اللہ رب العزت کي بے شمار نعمتوں ميں سے ايک نعمت رمضان المبارک بھي ہے اسي ليے نبي کريمﷺ اس ماہ رمضان کا شدت سے انتظار فرمايا کرتے تھے اس ليے کہ يہ مہينہ ہميں اللہ کے بہت قريب کر ديتا ہے اس مہينہ کي عبادات جيسے تلاوت قرآن، صدقہ وخيرات، صبر و شکر، بھائي چارگي اور خير خواہي وغيرہ مسلمان بہت اہتمام سے کرتے ہيں اور پھر روزہ سب سے بڑھ کر اس مہينہ کي عبادت ہے جس کے بارے ميں نبي کريمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ رب العزت فرماتے ہيں:

كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ، فَلَا يَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ، وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ، مَرَّتَيْنِ

’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے ليے ہے سوائے روزے کے۔ روزہ ميرے ليے ہے اور ميں ہي اس کے ليے جزا دوں گا اور روزہ (آگ سے) ڈھال ہے لہذا جس روز تم ميں سے کسي کا روزہ ہو اس روز وہ فحش گوئي نہ کرے اور نہ ہي بيہودہ کلام کرے اور اگر کوئي دوسرا گالي دے يا لڑائي کرے تو روزہ دار کو (صرف اتنا کہنا چاہيے) کہ ميں روزہ سے ہوں۔‘‘   (مسند أحمد (13/ 126)

نيز ايک اور مقام پر نبي مکرمﷺ کا فرمان ہے :

فِي رَمَضَانَ تُفَتَّحُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَتُغَلَّقُ أَبْوَابُ النَّارِ وَيُصَفَّدُ فِيهِ كُلُّ شَيْطَانٍ مَرِيدٍ

’’جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول ديئے جاتے ہيں اور جہنم کے دروازے بند کر ديئے جاتے ہيں اور شياطين قيد کر ديئے جاتے ہيں۔‘‘ (مسند أحمد (31/ 91)

روزہ کے متعلق ايک مقام پر نبي اکرمﷺ کا ارشاد ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللهِ، بَعَّدَ اللهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا (صحيح البخاري (4/ 26)

سيدنا ابو سعيد الخدري رضي اللہ عنہ فرماتے ہيںکہ ميں نے نبي کريمﷺ سے سنا وہ فرماتے ہيں کہ جو شخص اللہ کي راہ ميں ايک دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ اس ايک دن کے بدلے ميں اس کے چہرے کو جہنم کي آگ سے ستر (70) سال دور کر ديتا ہے۔

رمضان المبارک کے فرضي روزوں کے علاوہ نفلي روزے بھي ہيں جس ميں سے شوال کے چھ روزے ہيں جن کے بارے ميں نبي کريمﷺ کا فرمان ہے:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ(صحيح مسلم (2/ 822)

يعني جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ (نفلي) روزے رکھے تو يہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کے مانند ہے۔

اس ليے کہ ايک نيکي کا اجر کم از کم دس گنا ہوتا ہے جو شخص پورے رمضان کے مہينے کے روزے ايمان اور احتساب کے ساتھ رکھتا ہے اسے (ان شاء اللہ) دس مہينے کے روزوں جتنا ثواب ملتا ہے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھي رکھ ليے جائيں تو وہ (ان شاء اللہ) دو مہينوں کے روزوں کا اجر پاتا ہے اور يوں گويا پورے سال کے روزوں کے اجر کا مستحق ہو جاتا ہے اور جس شخص کا يہ مستقل معمول ہو جائے تو وہ ايسا ہے جس نے پوري زندگي روزوں کے ساتھ گزاري وہ عند اللہ ہميشہ روزہ رکھنے والا شمارہ ہوگا۔ الغرض ان چھ روزوں کي بڑي اہميت ہے شوال کے چھ روزے متواتر (لگاتار) رکھ ليے جائيں يا ناغہ کر کے دونوں طريقوں سے جائز ہيں۔

اسي طرح اگر کسي کے فرضي روزے بيماري يا سفر يا کسي اور شرعي عذر کي وجہ سے رہ گئے ہوں تو ان کے ليے ضروري ہے کہ پہلے وہ فرضي روزوں کي قضا ديں شوال کے چھ نفلي روزے اس کے بعد رکھيں۔ جيسا کہ صحيح مسلم ميں بني اکرمﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ (صحيح مسلم ، باب استحباب صوم ستة ايام من شوال اتباع لرمضان، 1164)

جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔

اس حديث سے يہ واضح ہوتا ہے کہ شوال کے چھ روزے رمضان کے چھوڑے گئے فرضي روزوں کے بعد رکھے جائيں کيونکہ رمضان کے روزے فرض ہيں اور ان کي قضا لازمي ہے جبکہ شوال کے روزے نفل ہيں اور نفل پر قضا نہيں ہوتي۔

رسول اللہﷺ نے شوال کے روزوں کي فضيلت يوں بيان فرمائي:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ (المعجم الأوسط (8/ 275)

جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وه گناہوں سے ايسا پاک ہوگيا جيسا کہ اپني ماں کي پيٹ سے پيدا ہونے کے بعد تھا۔

ان احاديث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ شوال کے چھ روزوں کي بہت اہميت ہے اگر کوئي شخص رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے بھي رکھ لے تو اسے (ان شاء اللہ) سال بھر کے روزوں کا اجر مل جاتا ہے۔

اللہ تعاليٰ تمام مسلمانوں کو نيکياں کرنے کي توفيق عطا فرمائے۔ آمين

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے