ سخت عذاب کے خطرے میں مبتلا ہوگا۔ ایک حکمران کی ذمہ داری کے بارے میں سیدناعمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ’’لو ماتت شاة على شط الفرات ضائعة لظننت أن الله تعالى سائلي عنها يوم القيامة’’دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی اگر مر جائے تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ اللہ مجھ سے باز پرس کرے گا‘‘۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے ’’مسلمانوں کے فرمان روا پر یہ فر ض ہے کہ وہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرے اور امانت ادا کرے پھر جب وہ اس طرح کام کر رہا ہو تو لوگوں پر یہ فرض ہے کہ اس کی سنیں اور مانیں اور جب ان کو پکارا جائے تو لبیک کہیں۔رسول اللہﷺ کاا رشاد ہے

:إنَّا وَاللهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ 

اللہ کی قسم! ہم اپنی اس حکومت کا منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیتے جو ان کا طالب ہو یا اس کا حریص ہو۔ سورۃ الحج میں ارشاد ہے

:الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ  (الحج:41)’’

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکواۃ دیں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں ۔‘‘ جناب رسول اللہ ﷺنے حکومت کا نظام قائم کیا اور معاشرے کے ہر فرد کو احتساب کا حق دیا، ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو باتوں باتوں میں آپ ﷺنے چھڑی مار دی جس سے اس کے جسم پر خراش آگئی تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں آپ سے بدلہ لوں گا۔ آپ نے اس کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فوراً چھڑی اس کے ہاتھ میں دے دی اور اپنی کمر آگے کر دی گے۔ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی تنخواہ کتنی مقرر ہوئی؟ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگا لیجیے کہ تاریخ شاہد ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری عرصے میں عید کا وقت قریب آرہا تھا۔ زوجہ محترمہ نے عرض کیا کہ یا خلیفۃ المسلمین! عید کا دن قریب آرہا ہے عید کے دن بچوں کے لیے کچھ میٹھا پکانے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے پاس تو اِس کی گنجائش نہیں ہے مجھے تو بیت المال سے جو راشن ملتا ہے میں اس سے زیادہ نہیں لے سکتا اور میرا اپنا کوئی کاروبار نہیں ہے اس لیے یہ خیال رہنے ہی دو۔ اہلیہ نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں اپنے طور پر انتظام کروں؟ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا، ٹھیک ہے اگر کر سکتی ہو تو کر لو۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد عید کا دن آیا اور سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ تیاری کر کے عید گاہ کی طرف جانے لگے تو دیکھا کہ اہلیہ نے میٹھا پکایا ہوا تھا۔ سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ بندوبست کہاں سے کیا ہے ہمارے پاس تو اس کی گنجائش نہیں تھی۔ اہلیہ نے جواب دیا کہ ہمارے گھر میں بیت المال سے راشن کاجو آٹا روزانہ آتا ہے، میں نے اس میں سے ایک مٹھی آٹا الگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ چند دنوں میں اتنا آٹا ہوگیا کہ اس میں سے آدھا آٹا بازار میں بیچ کر میں نے گڑ اور تیل منگوایا، باقی آدھا آٹا اس میں گوندھ کر حلوہ بنا لیا ہے۔ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے پوچھا ابھی تک کسی نے کھایا تو نہیں؟ جواب ملا نہیں ابھی کسی نے نہیں کھایا۔ فرمایا دیگچی لاؤ، آپ رضی اللہ عنہ نے دیگچی منگوا کر اٹھائی اور چل دیئے۔ سیدنا ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اللہ عنہ جو بیت المال کے انچارج تھے ان سے جا کر فرمایا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ! یہ حلوہ ابوبکر کے گھر والوں کا حق نہیں ہے بلکہ یہ مدینہ منورہ کے یتیموں اور بیواؤں کا حق ہے۔ اور سنو! آج کے بعد میرے گھر میں ایک مٹھی آٹا کم بھیجا کرنا کیونکہ ہمارا گزارا ایک مٹھی کم آٹے سے بھی ہو جاتا ہے۔ دنیا کے کس خطے کا کس مذہب کا کس نظام کا کونسا حکمران ہے جو اس کی مثال پیش کر سکے؟ رسول اللہﷺ اور ان کے خلفاء نے حکمرانی کا یہ معیار بتایا کہ حکمرانی برتری اور فخر کا نہیں بلکہ فریضے اور ذمہ داری کا نام ہے۔ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کا معیارِ زندگی: ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے۔ طبیب آئے حال احوال دیکھا نبض دیکھی اور بتایا کہ انتڑیاں خشک ہوگئی ہیں کچھ دن زیتون کا تیل استعمال کریں یہی آپ کا علاج ہے۔ فرمایا میرے گھر میں تو زیتون کا تیل نہیں ہے۔ کسی نے بتایا کہ بیت المال میں زیتون کا تیل موجود ہے۔ فرمایا اچھا! بیت المال میں زیتون کا تیل ہے، سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بلائیں۔ پوچھا عبیدہ بیت المال میں زیتون کا تیل ہے؟ بتایا، جی امیر المؤمنین! موجود ہے۔ پوچھا کتنا ہے؟ بتایا ! بہت ہے۔ سیدناعمررضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ تیل مدینہ منورہ کے سب لوگوں میں تقسیم کیا جائے تو میرے حصے میں کتنا آتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ پھر وہ اتنی مقدار کا نہیں ہوگا کہ کھانے کے قابل ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بس اس سے زیادہ حق میرا بیت المال پر نہیں ہے۔ بیت المال کی چیز مدینہ منورہ کے لوگوں میں برابر تقسیم ہو کر جو میرے حصے میں آتا ہے بس وہی میرا حق ہے اس سے زیادہ میں نہیں لے سکتا۔ طبیب نے کہا کہ یا امیر المؤمنین ! بطور قرض لے لیں۔ پوچھا کیا تم ضمانت دیتے ہو کہ اگر میں قرض نہ ادا کر سکا تو تم ادا کرو گے؟میں نے عرض کیا کہ خلفائے راشدین نے جناب نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے مطابق نظام حکومت کی ایسی مثال پیش کی کہ دنیا کا کوئی نظام اسے دہرا نہ سکا۔ یہ اللہ کے رسول ﷺکی حکمت تھی کہ حاکم وقت عام آدمی کے معیار کے مطابق زندگی گزارے گا تو عام لوگوں کی مشکلات و مسائل سے آگاہ ہوگا اور انہیں حل کرنے کی فکر کرے گا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آج مسلمانوں کو بھی ایسے حکمران عطا فرمائے جوخشیت وللہیت سے سرشار ہوں اور وہی اسی پر قادر ہے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے