اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی اَشْرَفَ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ o وَطُوْ رِسِیْنِیْنَo وَھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ oلَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔اور طور سینین کی۔ اوراس امن والے شہر کی۔بیشک ہم نے انسان کوسب سے اچھی بناوٹ (صورت ) میں پیدا کیا۔ { سورۃ التِّین پارہ 30 }
اللہ ذوالجلال والاکرام نے انسان کو اپنی تمام تر مخلوقات میں سب سے اعلیٰ ، سب سے افضل، سب سے برتر اور سب سے بہتر بنایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
((وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطِّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا O)){سورۃ بنیٓ ْ اسرائیل آیت 70}
اور البتہ تحقیق ہم نے آدم کی اولاد کوبہت عزت بخشی اور انہیں خشکی اور سمند ر میں سوار کیا اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیااور ہم نے جو مخلوق پیدا کی اس میں سے بہت سوں پر انہیں فضیلت دی ، بڑی فضیلت دینا ۔
اس احسن الخالقین نے اپنے اس انسا ن کو فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْم کے سانچے میں ڈھال کر، حسن وجمال کا پیکر بناکرجن صفات عالیہ اور خوبیوں سے نوازا و ہ کسی اور کے حصے میںنہیں آئیں۔ان صفات میںسب سے پہلی صفت جو اللہ پاک نے اپنے اس انسان کو عطاء کی وہ ہے علم ۔یہ علم ہی کی دولت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کاشرف ملا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
((وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَۃِلا فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآئِ ھٰٓؤُلَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ قَالُوْسُبحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ \ ))
اور سکھلا دئیے آدم کوسب کے سب نام پھر پیش کیا اُن کوفرشتوں کے سامنے، پس فرمایامجھے اِنکے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ہا اُنہوں نے پاک ہے توہمیں کچھ علم نہیں ہے مگرجوتو نے ہمیں سکھلایا، بیشک تو ہی خوب جاننے والا حکمت والاہے۔(البقرہ32-31)
اللہ تعالیٰ نے جناب آدم علیہ السلام کو اُن کی ضرویات زندگی کی اُن تمام چیزوں کے ناموں کا علم عطاء کردیاجس سے فرشتے ناواقف تھے۔ یہی علم جناب آدم علیہ السلام کی عظمت ورفعت کاسبب بنا۔ ایک دوسری جگہ ارشا د باری تعالیٰ ہے ۔
((قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَایَتَذَکَّرُاُولُواالْاَ لْبَابِ 9 ))
{سورۃ الزمر پارہ۲۳}
(اے نبی) کہہ دیجئے کہ کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ لوگ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں ۔
جب ایک جاہل اور بے علم انسان ،انسان ہوکر ایک صاحب علم انسان کی برابری نہیں کرسکتا تو پھر دوسری مخلوقات کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے علم جیسی دولت سے نوازا ہی نہیں وہ ایک صاحب علم انسان کی برابری کیسے کرسکتیں ہیں ؟ اس لئے جو علم انسان کوتاریکی سے روشنی کی طرف لیکر آئے ، گمراہی سے ہدایت کی طرف لیکر آئے ،وہ علم باعث اکرام بھی ہے اور باعث احترام بھی اور اللہ تعالیٰ کا اک بہت بڑ اانعام بھی۔
یہ علم ہی ہے جواس خاک کے پتلے کویہ پہچان کراتاہے کہ جو معبود برحق ہے اور مسجود حقیقی ہے وہ صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے ۔ باقی ساری جو یہاں وہاں ،جہا ں کہاںاوراِدھر اُدھر، بکھری پڑی یہ کائنات ہے ۔آفتاب ومہتاب کی صورت میں،حجر وشجر کی شکل میں،ندی ونالوںکی شکل میں ، چرند وپرند اور چوپاؤں کی شکل میں،یہ ساری کی ساری تمھاری خادم ہے اور تمہارے لئے ہی تخلیق و تسخیر ہوئی ہے ، بس تم ذرا اِسے نگاہ بلند سے دیکھو۔
اس وقت اس کائنات ارضی میں جتنے بھی مروجہ علوم ہیں وہ سارے کے سارے علم قرآن کے تابع ہیں اور جب انسان علم قرآن کو چھوڑ کراور عقل کے تابع ہوکران علوم کو اپنا محورو مرکز بنائے گا تویہ علوم اسے گمراہی کی طرف لیکر ہی جاسکتے ہیں ہدایت کی طرف نہیں۔ اس لئے انسان کے لئے وہی علم دنیا وآخرت میں باعث سعادت اور باعث برکت ہے جو اللہ کے قرآن کیساتھ وابستہ ہے۔
عظمت انسانی کا دوسرا وصف:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جودوسری بڑی خوبی اور وصف عطاء کیا ہے وہ ہے شعور کی دولت ۔ یہ شعور بھی اللہ تبارک وتعا لیٰ کی عطاء کی ہوئی وہ خوبی ہے کہ جوماسوا انسان کے کسی کوبھی عطاء نہیں کی گئی۔ تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے شعور اور بصیرت والا بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اگر توفیق دے توانسان اس شعور اور بصیرت کے تحت ہی
حق
اور
باطل میں
صحیح
اور
غلط میں
ہدایت
اور
گمراہی میں
نیکی
اور
بد ی میں
اچھائی
اور
برائی میں
خیر
اور
شر میں
تمیز اور فرق کرتا ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی ذات اگر شعور جیسی دولت دیکر حق و باطل میں فرق کرنے کی توفیق دیدے تو اس احسن الخالقین کی بہت بڑی رحمت ہوتی ہے ۔
آج آپ مغرب اور یورپ والوں یعنی امریکہ ،برطانیہ،روس ،جرمنی اور فرانس وغیر ہ کو دیکھ لیں یہ اس وقت سائنس وٹیکنالوجی کے علوم میںانتہا کی بلندیوں پر ہیں ۔یہ سائنسی علوم انہیں سائنسی شعور کی بلندیوں پر لے جارہے ہیں لیکن جس علم سے اس خالق کائنات کی معرفت کا، نیکی اوربدی کا ،اچھائی اور برائی کاشعور ملتاہے وہ اس علم اور شعور سے دور ہیں یہی انکی بدنصیبی ہے۔آج اگرچہ وہ چاند اور مریخ پر قدم ٹکا رہے ہیں، ہواؤں اور فضاؤں کووہ تسخیر کررہے ہیں۔ سمندروں سے اٹھنے والی سرکش لہروں اور موجوںکووہ اپنی دسترس میں کررہے ہیں ۔ چاند اور سورج سے نکلنے والی کرنوںکو وہ اپنی گرفت میں لے رہے ہیں ۔ سائنس و ٹیکنا لوجی کی بڑی بڑی گتھیوں کوسلجھا نے والے آج تک اس ایک چھوٹی سی گتھی کو نہیں سلجھا سکے کہ ہما رااور اس کائنات کا خالق ومالک اور رازق کون ہے؟ ہماری عبادت کا اصل اور صحیح حقدا ر کون ہے ؟۔تخلیق کائنات کے راز کوسمجھنے کی تگ ودو کرنے والے اپنی تخلیق کے مقصد کو نہیں سمجھ سکے اور وہ اس بات سے بالکل بھی آشنا نہیں ہیں کہ ا ُس پیدا کرنے والے نے ہمیں کس لئے پیدا کیا ہے اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ وہ اس راز سے بالکل بھی واقف نہیں کہ جن واِنس کواللہ تعالیٰ نے صرف اور صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا اس لئے ہم نے اُس اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
((وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ)) {سورۃ الذٰ ریٰت آیت56}
اور نہیں پیدا کیا مَیں نے جنوں اور انسانوں کومگراسلئے کہ وہ میری عبادت کریں ۔
جوفہم ، ادراک ، بصیرت اور شعور قرآن سے ملتا ہے وہ سائنس وٹیکنالوجی وغیرہ کے کسی بھی علم سے نہیں ۔ اس لئے سائنس وٹیکنالوجی ، اقتصادیات ، معاشیات ، نفسیات ، فلسفیات ، لسانیات اور سیاسیات کے بڑے بڑے ماہرین ایسے بھی نظر آئیں گے کہ جو اللہ رب العزت کی ذات ہی کے منکر ہیںوہ اللہ کو نہیں مانتے ۔ ان میں پتھروں کی مورتیوں کوپوجنے والے بھی ملیں گے تو کوئی حجرو شجر کوبھی۔ کوئی بندروں گائیوں کو پوجنے والے بھی ملیں گے تو کوئی آفتاب ومہتاب کوبھی۔ کوئی ستاروں کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے بھی نظر آتے ہیں تو کوئی آگ کو اپنا معبود مسجود اور اِلٰہ سمجھ کر پرستش کرتے ہوئے بھی ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے وہ اس لئے کہ سائنس وٹیکنالوجی ، اقتصادیات ، معاشیات ، نفسیات ، فلسفیات اور سیاسیات کا علم سب کچھ دینے کے باوجود اِنہیں یہ شعور ہی نہیں دے سکاکہ ان کا اوراس کائنات کا خالق و مالک اور رازق کون ہے اور انکی عبادت کا حق دار کون ہے ۔ اس لئے ماسوا ء قرآن اور اسلام کے دنیا جہان کا کوئی علم بھی انسان کو وہ شعور نہیں دے سکتاجس سے یہ انسان اپنے خالق حقیقی کو پہچان سکے اور حق وباطل میں فرق کرسکے ۔
یہ شعور صرف اور صرف قرآن ہی سے ملتا ہے کہ میرے نفس کے مجھ پر کیا حقوق ہیں ۔ میرے والدین کے ، بہن بھائیوں کے ،اپنے اہل وعیّال کے، عزیز واقارب کے دوستوں و احباب کے اور ہمسایوں کے کیا کیا حقوق ہیں ۔ میرے پیدا کرنے والے کے مجھ پر کیا حقو ق ہیں اور میر ے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ یہ علم قرآن ہی ہے جو انسان کو نہ صر ف زندگی گزارنے کے سلیقہ وطریقہ کاشعور دیتا ہے بلکہ انسان کوانسانوں کے حقوق،جانوروں کے حقوق اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کاشعور بھی عطاء کرتا ہے ۔
چنانچہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب مٹی کے ان پتلوں کوعلم قرآن کی بدولت وہ روحانی ، ایمانی شعور نصیب ہو ا توپھر یہ وہی انسان جو کبھی بھاری درخت ،گھنے جنگل،راستہ کاٹتی بلیوں اور اوپر اُڑتے ہوئے کوؤں کے شیڈول کا پابند تھااِک نئی شان سے اُٹھااوربحرِظلمات اسکے گھوڑوں کی آماجگاہ بن گیا۔ کبھی ایسا ہی برق توحید سے شرارہ بن چکاعقبہ بن نافع کسی ساحل پر گھوڑے پہ بیٹھے یہ کہتے ہیں کہ اے جرأت ایمانی دینے والے !کاش میری معلومات میں یہ ہوتا کہ اس پانی کے پار بھی کوئی سر زمین ہے تومَیں اس نیلے پانی کوعبور کرکے وہاں بھی کلمہ حق پہنچاتا۔اس لئے اللہ تعالیٰ جسے شعور کی یہ دولت عطاء کردے وہ اُس کا جتنا بھی شکرا دا کرے وہ کم ہے ۔
عظمت انسانی کا تیسرا وصف اور خوبی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندے میں جو تیسری خوبی پیدا فرمائی وہ ہے ایثارو قربانی کا جذبہ ۔ یہ بھی ایک ایسی خوبی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ کسی کوعطاء نہیں کی۔جذبہ ایثار وہ جذبہ ہے جس سے انسان
اپنی ذات پر
دوسروں کی ذات کو
اپنی خواہشات پر
دوسروں کی خواہشات کو
اپنی ضروریات پر
دوسروں کی ضروریات کو
اپنی تکلیف و دکھ پر
دوسروں کی تکلیف و دکھ کو
اپنی بھوک و پیاس پر
دوسروں کی بھوک و پیاس کو
حتیٰ کہ اپنی ذات پر
دوسروں کی ذات کو
اہم سمجھتے ہوئے ترجیح دیتا ہے۔یہی ایک سچے اور حقیقی مسلمان، مومن کی شان اور آن ہے کہ یہ اپنے سے زیادہ اپنے مومن بھائی کا خیا ل رکھتا ہے ۔ اورجہاں ضرورت پڑے تو یہ ایثا رو قربانی کااظہار کرتے ہوئے اک نئی داستاں بھی رقم کر تا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایثاروقربانی کی لازوال مثالیں
نبی کائنات جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرکے تعلیم پانے والے ان وفا شعاروں ، فداکاروں اور جانثاروں نے ایثاروںوقربانی کی ایسی ایسی داستانیں اور مثالیں رقم کی ہیں کہ تاریخ انسانی انکی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔ جنگ یرموک کی ایسی ہی ایک مثال آج بھی تاریخ کے صفحات پر جگ مگا رہی ہے ۔ چنانچہ ابو جہم بن خذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس جنگ کے شعلے جب ذرا مدھم ہوئے تو میں جب اپنے چچا کے بیٹے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ۔ تلاش کرتے کرتے اچانک میری نظر اپنے چچا کے بیٹے پرپڑی اور میں نے دیکھا کہ وہ زخموں سے چھلنی موت وحیات کی کشمکش میں پڑا ہوا ہے ۔ مَیں جب اس کے قریب ہو ا تواس نے پانی مانگا، مَیں جلدی سے گیا اور پانی لے کرآیا۔ پانی کا پیالہ اس کے قریب کیا ہی تھا کہ دوسری طرف سے آواز آئی ۔۔۔۔پانی پانی جب میرے چچا کے بیٹے نے جب یہ آواز سنی تو پانی کا پیالہ اپنے منہ سے دور کرتے ہوئے کہا کہ یہ پانی میرے اُس بھائی کو پلادوکیونکہ میرے اس بھائی کواس پانی کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے ۔ فرماتے ہیںمَیں یہ پیالہ لے کر جب اُس کے پاس پہنچااور پانی اسے پلانے ہی لگا تھاکہ ایک اور آواز آئی پانی پانی، فرماتے ہیں اس مجاہد نے بھی جب یہ آواز سنی تو یہ کہتے ہوئے پانی پینے سے انکار کردیاکہ وہ میر ا بھائی مجھ سے زیادہ زخمی ہے اس لئے اس پانی کا وہ مجھ سے زیادہ حق دار ہے اسلئے تم یہ پانی اسے پلادو ۔ابو جہم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مَیں پیالہ پکڑے دوڑ کر اس کے قریب گیاتو میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہ مجاہداپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرکے جام شہادت نوش کرچکا تھا۔ کہتے ہیں مَیں جلدی سے واپس پہلے کے پاس پلٹا تاکہ یہ پانی اب اُ س کے کام آسکے لیکن میر ے پہنچنے سے قبل ہی اسکی جان بھی کف عُنصری سے نکل کردارالبقاء کی طرف پرواز کرچکی تھی ۔ فرماتے ہیں مَیں پانی کا پیالہ لیکر جلدی سے اپنے چچا کے بیٹے کے پا س واپس آیاتاکہ یہ پانی اب اُسے پلاسکوں لیکن میرے آنے پہلے ہی اسکی روح بھی اس خلدبریں کی طرف جا چکی تھی۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
قارئین کرام ! ذرا غور فرمائیں کہ ایک وہ مسلمان تھے کہ اپنے حق سے دستبردار ہوکر اپنا وہ حق اپنے مسلمان بھائی کودے دیتے تھے ۔ اور ایک ہم مسلمان ہیں کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے حق پر ڈاکے مارہے ہیں اور دوسروں کے مال ناحق ہڑپ کررہے ہیں ۔ وہ بھی مسلمان تھے کہ جو اپنی ذات سے زیادہ اپنے مومن بھائی کو ترجیح دیتے ۔ ایک ہم مسلمان ہیں کہ جنہیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔ آئیے اور اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر ذرا سوچئے کہ یہ ایثار و قر بانی کوئی معمولی نہیں ہے کہ جب سورج سے برستی آگ کی گرمی کی شدت اور تپتی ہوئی ریت کی حدت کی وجہ سے زبان خشک اور حلق چٹخ رہا تھا۔ بدن سے خون کا ایک ایک قطرہ تپتی ہوئی ریت میں جذب ہورہا تھا ۔جسم پر لگنے والے لاتعداد زخموں پر کسی مرہم کی بجائے ان میں تپتی ہوئی ریت پڑرہی تھی اور تکلیف سے آنکھیں پتھرا چکی تھیں اوروہ لمحہ بہ لمحہ وہ موت کے قریب سے قریب تر ہورہے تھے ، ایسے وقت میں جب پانی کی ایک ایک بوند اوراس کا ایک ایک قطرہ ان کیلئے آب حیات کادرجہ رکھتا تھا ، ایسے وقت میں اُنہوں نے یہ کہہ کرکہ اس پانی کی مجھ سے زیادہ میرے بھائی کو ضرورت ہے، ایثاروقربانی کی ایک ایسی نئی داستان رقم کردی۔اللہ تعالیٰ نے یونہی تو نہیں کہہ دیا تھاکہ۔
((وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانُوبِھِمْ خَصَاصَۃٌ ط ))
جنگ یر موک میں ایثارو قربانی کی یہ لازوال داستان رقم کرنے والے یہ وہ لوگ کہ ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ شاگردان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی صحابہ کرام علیہ السلام سے تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ جب اِن کے ایثاروقربانی کایہ عالم ہے تو پھرآئیے اور سوچئے کہ صحابہ کرام علیہ السلام کے ایثارو قربانی کاعالم کیا ہوگا ؟
جناب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ جن کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی :
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایثار جیسی مثال کون پیش کرسکتا ہے ؟ جب وہ ایک رات پیغمبر دوجہاں علیہ الصلاۃ والسلام کے مہمان کو مہمان نوازی کے لئے اپنے گھر لے کرگئے، گھر پہنچے تو معلوم ہو ا کہ گھر میں اپنے کھانے کیلئے بھی روٹی کے چند ٹکروں کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور وہ بھی بچوں کے لئے رکھے ہوئے ہیں ۔ دونوں میاں بیوی پریشان کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خدمت میں کیا پیش کیا جائے کہ مہمانداری کا حق ادا ہوسکے۔ جناب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی سے فرمانے لگے کہ تم آج بچوںکو ویسے ہی بہلا پھسلا کربھوکا سلادواور ہم خود بھی رات فاقے سے گزارلیں گے ۔تم ایسا کرناکہ جب ہم کھاناکھانے کیلئے بیٹھیں تو کسی بہانے سے چراغ کو بجھادیناتاکہ مہمان یہی سمجھے کہ میں بھی کھانے میں اسکے ساتھ شریک ہوں اور دراصل میں کھائوں گا نہیں ۔چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور جناب ابو طلحہ رضی اللہ عنہاندھیرے میں ایسے ہی منہ ہلاتے رہے اور مہمان یہی سمجھتا رہا کہ میزبان بھی میرے ساتھ کھا رہا ہے ۔ صبح جب جناب ابوطلحہ رضی اللہ عنہاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ کرمسکرائے اور فرمایااے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تم دونوں میاں بیوی کاعمل یعنی مہمان نوازی اور ایثار دیکھ کراللہ بھی عرش بریں پر ہنس دیا اور تمہاری شان میں اس آیت کو نازل کردیا ہے ۔
(( وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُالدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّااُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ 9 ))
{سورۃ الحشر پارہ ۲۸}
اور (انکے لئے)جنہوں نے ان سے پہلے اس گھر میں اور ایمان میں جگہ بنالی ہے ، وہ ان سے محبت کرتے ہیں جوہجرت کرکے اُن کی طرف آئے ہیںاور اپنے سینوں میں اس چیز کی خواہش نہیں پاتے جو ان(مہاجرین ) کودی جائے اور وہ اپنی ذات پر ترجیع دیتے ہیں خواہ اِنہیں خود کتنی ہی حاجت کیوںنہ ہو ،اور جوبچالیا گیا اپنے نفس کی حرص سے تووہی لوگ کامیاب ہیں ۔
آج پھراس اُمت مسلماں کوایسے ہی جذبہ ایثا رکی اشد ضرورت ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے خلوص دل سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں بھی ایثار وقربانی کاایسا ہی جذ بہ پیدا فرما دے ۔۔۔۔آمین۔
رہبر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ایثار کاعالم کیا ہوگا؟
قارئین کرام !مَیں جب صحابہ کرام علیہ السلام سے تربیت لینے والوں کی اور پھر صحابہ کرام علیہ السلام کی ایثار وقربانی کی اس طرح کی مثالیں پڑھتا ہوں تو میرا ذہن یہ سوچنے پر مجبو ر ہوجاتا ہے کہ صحابہ علیہ السلام اور شاگردان صحابہ علیہ السلام کے ایثاروقربانی کا اگر یہ عالم ہے کہ کائنات ان کی مثال پیش نہیں کرسکتی تو پھرنبی eکی اپنی نرم دلی ، رحم دلی اور ایثار کا عالم کیا ہوگا؟
یہ چند اوصاف انسان کوانسانیت کے مقام پر فائز کرتے ہیں :
قارئین کرام!یہی وہ چند اوصاف ہیں جو ایک انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتے ہیں اورانسان کو اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کرتے ہیں ۔اور اس انسان کوآسمان کے قدسی صفات فرشتوں سے بھی عزت ، عظمت ،مرتبت ،ر فعت ،مقام اورشان میں آگے لے جاتے ہیں ۔اور جس بدبخت میں یہ اوصاف پیدا نہ ہوسکیں وہ چاہے کتنا بڑا بھی سائنس وٹیکنا لوجی ، اقتصادیات ، معاشیات ،فلسفیات ،لسانیات اور نفسیات کے علوم کاماہرہی کیوں نہ ہواس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(( وَلَقَدْ ذَرَاْنَالِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ صلے لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا ز وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا ز وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِہَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ \ )) {سورۃ الاعراف آیت۱۷۹}
اور البتہ تحقیق ہم نے بہت سے جن اورا نسان جہنم کیلئے پیدا کیے ہیں ، ان کے دل تو ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں ، اور اُن کی آنکھیں تو ہیںجن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں ،اوران کے کان تو ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جوچوپائوں(ڈنگروں) جیسے ہیں،بلکہ اس سے بھی زیادہ (بدتر)بھٹکے ہوئے ہیں ،یہی ہیں وہ لو گ ہیں جو بالکل بے خبر ہیں ۔
آخرمیں مَیں بس یہی کہنا چاہوں گا کہ اللہ کے قرآن کی روشنی میںجو با ت واضح ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ جس علم سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت وپہچان حاصل کرکے اپنے دل کو اس کے ذکر سے منور نہ کرسکے یا جس دل میں کسی دوسر ے کی خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا نہ ہوسکے ، جو شعور انسان کو انسان کے اور اللہ کے قریب نہ کرسکے یاجو شعور انسان کواللہ کی عبادت اوراسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی طرف لیکرنہ آسکے اورجن کے کان اللہ کے حکم اور کسی مجبورکی آہ وبکاکی طرف مائل نہ ہوسکیں،جن کی آنکھیں زمین وآسمان میں پھیلی ہوئی قدرت کی لاتعدادنشانیاں نہ دیکھ سکیں اور کسی مصیبت کے مارے ہوئے انسان کے چہرے پرمصائب وآلام کی تحریر نہ پڑھ سکیں ، جن کی آنکھیں کسی کے چہرے پر بکھرے ہوئے دکھ واضطراب کی کیفیت کا اندازہ نہ کرسکیں۔ توایسے آدمی اگرچہ نظر آنے میں تو انسان ہیں ،مسلمان ہیں مگردرحقیقت وہ ان چوپائوں اور جانوروں سے بھی بدترہیں ۔ وہ مسلمانی کے لبادے میں اور انسان کے لباس میں درندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب میں وہ تمام اوصاف حمیدہ اور خوبیا ں پیدا فرما کرہمیں انسانیت کے اس مقام رفیع پر فائز فرما دے جو ایک حقیقی انسان کی آن اورسچے مسلمان کی شان ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
آمین یارب العالمین