ڈاکٹر موسیٰ الموسوی کی کتاب ’’اصلاح شیعہ‘‘ سے دو اہم باب کا اقتباس

عاشوراء محرم کا نام سماعت سے ٹکراتے ہی کچھ مخصوص افعال کی تصاویر ذہن میں گھومنے لگتی ہیں جن میں قائم سر فہرست ہے ماتم کا شریعت میں کیا حکم ہے اس پر بحث کرنا مقصود نہیں فی الحال ماتم حسین کے حوالے سے اہل تشیع کے جو طریقے اور اسالیب جاری و ساری ہیں ان کے حوالے سے تقریباً 25 سال قبل شائع ہونے والی ایک کتاب اصلاح شیعہ جو کہ معروف شیعہ عالم ڈاکٹر موسی الموسوی کی تالیف ہے۔ جو کہ سید ابوالحسن الموسوی الاصفہانی کے پوتے ہیںاور نجف اشرف میں پیدا ہوئے اور وہیں سے ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے مراحل طے کیے اور دنیا کی مختلف جامعات میں تدریسی فرائض انجام دیے، ایرانی انقلاب کے ایک معتبر شاہد ہیں عمومی طور پر ڈاکٹر موسی الموسوی اپنی تالیفات کے آئینے سے ایک معتدل مزاج عدل پسند مصنف صاحب علم و نظر شیعہ محقق نظر آتے ہیں۔

اس کتاب کے مقدمے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شیعہ مذہب فکری طور پر انحراف کا شکار ہو چکا ہے اس حوالے سے ان کی یہ کتاب عالم اسلام میں بہت مشہور ہوئی تھی درج ذیل تحریر ان کی اس کتاب سے ماخوذ ہے گو کہ ان کی اس تحریر کے بعض مندرجات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بغرض افادہ کتاب سے دو اہم باب قارئینِ اسوۂ حسنہ کے لئے شائع کر رہے ہیں۔ جس میں شیعہ اور غیر شیعہ دونوں کے لیے اصلاح کا پہلو موجود ہے۔

عاشوراء محرم کو سنگینوں اور زنجیروں سے ماتم کرنا:

مؤلف محترم نے پہلے فکری انحراف کا افتصارانہ جامعیت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے آخر میں اصلاحی تجاویز بھی دی ہیں جس سے کتاب کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔

ضرورت کا تقاضا ہے کہ ہم دس محرم کو سیدناحسین رضی اللہ عنہ کے غم میں آہنی زنجیروں سے کندھے پیٹنے تلواروں اور سنگینو ں سے سرپھوڑنے کا ذکر مستقل فصل میں کریں۔

چونکہ یہ بد صورت مظاہرہ تاحال شہادت حسین کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریبات و مجالس کی رسموں کا حصہ ہے اور ہرسال ایران پاکستان ہندوستان اور لبنان کے نبطی علاقہ میں برپا ہوتا ہے اور پاکستان کے بعض علاقوں میں تو اہل السنۃ اور شیعہ کے درمیان خونی معرکے کا سبب بنتا ہے۔ فریقین کی سینکڑوں بے گناہ جانیں اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالنا ضروری ہے۔

جیسا کہ ہم گزشتہ فصل میں کہہ چکے ہیں کہ شیعہ کئی صدیوں سے عاشوراء محرم کا دن بطور یاد گار مناتے ہیں ان زیارتوں کی قرات کے علاوہ جن کا ہم تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں اس دن شیعہ شعراء قبر حسین ؓ کے پاس اپنا ’’عصماء‘‘ نامی قصیدہ پڑھا جس کا مطلع ہے۔

کربلاءُ لازلت کرباً وبلا

اور جب درج ذیل شعر پر پہنچا:

کم علی تربک لما صرعوا
من دم سال ومن قتل جری

تیری قبر پر جب معرکہ بپاہوا تو کس قدر خون بہا اور کتنے ہی قتل ہوئے۔

تو رونے لگا اور اس قدر رو دیا کہ بے ہوش ہو گیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ آئمہ شیعہ محرم کی دس تاریخ کو اہتمام سے مناتے اپنے گھروں میں بیٹھ رہتے، زائرین سے تعزیتیں قبول کرتے، اس دن لوگوں کو کھانا بھی کھلاتے، ان کے سامنے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے فضائل اور ان کے شہادت کی یاد میں قصیدے پیش کرتے اور خطبے دیتے۔

زائرین کربلا میں اور قبر حسینؓ کے پاس جلوس کی صورت میں اور انفرادی طور پر گزرتے اور گریہ زاری کرتے ہوئے مذکورہ زیارتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور یہ بھی اس احتفال و زیارت کا حصہ ہے اور یہ رسم جو شیعی دنیا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے منعقدہ مجالس میں اب تک جاری ہے اس کا خاتمہ لازماً آہ و بکا پر ہوتا ہے کیوں کہ:

من بکی او تباکی علی الحسین وجبت علیہ الجنۃ

جو شخص حسین ؓ کے غم میں رویا یا مکر سے ٹسوے بہائے اس کے لیے جنت واجب ہے۔

جیساکہ آئمہ کی طرف منسوب بعض روایتوں میں ذکر ہے (نعوذ باللہ) کیا آئمہ ایسی بات کہہ سکتے ہیں؟

ایسے ہی شیعہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں محرم و صفر میں سیاہ لباس پہنتے ہیںاور اس سیاہ پوشی کی عادت نے اس وقت خاصی وسعت اختیار کر لی جب شیعہ اور تشیع میں پہلا معرکہ بپاہوا اور جب شیعہ سیاسی اور اسلامی سٹیج پر ایک ایسی قوت بن کر ابھرے جو برسراقتدار خلافت کو ملیا میٹ کر دینا چاہتی تھی۔

عاشوراء محرم کی تقریبات کی ترویج و ترقی میں بویہی خاندان کا بھی بڑا واضح کردار ہے جنہوں نے ایران و عراق پر خلافت عباسیہ کی حمایت کے نام سے حکومت کی لیکن ان محفلوں نے اس وقت عام رواج پکڑا اور شیعی طبیعت و مزاج کا گویا حصہ بن گئیں جب شاہ اسماعیل صفوی نے زمام اقتدار سنبھالی اور ایران کو شیعت میں داخل کر دیا اور اہل ایران میں مذہب کے ساتھ خصوصی تعلق پیدا کر دیا تاکہ ایران کے پڑوس میں واقع ممالک خلافت عثمانیہ کے مقابلے میں ڈٹ جائیں جیساکہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں اور صفوی شاہی دربار ہر سال عشرہ محرم میں سوگ منانے کا اعلان کرتا اور عاشوراء کے دن تقریب کے لیے آنے والوں کا استقبال شاہ خود کرتا شاہی محل سرا میں اس غرض سے خاص محفلیں منعقد ہوتیں جس میں عام لوگ جمع ہوتے اور شاہ بذات خود ان میں حاضری دیتا۔ ایسے ہی شاہ عباس اول صفوی جس نے پچاس برس حکومت کی اور وہ شاہان صفویہ میں قوت گرفت اور مکاری و عیاری میں سب سے بڑھا ہوا تھا وہ بھی عاشوراء محرم کو سیاہ لباس پہنتا اور اپنی پیشانی پر کیچڑ مل لیتا اور جلوس جب امام کی مدح اور ان کے قاتلوں کے خلاف اظہار نفرت کرنے کے لیے مرثیے گاتے ہوئے سڑکوں پر چلتے تو شاید مذکورہ ان کی قیادت کرتا تھا۔

ہمیں یہ تو بالضبط معلوم نہیں ہو سکا کہ عاشوراء کے دن آہنی زنجیروں سے کندھے پیٹنے کا آغاز کب ہوا اور ایران، عراق وغیرہ جیسے شیعی علاقوں میں اس رسم نے کب رواج پایا لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تلواروں سے سرکوبی اور اسے زخمی کر کے عاشوراء محرم کو حضرت حسینؓ پر اظہار غم کا طریقہ ایران اور عراق میں ہندوستان سے انگریزی استعمار کے زمانے میں گیا ہے اور انگریز شاطر نے شیعہ کی جہالت سادگی اور امام حسین کے ساتھ اندھی عقل سوز محبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں امام کے غم میں سرکوبی کی تعلیم دی۔

حتی کہ ماضی قریب میں بھی بغداد اور تہران میں برطانوی سفارت خانے حسینی تعزیہ کے جلوسوں کی مدد کرتے رہے ہیں جو اسی مذکورہ بالا بد ترین مظاہرے کی شکل میں گلیوں اور بازاروں میں چکر لگاتے تھے انگریزی استعمار کے ان بد ترین جلوسوں کی کاروائی کی ترویج و اشاعت کے پس پردہ انتہائی مکروہ سیاسی مقاصد تھے وہ ان کی نمائش کو برطانوی عوام اور آزاد اخبارات کے سامنے جو حکومت برطانیہ کے ہندوستان اور دیگر اسلامی ممالک میں نو آبادی نظام کی مخالفت کر رہے تھے بطور ایک معقول وجہ جواز کے پیش کرنا چاہتا تھا کہ وہ ان ممالک کے عوام کے وحشیانہ مظاہر سے یہ ثابت کر سکے کہ یہ قومیںکسی ایسے منتظم کی محتاج ہیں جو انہیں جہالت و بربریت سے نکال سکے۔ یہ تعزیتی جلوس جو دس محرم کو عام بازاروں کے چکر لگاتے ان میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے جو آہنی زنجیروں سے اپنی پیٹھوں کو لہولہان کر لیتے تلواروں اور خنجروں سے اپنے سروں کو زخمی اور خون آلود کر لیتے ان کی تصویریں یورپ کے انگریزی اخبارات میں چھاپی جاتیں اس سے شاطر سامراجی یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جن اقوام کی ثقافت کا مظہر یہ تصویری جھلکیاں ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے ذریعے ان ممالک کے عوام کو شہریت و ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہماری انسانی ذمہ داری ہے۔

کہتے ہیں کہ عراق میں انگریزی عہد اقتدار میں اس وقت کے عراقی وزیراعظم یاسین ہاشمی جب انگریزی راج ختم کرانے کے لیے مذکرات کرنے لندن گئے تو انگریز نے ان سے کہا ہم تو صرف اس لیے عراق میں رکے ہوئے ہیں کہ عراقی قوم کو احمقانہ انارکی سے نکالیں تاکہ وہ ہم دوش سعادت ہوسکے۔ یاسین ہاشمی اس بات پر برافروختہ ہو کر غصے کی حالت میں کمرہ مذاکرات سے باہر نکل آئے تو انگریز نے ان سے بڑی لجاجت اور نرم خوئی سے معذرت کر لی پھر پورے احترام سے ہاشمی کو عراق کے بارے میں ایک دستاویزی فلم دیکھنے کو کہا جس میں نجف کربلا اور کاظمیہ کی شاہراہوں پر چکر لگاتے ہوئے تعزیہ حسین کے جلوس دکھائے گئے تھے جو بڑے خوفناک اور قابل نفرت منظر پیش کر رہے تھے گویا انگریز یہ کہنا چاہتا تھا کہ جس قوم میں ذرہ بھر بھی تہذیب کا حصہ ہو وہ خود اپنے ساتھ یہ مار دھاڑ کر سکتی ہے؟

یہاں ایک پر لطف روشن خیالی اور حکمت پر مشتمل مکالمہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یہ گفتگو میں نے تیس برس قبل شیعہ فرقہ کے ایک بڑے عالم اور شیخ سے سنی تھی۔ وہ باوقار کبیر السن شیخ دس محرم کے دن دوپہر بارہ بجے مقام کربلا میں روضہ حسینؓ کے قریب میرے پاس کھڑا تھا اسی اثناء میں ایک جلوس بھنگڑا ڈالتا ہوا آیا سروں کو تلواروں سے زخمی کئے ہوئے غم حسین میں خون نہاتے ہوئے ایک جم غفیر روضہ حسین پر وارد ہوا پیشانیوں اور پہلوؤں سے بھی خون بہہ رہا تھا انتہائی قابل نفرت شکل میں جسے دیکھ کر بدن کے رونگے کھڑے ہوتے تھے پھر اس کے پیچھے ایک اور جلوس آگیا وہ بھی بہت بڑی مقدار میں تھا اور زنجیروں سے اپنی کریں پیٹ کو خون آلود کئے ہوئے تھے ان جلوسوں کو دیکھ کر وہیں اس بوڑھے شیخ اور وسیع الظرف عالم نے کچھ سوالات کئے اور ہمارے مابین درج ذیل گفتگو ہوئی۔

شیخ نے پوچھا: ان لوگوں کو کیا ہو گیاہے یہ خود ہی اپنی جانوں کو ان مصائب و آلام میں مبتلا کئے ہوئے ہیں؟

میں نے کہا: آپ سن نہیں رہے یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ ہائے حسینؓ ہائے حسینؓ تو پکار رہے ہیں جس کا مطلب واضح ہے کہ یہ ماتم حسینؓ میں اپنی یہ حالت بنائے ہوئے ہیں۔

پھر شیخ نے نیا سوال کیا: کیا حسینؓ اس وقت قادر مطلق بادشاہ کے پاس پاک مقام میں نہیں ہیں۔

میں نے کہا: یقیناً وہیں ہیں۔

شیخ نے پھر پوچھا: کیا اس وقت حسینؓ اس جنت میں نہیں ہیں ۔

جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی طرح ہے وہ متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

میں نے کہا: ہاں (بالکل اسی جنت میں ہیں)

شیخ نے سوال کیا: کیا جنت میں بڑی بڑی آنکھوں والی تہ کئے ہوئے آبدار موتیوں کی حوریں نہیں ہیں؟

میں نے کہا: ہیں۔

شیخ نے ٹھنڈی آہ بھری اور رنج و غم سے بھر پور لہجے میں کہا صد افسوس ان بد دماغ جاہل لوگوں پر کہ یہ اس وقت امام مرحوم کی خاطر اپنی یہ حالت بنائے ہوئے ہیں جبکہ امام اسی لمحے جنت اور اسکی نعمتوں میں ہیں اور دائم نوجوان خدمت گزار ان کے آس پاس آفتابے، آب خورے اور شراب ناب کے گلاس لے کر پھر رہےہیں۔

۱۲۵۲ ہجری میں جب شام کے سب سے بڑے شیعی عالم سید محسن امین عاملی نے ان جیسے اعمال کے حرام ہونے کا اعلان کیا اور اپنی رائے کے اظہار میں عدم النظیر جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیعہ سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ طوفان برپاکرنے سے باز آجائیں تو انہیں علماء کی صفوں میں سے ہی بعض مذہب کے ٹھیکیداروں کی طرف سے بڑی زور دار مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور مذہب کے ان اجارہ داروں کے پیچھے حضرت علیؓ کے الفاظ میں یہ کمینے بے لگام اور بیوقوف لوگوں کی طاقت تھی اور قریب تھا کہ سید امین کے یہ اصلاحی اقدامات ناکامی سے دوچار ہونے اگر ہمارے دادا مرحوم سید ابوالحسن شیعہ کے زعیم اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے مؤقف کی تائید کرکے ان کی پشت پناہی نہ کرتے جد امجد نے ان اعمال کے خلاف سید امین کی رائے کے حق میں غیر مشروط تائیدی اعلان کیا اور اس کی حمایت میں فتویٰ جاری فرمایا:

سید امین کی اصلاحی تحریک کے حق میں ہمارے دادا مرحوم کے تائیدی مؤقف کے بڑے دور رس اثرات ظاہر ہوئے اگرچہ سید ابو الحسن کے خلاف بھی کئی مجتہدین اور فقہانے آواز اٹھائی جیسا کہ اس سے قبل سید امین کا ان سے پالا پڑا تھا مگر سید ابو الحسن نے بالآخر اپنے ارفع و اعلیٰ مقام و مرتبہ کی وجہ سے سب کو زیر کر لیا اور جمہور شیعہ نے اس بزرگ ترین راہنما کا فتوی تسلیم کرتے ہوئے اس کی اطاعت شروع کر دی اور آہستہ آہستہ ان اعمال شنیعہ میں کمی واقع ہونے لگی اور یہ شیعیت کی سکرین سے غائب ہونے لگے لیکن اس کے آثار بالکل مٹنے نہ پائے تھے بلکہ کچھ کمزور سے مظاہر ابھی باقی تھے کہ جد امجد رحمہ اللہ ۱۳۶۵؁ میں وفات پا گئے تو شیعیت کی نو خیز لیڈر شپ نے نئے سرے سے لوگوں کو ان اعمال کے لیے اکسانا شروع کر دیا اور ان کے اثرات پھر سے شیعی دنیا میں رونما ہونے لگے لیکن وہ صورتحال دوبارہ نہیں آئی جو ۱۳۵۲؁ سے پہلے تھی۔

اور جب ایران میں اسلامی جمہوریت کا اعلان ہوا اور اقتدار پر ولایت فقیہ نے قبضہ کیا تو مذہبی سیاست کے حصے کی حیثیت سے ان اعمال کے احیاء کے لیے احکام صادر ہوئے اور تازہ دم اسلامی جمہوریہ نے پوری دنیا میں موجود شیعہ کو مالی اور اخلاقی مدد کر کے اس بدعت کے احیاء کے لیے برانگیختہ کیا جسے انگریزی استعمار نے دو سو برس قبل عالم اسلام کے شیعی علاقوں میں رواج دیا تھا انگریز کا مقصد یہ تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ قبیح اور بدنما مظہر دنیا کے سامنے پیش کر کے عالم اسلام پر اپنے استعمار کا جواز حاصل کر سکے جیساکہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔

اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں صد افسوس کہ پاکستان، ایران ہندوستان اور لبنان کے شہروں میں دس محرم کو ہر سال بڑے بڑے جلوسوں کے مظاہرے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی وحشیانہ صورت میں سڑکوں پر گشت کرتے ہیں جس کی ہم تصویر کشی کر چکے ہیں اور پھر اسی روز خوفناک جنون اور انسانی حماقت کی منہ بولتی تصویریں مشرق ومغرب کی ٹی وی سکرین پر دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں پر بڑے وقت کا انتظار کرنے والے دشمنان اسلام کی تقویت کا باعث بنیں۔

اصلاح:

امامیہ شیعہ کے تعلیم یافتہ اور مہذب طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جاہل عوام کو ہر ممکن کوشش کر کے اس قسم کے کاموں سے روکیں جنہوں نے حضرت امام حسینؓ کی انقلابی تحریک کا چہرہ مسخ کر کے اس کی شکل بگاڑ دی ہے اور مبلغ اور واعظ حضرات پر تو اس سے بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اس بارے میں واضح ترین کردار ادا کریں یہاں میں پوری صراحت و وضاحت سے اس حقیقت کا اظہار کر دینا چاہتا ہوں کہ عاشوراء محرم کو شہادت حسین کا مقصد و سبب اس سے بہت بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ تھا جسکی تصویر آج شیعہ پیش کرتے ہیں۔ آپ نے ہرگز جام شہادت اس لیے نوش نہیں کیا تھا کہ لوگ ان کے غم میں روئیں، چہرے پیٹیں اور درماندہ مسکین کی سی صورت اختیار کریں بلکہ امام ممدوح تو ظلم و استبداد کے مقابلے میں شجاعت و بہادری عزم بالجزم اور جان تک قربان کر دینے کا مؤثر ترین درس دینا چاہتے تھے چنانچہ (اگر ضروری بھی ہو تو) شہادت حسین کی یاد میں منعقد محفل امام کے مقام و مرتبہ کے شایان شان اور طوفان بدتمیزی جہالت بیک وقت مضحکہ خیز اور رلا دینے والے اعمال سے ہٹ کر ہونی چاہیے۔ وہ ثقافتی اجتماعات کس قدر خوبصورت ہوں جن میں بلیغ خطبے اور قصائد پیش کئے جائیں جو راہ حق میں جان دینے اور جہاد کرنے سے متعلق ہیں۔

اس طریقے سے تعمیری انداز میں حسینؓ کی یاد میں اپنی تربیت کرنی چاہیے تخریبی انداز اختیار کر کے اپنے کو ہلاک نہیں کرنا چاہیے اور ہم پر یہ قرض ہے کہ حماقت و مدافعت کے میدان میں حسین کا حق ادا کریں نہ کہ مسئلے کا حلیہ بگاڑ کر موصوف کے ساتھ اہانت و بد سلوکی کے مرتکب ہوں۔ اگر ہم امام حسین ؓ کے ساتھ محبت و نصرت کا جذبہ صادق رکھتے ہیں تو ہمیں مذکورہ طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا۔

ٹکیاـ:

کم ہی شیعہ کا کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں مٹی کی وہ ٹکیا نہ ہو جس پر شیعہ اپنی نمازوں میں سجدہ ریز ہوتے ہیں وہ خاک کربلا ہوتی ہے جہاں حضرت حسین ؓ نے شہادت پائی اور وہیں ان کا جسد پاک مدفون بھی ہے۔

اور میں بخوبی جانتا ہوں کہ ہمارے فقہاء خاکِ کربلا پر سجدے کے موضوع پر کیا کہتے ہیں وہ مکان سجود اور ذات مسجود میں فرق کرتے ہیں یعنی خاک کربلا پر پیشانی رکھنے کا مطلب اس کو سجدہ کرنا نہیں بلکہ اس پر سجدہ کرنا ہے کیونکہ شیعی مذہب میں صرف مٹی اور اس سے نکلی ہوئی اشیاء پر ہی سجدہ جائز ہے لباس یا اس سے بنی ہوئی اور خوردنی چیزوں پر سجدہ روا نہیں ہے۔

ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ خود شیعہ بھی یہ جانتے ہیں کہ خاکِ کربلا پرسجدہ کا مسئلہ اسی فقہی حد تک پہنچ کر رک نہیں جاتا یا یہ صرف مٹی پر سجدے کی بات نہیں ہے بلکہ اس سے بہت دور نکل چکا ہے جو لوگ اس مٹی پر سجدہ کرتے ہین ان میں بہت سے اسے بوسہ دیتے اور تبرک حاصل کرتے ہیں اور بعض اوقات تو حصول شفاء کے لیے خاکِ کربلا میں سے کچھ کھا بھی لیتے ہیں حالانکہ شیعی فقہ میں مٹی کھانا حرام ہے پھر ان لوگوں نے مٹی کی مختلف شکلیں بنا رکھی ہیں جنہیں اپنی جیب میں رکھتے ہیں اور سفر میں جہاں جائیں ساتھ لے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ تقدیس و تکریم کا سلوک کرتے ہیں۔

میرے ان سطور کی تالیف تک مشرق و مغرب میں لاکھوں شیعہ پابندی سے خاک کربلا پر سجدہ کر رہے ہیں ان کی مسجدیں بھری پڑی ہیں اور جب کہیں دوسرے اسلامی فرقوں کی مسجدوں میں نماز پڑھیں تو تقیہ پر عمل کرتے ہوئے اسے چھپائے رکھتے ہیں۔ غیر شیعہ کے اعتراض کے خوف سے ظاہر نہیں کرتے کئی غیر شیعہ حضرات کو اشتباء ہوا اور انہوں نے سمجھا کہ مٹی کی یہ مختلف شکلیں بت ہیں جن پر شیعہ سجدہ کرتے ہیں بعض شہروں میں تو قریب تھا کہ فتنے کھڑے ہو جاتے جہاں لوگ خاکِ کربلا اور اس کے مظاہر کے بارے میں کچھ بارے نہیں جانتے۔ معلوم نہیں یہ بدعت کب شیعہ کی صفوف میں در آئی جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خاک کربلا پر سجدہ نہیں کیا مٹی کو مقدس سمجھنے کا عقیدہ بھی مسلمانوں میں معروف نہ تھا ممکن ہے اس رواج نے صفویوں کے عہد میں وسعت اختیار کی ہو جب خاص رسوم کے سلسلے میں کربلا کی زیارت کے لیے قافلوں کی آمد شروع ہوئی اور وہاں سے واپسی پر قبر حسینؓ کے آثار ساتھ لے جانے لگے۔

خاک کربلا کے (نماز میں) استعمال کے ساتھ ایک اور بدعت کا بھی اضافہ کیا گیا جو دیگر بدعتوں کی نسبت حد سے تجاوز کر گئی ہے وہ ہے فقہاء کا فتویٰ کہ مسافر جب قبر حسینؓ کے احاطے میں ہوں تو قبر کے اردگرد پندرہ ہاتھ کے ایریا میں قصر کرنے کی بجائے پوری نماز ادا کریں حالانکہ ہمارے فقہاءکے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ مسافر پر نماز قصر ادا کرنا ہی واجب ہے لیکن انہوں نے قبر حسینؓ کے احاطہ کو اس قاعدہ سے مستثنیٰ کر دیا ہے۔ میں نہیں سمجھ پایا کہ ہمارے فقہاء نے اللہ انہیں معاف کرے ایک ایسے معاملے میں اجتہاد کی ہمت کیسے کی جس کی اصل اور فرع کا عہد نبوی میں کہیں نام ونشان تک نہیں تھا تاآنکہ شریعت پایہ تکمیل کو پہنچ گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔

کیا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احاطہ قبر حسینؓ میں اس نام کی کسی چیز کے وجود سے قبل ہی وہاں مسافر کو پوری یا قصر نماز کا اختیار دے دیا تھا یا قانون الٰہی نے ایسے موضوع پر شرعی حکم دے دیا تھا جس کا اس وقت کہیں نشان بھی نہ تھا؟

کچھ ایسی روایات ملتی ہیں جو ائمہ شیعہ کی طرف منسوب ہیں اور اس قبر کا اختیار دیتی ہیں اور ہمارے فقہاء نے اپنے مذکورہ فتووں کی بنیاد انہی روایات پر رکھی ہے۔

اس خطرناک نظریے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے فقہاء کے نزدیک امام قانون سازی کا ماخذ (SOURCE OF LAW) ہے جیسا کہ شیعہ اور تشیع میں اختلاف کا معرکہ برپا ہونے سے قبل بھی شیعان اہل بیت ائمہ کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے تھے اور اس وقت تشیع سے مراد یہ تھا کہ ائمہ اہل بیت احکام اسلام کو باقی لوگوں کی نسبت بہتر جانتے ہین کیونکہ قرآن ان کے گھر میں نازل ہوا جیساکہ ہم اس کی طرف ایک سے زیادہ مرتبہ اشارہ کر چکے ہیں۔ فی الواقع بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس قسم کے نظریے کا وجود کئی فقہاء کے دلوں میں کھٹکتا ہے اگرچہ انہوں نے کھل کر اس کا اظہار نہیں کیا وگرنہ احاطہ قبر حسین میں مسافر کے لیے نماز قصر کرنے اور پوری پڑھنے کے اختیار کا فتویٰ چہ معنی دارو؟ کس شرعی قاعدے اور اصول کی بنیاد پر احاطہ حسین کو یہ امتیاز حاصل ہوا ہے اور اس احاطے کے وجود میں آنے سے نصف صدی پیشتر ہی اس کے بارے میں آسمانی حکم الٰہی نازل ہوگیا؟

ہم یہاں ایک بار پھر اپنی وہی بات دہرائیں گے کہ اس گہری فکری پس ماندگی سے جس نے صدیوں سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور آج تک ہمیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ راہ راست پر گامزن ائمہ ہدایت کی طرف منسوب اس قسم کی روایتوں سے ہماری کتابوں کی چھانٹی کی جائے ہمارے آئمہ ان روایات سے بری الذمہ ہیں۔ ایسے ہی ہمارے فقہاء کے ذہنوں کی صفائی ہونی چاہیے ان بدعتوں کی ایجاد و ترویج کے پس پردہ اکثر و بیشتر انہی کا ہاتھ ہے۔ ائمہ نے اپنی طرف سے تو قوانین ایجاد نہیں کئے اور نہ ایسے احکام دئیے ہیں جن کا نام و نشان کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں نہ ملتا ہو اس قسم کا تو دعویٰ بھی انہوں نے نہیں کیا بلکہ ان کا طرّہ امتیاز تو صرف یہی ہے کہ وہ کتاب اللہ اور اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے خوب واقفیت رکھتے تھے اور انہوں نے کاشانہ رسالت اور مہیط وحی میں علم حاصل کیا اور احکام شریعت نسلاً بعد نسل اپنے بڑوں سے اخذ کئے۔

اصلاح

اگر شیعہ اس فقہی قاعدے کی پابندی کرتے جو ہمارے فقہاء نے مٹی اور اس سے ماخوذ اشیاء پر سجدے کے بارے میں وضع کیا تھا اور ہمارے فقہاء اس فتویٰ پر کار بند بھی رہتے تو معاملہ اس قدر گرا نبار نہ ہوتا اور دیگر اسلامی فرقے بھی اس رائے کو قبولیت اور احترام کی نظر سے دیکھتے۔

مگر ہوا یہ کہ شیعہ ہمارے فقہاء کے عمل پر چلتے ہوئے اس فقہی قاعدے سے بھی تجاوز کر گئے اور اس سے ایک خاص عادت اخیتار کر لی اور ایک خاص مقام کربلا کی مٹی پر سجدہ شروع کر دیا اور اس مٹی کی لمبی گول اور مربع شکلیں بنا لیں جنہیں وہ سفر و حضر میں برابر اپنے ساتھ اٹھائے رکھتے ہیں تاکہ نماز کے وقت ان پر سجدہ کر سکیں۔

اور یہ بھی شیعہ کی عادت بن چکی ہے کہ جب وہ دیگر اسلامی فرقوں کی مسجدوں میں نماز ادا کرتے ہیں تو اس مٹی کو تقیہ پر عمل کرتے ہوئے یا اس ڈر سے چھپائے رکھتے ہیں کہ کہین اس کے متعلق شورش برپا نہ ہو جائے یا اکثریت سے شرماتے ہیں جو ان کے اس کام کو تعجب و تمسخر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

حقیقتاً یہ بات بڑے رنج و غم اور افسوس کا باعث ہے کہ شیعہ ایک ایسے عمل کی پابندی کرتے ہوئے جس کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ اس درجہ ذلت میں گر جائیں اللہ کے نزدیک اس کی عبادت میں اس ملاوٹ سے بڑھ کر کوئی چیز باعث ناراضگی نہیں ہوگی۔

اگر شیعہ یہ سمجھتے ہیں کہ خاک کربلا پر سجدے سے مسئلے میں وہ برحق ہیں تو پھر وہ اسے اپنے سنی برادران دین کے سامنے ظاہر کرتے ہوئے خوف کیوں کھاتے ہیں جبکہ ان کی کتاب ایک نبی ایک قبلہ ایک اور نماز بھی ایک ہی ہے اگر وہ حق پر نہیں ہیں تو پھر اس پر اس قدر اڑے ہوئے کیوں ہیں اور انہیں شرمندگی اور خوف کیوں لاحق ہے؟

جیساکہ ہم قبل ازیں بھی عرض کر چکے ہیں کہ دین سے الگ اس طریقہ کار کی ایجاد میں فقہاء و اساطین مذہب کا بڑا کردار ہے جنہوں نے شیعہ کو اس کاخوگر بنایا اور وہ ان سطور کے رقم کئے جانے تک اسی طریقہ پر چل رہے ہیں ہماری اس صدائے اصلاح کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم شیعہ کو مٹی پر سجدہ نہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

جعلت لی الارض مسجداو طھورا

تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور حصول طہارت کا ذریعہ بنائی گئی ہے۔

اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں اپنی مسجد میں مٹی پر سجدہ کرتے تھے۔ لیکن ہم یہ بھی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں کہ شریعت میں زمین کے ایک حصے کی دوسرے حصے پر فضیلت اگر ثابت بھی ہو تو اس کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ سجدہ صرف اسی خاص زمین پر کیا جائے ورنہ مسلمان خاک مکہ و مدینہ اپنے ساتھ اٹھائے پھرتے تاکہ اس پر سجدہ کر سکیں۔

شیعہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے تمام امور میں نظریاتی تقلید کا بندھن توڑ دیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ وہ بالکل باطل ہونے کے باوجود ان پر ٹھونس دئیے گئے ہیں تاکہ قوی دلیل کے پیش نظر سر بلند کر کے برابری کی بنیاد پر وسیع اسلامی صف میں شامل ہو سکیں نہ کہ ایسی بدعتوں کی خاطر جنہیں وہ دوسروں کی نسبت بہتر جانتے ہیں تقیہ جیسی ذلت برداشت کر کے دوغلی شخصیت اپنا کر عزت و کرامت سے آنکھ چرا کر مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں۔

میں ایک بار پھر اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ہم شیعہ سے اس سے زیادہ کوئی مطالبہ نہیں کرتے کہ مٹی اور اس سے ماخوذ چیزوں مثلاً لکڑی چٹائی اور کنکریوں پر سجدہ صحیح ہونے کے متعلق اسی رائے پر عمل کریں جس پر مسلمانوں کےتمام فقہاء کا اجماع ہے اور شیعہ فقہاء بھی ان میں شامل ہیں ان میں سے جس پر سجدہ درست ہے اسی پر کریں اس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام علیؓ اور آئمہ کی پیروی کریں گے جنہوں نے کبھی خاک کربلاء نامی کسی چیز پر سجدہ نہیں کیا اور خاک کربلا پر سجدہ کی پابندی ترک کر دیں گے جس میں بیک وقت بدعت اور فرقہ بندی کے تمام اثرات موجود ہیں اور مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ دیگر اسلامی فرقوں کو جونہی اس فقہی نظریہ کا علم ہو گا جس کی اجتہاد پر ہے تو یقیناً وہ کسی ایسی مسجد کی ضمانت دے دیں گے جو شیعہ کے اپنی مساجد میں اس اہتمام کے لیے موزوں ہو اور وہ انہیں چٹائی یا اس سے ملتی جلتی کوئی زمین یا درخت سے ماخوذ چیز مہیا کر دیں گے تاکہ ان کے دینی بھائیوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے