ہر دور میں لوگوں کی رشدو ہدایت کیلئے مالک ارض و سماء نے انبیاء و رسل صلوات اللہ علیہم کو بھیجا اور ان پر کتب سماویہ نازل فرمائیں۔ نبی کی دعوت و تبلیغ سے کلمہ حق کے اقراری ان کے پیروکار و متبع بنے جو اس نبی کی وفات کے بعد اس کے مشن کو لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ نبوت کے اختتام کے لئے نبی کریمﷺ کو چنا گیا اور جملہ انسانوں کیلئے رہبر و رہنما بناکر بھیجے گئے۔ آقائے دوجہان لیل و نہار بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ بالآخر 23 سال کی سعیٔ مشکور رنگ لائی اور چار دانگ عالم میں اسلام کا بول بالا ہوگیا اور ایک ایسی عظیم جماعت تیار ہوئی جس کی نظیر دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ مکتب نبوت میں پرورش پانے والے اور نبوی درسگاہ و دانش گاہ سے فیوض و برکات حاصل کرنے والے عظیم المرتبت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بزرگ ہستیاں، جنہوں نے آفتاب نبوت کو اپنے سامنے طلوع ہوتے دیکھا۔ نبی معظم ﷺ کے جمال و کمال کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، کامل پختہ ایمان لائے، ختم المرسل کے اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کو اپنے اندر سماتے رہے۔ ان نفوس قدسیہ کی اجتماعی کوششوں اور کاوشوں سے ایک مہذب وجاندار اور باوقار معاشرہ معرض وجود میں آیا، جس کی مثال ملنا محال ہے۔ شمع رسالت کے ان پروانوں اور نبوت و رسالت کے چمکتے دمکتے ستاروں نے جہالت تاریکی، شرک و بدعت، کفر و نفاق، قتل و غارت اور ظلم و بربریت کے گھٹا ٹوپ معاشرے میں کتاب و سنت پر مبنی علم و عمل کا وہ مینار کھڑا کیا جس کی برکات، رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گی۔
یہ صحابہ کرام ہی کا وہ مقدس گروہ ہے، جو اسلام کی خاطر جبر و قہر کی چکی میں پستے رہے۔ جس کی تصویرسیدنا بلال، سیدناعمار،سیدنا خبابy وغیرہ کی صورتوں میں ملتی ہے، جو صبر و استقامت کی مضبوط چٹان تھے۔ اخوت اسلامی کا ایسا منظر پیش کیا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے کہ گھر بار، زمین و جائیداد، مال و ملکیت، گھر کا آدھا حصہ دیا بلکہ دو بیویوں والا اپنی ایک بیوی کو طلاق دینے لگا کہ میرا مہاجر بھائی اس سے نکاح کرلے اور اپنے گھر کو آباد کرے۔ جسکی منظرکشی سیدناسعد بن ربیع اور سیدناعبدالرحمن بن عوف کا واقعہ کرتا ہے۔ ہمدردی، محبت، الفت و پیار ان کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دین اسلام کی خاطر ماں باپ سے الگ ہوئے۔ بیوی بچوں کو چھوڑ دیا۔ گھروں کو خیرباد کہا۔ صرف نبیﷺ کو خوش ہوتا دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام ہی کا وہ گروہ ہے جس نے اپنے لہو سے گلشن محمدی کی آبیاری کی، جو نبی مکرمﷺ کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کیلئے تیار رہتے تھے اور فرمان نبویﷺ پر اپنا تن من دھن قربان کرنے کو سعادت ابدی سمجھتے تھے۔ وہ مدرسہ نبوت کے ایسے طالبعلم تھے، جن کا نصاب ملائِ اعلیٰ میں مرتب ہوا تھا۔ ان کی تعلیم و تربیت کی نگرانی براہ راست آسمانی وحی کررہی تھی اور ان کا ممتحن خود علام الغیوب تھا۔ جب ان کی تعلیم و تربیت کے ہر پہلو سے امتحان ہوچکا تو مالک ارض و سماء نے ان کو ’’رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ‘‘ (التوبہ100) کے جلیل القدر خطاب سے نوازا اور آنے والی پوری انسانیت کی تعلیم و تربیت اور ارشاد و تلقین کا منصب عطا فرمایا اور انہیں كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران110) جیسی مسند عظیم کا مصداق ٹھہرایا۔ لیکن اس کے باوجود بھی فرزانگی کی دولت سے محروم علم و عقل کے دشمن، قرآن و حدیث کی مخالف، ضال و مضل کے لقب سے ملقب، بدطینت و حواس باختہ، زندیق، بغض و عناد سے لبریز جماعت جو صحابہ کرام جیسی نفوس قدسیہ پر اتہام، افتراء و ارتداد کا باب باندھنے کی دن رات سعی لاحاصل کررہی ہے۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے مدح صحابہ کو قرآن و حدیث اور اقوال العلماء سے اجاگر کیا گیا ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام سے محبت ایمان کا جزوِ لاینفک ہے۔
صحابہ کرام کے بارے میں قرآنی فیصلہ: ’’صحابہ کرام ایمان کی کسوٹی ہیں‘‘
قرآن حکیم جو کہ معجزہ خالدہ اور حکمتوں اور فضیلتوں سے لبریز ایمانیات کا امین ہے، ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہے کہ صحابہ کرام کی جماعت ایمان و یقین کی کسوٹی اور ہدایت و راہنمائی کی شمع فروزاں ہے۔ وہ ’’آسمان کا تھوکنا، منہ پر‘‘ کے مصداق ان کو سفیہ، بے وقوف اور بے علم ٹھہراتا ہے، جو صحابہ کرام کو بے وقوف گردانتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ
’’سو اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو، تو راہ یاب ہوئے اور اگر وہ اعراض کریں تو وہ مخالفت میں ڈٹے رہتے ہیں۔‘‘ (البقرہ137)
صحابہ کرام ہی مکمل کامیاب ہیں
کامیاب وہ نہیں جو دنیوی نعمتوں سے مالامال ہو بلکہ کامیاب انسان وہ ہے جسے اپنے خالق حقیقی کی طرف سے رضامندی کا مژدہ سنایا گیا ہو۔ پس صحابہ کرام ہی کی جماعت کو اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ١ۙ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۠۰۰۲۰ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَّجَنّٰتٍ لَّهُمْ فِيْهَا نَعِيْمٌ مُّقِيْمٌۙ۰۰۲۱
’’جو لوگ ایمان لائے، جنہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کی راہ میں جنہوں نے اپنی جان و مال سے جہاد کیا، ان کا درجہ اللہ کے ہاں بڑا ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ ان کا رب ان کو خوش خبری دیتا ہے۔ اپنی رحمت و خوشنودی اور ایسے باغوں کی جن میں ان کیلئے ابدی نعمت ہے۔‘‘ (التوبہ21-20)
صحابہ کرام کے سچے مومن ہونے کی قرآنی گواہی
صحابہ کرام کی جماعت وہ عظیم جماعت ہے، جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی مالک ارض و سماء سے اس کی رضامندی کی ڈگری حاصل کرلی، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا، اب کوئی ان سے ناراض ہوکر غصہ نکالتا ہے، تو یہ اس ہی کا نقصان ہے۔
لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ
’’تحقیق اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے راضی ہوا جبکہ وہ تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔‘‘(الفتح18)
صحابہ کرامکفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں نرم تھے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ (الفتح29)
’’محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں ۔‘‘
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہوتو فولاد ہے مومن
صحابہ کرامy، نبی مکرمﷺ کی 23سالہ محنت کا شاہکار تھے۔ جو لوگ صحابہ کرام پر ارتداد کی تہمت لگاتے ہیں، وہ آیات قرآنی کا کھلم کھلا انکار اور امام کائناتﷺ کی 23سالہ محنتوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا
’’کلمۃ التقویٰ ان میں جاگزیں کر دیا، کیونکہ وہی سب سے زیادہ اس کا حق رکھتے تھے اور اس کے اہل تھے۔‘‘(الفتح:26)
دوسری طرف محمد عربیﷺ اوران کی سعی مشکور کے ثمر کی کیا خوب مثال بیان فرمائی ہے:
كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ
ان کی مثال کھیتی کی سی ہے جس نے سوئی نکالی ، پھر سوئی کو مضبوط کیا، پھر اسے موٹا بنایا پھر وہ اپنی نالی پر کھڑی ہوگئی وہ کسان کو خوش کرتی ہے اور کفار انہیں دیکھ دیکھ کر غیظ وغضب میں آرہے ہیں۔‘‘(الفتح:۲۹)
حدیث کی روشنی میں
اصحاب رسول انتخاب الٰہی ہیں
سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے جب لوگوں کے دلوں کو دیکھا تو تمام لوگوں میں سے محمدﷺ کے دل کو خیر سے پُر پایا۔ تو ان کو اپنے لئے چن لیا۔ اور رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ آپﷺ کے بعد جب لوگوں کے دلوں کو دیکھا تو آپﷺ کے صحابہ کو مملوء ۃ بالخیر پایا، ان کو آپﷺ کا دست و بازو بنایا۔ جو اس کے دین کیلئے جان کی بازی لگاتے ہیں۔(مسند احمد ، حدیث نمبر :3600)
صحابہ کرام تمام امت سے افضل ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ)
’’میری امت کا بہترین دور میرا زمانہ ہے۔ پھر وہ لوگ جو ان کے متصل ہوں گے (یعنی صحابہ کرام کا دور)پھر وہ جو ان کے قریب ہوں گے (یعنی تابعین کا دور)۔‘‘
ہر حال میں صحابہ کرام کے دل اللہ اور رسول ﷺ کی محبت سے سرشار تھے :
جب غربت ڈیرے ڈالتی ہے تو انسان حصول مال کے لیے ہر قسم کی تگ ودو میں لگ جاتاہے ، معاشی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہر طرح کا راستہ اختیار کرتاہے بطور مثال ہر دور بالخصوص عصر حاضر جہاں حلال وحرام، جائز وناجائز کی تمییز ہی نہیں کی جاتی ، اس سوچ کو خاطر میں رکھے بغیر کہ اللہ تعالیٰ اس کے کرنے سے ناراض ہوجائے گا یہ تو ہماری حالت ہے لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سے یکسر مختلف نظر آتے ہیں ، کٹھن حالات انہیں بھی لاحق ہوئے ،مشکل گھڑیاں انہیں بھی پہنچیں، غربت کی سختی وصعوبت سے بھی دوچار ہوئے لیکن ان کے دل میں موجود اللہ اور رسول کی محبت میں ذرا برابر بھی کمی نہیں آئی اور نہ ہی ان کا ایمان کسی قسم کے تزلزل اور تنزل کا شکار ہوا۔ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ وارد ہیں کہ
مَا عَلَيْنَا نِعَالٌ، وَلَا خِفَافٌ، وَلَا قَلَانِسُ، وَلَا قُمُصٌ (صحیح مسلم : 925)
’’ہمارے پاس جوتے تھے ، نہ موزے ، ٹوپیاں تھیں نہ قمیض‘‘۔
بلکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو اصحاب صفہ کی غربت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
لَقَدْ رَأَيْتُ سَبْعِينَ مِنْ أَصْحَابِ الصُّفَّةِ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ عَلَيْهِ رِدَاءٌ، إِمَّا إِزَارٌ وَإِمَّا كِسَاءٌ، قَدْ رَبَطُوا فِي أَعْنَاقِهِمْ، فَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ نِصْفَ السَّاقَيْنِ، وَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ الكَعْبَيْنِ، فَيَجْمَعُهُ بِيَدِهِ، كَرَاهِيَةَ أَنْ تُرَى عَوْرَتُهُ (صحيح البخاری : 442)
میں اہل صفہ میں سے ستر طلبہ کو دیکھا ان میں سے کسی کے پاس جسم کے اوپر کا حصہ چھپانے کے لیے چادر نہ تھی ، کسی کے پاس نچلا دھڑ چھپانے کے لیے چادر نہ ہوتی تو وہ اس سے اپنی گردنوں میں باندھ لیتے ، وہ کپڑا کسی کی آدھی پنڈلی تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک اور وہ اس کو اپنے ہاتھ سے اکٹھا کر کے رکھتے تاکہ ان کا ستر ننگا نہ ہو۔
اس سب کچھ کے باوجود بھی ان میں یہ خوبی باتم واکمل موجود تھی کہ ان کے دلوں میں صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت تھی ہر حال میں اپنے اللہ سے راضی رہتے تھے اگر ان کو دنیا کی بھی کوئی پیشکش ہوتی تو اس کو ٹھکرا کر صحبت رسول اور آخرت کو ترجیح دیتے اس طرح اصحاب صفہ کا ایک غریب ومسکین طالب سیدنا ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ ﷺ نے یہ آفر فرمائی ’’سل ‘‘ اس آفر کے بعد کچھ بھی مانگ لو دنیا میں سینکڑوں ضرورتیں ہیں مانگ لو ، قربان جاؤں صحابہ کی عظمت پر دنیا کی آلائش کو پس پشت ڈال دیا اور یوں گویا ہوا کہ
أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ (صحيح مسلم:489)
’’میں آپ سے جنت میں رفاقت کا طلبگار ہوں ۔‘‘
قارئین کرام! جہاں مال کی قلت نے اللہ ورسول ﷺ کی محبت میں رکاوٹ نہیں بنی وہیں کثرت مال نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں سے اللہ ورسول ﷺ کی محبت کو کم نہ کر سکی، بلکہ بے دریغ اللہ کی راہ میں صدقہ وخیرات کرتے رہے۔ آج اگر کسی کے پاس دو ٹکے آجائیں تو وہ اللہ کا باغی بن جاتاہے ، خوف الٰہی کا دوردور تک کوئی نام ونشان باقی نہیں رہتا مگر صحابہ کرام کے پاکیزہ دل خشیت الٰہی سے کبھی غافل نہ ہوئے ، ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف تاجر مدینہ افطاری کے لیے بیٹھے تو افطاری کے لیے پھل فروٹ ، کھانا پیش کیاگیا ، ان کے بیٹے ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ دوران گفتگو فرمانے لگے کہ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو (غزوۂ اُحدمیں)شہید کردیاگیا اور وہ مجھ سے بہت زیادہ بہتر تھے ، ان کے کفن کے لیے صرف اور صرف ایک چادر میسر آئی جو اس قدر ناکافی تھی کہ اگر ان کا سرڈھانپا جاتا تو پیر ننگے رہ جاتے اور اگر پاؤں ڈھانپے جاتے تو سر کھلا رہ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی ہمیں ہماری نیکیوں کا بدلہ تو نہیں دے دیا ، اتنی بات کہی:
ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي حَتَّى تَرَكَ الطَّعَامَ
پھر رونا شروع ہوگئے یہاں تک کہ کھانا چھوڑ دیا۔ (بخاری ، کتاب الجنائز،الحديث:1275)
صحابہ کرام کے اعمال کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ» (صحیح مسلم، فضائل الصحابة:2540)
سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ کو برا مت کہو۔ مجھے اللہ کی قسم، تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو وہ صحابی کے ایک مد بلکہ اس کے نصف تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
صحابہ کو تکلیف دینا، نبیﷺ کو تکلیف دینا ہے
نبی مکرمﷺ نے ہر طریقہ سے صحابہ کرام پر سب و شتم کرنے سے منع فرما یا ہے اور ان سے دوستی اور دشمنی، اپنے سے دوستی اور دشمنی قرار دیا۔
سیدنا عبداللہ بن معقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کرامy کے معاملے میں ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا کیونکہ جس نے بھی ان سے محبت کی تو یہ میری محبت کی بناء پر اور جس نے ان سے بدظنی و بغض رکھا، اس نے مجھ سے بدظنی کی بناء پر ان سے بغض رکھا۔ جس نے ان کو تکلیف دی، اس نے مجھ کو تکلیف دی۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دینے کی کوشش کی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو عذاب میں پکڑلے۔‘‘(سنن الترمذی، کتاب المناقب، وحسنہ ابن حبان7256)
سیدناابن عباسt سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ(السلسلة الصحيحة:340)
’’جو میرے صحابہ پر سب و شتم کرتا ہے، وہ اللہ، فرشتوں اور پوری انسانیت کے نزدیک لعنتی ہے۔‘‘
اس فرمان نبویﷺ کے بعد ابن سبا کی معنوی اولاد کو چاہئے کہ صحابہ کرام پر افتراء پردازی ختم کرکے توبہ استغفار کے ساتھ رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرے۔ بصورت دیگر وہ درج بالا احادیث کے مصداق ٹھہریں گے۔
اقوال العلماء
٭ اقتداء کے لائق صحابہ کی جماعت ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ جو شخص اقتداء (پیروی) کرنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ اصحاب رسولﷺ کی اقتداء کرے۔ اس لئے کہ ان کے دل ساری امت سے زیادہ نیک اور پاک تھے۔ ان کے علم میں سب سے زیادہ گہرائی تھی۔ وہ سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ وہ سب سے زیادہ سیدھی راہ پر تھے۔ ان کے حالات سب سے بہتر تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرکی محبت کیلئے چن لیا تھا۔ پس تم ان کی قدرومنزلت کو پہچانو اور ان کے نقش قدم پر چلو۔ اس لیے کہ سیدھی راہ پر گامزن یہی لوگ تھے۔ (شرح السنہ 214/1، منہاج السنۃ166/1)
٭ صحابہ کرام کا گستاخ، خواہشات کا پیروکار ہے۔
ابھی ہم ذکر کرچکے ہیں کہ یہی وہ جماعت ہے جس کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کوئی بدنصیب صحابہ کو تنقید کا نشانہ بناتاہے تو اس کے بارے مین ائمہ کرام کا کیا نظریہ ہے، پڑھیے۔
سیدنا سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من نطق فِي أصحاب رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بكلمة فهو صاحب هوى (طبقات الحنابلة)
’’جو آدمی صحابہ() کرام کے بارے میں ایک حرف بھی گستاخانہ استعمال کرتا ہے، وہ خواہشات کا پیروکار ہے۔‘‘
امام الحسن بن علی البربھاری سے مروی ہے: ’’اچھی طرح جان لو جو کسی ایک صحابی کو برا کہتا ہے، سمجھ لو وہ درحقیقت رسول اللہﷺ کو نشانہ تشنیع بناتا ہے۔‘‘ (شرح السنۃ ص/120)
٭ صحابہ کو گالی دینے والا پکابدعتی اور رافضی ہے۔
امام اہل السنۃ احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
فمن سب أصحاب رَسُول اللهِ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو أحدًا منهم أو تنقصه أو طعن عليهم أو عرض بعيبهم أو عاب أحدًا منهم فهو مبتدع رافضي خبيث مخالف لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا (طبقات الحنابلة30/1)
’’جو کوئی صحابہ کرام() یا ان میں سے کسی ایک کو گالی گلوچ کرتا ہے یا ان کی شان میں گستاخی کرتا ہے یا ان پر لعن طعن کرتا ہے یا ان کی عیب جوئی کرتا ہے، وہ پکا بدعتی اور رافضی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا، نہ نفل۔‘‘
٭ صحابہ کی شان میں تنقیص کرنے والا زندیق ہے
ابورزعۃ الرازیش فرماتے ہیں:’’جب تو کسی شخص کو احباب محمدﷺ کے بارے میں تنقیص کرتے دیکھے تو پس اچھی طرح عقیدہ رکھ لے کہ وہ پکا زندیق ہے اور یہ اس لئے کہ ہمارے نزدیک رسول اللہﷺ برحق ہیں اور ان پر نازل شدہ قرآن برحق ہے اور ہم تک قرآن و سنت کی تعلیمات پہنچانے والے لوگ یہی صحابہ کرامتو ہیں۔ یہ زندیق لوگ ان صحابہ کرام پر جرح کرکے درحقیقت کتاب و سنت کو باطل کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان اصحاب محمد کو برا کہنے والے مجروح ہی نہیں بلکہ پکے کافر و زندیق ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ فضائل صحابہ اور تردید روافض کے لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ شکی کتاب منہاج السنہ کا مطالعہ مفید رہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ان نفوس قدسیہ کے فضائل وخصائل اوصاف حمیدہ، صفات طیبہ، صدق و صفاء، امانت و دیانت، سچائی و پارسائی، اخوت و ہمدردی، جلالت و شرافت، شان و شوکت، عظمت و رفعت، جودوسخا اور شجاعت کو کاملاً ذکر کرنا مجھ جیسے ادنیٰ طالبعلم کے بس کی بات نہیں۔ مولائے کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو صحابہ کرامyسے محبت و الفت، ان کا ادب اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو ہمارے لئے توشۂ آ خرت بنائے۔ آمین