آج سے قریباًپندرہ سو سال قبل جب یہ دنیاکفروشرک کاگہوارہ تھی،خالق کائنات کے علاوہ ہزاروں معبودان باطلہ کی پرستش ہوتی تھی،تہذیب وتمدن اور اخلاقیات کانام ونشان مٹ چکاتھا،ہرطرف قتل وغارت،ظلم،بدکاری،بے حیائی،شراب نوشی،سودخوری اور غنڈا گردی کابازار گرم تھا،ہرطرف انتشار تھا، انسان اور انسان کے درمیان تصادم تھا،جنگ وجدل اور لوٹ مار کادور دورہ تھا،کفروشرک کاچرچاتھا،خود بیت اللہ جیسے مقدس مقام میں360 بت رکھے ہوئے تھے،لا ت منات اور عزیٰ وغیرہ بتوں کی پوجازور پر تھی،الغرض پو ری انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی،اتنے میں رب ذولجلال کی رحمت جوش میں آئی اور اس عالم رنگ وبو کی رشد وہدایت کے لئے ہادی برحق جناب محمد رسول اللہ کو مبعوث فرمایا،آپ کے دعویٰ نبوت کے آغاز ہی سے ایک مختصر جماعت آپ پرایمان لے آئی جورفتہ رفتہ ایک عظیم قوت اور حزب اللہ میں تبدیل ہوگئی۔
اس جماعت نے رسول اللہ کے نصب العین کی تکمیل کی خاطر تن من دھن کی بازی لگادی۔چنانچہ رسول اللہ نے اللہ عزوجل کی نصرت اور جانباز ،نڈر، جماعت کی معیت میں جزیرہ عرب کی کایاپلٹ دی اور ایک عالم گیرانقلاب عظیم برپاکردیا۔
اس بابرکت جماعت کو اصحاب رسول کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔تمام مسلمانوں کااجماعی اور متفقہ عقیدہ ہے کہ’’جن حضرات نے ایمان کی حالت میں محمد   ے چہرہ انورکو اپنی آنکھوں سے دیکھااور ایمان کی حالت میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے وہ سب کے سب عادل اور ثقہ اور حضرات انبیاء کے بعد تمام خلائق سے افضل واکرم تھے‘‘۔
کیونکہ معلم اعظم رسول اللہنے ان کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ نفس کافریضہ سرانجام دیااور کفروشرک ،حسدوبغض،خودغرضی،بے وفائی وغیرہ جملہ امراضِ قلبیہ سے ان کے قلوب واذہان کوپاک اور مصفیٰ کردیا۔
بالآخر انہوں نے دین وایمان کے بچاؤ کے لئے اپنے عزیزو اقارب، اہل وعیال اور وطن وجائیدادکو خیر آباد کہہ کر ہجرت کی اور ہر وقت آپ  کی معیت اختیار کی،غزوات میں بھی محمد  کے ساتھ رہے۔ بُغض فی اللہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کوتہہ تیغ کیا،اپنے مال وجانیں اللہ کی راہ میں قربان کروائیں ، شمشیراور لسان وسنان سے جہاد فی سبیل اللہ جاری رکھا،ان کی خدادادحرارت ایمانی سے عالم کفر کے ایوانوں میں زلزلہ بپارہاانہوں نے مخالف اسلام طاغوتی قوتوں کے غلیظ ڈھیروں کوخاکستر کرڈالا، ان کی بے مثال قربانیوں کے صلہ میں ا ن کو جنات عالیہ اور مغفرت تامہ کی خوشخبری دی اور ہمیشہ کے لئے ان کو اپنی رضا مندی کاپروانہ دے دیا۔
مختصراً!دنیاکو انہوں نے قرآن و حدیث کاتعلیمی نصاب پڑھایا،انہیں کی مساعی حسنہ سے کفروشرک کے اندھیرے چھٹ گئے اورپوری کائنات میں توحید وایمان کاسراج وھّاج ضیاپاشی کرنے لگا،تمام ادیان باطلہ مٹ گئے ،مشرق سے لیکر مغرب تک کلمہ حق لاالہ الا اللہ کی صداگونجنے لگی،صحابہ کرام  کی اس پاکیزہ جانباز اور بہادر فوج نے تبلیغ اسلام کے لئے جس علاقے کارُخ کیاوہ فتح ہوتاچلاگیا،عہد صدیقی کی فتوحات کے علاوہ شام، مصر،عراق،آزربائیجان ، فارس ، کرمان،مکران،خراسان،دورفاروقی میں شمالی افریقہ،روم،جزیرہ قبرص دورعثمانی میں قسطنطنیہ،بلخ،قندھارتادریائے سندھ سیدناامیر معاویہکے دور میں فتح ہوئے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلی صدی ہی کے وسط میں منافقین نے معاذاللہ راویان قرآن اور حاملین سنن نبویہ کی عدالت پر انگشت نمائی کی،ان کے تقویٰ اور اخلاص للٰہیت پر حملے کئے،ان کی تمام دینی کاوشوں اور قربانیوں کو فاسداغراض پر محمول کرکے اپنے لئے ضلالت ورسوائی اور جہنم کی راہ اختیار کی، آج تک کچھ بدبخت وبد نصیب اسی ضلالت میں گم ہیں،آج بھی برسر منبر صحابہ کرامکی عیب جوئی، حرف گیری، طعن وتشنیع،تنقیداور شان صحابہ میں گستاخی اس ٹولے کادل پسند مشغلہ ہے۔اس مناسبت سے آج کی گزارشات میں صحابہ کرام کی عظمت وشان پر مشتمل ہوں گی تاکہ ہمارے دلوں میں ان ساایمان پیداہوسکے۔
فضائل صحابہ قرآن مجید کی روشنی میں
اللہ اور اس کے رسول کے بعد سب سے زیادہ معزز:
ارشاد ربانی ہے:

يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ

وہ کہتے ہیں یقیناًاگر ہم مدینہ واپس گئے توجو زیادہ عزت والا ہے وہ اس میں سے ذلیل تر کو ضرور ہی نکال باہر کرے گا،حالانکہ عزت تو صرف اللہ کےلیے،اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیےاور لیکن منافق نہیں جانتے۔(سورۃ المنافقون:8)
اللہ نے دلوں میں ایمان کو بھر دیا:
جیساکہ حق تعالیٰ کاارشادہے:

 أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلۃ:22)

یہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اس نے ایمان لکھ دیا ہے اور انہیں اپنی طرف سےایک روح کے ساتھ قوت بخشی ہےاور انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی،ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں،اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔یہ لوگ اللہ کالشکر ہیں۔یاد رکھو ! یقیناً اللہ کا لشکر ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
صحابہ محبوبِ الٰہی:

اللہ تعالیٰ کاارشادہے: لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ (سورۃ التوبۃ:108)

آپ اس میں کھڑے نہ ہونا،بے شک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی ہے زیادہ لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اور اس میں ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں سے محبت کر تاہے۔
صحابہ کرامجیساایمان لانے والے لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں:
ارشادباری تعالیٰ ہے: فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
’’اگر اہل کتاب ویساایمان لے آئیں جیساکہ تم(صحابہ کرام)لاتے ہو توہدایت پاگئے اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو گویاضد میں پڑگئے(اس صورت میں )ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کافی ہے اور وہ خوب سننے والااور خوب جاننے والاہے‘‘۔[البقرۃ:137]
صحابہ کرام راہِ ہدایت پر:

باری تعالیٰ کا ارشادہے: وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَهُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ  أُولٰئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ(الحجرات:8)

’’لیکن اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنادیا اوراسے تمہارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا،یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔
بہترین اور معتدل امت:
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ

’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو۔‘‘(آل عمران:110)
اسی طرح اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

وَکَذٰلِكَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَّسَطًا

’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں معتدل امت بنایا۔‘‘(البقرۃ:۱۴۳)
ان دو آیات کے اصل مخاطب اور پہلے مصداق صحابہ کرام yہیں۔
اللہ کی شفقت ورحمت صحابہ کرام پر:

ارشاد بارى ہے: لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِيِّ وَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌۙ۰۰۱۱۷

بلاشبہ اللہ نے نبی پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی اور مہاجرین وانصار پر بھی،جو تنگ دستی کی گھڑی میں اُن کے ساتھ رہے،اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ٹیڑھے ہوجائیں،پھر وہ ان پر دوبارہ مہربان ہوگیا۔یقیناً وہ ان پر بہت شفقت کرنے والا،نہایت رحم والا ہے۔[التوبۃ:117]
صحابہ پر اللہ کی سلام ہو:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ (سورۃ النمل:59)

کہہ دوکہ  سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں(صحابہ کرام) پر جنہیں اس نے چن لیا۔
میں اور میرے صحابہ بصیرت پر:
ارشاد ربانی ہے:

قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِيْ أَدْعُوْا إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ(یوسف:108)

کہہ دوکہ یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتاہوں،پوری بصیرت پر،میں اوروہ بھی (صحابہ ) جنہوں نے میری پیروی کی ہے۔
مشیرِ رسول:
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

\فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (سورۃ آل عمران:159)

سواللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے آپ ان کے لیے نرم دل ہیں اورا گرتو آپ تند خو،سخت دل ہوتےتو یقیناًوہ آپ کے گرد سے منتشر ہوجاتے ،سو ان سے درگزر کریں  اور ان کے لیے بخشش کی دعا کریں اور کام میں ان سے مشورہ کریں،پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تواللہ پر بھروسہ کریں،بیشک اللہ بھروسہ کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔
نبی کوتقویت ،اللہ کی مدد اور صحابہ کرام سے:
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

هُوَ ٱلَّذِىٓ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورۃالانفال62۔63)

(اے محمد )وہ (اللہ ) ہی ہے جِس نے اپنی مدد سے ، اور اِیمان والوں (کے ساتھ ) سے آپ کو تقویت پہنچائی اور اُن اِیمان والوں کے دِلوں میں ایک دُوسرے کے لیے اُلفت پیدا کی ، اگر آپ زمین میں موجود سب ہی کچھ خرچ کر دیتے تو بھی اُن کے دِلوں میں (ایک دُوسرے کے لیے ایسی ) اُلفت پیدا نہ کر سکتے تھے، لیکن اللہ نے اُن کے دِلوں میں یہ اُلفت پیدا کر دِی ، بے شک اللہ بہت زبردست اور حِکمت والا ہے ۔
تمام صحابہ سے اللہ کااچھی جزا کا  وعدہ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی(الحدید:10)

’’اوران سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیاہے(یعنی جنت کا) ‘‘۔
یعنی ان سب سے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ کا وعدہ کیا ہے پھر سورہ انبیاء میں حسنیٰ کے متعلق فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ (الانبیاء:101)

بے شک وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے بھلائی طے ہوچکی ،وہ اس سے دور رکھے گئے ہوں گے۔
بعد والے لوگ کبھی صحابہ کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے:

ارشاد ربانی ہے: لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (سورۃ الحدید:10)

تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے مال خرچ کیااور قتال کیاہے وہ(دوسروں کے)برابر نہیں ، بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے،ہاں بھلائی کاوعدہ تو اللہ تعالیٰ کاان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہواس سے اللہ خبردار ہے۔
اللہ ان سے راضی ،وہ اللہ سے راضی:
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو اپنی رضا کا پروانہ دیتے ہوئے اعلان فرمایا:

وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ(التوبۃ:100)

’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے،اللہ ان سے راضی ہوگیااوروہ اس سے راضی ہوگئے۔
صحابہ کرام قیامت کی سختی سے محفوظ :
چونکہ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام سے دنیاہی میں راضی ہوگیا تھا تو انہیں آخرت کی رسوائی سےبچانے کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:

یَوْمَ لَایُخْزِیْ اللّٰہُ النَّبِيَّ وَالَّذِیْنَ أٰمَنُوْا مَعَهُ(التحریم:8)

’’اس دن اللہ نبی اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔
صحابہ کی کامیابی اورجنت کی بشارت:

الله تعالى فرماتا ہے: فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [الأعراف:157]

سووہ لوگ جو ان پر ایمان لائےاور انہیں قوت دی اور ان کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا،وہی فلاح پانے والے ہیں۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ  أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبۃ:88-89]

لیکن رسول نے اور ان لوگوں نے جو ان کے ہمراہ ایمان لائے،اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے سب بھلائیاں ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں،ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
فضائل صحابہ ،احایث واثارکی روشنی میں
زمانے کے خوش نصیب لوگ:
سیدنا عبداللہ بن بسر صحابی رسول سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشادفرمایا:

طُوبَى لِمَنْ رَآنِي، وَطُوبَى لِمَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي، وَطُوبَى لِمَنْ رَأَى مَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي وَآمَنَ بِيْ

مبارک ہو جس نےمجھے دیکھا(یعنی صحابی)اور مجھ پر ایمان لایا اور مبارک ہو اسے جس نے اسے دیکھا جس نے مجھے دیکھا(یعنی تابعی) اور ایمان لایا اور مبارک ہو اسے جس نے صحابی کو دیکھنے والے کو (تبع تابعی) دیکھا اور ایمان لایا۔(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:1254)
صحابہ کرامبعد میں آنے والے تمام لوگوں سے افضل وا علیٰ ہیں:
سیدناعبداللہ بن مسعودفرماتے ہیں کہ رسول اللہeسے کسی نے دریافت کیا’’کون سے لوگ سب سے افضل ہیں؟‘‘آپنے ارشادفرمایا:

خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ

’’میرے زمانے کے لوگ،پھر ان کے بعد میں آنے والے،پھر ان کے بعد آنے والے‘‘۔(صحیح مسلم:2533)
رسول اللہ کے بعدصحابہ کرام کا انتخاب:
سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :

إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ  قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ

’’اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد  کے قلب کو ان سب قلوب میں بہتر پایا، ان کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کردیا، پھر قلب محمد کے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحابِ محمدکے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، ان کو اپنے نبی ( کی صحبت اور دین کی نصرت کے لیے پسند کرلیا۔‘‘ (مسند احمد:6/84(3600)،قال شعیب الأرنؤوط:حسن)
صحابہ کرامکے مقام کوکوئی بھی نہیں پہنچ سکتا:
سیدناابوہریرہtسے روایت ہے کہ رسول اللہنے ارشادفرمایا:

لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ

’’میرے صحابہ کو بُرا بھلامت کہو،میرے صحابہ کو بُرا بھلامت کہو۔اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر بھی سوناخرچ کرے تو صحابی کے مُد(ایک چلو) یا آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘۔(صحیح مسلم:2540)
صحابی کی رسول اللہﷺسے ساتھ گھڑی بھر کی رفاقت غیر صحابی کی ساری زندگی کے نیک اعمال سے افضل ہے:
سیدناعبداللہ بن عمرکہتے ہیں:

لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً، خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ

’’اصحاب محمد کو بُرانہ کہو،رسول اللہ کے ساتھ ان کی گھڑی بھر کی رفاقت تمہاری ساری زندگی سے نیک اعمال سے بہترہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ:162 قال الألبانی:حسن)
صحابی رسول کاکسی غزوہ میں محض غبار آلود ہوناغیر صحابی کی ہزار سالہ زندگی کے نیک اعمال سے بہتر ہے:
سیدناسعید بن زید(جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں )فرماتے ہیں:

وَاللهِ لَمَشْهَدٌ شَهِدَهُ رَجُلٌ يُغَبِّرُ فِيهِ وَجْهَهُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَفْضَلُ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ. وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ عَلَيْهِ السَّلامُ

’’اللہ کی قسم!کسی صحابی رسول کے ایک غزوہ میں شریک ہوناجس میں (صرف)اس کاچہرہ غبار آلود ہوتمہارے سارے اعمال سے افضل ہے خواہ تمہیں نوح کے برابر عمر دے دی گئی ہو‘‘۔ (مسند احمد:1/175(1629)، قال شعیب الأرنؤوط:إسنادہ صحیح)
صحابہ کرامکاوجود امت کے لئے فتنوں سے بچاؤکاباعث ہے:
سیدناابوموسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہنے ارشادفرمایا:

النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ، فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ

’’ستارے آسمان کے لئے امن کاباعث ہیں،جب ستارے ختم ہوجائیں گے تو آسمان کو وہ چیز آلے گی جس کااس سے وعدہ کیاگیاہے(یعنی پھٹ جائے گا)اور میں امن کاباعث ہوں اپنے اصحاب کے لئے،جب میں رخصت ہوجاؤں گاتو صحابہ کووہ چیز آلے گی جس کاان سے وعدہ کیاگیا(یعنی اختلافات اور دیگر فتنے)اورمیرے صحابہ میری امت کے لئے (فتنوں سے )امن کاباعث ہیں۔جب میرے اصحاب بھی رخصت ہوجائیں گے تو میری امت کو وہ چیز آلے گی جس کاان سے وعدہ کیاگیاہے (یعنی شرک، بدعات اور دیگر خرابیاں)‘‘۔(صحیح مسلم:2531)
صحابہ کرامکاوجود جہاد میں کامیابی کاباعث ہے:
سیدناابو سعید خدریtسے روایت ہے کہ رسول اللہنے ارشادفرمایا:

يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: فِيكُمْ مَنْ رَأَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: هَلْ فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ

’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گاجب ان کے لشکر جہاد کریں گے تو ان سے پوچھاجائے گا’’کیاتمہارے ساتھ کوئی ایساآدمی ہے جس نے رسول اللہکو دیکھاہو(یعنی صحابی )‘‘وہ کہیں گے’’ہاں‘‘چنانچہ ان کی برکت سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی،پھر ایک زمانہ آئے گاجب جماعتیں جہاد کریں گی توا ن سے پوچھاجائے گا’’ تمہارے درمیان کوئی ایساآدمی ہے جس نے صحابی کو دیکھاہو؟‘‘وہ کہیں گے ’’ہاں‘‘چنانچہ اس کی برکت سے انہیں فتح حاصل ہوگی ‘‘۔(صحیح مسلم:2532)
محبِ صحابہ محبوب ِالٰہی ہے:
سیدنابراءسے روایت ہے کہ رسول اللہ نےارشادفرمایا:

الأَنْصَارُ لاَ يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلاَ يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللهُ

’’انصار سے محبت مومن جبکہ بغض منافق ہی کرتاہے جو انصار سے محبت رکھتا ہےنتیجتاً اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھے گا اورجو انصار سے بغض رکھتاہے اللہ اُس سے بغض رکھتاہے‘‘۔(صحیح البخاری:3783)
محبت صحابہ کے بدلے جنت کی گارنٹی:
سیدناانس tسے روایت ہے کہ :

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا. قَالَ: لاَ شَيْءَ، إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْءٍ، فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ أَنَسٌ:فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَّاهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ

’’بے شک ایک آدمی رسول اللہ سے سوال کرتاہے کہ قیامت کب آئے گی؟آپ  پوچھتے ہیں تیری تیاری کیاہے؟ اس نے کہابس یہی کہ مجھے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے آپ نے فرمایاتو جس سے محبت کرے گاروزِقیامت اس کے ساتھ ہوگا۔ سیدنا انس فرماتے ہیں ہمیں آپسے اس فرمان کی بڑی خوشی ہوئی پھر فرمایامیں نبی سے محبت کرتاہوں اور ابوبکر  و عمر  سے محبت کرتاہوں اور مجھے امید ہے کہ اسی وجہ سے روز قیامت ان کے ساتھ میں ہوں گااگرچہ میر ےاعمال ان جیسے نہیں ہیں‘‘۔(صحیح البخاری:3688)
صحابہ کرامکی پیروی میں نجات ہے:
سیدنا عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشادفرمایا:

لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي

’’میری امت پر ایک ایساوقت آئے گاجیسابنی اسرائیل پر آیاتھا،دونوں کی حالت اس طرح ایک جیسی ہوجائے گی جس طرح ایک جوتادوسرے جوتے جیساہوتاہے حتیٰ کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کوئی شخص اپنی ماں سے علانیہ بدکاری کرے گاتو میری امت میں سے بھی ایساکرنے والاہو گا،بے شک بنی اسرائیل بہتّر فرقوں میں تقسیم ہوئی تھی،میری امت تہتّر فرقوں میں تقسیم ہوگی،تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے ‘‘صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ  ! وہ کون سا فرقہ ہے؟آپ نے ارشادفرمایا’’جومیرے اور میرے صحابہکے طریقے پر چلنے والا ہوگا‘‘۔ (سنن  الترمذی:2641 ،قال الألبانی:حسن)
صحابہ کرام کے خلاف زبان درازی کرنا حرام:
سيدنا ابو سعید خدری tسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ .
میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔(صحيح البخاري : 3673)
صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
كَانَ بَيْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَبَيْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ شَيْءٌ، فَسَبَّهُ خَالِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ
خالد بن ولید اور عبدالرحمن بن عوف کے درمیان کچھ جھگڑا ہوا، سیدناخالدنے سیدناعبدالرحمن بن عوف کوبُرا بھلا کہا تو رسول اکرم نے فرمایا:میرے کسی صحابی کو بُرا مت کہو، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرے تو اُن میں سے کسی کے دو چلو یا ایک چلو بھر صدقہ کے برابر نہیں ہوسکتااور نہ ہی اس کے آدھے کے برابر۔(صحیح مسلم:2541)
صحابہ کرامyکو بلند پایہ مقام کیوں ملا؟
جب سادات صحابہ کرام کے فضائل ومناقب کو پڑھتے اور سنتے ہیں توذہن میں سوال پیدا ہوتاہے کہ حضرات صحابہ کرام کو اتنا بلند مقام کیوں ملا؟آخرکیاوجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا مقامات پر اور رسول اللہ نے اپنے ارشادات میں ان کے اتنے فضائل کیوں بیان فرمائے؟اگر اس کے جواب کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو پتاچلتاہے کہ ان کے اندر بعض ایسی باکمال خوبیاں تھیں ،جواللہ کو بہت پسند تھیں،جن کی بدولت باری تعالیٰ نے انہیں اس مقام تک پہنچایا۔توآئیے !ان خوبیوں کو جانتے ہیں اور جان لینے کے بعد کوشش کرتے کہ یہ  خوبیاں ہمارے اندربھی پیدا ہوجائیں ،اور ہم بھی اسی طرح ایماندار بن جائیں جس طرح صحابہ کرام تھے،اوریہی حکم الٰہی ہے: آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ (سورۃ البقرۃ:13)
اس طرح ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے۔
اگر چہ صحابہ کرام ساایمان توہمیں نصیب نہیں ہوسکتامگر کوشش کی جاسکتی ہے کہ ہم بھی ان جیسی صفات سے متصف ہوکر بارگاہِ الٰہی میں سرخروہوسکیں۔
اسلام کے لیے گھر ،بار قربان کرنے والے:

الله تعالى كا فرمان ہے: لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ(سورۃ الحشر:8)

(یہ مال)ان محتاج گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے جو اپنےگھروں اور اپنے مالوں سے نکال باہر کیے گئے۔ وہ اللہ کی طرف سے کچھ فضل اور رضا تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔
اہل تقویٰ:

فرمان باری تعالیٰ ہے:  إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الفتح:26)

جب ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا،اپنے دلوں میں ضد رکھ لی،جو جاہلیت کی ضد تھی تواللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر اتاردی اور انہیں تقویٰ کی بات پر قائم رکھا اور وہ    ا س کے زیادہ حق دار اوراس کے لائق تھے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
صحابہ سراپا ادب اور پیکر تقویٰ تھے:

 اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: اِنَّ الذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْواتَهُم عِندَ رَسُولِ اللّٰہِ اُولٰئِكَ الَّذِیْنَ اِمْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوبَہُم لِلتَّقْویٰ لَهُمْ مَغْفِرةٌ وَاَجْرٌ عَظِیْمٌ.

بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کیلئے خالص کردیا ہے ان لوگوں کیلئے مغفرت اوراجر عظیم ہے۔(سورہ الحجرات:3)
کفروفسق سے محفوظ تھے:
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ لَو یُطِیعُکم فِی کَثیرٍ مِنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُم الاِیْمَانَ وَزَیَّنَهُ فِی قُلُوْبِکُمْ وکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالعِصْیَانَ اُوْلٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُوْنَ (سورة الحجرات:7)

اور جان رکھو کہ تم میں رسول اللہ ہیں اگر بہت سے کاموں میں تمہاری بات مان لیا کریں تو تم پر مشکل پڑے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت دی اوراس کی (تحصیل) کو تمہارے دلوں میں مرغوب کردیا اور کفر وفسق اور عصیان سے تم کو نفرت دیدی ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل اور انعام سے راہ راست پر ہیں۔
عبادت کے خوگر اور رحمدل تھے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اَشِدَّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ تَراهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِنَ اللّٰہِ وَرِضْواناً سِیْمَاهُم فِی وُجُوْهِہِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (الفتح:29)

محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت  ہیں اور آپس میں مہربان ہیں اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کررہے ہیں کبھی سجدہ کررہے ہیں اور اللہ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں ان کی (عبدیت) کے آثار سجدوں کی تاثیر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔
اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دینے والےتھے:
ارشاد ربانی ہے:

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}[الحشر:9]

اور(ان کے لیے)جنہوں نے ان سے پہلے اس گھر میں ایمان میں جگہ بنالی ہے،وہ ان سے محبت کرتےہیں جو ہجرت کر کے ان کی طرف آئیں اور وہ اپنے سینوں میں اس چیز کی کوئی خواہش نہیں پاتے جو ان (مہاجرین)کودی جائے اوراپنے آپ پر (دوسروں)کو ترجیح دیتے ہیں،خواہ انہیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچالیا گیا تووہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔
رضائے الٰہی کے طلب گاراور صبح وشام اللہ کو یاد کرنے والے ہیں:
ارشادباری تعالیٰ ہے

: وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا[سورۃ الکہف:28]

’’(اے محمد!)اپنے دل کو ان لوگوں کے ساتھ مطمئن رکھیں جو اپنے رب کی رضاکے طلب گار ہیں اور صبح وشام اپنے رب کو پکارنے والے ہیں،ان لوگوں سے اپنی آنکھیں مت پھیریں،کیاآپ دنیاکی زندگی کی زینت چاہتے ہیں؟‘‘۔
صدق وامانت کے علمبردار:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صحابہ کرام کی صداقت اورایفائے عہد کا یوں تذکرہ فرمایا:

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (سورۃ الاحزاب:23)

مومنوں میں سے کچھ مرد(صحابہ)ایسے ہیں جنہوں نے وہ بات سچ کہی جس پر انہوں نے اللہ سےعہد کیا، پھر ان میں سے کوئی تو وہ ہے جواپنی نذر پوری کرچکا ہے اور کوئی وہ ہے جو انتظار کررہاہےاور انہوں نے نہیں بدلا،کچھ بھی بدلنا۔
دشمن کے خلاف انتہائی سخت، باہم انتہائی نرم اور بکثر ت عبادت میں مشغو ل رہتے تھے:
ارشادباری تعالیٰ ہے:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا [سورۃ الفتح:29]

’’محمداللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے لئے سخت اور آپس میں بہت نرم ہیں آپ انہیں رکوع وسجود کرتے دیکھیں گے،اپنے رب کافضل اور رضامندی چاہنے والے ہیں،سجدوں کی وجہ سے ان کے چہروں پر نشان ہیں،ان کی یہی شان تورات میں بیان کی گئی ہے اور انجیل میں ان کی مثال ایسے بیان کی گئی ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی پھرا سے مضبوط کیا اور موٹی ہوگئی اور اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کسان اسے دیکھ کر خوش ہو تاہے تاکہ کافراس کی وجہ سے جلیں،ان ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کاوعدہ فرمارکھاہے‘‘۔
صحابہ کا ایمان ایسا معیاری ایمان ہے کہ سب لوگوں کو اسی طرح کا ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے