دورِ حاضر میں جہاں اوربہت سارے مسائل کا سامنا ہے وہاں ایک بڑی پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ امت مسلمہ کے نوجوان اپنی حقیقی اور ذمہ داریوں کو بھلاکر بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں ، منفی سرگرمیوں میں ان کی دلچسپی بڑھ رہی ہے، اپنے اصل الاصیل (foundation)کو چھوڑ کر کمزور تہذیب و تمدن (Cool culture)پر گامزن یہ نوجوان بے نام و نشاں منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔
ذیل میں چند ایک نکات ذکرکیے جا رہے ہیں جوکہ سراسر شرعی نصوص سے ماخوذ ہیں ان نکات سے رہنمائی لیتے ہوئے اگر والدین اپنے بچوں کی تربیت کریں تو خود پر عائد ذمہ داری کو نبھا کر اس معاشرتی بھنور میں گھری ہوئی کشتی کو پر امن ساحل تک پہنچا سکتے ہیں اور اجتماعی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
پہلا نکتہ :
اولاد کی تربیت کا ابتدائی سبق اللہ کا تعارف :
اللہ تعا لیٰ کا فرمان ہے:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ، خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ، الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (سورۃ العلق :1_5)
’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ،تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے ،جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا، جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت )پر فرض ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجة (1/ 151)
درج بالا آیات و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی معرفت کا حصول اور علم کی طلب اور علم دین سے آراستہ ہونا کتنا ضروری ہے، پھر اگر کسی بچے کی بچپن سے ہی اس مضبوط بنیاد پر تربیت کی جائیگی تو ایسا بچہ مضبوط کردار کا مالک بن کر کسی بھی معاشرے کے لئے سعادت مند بن سکتا ہے ۔
دوسرا نکتہ:
اچھی مجلس اور اچھے دوستوںکا انتخاب:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلْ (المستدرك 405 (4/ 171))
’’انسان اپنے محبوب ساتھی کے دین پر ہوتا ہے تو تمہیںچاہیے کہ غور کرو کس سے دوستی کر رہے ہو‘‘۔
ایک دوسری حدیث کے مفہوم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے دوست کو عطر فروش سے تشبیہ دی ہے جو سراسر فائدے کا باعث ہوتا ہے اور برے دوست کی مثال بھٹی پھونکنے والے کی سی بیان فرمائی ہے جو نقصان کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتا ۔
ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ مجلس اور صحبت کا اثر انسانی زندگی پر کتنا گہرا پڑتا ہے ، اس لئے والدین اور بزرگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی مجلسیں مہیاکریں اور انہیں بری صحبت اور برے دوستوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
تیسرا نکتہ :
اولاد کے درمیان عدل و انصاف کا پہلو مقدم رکھنا :
سیدنا نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے والد انہیں لے کر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کے میں نے اپنے اس بیٹے (نعمانؓ) کو ایک غلام تحفہ میں دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کے کیا تم نے اپنے سارے بچوں کو ایک ایک غلام تحفے میں دیا ہے ؟ کہنے لگے نہیں ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اس سے بھی واپس لے لو۔ (مسلم)
اس روایت سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بچوں کے درمیان (خواہ بیٹیاں ہو یا بیٹے) مساوات کا معاملہ کرنا انتہائی ضروری ہے موت سے پہلے اور موت کے بعد ترکہ کی صورت میں (یعنی شریعت نے جو حصے مقرر کیے ہیں)،کیو نکہ اگر ایسا نہ کیا جائے گا یا تو بچے بڑے ہو کر سرکشی پر اتر آئیں گے اور یا کم از کم احساس کمتری کا شکار تو ضرور ہوں گے اور یہ دونوں صورتیں معاشرے کے لئے خسارے کا باعث ہے۔
چو تھا نکتہ :
اپنی اولاد کو دورِ جدید کے آلات کا غلط استعمال سے روکنا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ النور : 19)
جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
بچوں کے اصرار پر ان کو موبائل فون دلانا ، کمپیوٹر ،انٹرنیٹ، ٹی وی ، کیبل کی سہولیات فراہم کرنا اس نیت سے کہ بجائے اسکے کہ بچے باہر گھومیں پھریں یہ گھر میں ہی مصروف رہیں اور خطرناک نتائج سے بے پرواہ والدین اپنی اولاد کی پرورش میں وہ زہر آلود کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں جو مستقبل میں ان کی تمام صلاحیتوں کو چھین کر معاشرے کو ان کی سعادت مندی سے دور کر دیتے ہیں ، خصوصا موبائل فون کیونکہ والدین کو نہیں معلوم کہ کمبل اور لحاف اوڑھے ان کا بچہ سو رہا ہے یا انٹرنیٹ کا سستا اور طویل پیکج حاصل کرکے کس کس قسم کی واہیات اور فحش موویز دیکھ رہا ہے اور اس آیت کے مطابق فحاشی پھیلانے والے اللہ کے عذاب کے مستحق ہوتے ہیں، تو اگر یہ کام والدین خود کر کے دے رہے ہوں خواہ لا شعوری میں ہی یہ ان سے سرزد کیو ں نہ ہو رہا ہو۔ تو یہ معاشرے میں بہت بڑے بگاڑ کا سبب ہوگا۔
پانچواں نکتہ :
اپنی اولاد کے ساتھ ان سے متعلقہ امور میں مشاورت کرنا :فرمان الٰہی ہے :
يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ (سورۃ الصّٰفّٰت: 102)
’’ابراہیم نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہو اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟‘‘۔
فرمانبردار اولاد کی خواہش ہر باشعور والد کو ہوتی ہے ،اور ہر باپ یہ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا فرمانبرداری میں اپنی مثال آپ ہو مگر اس کام کے لئے ہر خواہش مند والد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ابرہیم علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنے لئے نمونہ بنائے کہ کس طر ح انھو ں نے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا کہ جب انہوں نے خواب دیکھا کہ اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیر رہے ہیں اس مشاورت کے بعد فرمانبردار بیٹا اپنے باپ سے کیا کہتا ہے قرآن بیان کرتا ہے
يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ (سورۃ الصّٰفّٰت: 102)
’’بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائے گے ‘‘۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کو فرما نبردار بنانے کے لیے ان سے متعلقہ امور میںمشاورت انتہائی ضروری ہے ا ور یقینا بچوں کے معا ملے میں آپ کا یہ رویہ ان کاحوصلہ بڑھانے میں بہترین کردار ادا کرتا ہے۔
چھٹا نکتہ : اولاد کی تربیت کا بہترین پہلو :
ذیل میں سورہ لقمان کی کچھ آیات کا تذکرہ کیا جارہا ہے جس میں لقمان علیہ ا لسلا م اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں ان آیات میںوالدین کے لیے بچوں کی تربیت کا ایک ایسا انوکھا انداز ہے جن پر عمل کر کے ایک بہترین تربیت یافتہ بچہ صالح معاشرے کا حصہ بن سکتا ہے لقمان علیہ السلام کی اس نصیحت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ رب تعالیٰ نے اس کو قرآن کا حصہ بنا دیا ہے ۔
قرآن بیا ن کر تا ہے :
وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَ يَعِظُهٗ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (لقمان : 13)
’’اور جب لقمان نے وعظ کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے فرمایا میرے پیارے بچے! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنابے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے ‘‘۔
اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ بچے کو سب سے پہلے توحید کا درس دیا جائے اور فطری طور پر بچے کے کان میں اذان پڑھنا اسی تربیت کا ایک حصہ ہے ،اگلی آیت میں فرمایا :
يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ (لقمان : 16)
’’پیارے بیٹے اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر ہو بھی خواہ پتھر کے تلے ہویا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گااللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبر دار ہے ‘‘۔
اس آیت میں لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو اللہ کی مراقبت اور ذرے ذرے کے بارے میں با خبر رہنے اور باریک بینی کا درس دے رہے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ ہماری زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اللہ کے علم میں نہ ہو اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت اس طرز پر کریں گے تو ہمارے بچوں کو اس چیز کا ادراک ہو جائے گا کہ اللہ تعالی لمحہ با لمحہ ان کی سرگرمیوں سے باخبر ہے تو وہ نافرمانی اور گناہوں کے کاموں سے بچنے کی کوشش کریں گے جس کے بعد ان کی تربیت کا اگلا قدم انتہائی آسان ہو جا ئے گا ،پھر اگلی آیت میں فرمایا :
يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (لقمان: 17)
’’اے میرے چھوٹے بیٹے تو نماز قائم رکھنا ، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا،برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنایقین مان کہ یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے ‘‘۔
اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ بچوں کی عملی تربیت میں سب پہلا درس نماز کا ہونا چاہئے اور بچوں میں یہ عادت پختہ کرنے کیلئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے اگر رہنمائی لی جائے تو ایک باپ یہ مرحلہ انتہائی آسانی سے طے کر سکتا ہے،
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مُرُوا أَوْلاَدَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِى الْمَضَاجِعِ
سنن أبي داود (1/ 185)
’’اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیںاور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کے لئے مارو اور انہیں الگ الگ سلائو ‘‘۔
اس حدیث کے مطابق بچوں کو اس فریضہ نماز کی عادت ان کی ابتدائی شعور سے ہی ڈالنا ایک باپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے اور اس کے بعد دس سال کی عمر تک اگر بچہ اس میں سستی کرے تو تأدیبی کاروائی اس عادت کی پختگی میں بہترین کردار ادا کرسکتی ہے ۔
اس کے بعد جب بچہ خود دین اسلام پر عمل کرنے لگ جائے تو اب اس کو یہ ترغیب دینی ہے کہ وہ دوسروں کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا شروع کردے اوریقینا یہ تربیت کا سب سے بنیادی رخ ہے کیو نکہ جو بچہ دوسروں کو اچھائی کی دعوت دینے لگ جاتا ہے اس کا خود برائی کی طرف مائل ہونا ناممکن ہوجاتا ہے اور اس کے بعد راستے میں آنے والی تکا لیف پر صبر کی تلقین بچے کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتی ہے، جس کے بعد کوئی بھی بچہ کسی بھی معاشرے کی سعادت مندی کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔
یہ چند بنیادی باتیں ہیں جن پر عمل کرکے اسلامی معاشرے کے بگڑتے ہوئے نوجوانوں کو صحیح سمت پر گامزن کیا جاسکتا ہے ، اللہ پاک ہمیں اپنی اولاد کی صحیح منہج پر تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ۔
تعلم ، عبادت ، نصیحت ، تصبر
یہ سب مل گیا گر تو رب کی رضا ہے
پھر اخلاص و احسان و وفق محمد