انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بنک، دونوں کا قیام 1944ء میں قلیل معیادی قرضے فراہم کرنے والے اداروں کے طور پر ہوا۔ مگر 1980ء کے معاشی بحران کے بعد ان اداروں نے مختلف ممالک کو معاشی بحران سے نجات دلانے کے لیے فوری اور مشروط قرضوں کی معاونت بھی شروع کر دی۔ یہ تو تھا ان اداروں کا ظاہری تعارف مگر درحقیت یہ معاونت کے پس پردہ مجبور ممالک کو سودی قرضوں کی بیڑیاں پہنا کر اپنا معاشی غلام بنانے کی بہت پرانی پالیسی ہے۔ جس کا تذکرہ 1903ء کے پروٹوکولز آف دی ایلڈرز آف زیان میں واضح طور پر موجود ہے۔ پروٹوکول 21 کے نکتہ 2 میں یہودی رہنما لکھتے ہیں: ’’ہم نے منتظمین کی زر پرستی اور حکمرانوں کی سستی کا فائدہ اپنی مالیت کو دگنا، تگنا اور اس سے بھی زیادہ گنا کرنے کے طور پر لیا ہے۔ ہم نے ملکوں کووہ قرضے دیے جن کی ان کو بالکل بھی ضرورت نہیں تھی۔ کیا کوئی اور اس سلسلے میں ہماری طرح کر سکتا ہے۔۔۔؟‘‘

اس سے قبل پروٹوکول 20 کے نکتہ 30 میں وہ لکھتے ہیں: ’’مختصراً، حقیقت کیا ہے کہ قرضے، خاص طور پر غیر ملکی قرضے، حکومتی ایکسچینج کی بل سازی کا مسئلہ ہے جس پر شرح فیصد عائد کر دیا جاتا ہے جو مجموعی قرضے کے سرمایہ پر لگتاہے۔ اگر قرضے کی قیمت پر 5% شرح سود وصول کیا جائے تو 20سال میں مقروض ملک اس بے مقصد سود کی اس قدر رقم ادا کر چکا ہوگا جو قرضے کی اصل رقم کے برابر ہو گی۔ اسی طرح 40 سال میںوہ قرضے کی رقم کا دوگنا ادا کر چکا ہو گا اور 60سال میںتگنا، جب کہ اس مدت کے آخر تک بھی قرض غیر ادا شدہ قرض ہی رہے گا۔‘‘

اگر آپ غور کریں تو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بنک عین انہی اصولوں کے تحت قرض کی رقم فراہم کرتے ہیں اور سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پالیسی کے تحت مقروض ممالک کی معیشت کواس طرح چلاتے ہیں کہ وہ ممالک ان اداروں کے مستقل مقروض بن جائیں اور اس کی تمام تر دولت ان اداروں کے نقدی خانوں میں بہتی چلی جائے۔

اسی پروٹوکول 20 کے نکتہ 31 میں یہودی رہنما لکھتے ہیں: ’’جب تک قرض ملکی دائرہ کا رمیں رہے گا تو غیر یہودی ممالک اسے صرف غریبوں کی جیب سے امیروں کی جیبوں تک منتقل کرتے رہیں گے مگر جب ہم کسی ایسی اہم شخصیت کو خرید لیتے ہیںجو قرضے کو اندرونی دائرہ کار سے بیرونی دائرہ کار تک پھیلا دے، تب اس ملک کی تمام تر دولت ہمارے نقدی خانوں میں بہتی چلی آتی ہے اور غیر یہودی ممالک اپنی رعایا کی تمام تر کمائی ہمیں ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

ان مقروض ممالک کے انجام کار کو بھی پہلے ہی طے کر لیا گیا ہے۔ جیسا کہ یہودی رہنما اپنے کے پروٹوکول 20 نکتہ 29 میں لکھتے ہیں: ’’ہر طرح کا قرضہ ملک کے لیے کمزوری ثابت ہوتا ہے اور حکمرانوں کے لیے ملکی حقوق اور اختیارات کے سمجھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ قرضے حکمرانوں کے سروں پر خطرے کی تلوار کی طرح لٹکتے رہتے ہیں۔ وہ اپنی رعایا سے بجائے اضافی ٹیکس وصول کرنے کے، ہمارے بینکاروں کے پاس بھیک مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلائے چلے آتے ہیں۔ غیر ملکی قرضے ایسی جونکیں ہیں جن کو ملکوںکے جسم سے اتار پھینکنے کا کوئی امکان نہیں رہتا یہاں تک کہ وہ ملک گر نہ جائیں یا ٹوٹ نہ جائیں۔ حکمران اپنی ریاستوں کو تقسیم نہیں ہونے دیتے۔ وہ زیادہ سے زیادہ مسائل کو خود حل کرنے پر مُصر رہتے ہیں یہاں تک کہ ملک لامحالہ طور پر تباہ ہو ہی جاتے ہیں۔ ایسے ممالک رضاکارانہ طور پر اپنا خون دے کر خشک ہو جاتے ہیں۔‘‘

اگر پاکستان کے معاملے میں آئی۔ ایم۔ ایف کے کردار کا جائزہ لینا چاہیں تو ایگزیکٹو ڈائریکٹر IMF کے سابق مشیر اعلیٰ اور پاکستان منصوبہ بندی کمیشن کے سینئر ایکانومسٹ ڈاکٹر میکال احمد کی وہ بات یاد آ جاتی ہے جو انہوں نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق گورنر شاہد کاردار کی موجودگی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکانومکس کے لیکچر کے دوران کہی۔

’’ہمیں یہ توجہ دینی چاہیے کہ کس طرح ہمیں ان قرضوں کے ذرائع کے طویل المیعادی صارف بن چکے ہیں اور ان کے شکنجے سے نکلنے سے قاصر ہیں اور اس طرف بھی کہ کیسے ہم دوسرے کامیاب ممالک کی طرح اس سے باہر نکلیں۔‘‘

حقیقت تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر نے مل کر دنیا کی معیشت کو تفاوت اور عدم مساوات میں ڈال دیا ہے۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی شرائط، جن کو وہ سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پالیسی کا نام دیتے ہیں، اقوام متحدہ کے ذریعے جب کسی ملک پر لاگو کرائی جاتی ہیں تو ان ممالک میں تعلیم اور صحت پر حکومتی اخراجات کو کم کر دیا جاتاہے بنیادی خوراک اور نقل و حمل پر حکومتی اعانت کم کر دی جاتی ہے۔ برآمدات کو سستا کرنے کے لیے ملکی کرنسی کی قدر کم کی جاتی ہے۔ قومی املاک کو پرائیواٹائز کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات ملازمین کی اجرت روک کر خزانہ بھرا جاتا ہے یا سرے سے ملازمین کی اجرتیں مستقلاً کم کر دی جاتی ہیں۔ اس طرح کے اقداما ت سے غربت اور بے روز گاری کی شرح بڑھ جاتی ہے او ایک مضبوط ملکی معیشت کے قیام میں حکمرانوں کی صلاحیتیں کم ہو جاتی ہیںجس کے نتیجے میں ملٹی نیشنل اداروں کو ملازمین سے ناجائز نفع حاصل کرنے، ان پر بوجھ بڑھانے اور کم تنخواہیں معین کرنے کا بھرپور موقع مل جاتا ہے۔ اگر مقروض ممالک کی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات بالکل واضح ہے کہ آئی ایم ایف مشرقی ممالک پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ملکی معیشت کی ترقی کی بجائے زیادہ توجہ ان برآمدات کی پیداوار پر دیں جن کی ضرورت مغرب کو ہے۔ جیسے تیل، سونا اور دیگر اجناس۔ ان کی اس پالیسی سے حکومتی انوسٹمنٹ کا رخ ملکی پیداوار کی بجائے ملٹی نیشنل اداروں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے اور چھوٹے پیمانے پر چلنے والی انڈسٹریز اپنی شناخت ہی برقرار نہیں رکھ پاتیں۔

اسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف اپنے مقروض ممالک پر سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پالیسی کے ذریعے دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ ان کمپنیوں کی برآمدات پر سے ٹیکس ہٹا لیں۔ اس طرح ایسی پیداوارکی قیمت برآمد کے لیے کم ہو جاتی ہے۔ انہیں پیداوار میں سے کچھ حصہ آئی ایم ایف کوٹہ سسٹم پر انوسٹ کرنے والے سرمایہ دار ممالک ایسے مقروض ممالک میں وہاں کی قیمتوں سے نسبتاً سستی فروخت کر کے کئی کئی گنا منافع کماتے ہیں جن کی وہی پیداوار وہ سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پالیسی کے ذریعے پہلے ہی مہنگی کر چکے ہوتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ایسے ممالک پر آئی ایم ایف کی طرف سے سستی اشیاء کی فراہمی کا احسان بھی چڑھا دیا جاتا ہے۔

آخر میں یہ کہوں گا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے دھوکے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ یہ ادارے مقروض پسماندہ ممالک سے سود کی مد میں وصول ہونے والی رقم پر چلتے ہیں اور اس کے باوجود خود کو مقدس اور غریب ممالک کے مددگار ادارے بتلاتے ہیں۔

(بشکریہ: روزنامہ’’جسارت‘‘)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے