اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر ﷺ کو دین اسلام دے کر اس دنیا کی طرف بھیجا اسلام وہ دین ہے جو کامل اور مکمل ہے، جس کی ہر آیت اور ہر حکم روز روشن کی طرح واضح ہے اس دین میں کسی قسم کی کوئی کجی نہیں ہے۔
یہ دین دنیاکے تمام ادیان پر غالب ہونے کے لیے بھیجاگیا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:
لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ (الصف:9)
’’تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کر دے ‘‘
الدین: کے معنی ہے ملت، حالت، عادت اور سیرت۔کسی خاص ملت، حالت، عادت اور سیرت اختیار کرنے کو دین کہا جاتاہے۔امام الجرجانی رحمہ اللہ نے دین، ملت اور مذہب کے یہ معنی بیان کیے ہیں:
أن الدين منسوب إلى الله تعالى، والملة منسوبة إلى الرسول، والمذهب منسوب إلى المجتهد(التعريفات (ص: 106)
’’دین کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی جاتی ہے ، ملت کی نسبت رسول اللہ کی طرف اور مذہب کی نسبت مجتہد کی طرف ہوتی ہے‘‘
اللہ تعالی کا قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ(آل عمران:19)
’’بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہے ‘‘
اس دین اسلام کو آپ ﷺ نے سراسر خیر خواہی کانام دیا ہے۔
الدین النصیحۃ(مسلم)دین سراسر خیر خواہی ہے۔
دین اسلام پر عمل کرنا اور اس کے احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارنا ہم سب مسلمانوں کے لیے لازمی ہے ،کہ اللہ اور اس کے رسول کے دین پر عمل پیر اہوںاور اللہ تعالی اس دین کے علاوہ دوسرے ادیان پر عمل کرنے والوں کا کوئی بھی عمل قبول نہیں فرمائےگا اور جولوگ اس دین اسلام کو چھوڑ کر دوسرے ادیان پر عمل کرتے ہیں اور دوسرے ادیا ن کے مطابق زندگی بسر کرنے والے لوگ آخرت میں ناکام اور نامراد ہوں گے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ(آل عمران:85)
’’جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ
کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا‘‘
آپ ﷺ کا فرمان ہے:
تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ(موطأ مالك ت عبد الباقي (2/ 899)
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک ان دونوں کو تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ‘‘
ہمیں چاہیے کہ ہم دین اسلام پر ثابت قدمی سے عمل کریں۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے مذہب کو وہ اہمیت اور حیثیت دے دی ہے جو دین کو دینی چاہیے تھی جب کہ مذہب صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی مگر دین اسلام ہر حال میں صحیح اور باعث اجرو ثواب ہی ہوتا ہے۔
حق اور سچ کی راہ ایک ہی ہوتی ہے اکثر اسلامی ممالک میں یہ مذاہب رائج ہیں شافعی مذہب ، مالکی مذہب، حنبلی مذہب، حنفی مذہب اور اہل تشیع۔
ان مذاہب کے علاوہ کچھ دوسرے مذاہب بھی تھے جیسے سفیان الثوری کا مذہب، سفیان بن عیینہ کا مذہب، امام اوزاعی کا مذہب، اور ابو داؤد الظاہری کا مذہب۔ان مذاہب میں سے اول الذکر مذاہب اب تک اس دنیا میں رائج ہیں، ان مذاہب کو عوام اور علماء نے نجات کا ذریعہ سمجھا ہوا ہے اس لیے ان مذاہب کے پیرو کاروں نے اپنے اپنے مذہب کو مضبوطی سے تھام لیا ہے اور مؤخر الذکر مذاہب اس دنیا میں رائج نہیں ہیں کیونکہ ان کو کسی حاکم کی سرپرستی نصیب نہیںہوئی اس لیے یہ مذاہب قصہ پارینہ ہوگئے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حق چار یا پانچ ہوسکتے ہیں یا حق ایک ہی ہوتاہے؟؟؟
اگر حق ایک ہی ہوتا ہے تو باقی مذاہب کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے؟ اگر حق چارہویا پانچ ہوسکتے ہیں تو پھر ایک مسئلہ ایک مذہب کے نزدیک سنت کیوں اور وہی مسئلہ دوسرے مذہب کے نزدیک خلاف سنت کیوں ہوتاہے؟ اس کی مثال ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک تصور کی جاتی ہیں، کیا دین اتنا متضاد ہوسکتاہے؟ جب کہ دین اسلام کامل اور مکمل ہونے کی گواہی خود اللہ تعالی نے دی ہےکہ
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا(المائدہ:3)
’’ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپناانعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ ‘‘
مذہب نقص اور عیب سے پاک نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہب دین کی طرح کامل اور مکمل ہوتاہے، اس کی مثال یہ ہے کہ مذہب حنفی بینکنگ کے نظام کے متعلق ہماری رہنمائی نہیں کرتا بلکہ احناف نے بینکنگ کا نظام حنبلی مذہب سے لیا ہے اس سے دین اور مذہب کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔دین مکمل اس لیے ہےکہ یہ اللہ تعالی کا بھیجا ہوا ہے اس لیے نقص اور عیب سے پاک ہے اور مذہب وقت کے علماء اور مجتہدین کے اجتہاد کا نام ہے۔مجتہدین کا اجتہاد کبھی صحیح بھی ہوتا ہے اور کبھی غلط بھی،اور ایک مجتہد کی رائےدوسرے مجتہد کی رائے کے برعکس بھی ہوتی ہے۔کیونکہ ہر ایک کی سوچ اور فکر کا زاویہ مختلف ہوتاہے۔
اور علم تک رسائی میں بھی فرق پایا جاتا ہے ان باتوں کا عملی ثبوت یہ مذاہب اور مختلف آراء ہیں جوہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں اور اسی طرح ہمارے لیے مذاہب پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے یہ لازمی ہے کہ ہم اسلام پر عمل کریں۔اگر احناف بینکاری کا نظام حنبلی مذہب سے لیتے ہوئے گناہ گار نہیں ہوتے تو اس کے علاوہ دوسرے مسائل لیتے ہوئے کیوں کر گناہ گار ہوسکتے ہیں؟اگر کوئی شخص حنفی مذہب چھوڑ کر شافعی مذہب اختیار کرتاہے تو ایسا کرنا دلیل کی بنیاد پر اس کے لیے نہ صر ف جائز ہے بالکل یہی مطلوب ہے۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الانصاف‘‘ میں لکھتے ہیںکہ:’’یہ جان لیں کہ پہلی اور دوسری صدی میں لوگ کسی معین مذہب کے مقلد نہیں تھے‘‘
مذاہب کو لازمی پکڑنا اس امت کے کسی امام سے ثابت نہیں بلکہ چاروں مذاہب کے ائمہ نے کسی مذہب کو مضبوطی سے پکڑلینے اور اس پر عمل کرنے سے منع کیا ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’کسی بھی شخص کے لیے ہمارے قول سے استدلال کرنا جائز نہیں جب تک وہ یہ نہ جانتاہوکہ ہم نے اسے کہاں سےلیا ہے؟ ایک اور روایت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ :’’جو شخص میری دلیل نہ جانتا ہواس پر میرے کلام سےفتوی دیناحرام ہےکیونکہ ہم انسان ہیں آج ایک بات کہتے ہیں توکل اس سے رجوع کر لیتے ہیں‘‘
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ:’’میں انسان ہوں کبھی صحیح کو پہنچتاہوں تو کبھی خطا کرجاتاہوں اس لیے میری بات پر نظر ڈالو اور اس میں سے جو بھی کتاب وسنت کے موافق ہو اسے لے لو اور جوبھی کتاب وسنت کے موافق نہ ہو اسے چھوڑدو‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ: ’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جسے رسول اللہ ﷺ کی کوئی سنت معلوم ہوگئی تو اس کے لیے جائز نہیں ہےکہ وہ کسی قول کی وجہ سے سنت کو چھوڑ دے‘‘ اور فرمایاکہ:’’اگرمحدثین کے یہاں کوئی حدیث صحیح سند سے ثابت ہواور میری بات کےمخالف ہو تو میں اپنی بات سے زندگی میں اور موت کے بعد رجوع کررہا ہوں‘‘
امام احمدبن حنبلhفرماتے ہیںکہ:’’تم لوگ میری تقلیدکرو نہ مالک کی نہ شافعی کی نہ اوزاعی کی اور نہ ثوری کی بلکہ تم بھی اس جگہ سے لو جہاں سے انہوں نےلیا ہے‘‘
ائمہ مذاہب کے اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ کسی خاص مذہب اور کسی خاص امام کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔ان ائمہ کے اقوال کے ہوتے ہوئے بھی احناف ، شافعیہ ، مالکیہ نے کس دلیل کی بنیاد پر ان ائمہ کے اقوال اور فتوی کو مذہب بنالیاہے۔ان کے مذہب بنانے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ مذکورہ اقوال ان ائمہ کے نہیں ہیں بلکہ ان کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں اگر یہ اقوال ان ائمہ کے ہیں تو یہ مذاہب کیسے وجود میں آئے؟
’’مذہب‘‘ دین اسلام کے ماہر علماء اور فقہاء کی فکر اور رائے کا نام ہے۔ان علماء اور فقہاء نے کسی دینی مسئلے میں غور وفکر کے بعد جو رائے پیش کی ہے یہی رائے آگے جاکر ایک مستقل مذہب بن گیا۔اسی لیے مذاہب اربع کی اصطلاح عام ہوگئی۔ہر مذہب اپنا فقہی مسئلہ بتاتے وقت یہ کہنے لگا کہ اس مسئلے میں ہمارا مذہب یہ ہے۔اگر نیک نیتی سے غور کیا جائےتو یہ صرف ایک رائے تھی جو کسی امام نے دی ہے۔بعد میں یہ رائے ایک مستقل مذہب بن گیا اور امام کی طرف اس رائے کو منسوب کرکے اس پر سختی سے عمل کرنا ، کیا یہ معقول بات ہے؟اور کیا یہ اس امت کے حق میں فائدہ مند عمل ہے؟دین اللہ تعالی کا دیا ہوازندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے اور مذہب کسی مجتہد کی رائے اور فکر اپنا نے کا نام ہے دین ایک مقد س شے ہے اور مذہب میں بہر حال معصومیت نہیں ہے اس میں کہیں نہ کہیں خطا اور غلطی کا امکان ضرور پایا جاتا ہے۔
دین کی طرف نسبت کرنا قرآن اور سنت کا مطالبہ ہے اور مذہب کی طرف نسبت کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اکابرین کے نظریہ اور رائے میں غلو کرنا یا ان کی آراء پر سختی سے عمل کرنا ’’مذہب‘‘ کہلاتاہے۔دین کی پیروی کرنا فرض ہے اور اس کی پیروی سے انکار یا روگردانی کرنا کفر ہے اور اگر کوئی شخص کسی مذہب کا انکار کرتاہے یا مذہب کی کسی رائے پر عمل نہیں کرتاتو بہر حال مسلمان ہی رہے گا کیونکہ مذہب ایک فرد کی رائے اور سوچ پر سختی سے چمٹ جانے کا نام ہے اور مسلمان سے یہ مطلوب نہیں ہے۔انسان جب پیدا ہوتاہے تو وہ اپنی فطرت کے مطابق آزاد پیدا ہوتاہے یہ کسی مذہب اور مسلک پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ پیدائشی طور پر انسان مؤحد اور توحیدپرست پیدا ہوتا ہےکیونکہ اللہ تعالی نے اس انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس سے اپنے رب ہونے پر عہد لیا تھاکہ :
أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا(الأعراف: 172)
’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ‘‘
اللہ تعالی نے تمام انسانوں سے یہ عہد لیا تھا اور سب نے مل کر یہ اقرار کیا تھا یہ اقرار توحید کا اقرار اور اپنے بندے ہونے کا اقرار تھا۔انسان اس دنیا میں آخر کسی خاص مذہب اور کسی خاص مسلک کا پیروکار بننے پر مجبور ہوجاتا ہے اس کا معاشرہ اس کو ایساکرنے پر مجبور کرتاہے، کیونکہ اس کے آس پاس رہنے والے کسی نہ کسی مسلک کے پیروکار ہوتے ہیں اس کے گھر والے اس کے والدین اس کے دوست احباب اس کے اساتذہ اس کے محلے کی مسجد کا امام اس لیے اس کو ان تمام لوگوں کامذہب اور مسلک ، اصل دین معلوم ہوتاہے۔مسجد میں اس کو جو پہلا درس دیا جاتاہے وہ بھی کسی نہ کسی مذہب اور مسلک کا درس ہوتاہے اس لیے یہ اس سے زیادہ سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتااور یہ مذہت کے متعلق سوال وجواب کو گنا ہ تصور کرتاہے کیونکہ اس کو اس معاشرے نے یہی سکھایا اور جو معاشرے نے اس کو سکھایا ہے یہ اسی کو دین سمجھ بیٹھاہے۔
نبی کریم ﷺ فرمایا:
كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ(صحيح البخاري (2/ 100)
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘
فطرت سے مراد یہ ہے کہ یہ انسان پیدا ہونے سے پہلے جو اللہ تعالی سے وعدہ کرکے آیا تھا ، اس وعدے پر کاربند رہتا مگر اس کا معاشرہ اور اس کے والدین وہ وعدہ وفا کرنے میں حائل ہیں اور یہ اس معاشرے کا جو مذہب اور مسلک ہے وہی اس کا مسلک اور مذہب بن جا تا ہے۔فقہاء کا یہ اصول ہے کہ:’’عام آدمی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کا مذہب وہی ہوتاہے جو ا س کو فتویٰ دیتا ہے‘‘ اگر فتوی دینے والاحنفی ہے تو یہ بھی حنفی ، شافعی ہے تو یہ بھی شافعی ، مالکی ہے تو یہ بھی مالکی اور اگر حنبلی ہے تو یہ بھی حنبلی بن جاتاہے۔جبکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اور ہمارا ملک حنفی ہے جوکہ حقیقت کے برخلاف ہے۔کیونکہ کسی شخص نے ان مذاہب میں سے کسی ایک مذہب میں اپنی رجسٹری نہیں کروائی بلکہ ایک عام آدمی کا مذہب وہ ہے جو مسجد کے مولوی صاحب کا مذہب ہے اور یہ بات بھی سراسرانا انصافی پر مبنی ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ ملک ہمارے مذہب کا پیروکار ہےجبکہ ہمیں دین اسلام ، قرآن اور رسول اللہ ﷺ اور ائمہ اربعہ نے کسی خاص امام کے مذہب کی تقلید اور پیروی سے منع کیاہے۔اللہ تعالی نے ہمیں واضح الفاظ میں یہ تعلیم اور تلقین کی ہےکہ :
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا(النساء59)
’’ پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے‘‘
مگرافسوس ان علماء ، فقہاء اور مفتیان کرام پر ہے جو مسائل کو حل کرنے کے بجائے الجھا دیتے ہیں مسائل کو اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ سے حل کرانے کے بجائے ان سے حل کروائے جاتے ہیں جہاں سے یہ مسائل اختلافی بنے ہیں اور مذہب کو مذہب تب ہی کہا جاتاہے جب کس خاص امام کی سوچ اور فکر پر مضبوطی سے عمل کیا جاتاہے تب یہ عمل مذہب کا روپ اختیار کر لیتاہےاور مذہب کی بنیاد کسی خاص فقہ پر رکھی جاتی ہے یہ ایک مذہب کا پیروکار اپنے مذہب کو چھوڑکر کسی دوسرے مذہب پر عمل نہیں کرسکتاہے۔
اس کے لیے یہ اصول نہ اللہ تعالی نے بنایا ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کسی نے جس کی طرف یہ مذاہب منسوب کیے جاتے ہیں بلکہ یہ اصول دوسرے اور تیسرے درجہ کے علماء اور مفتیان کرام نے اپنی طرف سے گھڑ لیاہے۔مذہب کی بنیاد فقہ پر ہوتی ہے اور موجودہ فقہ عباسی دور میں وجود میں آئی ہے۔
اس موجودہ فقہ میں مسلمان حکمرانوں کے متعلق کئی ابواب ملیں گے۔اگر اس فقہ سے یہ معلوم کرنا چاہیں کہ جب مسلمان حاکم کی حیثیت میں نہ ہوتو پھر ان مسلمانوں کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ اس سوال کا واضح جواب آپ کو اس فقہ میں نہیں ملے گا۔جب یہ فقہ مدون کی گئی تو اس وقت سلطانی خلافت کا زمانہ تھا اور موجودہ دور کی عوامی جمہوریت اس وقت قائم نہیں ہوئی تھی۔اس لیے اس فقہ میں خلیفہ اور بادشاہ کے متعلق احکام ملیں گے۔مگر جب آپ موجودہ فقہ سے یہ معلوم کرنا چاہیں کہ مسلمان کسی ملک میں اکیلے حکمران نہیں ہیں مگر جمہوری نظام کے تحت دوسری اقوام کے ساتھ مل کر حکومت قائم کریں تو ان حالات میں شریعت کا کیا حکم ہے؟تو اس سوال کا جواب آپ کو اس موجودہ فقہ میں نہیں ملے گااور نہ ہی ایسی جمہوری حکومت کے متعلق اس فقہ میں کوئی رہنمائی ملےگی جو دوسرے شریکوں کے ساتھ مل کر قائم کی جائے۔یہ مسئلہ دارالاسلام ، دارالحرب یا دارالکفر کا ہے؟ کیا موجودہ دور میں یہ اصطلاحیں استعمال ہوسکتی ہیں؟ یہ کمی صرف اور صرف موجودہ مدون فقہ میں ملے گی۔اگر ہم فقہ سے آگے بڑھ کر قرآن وسنت کی طرف آئیں گے تو قرآن وسنت میں ہمیں ہر صورت حال اور ہر قسم کے مسائل کی رہنمائی ملے گی۔یہی اصل فرق ہے دین اورمذہب میں ، دین کامل اور مکمل اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے اور مذہب کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہوبہر حال اس میں نقص اور کمی ضرور پائی جائے گی کیونکہ یہ ایک انسان کی سوچ فکر اور رائے پر مبنی ہوتا ہے اور انسان کی رائے میں غلطی کا امکان بہر حال رہتا ہے ایک امام کی رائے سے دوسرے امام کا اختلاف بھی اس لیے ہوتا ہےکہ دوسرے امام کی نظرمیں پہلے امام کی رائے کمزور ہوتی ہے۔اس لیے دوسرا امام پہلے کی رائے سے اختلاف رکھتے ہوئے اپنی رائے پیش کرتاہے۔مگر قرآن اور سنت کی موجودگی میں کسی بھی امام کو اختلاف رائے رکھنے کا کوئی خیال بھی دل میں نہیں آئے گا۔اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے مسلمانوں کا یہ اجماع ذکر کیا ہے کہ :’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کو آپ ﷺ کی کوئی سنت معلوم ہوجائےتو پھر اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کےقول کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی سنت ترک کردے۔مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ اپنے علمی کارنامے کو اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ ہمارا علمی کارنامہ یہ ہے کہ حنفی مسلک کی دوسرے مسالک پر فوقیت ثابت کریں۔ ا س قول کے بعد مولاناانور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ نے آخری عمر میں افسوس کا اظہار کیا جس کے راوی مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ہیں، ذکر کرتے ہیںکہ مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ نے اپنی آخری عمر میں افسوس اور حسرت کے انداز میں کہہ دیا کہ:’’ہم نے اپنی ساری عمر کس بیکار مشغلے میں کھپا دی‘‘ یعنی حنفی مسلک کو دوسرے مسالک پر فوقیت دینا اگر کوئی خاص مذہب و مسلک دین اور حق ہوتا تو پھر مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ کو اپنی زندگی پر افسوس نہ ہوتا۔اس سے دین اور مذہب میں فرق واضح ہوگیا ہے۔ہمیں بھی دین اسلام کی خدمت کرنی چاہیے نہ کہ مذہب کی۔دین قرآن اور سنت کا نام ہے اور مذاہب امام کی رائے اور فکر کانام ہے۔
————–