ستائیسواں اصول:

وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ (فاطر:۱۸)

’’اور جو بھی پاک ہو جائے وہ اپنے ہی نفع کے لیے پاک ہو گا ۔‘‘
قرآن حکیم کے اس اصول کا بہت اونچا مقام ہے‘ کیونکہ اس کا بندے کی زندگی پر گہرا اثر ہے‘ اور اِس کاجسم کے اُس ٹکڑے (دل ) کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے‘ جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایاہے کہ اس ٹکڑے کا ٹھیک ہونا سارے جسم کا ٹھیک ہونا ہے اور اس کی خرابی سارے جسم کی خرابی ہے ۔
جب لفظ ’’تزکیہ‘‘ عمومی طور پر بولا جائے تو اس سے دو معنیٰ مراد لیے جاتے ہیں :
پہلا معنیٰ: دونوں قسم کی طہارت ہے‘ ظاہری اور معنوی۔ ظاہری طہارت سے مراد ہے مثلاًکپڑے کی میل کچیل سے پاکیزگی ‘اور معنوی طہارت سے مراد ہے مثلاًقلبِ ایمان اور نیک اعمال کے ذریعے پاکیزگی۔
دوسرا معنیٰ: مراد ہوتاہے اضافہ‘ یعنی جب مال میں اضافہ ہو تو اسے مال میں ’’زکاۃ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہ دونوں لغوی معنیٰ شریعت کا منشا ہیں۔ اس لیے کہ’’ تزکیہ نفس‘‘سے یہ دونوں معنیٰ مراد ہیں‘ یعنی بندے کو ظاہری اور معنوی ہر طرح کی میل کچیل اورنجاست سے پاک کرنا اور اسے قابلِ تعریف اور فاضل اخلاق کے ذریعے ترقی دینا اور مزین کرنا۔ چنانچہ مؤمن کو حکم ہے کہ اپنے آپ کو برے اخلاق مثلاًریاکاری‘ تکبر ‘ جھوٹ ‘ ملاوٹ‘ دھوکہ بازی‘ چکربازی‘ نفاق اور اس طرح کے دوسرے گھٹیا اخلاق سے محفوظ رکھے۔اور یہ بھی حکم ہے کہ اچھے اخلاق مثلاًسچ‘ اخلاص ‘تواضع‘ نرم خوئی اوربندوں کے حق میں خیر خواہی جیسے اخلاق کو اپنائے ‘ نیز دل کو کینہ‘ بغض اورحسد جیسے رذائل اخلاق سے پاک رکھے‘ کیونکہ دل کی پاکیزگی کا فائدہ اسی کو ہو گا ۔ انجام کار کابھی اسی کو فائدہ پہنچے گا اور اس کا کوئی عمل ضائع نہیں ہوگا۔
اسی معنی کو بیان کرنے کی خاطرقرآنِ کریم کی وہ آیات نازل ہوئی ہیں جن میں نفس کی پاکیزگی اور اسے سنوارنے کاحکم دیا گیا ہے‘ فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَاسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی (الاعلیٰ14۔15)

’’بے شک اُس نے فلاح پا لی جو پاک ہو گیا‘ اور جس نے اپنے رب کانام یادرکھا اور نماز پڑھتا رہا‘‘۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا(الشمس9۔10)

’’اور جس نے اسے (اپنے نفس کو)پاک کر لیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوا‘‘۔ اور جس اصول پر ہم گفتگو کر رہے ہیں اس میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔فرمایا:

وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ  (فاطر:۱۸)

’’اور جو بھی پاک ہو جائے وہ اپنے ہی نفع کے لیے پاک ہو گا‘‘۔ جو شخص بھی قرآنِ کریم کی آیات پر غور کرے گااُسے معلوم ہو گا کہ قرآنِ کریم میں تزکیہ نفس کے موضوع کو بڑا خاص مقام دیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن ِ کریم میں ایک جگہ پر سب سے زیادہ قسموں کی تعداد گیارہ ہے اور اُن سب کا موضوع تزکیہ نفس ہے۔ اور یہ بات ’’سورۃ الشمس‘‘ کے شروع میں آئی ہے ۔
قرنِ کریم کا یہ اصول: وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ (فاطر:۱۸) ’’اور جو بھی پاک ہو جائے وہ اپنے ہی نفع کے لیے پاک ہو گا ۔‘‘ کھلے لفظوں میں کہہ رہا ہے کہ تزکیہ کا سب سے پہلا فائدہ خود تزکیہ کرنے والے کو ہے اور اس آیت کے مفہوم میں ایک دھمکی بھی شامل ہے کہ اے اللہ کے بندے!اگر تو تزکیہ نہیں کرتا تو تزکیہ نہ کرنے کا سب سے بڑا نقصان بھی تجھی کو ہو گا۔
اگرچہ اس اصول کا مخاطب ہر وہ مسلمان ہے جو اِسے سن رہا ہے ‘ البتہ ایک عالم وواعظ اور طالب علم کا حصہ زیادہ اوربڑا ہے ‘ اس لیے کہ لوگوں کی نظر یں جلد ہی اُس کی طرف اٹھ جاتی ہیں‘ اسے غلطی کرنے کا نقصان زیادہ ہوتا ہے اور اس پر تنقید بھی سخت ہوتی ہے۔ واجب تو یہ ہے کہ عالم کی گفتگو اورخطاب سے پہلے اُس کی سیرت وکردارہی لوگوں کو عمل کی دعوت دے ۔
دین میں تزکیۂ نفس کے عظیم مقام کی وجہ سے جن ائمہ اور علماء نے عقائد کے موضوع پر لکھا ہے‘ انہوں نے مختلف عبارتوں کے ذریعے تزکیہ نفس پر بڑا زور دیا ہے۔ ائمہ دین نے اس بات کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے‘ اس لیے کہ اعتقاد اور کردار کے درمیان بڑا گہرارشتہ ہے ‘ کیونکہ ظاہری کردار باطنی اعتقاد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ظاہری کردار میں کسی قسم کا ٹیڑھ باطنی ایمان میں کمی کی دلیل ہوا کرتا ہے۔ ثابت ہوا کہ کردار اور اعتقاد آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ اسی لیے اخلاق وکردار کی بہت ساری باتیں ایمان کے شعبوں میں داخل ہیں۔
جب لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ تزکیہ نفس کا معاملہ آسان اور ہلکا ہے توبہت ساری متضاد شکلیں سامنے آئیں اور علم وعمل میں دوری پیدا ہو گئی۔
اس قرآنی اصول پرگفتگو کرتے ہوئے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کا تزکیہ کیسے کریں؟اس سوال کا جواب تو بہت طویل ہے‘ لیکن میں اختصار کے ساتھ تزکیہ نفس کے اہم ذرائع کا ذکر کیے دیتا ہوں:
٭اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانا اور اس کے ساتھ گہرا لگاؤ پیدا کرنا۔
٭اہتمام کے ساتھ قرآنِ حکیم کی تلاوت کرنا اوراس پر غور وفکر کرنا۔
٭کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔
٭فرض نمازوں کی پابندی کرنا‘ نیزنمازِ تہجد کا اہتمام کرنا‘ خواہ تھوڑا ہی ہو سکے۔
٭گاہے بگاہے اپنی ذات کا خود محاسبہ کرنا۔
٭بندے کے دل میں آخرت کی یاد کا زندہ رہنا۔
٭موت کو یادرکھنااور قبرستان کی زیارت کو جانا۔
٭نیک لوگوں کی سیرت کا مطالعہ کرنا۔
دوسری طرف یہ بھی دھیان رہے کہ عقل مند وہ ہے جو اُن راستوں کو بند رکھتا ہے جہاں سے مذکورہ بالا وسائل ِ اصلاح کے نتائج کو نقصان ہوتا ہو۔اس لیے کہ دل کے مقام پر جاکر وسائل ِ اصلاح اور وسائل ِ فساد اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اُن کوعلیحدہ علیحد ہ رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ انسان وسائل ِ اصلاح کا اہتمام کرے‘ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وسائل ِ فساد سے بھی بچتا رہے‘ مثلاً:حرام چیزوں کی طرف دیکھنا‘ حرام مواد سننا‘ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ باتیں تو دور کی بات ہے‘ غیر متعلقہ‘ لغوباتوں سے بھی اپنی زبان کو محفوظ رکھنا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے